مودی کی روس یاترا
چین کے ساتھ بھارت کی جنگ کے وقت دارالخلافہ دہلی کا یہ حال تھا کہ سب کی نیندیں اُڑی ہوئی تھیں
بھارت کے نیتا (قائدین) روز اول سے لے کر آج تک مہا گُرو چانکیہ کی پالیسی پرگامزن ہیں۔ اِس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اپنے سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہیں رکھے۔
برطانیہ کے راج میں بھی انھوں نے برطانوی حکمرانوں کے ساتھ اچھے مراسم رکھے اور جو فائدہ بھی ممکن ہوسکتا تھا وہ درپردہ خوب اٹھایا۔ ہندوستان کے آخری وائس رائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی بیوی کے ساتھ کانگریس کے روح رواں پنڈت جواہر لال نہروکے بہت قریبی اورگہرے تعلقات تھے جس کا انھوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا جس کے نتیجے میں برصغیرکی تقسیم میں خوب بندر بانٹ ہوئی اور باؤنڈری کمیشن نے ریڈ کلف ایوارڈ کے تحت مشرقی پنجاب کے اہم علاقے بشمول گُرداس پور ہندوستان کے حوالے کردیا جن کی وجہ سے پاکستان کو جو بھاری نقصان ہوا، اس کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
یاد رہے کہ انڈین سول سروس میں بھی برطانوی راج کے دور میں ہندوؤں کا پلڑا بھاری رہا۔ اثاثوں کی تقسیم میں بھی قیام پاکستان کے وقت فرنگیوں نے بہت ڈنڈی ماری جس کی وجہ سے بھی پاکستان خسارے میں رہا۔ برٹش کامن ویلتھ کی تنظیم میں بھی بھارت کو فوقیت حاصل رہی ہے۔
آزادی سے قبل بھی بھارتی قیادت کا جھکاؤ روس کی طرف تھا کیونکہ پنڈت جواہر لال نہرو بظاہر خود کو لامذہب اور سیکولر قرار دیتے تھے، چناچہ روس کی ہمدردیاں بھارت کے ساتھ رہیں، جس کا بھارت کو نہ صرف اس وقت بڑا بھاری فائدہ ہوا بلکہ جس کے ثمرات بھارت کو آج تک حاصل ہو رہے ہیں۔ بھارت اور روس کے درمیان دفاعی معاہدے سے اس ملک نے مِگ لڑاکا طیارے اور دیگر فوجی سازوسامان بھی بہت بڑی تعداد میں حاصل کیا جو 1965 کی پاک بھارت جنگ میں خوب کام آیا۔ بھارت کی خارجہ پالیسی یہ رہی کہ روس کے ساتھ بھی بہترین تعلقات قائم رکھے جائیں جب کہ اس کے ساتھ ہی ساتھ دوسری سپر پاور امریکا کو بھی ناراض نہ کیا جائے جس کا مطلب یہ ہوا کہ:
حُسین سے بھی مراسم یزید کو بھی سلام
برسبیل تذکرہ یہ بھی عرض ہے کہ بھارت نے'' نا وابستہ'' رہنے کی پالیسی کا ناٹک بھی کھیلا۔ اس پالیسی کی تشریح یہ کی گئی کہ کسی بھی گٹھ جوڑ میں شامل نہ ہوا جائے۔ اس سلسلے میں انڈونیشیا کے دارالخلافہ جکارتہ میں ایک کانفرنس بلائی گئی جس میں بھارت کے علاوہ چین کے وزیر اعظم چو این لائی اور انڈونیشیا کے صدر ڈاکٹر سوئیکارنو نے شرکت کی۔ باندُنگ کانفرنس میں قیام امن کے نام پر جو 5 بنیادی اصول طے پائے گئے وہ پنجشِلا یا پنجشیل کے نام سے مشہور ہوئے لیکن ہوا یہ کہ بھارت نے ان پنجشلا کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے 1962 میں چین کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا۔
بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اپنی خود نوشت میں ایک جگہ لکھا ہے کہ جب تک تم کمزور رہو اپنے سے زیادہ طاقتورکے ساتھ الجھنے سے گریز کرو لیکن چین کے ساتھ پنگا لینے کی اصل وجہ یہ تھی کہ نہرو سے یہ غلطی سرزد ہوگئی کہ انھوں نے چین کو بھارت کے مقابلے میں کمزور سمجھا جس کا خمیازہ بھارت کو بھگتنا پڑا۔ نہروکو اس غلطی سے اس قدر صدمہ ہوا کہ ان کے دماغ پر فالج کا شدید حملہ ہوا جس سے وہ جانبر نہیں ہو سکے۔
چین کے ساتھ بھارت کی جنگ کے وقت دارالخلافہ دہلی کا یہ حال تھا کہ سب کی نیندیں اُڑی ہوئی تھیں اور سب اس قدر ڈرے اور سہمے ہوئے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب صبح سوکر اٹھیں تو اس وقت چینی افواج چہل قدمی کررہی ہو۔ نہرو لومڑی سے بھی زیادہ چالاک تھا اور اس کا منصوبہ یہ تھا کہ سب سے بنا کر رکھو، چنانچہ اس نے روسی صدر مارشل بلگالن اور وزیر اعظم نکیتا پرشچیخ کو بھارت کے دورہ کی دعوت دی۔
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی حالیہ روس یاترا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ روسی صدر پیوٹِن نے اس دورہ کی دعوت بطور خاص دی تھی۔ جس وقت یہ کالم تحریرکیا جارہا ہے، نریندر مودی اس وقت روس یاترا پر ہیں۔ مودی جی پیوٹن کی مہمان نوازی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ روسی صدر مودی جی کے آگے پیچھے اِس طرح چل رہے تھے جیسے کوئی غلام اپنے آقا کا دل خوش کرنے کے لیے ایسا کررہا ہو۔
برطانیہ کے راج میں بھی انھوں نے برطانوی حکمرانوں کے ساتھ اچھے مراسم رکھے اور جو فائدہ بھی ممکن ہوسکتا تھا وہ درپردہ خوب اٹھایا۔ ہندوستان کے آخری وائس رائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی بیوی کے ساتھ کانگریس کے روح رواں پنڈت جواہر لال نہروکے بہت قریبی اورگہرے تعلقات تھے جس کا انھوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا جس کے نتیجے میں برصغیرکی تقسیم میں خوب بندر بانٹ ہوئی اور باؤنڈری کمیشن نے ریڈ کلف ایوارڈ کے تحت مشرقی پنجاب کے اہم علاقے بشمول گُرداس پور ہندوستان کے حوالے کردیا جن کی وجہ سے پاکستان کو جو بھاری نقصان ہوا، اس کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
یاد رہے کہ انڈین سول سروس میں بھی برطانوی راج کے دور میں ہندوؤں کا پلڑا بھاری رہا۔ اثاثوں کی تقسیم میں بھی قیام پاکستان کے وقت فرنگیوں نے بہت ڈنڈی ماری جس کی وجہ سے بھی پاکستان خسارے میں رہا۔ برٹش کامن ویلتھ کی تنظیم میں بھی بھارت کو فوقیت حاصل رہی ہے۔
آزادی سے قبل بھی بھارتی قیادت کا جھکاؤ روس کی طرف تھا کیونکہ پنڈت جواہر لال نہرو بظاہر خود کو لامذہب اور سیکولر قرار دیتے تھے، چناچہ روس کی ہمدردیاں بھارت کے ساتھ رہیں، جس کا بھارت کو نہ صرف اس وقت بڑا بھاری فائدہ ہوا بلکہ جس کے ثمرات بھارت کو آج تک حاصل ہو رہے ہیں۔ بھارت اور روس کے درمیان دفاعی معاہدے سے اس ملک نے مِگ لڑاکا طیارے اور دیگر فوجی سازوسامان بھی بہت بڑی تعداد میں حاصل کیا جو 1965 کی پاک بھارت جنگ میں خوب کام آیا۔ بھارت کی خارجہ پالیسی یہ رہی کہ روس کے ساتھ بھی بہترین تعلقات قائم رکھے جائیں جب کہ اس کے ساتھ ہی ساتھ دوسری سپر پاور امریکا کو بھی ناراض نہ کیا جائے جس کا مطلب یہ ہوا کہ:
حُسین سے بھی مراسم یزید کو بھی سلام
برسبیل تذکرہ یہ بھی عرض ہے کہ بھارت نے'' نا وابستہ'' رہنے کی پالیسی کا ناٹک بھی کھیلا۔ اس پالیسی کی تشریح یہ کی گئی کہ کسی بھی گٹھ جوڑ میں شامل نہ ہوا جائے۔ اس سلسلے میں انڈونیشیا کے دارالخلافہ جکارتہ میں ایک کانفرنس بلائی گئی جس میں بھارت کے علاوہ چین کے وزیر اعظم چو این لائی اور انڈونیشیا کے صدر ڈاکٹر سوئیکارنو نے شرکت کی۔ باندُنگ کانفرنس میں قیام امن کے نام پر جو 5 بنیادی اصول طے پائے گئے وہ پنجشِلا یا پنجشیل کے نام سے مشہور ہوئے لیکن ہوا یہ کہ بھارت نے ان پنجشلا کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے 1962 میں چین کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا۔
بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اپنی خود نوشت میں ایک جگہ لکھا ہے کہ جب تک تم کمزور رہو اپنے سے زیادہ طاقتورکے ساتھ الجھنے سے گریز کرو لیکن چین کے ساتھ پنگا لینے کی اصل وجہ یہ تھی کہ نہرو سے یہ غلطی سرزد ہوگئی کہ انھوں نے چین کو بھارت کے مقابلے میں کمزور سمجھا جس کا خمیازہ بھارت کو بھگتنا پڑا۔ نہروکو اس غلطی سے اس قدر صدمہ ہوا کہ ان کے دماغ پر فالج کا شدید حملہ ہوا جس سے وہ جانبر نہیں ہو سکے۔
چین کے ساتھ بھارت کی جنگ کے وقت دارالخلافہ دہلی کا یہ حال تھا کہ سب کی نیندیں اُڑی ہوئی تھیں اور سب اس قدر ڈرے اور سہمے ہوئے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب صبح سوکر اٹھیں تو اس وقت چینی افواج چہل قدمی کررہی ہو۔ نہرو لومڑی سے بھی زیادہ چالاک تھا اور اس کا منصوبہ یہ تھا کہ سب سے بنا کر رکھو، چنانچہ اس نے روسی صدر مارشل بلگالن اور وزیر اعظم نکیتا پرشچیخ کو بھارت کے دورہ کی دعوت دی۔
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی حالیہ روس یاترا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ روسی صدر پیوٹِن نے اس دورہ کی دعوت بطور خاص دی تھی۔ جس وقت یہ کالم تحریرکیا جارہا ہے، نریندر مودی اس وقت روس یاترا پر ہیں۔ مودی جی پیوٹن کی مہمان نوازی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ روسی صدر مودی جی کے آگے پیچھے اِس طرح چل رہے تھے جیسے کوئی غلام اپنے آقا کا دل خوش کرنے کے لیے ایسا کررہا ہو۔