حکمرانوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے

ماضی میں جتنے بھی حکمرانوں کو وقت سے پہلے گھر جانا پڑا، اس کی وجہ حکمران طبقے کی باہمی لڑائی ہے

salmanabidpk@gmail.com

عمومی طور پر ہمارے حکمران طبقات کی ایک سوچ اور فکر یہ ہی ہوتی ہے کہ اسے تمام تر حالات کے باوجود '' حکمرانی کی سیاسی بقا''کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ حکمران طبقات یا تو واقعی ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں زمینی حقایق سے وہ بہت دور ہوتے ہیں یا وہ اس خوش فہمی میں ہوتے ہیں کہ سخت حالات سے نمٹنا اور اس میں کامیابی حاصل کرنا ان کے لیے کوئی چیلنج نہیں ہوتا ۔جو بھی حکمران طبقہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر حکمرانی کے نظام کو چلاتا ہے وہ واقعی اندھیرے میں ہی رہتا ہے یا اس میں داخلی و خارجی حالات کو سمجھنے اور جانچنے کی صلاحیت میں بھی کمی آجاتی ہے۔

حکمران طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ ملک میں کوئی بھی حکومت ہو، وہ حکمران طبقے کی ہی نمایندگی کرتی ہے،لہٰذا ان کے مفادات کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ ان کے اقتدار کو بھی کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔اسی لیے ہمیں حکمرانی کے نظام میں بدترین حکمرانی ، عدم شفافیت پر مبنی فیصلے ، جمہوری طرز فکر کا فقدان سمیت کچھ بھی ہوتا رہے، حکمران طبقے کے مفادات کا کچھ نہیں بگڑتا۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت چونکہ اشرافیہ سے ہی ہوتا ہے ، انھیں عوام کے مقابلے میں حکمران طبقے کے مفادات زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔

ماضی میں جتنے بھی حکمرانوں کو وقت سے پہلے گھر جانا پڑا، اس کی وجہ حکمران طبقے کی باہمی لڑائی ہے۔اگر گروہ اقتدار سے محروم ہوتا تو دوسرا حکمران بن جاتا ہے۔ یوں ہمیشہ سے ہی حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ ایک پیچ پر ہیں اور دونوں کے تعلقات مثالی ہیں۔ حکمران طبقہ اسٹیبلیشمنٹ کے حق میں بہت زیادہ دلیلیں دیتے ہیں اور ان کی سیاسی امور میں شمولیت یا مداخلتوں کا سیاسی جواز بھی پیش کرنے میں بہت آگے تک جاتے ہیں۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست، جمہوریت اور حکمرانی کے نظام میں جمہوریت کا عمل کافی کمزور ہے اور اس کے مقابلے میں جمہوریت کے نام پر آمرانہ طرز عمل زیادہ غالب نظر آتا ہے۔اسی بنیاد پر ماضی ہو یا حال، جب حکمران اقتدار کی مستی میں آکر اپنے طبقے میں نفاق ڈال کر من مانی کرنا شروع کردیتا ہے تو وہ زوال کا شکار ہوجاتا ہے۔

بنیادی طور پر ہماری سیاست یا ریاست کا نظام طاقت ور طبقات کی باہمی چپقلش، ٹکراؤ اور طاقت کی بندر بانٹ کی بنیاد پر چلتا ہے۔ اس طاقت کی لڑائی میں سب ہی فریق انفرادی طور پر اپنے اپنے مفادات کو مضبوط بنانے کے کھیل میں حصہ دار ہوتے ہیں اور ریاست ،ملک ، جمہوریت، آئین و قانون سمیت عام یا کمزور طبقات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ ان کو اپنی طاقت کی لڑائی میں بڑے ہی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔

حکمرانوں کے اردگرد ایک ایسا مفاد پرست ٹولہ ہوتا ہے جو حکمرانوں کو سب اچھا کی رپورٹ دیتا ہے یا وہ ہی کچھ بتاتا یا دکھاتا ہے جو حکمران سننا یا دیکھنا چاہتے ہیں۔جو لوگ حکومت کے قریب ہوتے ہوئے حکمرانوں کو مختلف نوعیت کے خطرات سے آگاہ کرتے ہیں کہ حالات ان کے حق میں نہیں تووہ حکمران طبقات سے دور کردیے جاتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ حکمران طبقات اور عام آدمی کے درمیان سیاسی ،سماجی ، انتظامی اور معاشی خلیج بڑھتی جارہی ہے جب کہ حکمران طبقات ان حالات کو سمجھنے یا پرکھنے کے بجائے اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں یا ان پہلوؤں کو کوئی اہمیت دینے کے بجائے اسے نظرانداز کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔


بظاہر حکمران طبقات کا اقتدار مضبوط ہوتا ہے مگر اس اقتدار کو دیمک بھی لگ جاتی ہے اور آہستہ آہستہ اس کی اقتدار پر گرفت کمزور ہوجاتی ہے اور طاقت ور حلقوں سے اس کے تعلقات میں خرابی پیدا کرتی ہے اور نتیجہ اقتدار کی رخصتی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔اس کے بعد حکمران طبقات اور اسٹیبلیشمنٹ کے مثالی تعلقات اور سیم پیج میں بھی بداعتمادی کا غلبہ ہوجاتا ہے۔حکمران طبقات کا عوامی نبض پر کنٹرول کم اور طاقت ور طبقات کی خوشنودی کے حصول میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے ۔

موجودہ حکومت بھی بہت مضبوط ہے اور اسے داخلی و خارجی محاذ پر کوئی خطرہ نہیں۔ حکومت میں گرم جوشی پائی جاتی ہے۔حکومت سمجھتی ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ معاملات طے کرنے میں تاخیر کردی ہے۔ اس صورتحال کا فائدہ حکمران اتحاد کو ہورہا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ تمام تر اختلافات کے باوجود پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کا سیاسی رومانس ابھی تک جاری ہے۔

جب کوئی مسائل پیدا ہوتے ہیں تو ان پارٹیوں کا کوئی بڑا سامنے آکر معاملات طے کرانے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔حکومت کو یہ خوش فہمی بھی ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی سیاست اختتام پذیر ہوچکی ہے ، اس لیے بظاہر ان کو عمران خان کی سیاست سے بھی کوئی خطرہ نہیں۔عوامی مفادات یا مسائل میں جو مسائل ہیں حکمران سمجھتے ہیں کہ عوام میں ایسی کوئی صلاحیت یا مزاحمت نہیں کہ وہ کوئی بڑا ہنگامہ کرسکیں یا حکومت کو پسپا کرسکیں اور نہ ہی عالمی طاقتیں ان کے مقابلے میں عمران خان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتی ہیں ۔ اس لیے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں اور جو بھی حکومت کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے ان کی باتوں کو کوئی پزیرائی نہیں دی جاتی۔اس لیے فنچ کی حالیہ رپورٹ ہو جس میں موجودہ اتحادی حکومت کو 18ماہ کی حکومت کہا گیا ہے اورآگے وہ ٹیکنوکریٹس کی حکومت کی پیش گوئی کرتی ہے، حکومت کے لیے یہ بھی کوئی پریشان کن بات نہیں ہے۔

شہباز شریف کی حکومت چار باتوں پر سامنے آئی۔ اول معاشی حالات میں بہتری پیدا کرنا اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ اور عالمی امدادکا حصول ، دوئم عمران خا ن کی مقبولیت کو کم کرنا اور اس کی سیاسی اہمیت کو کم کرکے اسے دیوار سے لگانا ، سوئم عمران خان اور پی ٹی آئی کی جانب سے اسٹیبلیشمنٹ پر بڑھتی ہوئی تنقید پر حکومت اور اس کے اتحادی بھرپور سیاسی مقابلہ کریں اورجواب دیں گے ، چہارم داخلی سیاست میں جو تقسیم ہے اس کو کم کرکے حالات میں بہتری پیدا کرنا تھا۔لیکن اب اگر حکومت اور سیاسی و معاشی مسائل کو دیکھیں تو ایسے لگتا ہے کہ حکومت معیشت کو خوشحال نہیں بنا سکی ہے اور ان کی حکومت پر سیاسی گرفت بھی کمزور ہے ۔

وفاقی حکومت عوام کو ریلیف دینے میں ناکامی کا سامنا ہے اور ہر سیاسی و معاشی مشکل فیصلوں کی تائید تمام اتحادی کرتے ہیں لیکن میڈیا میں خود کو ان فیصلوں سے لاتعلق ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی پر سیاسی پابندی کے فیصلے پر حکومت کو سیاسی تنہائی یا پسپائی کا سامنا ہے ۔

نواز شریف بھی پوری طرح متحرک نہیں ہیں۔عوامی محاذ پر بھی جو معاشی مشکلات کا جن ہے وہ حکومت کے بارے میں مایوسی پھیلارہا ہے ۔ جس گھر میں بجلی کا بل جارہا ہے وہیں حکمرانوں کے لیے نفرت کا عمل بڑھ رہا ہے ۔ ایسے میں حکومت کب تک اس ناکام بوجھ پی ٹی آئی پر ڈالتی رہے گی ۔یہ ہی وجہ ہے کہ جس تیزی سے سیاسی حالات تبدیل ہورہے ہیں توایسے میں متبادل سیاسی خاکے بھی زیر بحث ہیں یا اس میں نئی حکمت عملیوں کے تحت نئے رنگ بھرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اگر کوئی ان حالات کو نہیں سمجھ رہا تو اسے یہ ہی سمجھنا چاہیے کہ جو بھی حالات ہیں یا سامنے آرہے ہیں حکمرانوں کو واقعی کوئی خطرہ نہیں ہے ۔
Load Next Story