افغانستان کا معاندانہ رویہ

پاکستان سمیت افغانستان کے اکثر ہمسائے سرحد پار سے سنگین دہشت گردی جیسے مسائل سے دوچار ہیں

(فوٹو: فائل)

جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں پاکستانی قونصل خانے پر افغان شہریوں نے دھاوا بولا، اور پاکستانی پرچم جلانے کی کوشش بھی کی۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ واقعے میں قونصل خانے اور سفارتی عملے کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا گیا۔

بین الاقوامی قوانین اور سفارتی آداب واقدارکی پامالی کا طرز عمل، افغان طالبان کی عبوری حکومت کے معاندانہ رویے کو ظاہرکررہا ہے۔ یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے افغانوں کے لیے اپنا سب کچھ قربان اور نچھاور کیا، لیکن صلے میں کیا پایا؟ افغان جنگ میں ہماری معیشت، معاشرت اور امن وامان تباہ ہوگئے۔

چالیس تا پچاس لاکھ افغانی بغیرکسی اندراج کے ملک میں ہر جگہ پھیل چکے ہیں۔ ہیروئن اور کلاشنکوف ہمارے معاشرے کا رستا ہوا ناسور ہے، جو اسی جنگ کا تحفہ ہے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے نام پرکھیلا جانے والا کھیل آج بھی ہماری معیشت کو گھن کی طرح چاٹ رہا ہے۔ پھر یہ کہ جن کے ساتھ مل کر اور جن کے لیے یہ جنگ لڑی گئی، وہ ہی آج ہمارے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ایسے میں کیا ہم پر اب یہ لازم نہیں ہوگیا ہے کہ ہم بھی اس ضمن میں اپنی حکمتِ عملی کا از سرِ نو جائزہ لیں؟

پاکستان سمیت افغانستان کے اکثر ہمسائے سرحد پار سے سنگین دہشت گردی جیسے مسائل سے دوچار ہیں اور افغانستان کے چاروں اطراف سے نہ صرف ہمسایہ حکومتوں بلکہ ان کے عوام کی طرف سے بھی افغان طالبان کے ساتھ موجود دیرینہ روایتی ہمدردی میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے۔ جب امریکا، افغانستان سے نکل رہا تھا تو اس وقت تجزیہ کار یہ بتا رہے تھے کہ ایک شدت پسند گروپ کے اقتدار میں آنے سے دیگر چھوٹے بڑے عسکریت پسند گروپ بھی توانائی حاصل کرتے ہیں۔

ایسے میں پاکستانی طالبان دوبارہ متحرک ہوسکتے ہیں لیکن اس کا انحصار افغان طالبان کی ان کی جانب رویے پر ہوگا۔ کیا آج یہ تجزیہ درست ثابت نہیں ہورہا؟ اب یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ تمام دنیا ٹی ٹی پی کو دہشت گرد سمجھتی ہے اور پاکستان نے اس پر باقاعدہ پابندی عائد کر رکھی ہے مگر افغان طالبان اسے دہشت گرد نہیں سمجھتے۔امریکی انخلا کے وقت یہ بھی کہا گیا تھا کہ افغان طالبان نے امریکیوں سے معاہدے میں وعدہ کیا ہے کہ وہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

ایسے میں ٹی ٹی پی کے خاموش رہنے کے امکانات زیادہ ہیں، لیکن اگر ٹی ٹی پی افغانستان کی سرزمین کو استعمال کر کے پاکستان میں دوبارہ متحرک ہوتی ہے تو اسلام آباد یقیناً طالبان حکومت سے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرے گا۔ اقوام متحدہ نے جولائی2020 میں اپنی ایک رپورٹ میں بتادیا تھا کہ افغانستان ہزاروں پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کا مرکز ہے۔ رپورٹ کے مطابق چھ ہزار سے زیادہ عسکریت پسند، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے ہے، افغانستان میں روپوش ہیں اور وہاں سے پاکستانی فوج اور شہری اہداف پر حملے کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے لیے ایک بڑی پریشانی افغانستان میں ٹی ٹی پی، جماعت الاحرار یا لشکر اسلام کی موجودگی ہے اور اسی طرح بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی افغانستان میں جڑیں اسلام آباد کے لیے پریشان کن صورت حال پیدا کر رہی ہیں۔

اس وقت بڑا ایشو یہ ہے کہ طالبان حکومت جس طرح دہشت گردی کے حوالے سے اپنے ہمسایوں کے تحفظات کو خاطر میں نہیں لا رہی، اسی طرح عالمی برادری اور عالمی اداروں میں بھی اسے اپنے لیے نرم گوشہ اور خیر خواہی کے جذبات پیدا کرنے میں اسے کوئی خاص دلچسپی نہیں، طالبان کا سخت گیر نظام حکومت اور خواتین سے متعلق ان کا رویہ بھی امارات اسلامی افغانستان کے نام سے قائم اس حکومت کو عالمی تنہائی کا شکارکیے ہوئے ہے۔ پاکستان افغانستان کے مہاجرین کو دنیا میں سب سے زیادہ تعداد میں پناہ دینے والا واحد ملک ہے جہاں گزشتہ 40 برسوں سے 25 سے 40 لاکھ تک مہاجرین قیام کرتے رہے ہیں۔


ان میں سے تقریباً 68 فی صد بوجوہ غیر قانونی طور پر نہ صرف یہ کہ پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر ہیں بلکہ وہ یہاں برسوں سے کاروبار بھی کررہے ہیں۔ لاتعداد مہاجرین دہشت گردی کے واقعات اور حملوں میں بھی ملوث رہے ہیں۔ اس ضمن میں سیکیورٹی اداروں نے جو رپورٹس جاری کیں ان کے مطابق تقریباً 22 فی صد جرائم کے واقعات سمیت منی لانڈرنگ اور اسمگلنگ میں بھی افغان باشندے ملوث ہیں۔ہماری مشکل یہ ہے کہ پاکستان، افغانستان سرحد کی مجموعی لمبائی 2611کلومیٹر ہے جس میں1229کلو میٹر صوبہ خیبر پختون خوا میں ہے۔

خیبر پختون خوا سے متصل تقریباً 1229 کلومیٹر لمبی پاکستان، افغانستان سرحد پر باڑ تقریباً مکمل ہوچکی ہے، لیکن چترال کے بلند و بالا دشوار ترین پہاڑ اور سرحدی گلیشئرز کی وجہ سے وہاں باڑ لگانا بیحد مشکل ہے۔ وہاں انسانی آمدورفت بھی نہیں ہے، لیکن پھر بھی اس دو فی صد حصے کو محفوظ بنانے کے لیے کوئی اور مناسب حل نکالا جائے گا۔ سیکیورٹی حکام کے مطابق چترال، دیر اور باجوڑ کے سامنے تحریک طالبان پاکستان کے حزب الاحرار، سواتی گروپ اور باجوڑی گروپ کے دہشت گرد افغانستان میں پناہ گزین ہیں جو اکثر اسنائپر حملے کرتے ہیں۔ شمالی وزیرستان کے سامنے افغانستان کے صوبہ خوست میں ٹی ٹی پی کا اتحادی حافظ گل بہادر گروپ پناہ گزین ہے جس کے دہشت گرد کارروائیاں، دخل دراندازی اور حملے کرتے رہتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان رجیم کے اقتدار لینے کے بعد تقریباً 6 لاکھ مزید مہاجرین پاکستان میں داخل ہوئے جن میں اکثریت غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والوں کی تھی۔ یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا اور شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ ریاست پاکستان کو مزید بوجھ اور مسائل سے بچنے کے لیے پہلے سے موجود غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغانوں کو نکالنے کا فیصلہ بھی کرنا پڑا۔اس فیصلے کی ایک اور بڑی وجہ غالباً یہ رہی کہ افغانستان کی عبوری طالبان حکومت دوحہ معاہدے کے تحت پاکستان کے خلاف افغانستان کی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ کرنے کے اپنے وعدے میں نہ صرف یہ کہ ناکام رہی تھی بلکہ ان کا کنٹرول لینے کے بعد پاکستان پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ہونے والے حملوں میں پچھلے برسوں کے مقابلے میں تقریباً 50 سے 60 فی صد تک اضافہ بھی دیکھا گیا۔

دوسری جانب سال 2023 کے دوران انکشاف ہوا کہ امریکا نے 4 لاکھ کے قریب جو جدید اسلحہ اپنے انخلاء کے وقت افغانستان میں چھوڑ رکھا تھا اس میں سے تقریباً 25 فی صد کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر کے ہاتھ لگا اور پاکستان پر ہونے والے اکثر حملوں میں یہ جدید اسلحہ استعمال کیا جاتا رہا۔ اس تمام تر صورتحال نے تعلقات کو انتہائی خراب کردیا اور پاکستان سخت پالیسی بنانے پر مجبور ہوا جس میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغانوں کی بے دخلی کا فیصلہ بھی شامل رہا، تاہم اس کے باوجود پاکستان نے دستاویزات رکھنے والے مہاجرین پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالا بلکہ اس آپریشن کے دوران بھی پاکستان نے تقریباً 7000 افغان باشندوں کو ویزے جاری کیے، دوسری جانب مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے ڈیڈ لائن میں توسیع بھی کرتا رہا۔ ایک اندازے کے مطابق 5 جنوری 2024 تک پاکستان سے تقریباً 5 لاکھ سے زائد غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغانوں کو واپس بھیج دیا گیا۔

کسی بھی موقع پر نہ تو زبردستی سے کام لیا گیا اور نہ ہی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔ اکثر مہاجرین رضاکارانہ طور پر واپس چلے گئے اور پاکستان نے ان کو عالمی اداروں اور افغانستان کی حکومت کے برعکس ایک پرامن اور منظم طریقہ کار کے مطابق نہ صرف سہولیات فراہم کیں بلکہ اس تمام پراسیس کے دوران یکطرفہ پروپیگنڈے کے باوجود تحمل کا رویہ بھی اپنایا۔ اس تمام معاملے کا ایک مثبت پہلو یہ بھی رہا کہ جو مہاجرین واپس جاتے گئے وہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے برعکس پاکستان کی برسوں کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرتے پائے گئے۔ پاکستانی منصوبہ سازوں نے ایک بڑا اچھا کام یہ کیا ہے کہ افغانستان میں تین چار بڑے پروجیکٹ شروع کر رہے ہیں۔

اس سے ریجنل کنیکٹویٹی پیدا ہوگی۔ پاکستان اس وقت افغانستان سے دس ہزار ٹن کوئلہ روزانہ لے رہا ہے۔ اسے بڑھا کر پچیس ہزار ٹن کرنے کا ارادہ ہے۔ تاپی گیس پائپ لائن یعنی ترکمانستان افغانستان پاکستان انڈیا گیس پائپ لائن پر ڈویلپمنٹ ہو رہی ہے۔ طالبان اس کے لیے دل وجاں سے تیار ہیں۔ پاکستان کو یہ فائدہ ہوگا کہ تاپی گیس ایران سے دس فیصد سستی ہے۔ اس کے علاوہ ازبکستان افغانستان ٹو پاکستان ریلوے لائن پروجیکٹ پر کام شروع ہونے والا ہے، پاکستان اسے بنانے میں معاونت کرے گا۔ تیسرا بڑا کام یہ ہو رہا ہے کہ پاکستان افغان مال پر ڈیوٹیز ختم کر کے سولہ راستے کھول رہا ہے تاکہ افغان مال سرحد پر نہ رکے اور جلد پاکستانی مارکیٹ تک پہنچے۔

ایسا ہوگیا تو افغان تاجروں کے دل جیتے جا سکیں گے۔ ایک اور بڑا کام واخان ٹریڈ روٹ ہے، اس سے پاکستان ٹو تاجکستان ٹریڈ روٹ کھل جائے گا۔ ان منصوبوں پر تیز رفتاری سے عمل درآمد کیا جائے تو افغانستان اور افغان عوام کی بڑی مدد ہوسکے گی۔ پاک افغان تعلقات میں معاشی پہلو شامل ہوجائیں، دونوں اطراف کو مالی فائدہ پہنچے تو تعلقات میں ازخود گہرائی اور مضبوطی آ جاتی ہے۔
Load Next Story