فیض صاحب سرینگر اور بیروت
اُس وقت بھلا کسی کے وہم و گمان میں تھا کہ یہ دونوں بیروت کی گلیوں سے توپوں کے دھماکوں میں رخصت ہوں گے
ان دنوں فلسطینی جس طرح در بہ در اور خاک بہ سر ہوئے ہیں اسے دیکھیے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے فیض ان لوگوں کا نوحہ ٔ ناتمام بہت پہلے لکھ گئے تھے۔ انھوں نے جب خود ساختہ جلاوطنی اختیارکی تو وہ اور ایلس، مرحوم یاسر عرفات کے مہمان ہوئے۔
یاسر عرفات سے مل کر طے یہ پایا کہ بیروت سے انگریزی میں ایک رسالہ LOTUSنکالا جائے۔ یاسر عرفات جس رسالے کے چیف ایڈیٹر ہوں اور فیض صاحب ایڈیٹر، اسے مضامین کی کیا کمی؟ یہ میرے لیے اعزازکی بات تھی کہ پہلے شمارے کے لیے فیض صاحب نے میری ایک کہانی ''رنگ تمام خوں شدہ'' کا ترجمہ کیا اور جب وہ آخری مرتبہ اپنے گاؤں جارہے تھے تو مسز ایلس فیض کو ٹائپ کرنے کے لیے دے کرگئے۔ فیض صاحب کے رخصت ہونے کے بعد یہ تمام تفصیلات مجھے مرحوم نصیر ترابی سے معلوم ہوئیں۔
فیض صاحب اور ان کی بیگم جب بیروت میں تھے تو ان کے لیے پریشان رہتے تھے۔ وہ لوگ پاکستان ، واپس آئے تو لاہور، اسلام آباد اورکراچی میں ان کے لیے مختصر نشستیں ہوئی۔ ایک مختصر نشست کا اہتمام ڈاکٹر طارق سہیل اور سید سبط حسن نے کیا تھا۔ سامعین میں بھی ہم چند لوگ ہی تھے۔ فیض صاحب نے اپنے اداس لہجے میں ہمیں ایک نغمہ ''کربلائے بیروت'' سنایا۔ وہ ایک اداس کردینے والی رات تھی، ہم ان سے جدا ہوئے۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ ہم فیض صاحب سے آخری بار مل رہے ہیں۔
فیض صاحب سے اداسی کی باتوں کو یاد کرتے ہوئے میں ان دنوں کو بھی یاد کرنا چاہ رہی ہوں جب فیض صاحب نوجوان تھے اور ایلس کے ساتھ ان کا رشتہ استوار ہو رہا تھا۔ چالیس برس پہلے ان کی بارات سری نگر محلہ میں آئی تھی۔ ایلس کہتی ہیں کہ''شادی پر فیض تو وہی روزمرہ کے گرم سوٹ میں تھے،کوئی خاص اہتمام نہیں تھا بس گلے میں گوٹے کا ایک موٹا ہار ڈال رکھا تھا، جو اُن کی والدہ نے لاہور سے بھیجا تھا۔ سہرے وغیرہ کا دور دور تک پتا نہ تھا۔ اس گوٹے کے ہار کو میں نے عمر بھر اس توجہ سے محفوظ رکھا کہ ان کی دونوں بیٹوں کی شادی میں دلہوں کے گلوں میں باری باری یہی ہار بطور تبرک ڈالا گیا تھا۔''
ایلس نے مزید لکھا ہے کہ '' اس موقعے پر میں نے لال رنگ کی بہت خوبصورت ساڑی پہنی تھی جس پر سنہرے تاروں کا شاندارکام کیا گیا تھا۔ یہ ساڑی فیض نے چند ماہ قبل شملہ سے میرے لیے خریدی تھی۔ شاہی محل میں یوں تو سب انتظام تھا، بس مہمان گنتی کے تھے۔ عورتیں محض چند ایک ہی تھیں۔ ان میں سب سے زیادہ پُرجوش تو تاثیر اورکرس کی چھوٹی بیٹی سلمیٰ تھی جو حیرت سے کبھی مجھے دیکھتی تھی اورکبھی فیض اور دوسرے لوگوں کو۔ اس کے لیے یہ سب کچھ عجیب اور عام زندگی سے کتنا مختلف تھا۔ ادھر تاثیرکی خوبصورت پرکشش اور ہنس مکھ والدہ تھیں جو الگ تھلگ بیٹھی اپنا چھوٹا سا حقہ گڑگڑا رہی تھیں۔ رفیع پیرکی بہن اور اس کی لڑکیاں بھی تھیں۔
عورتوں میں تو بس ایک ہی سرگوشی جاری تھی کہ لو بھلا یہ کیا شادی ہوئی؟ فیض اور ایلس کی شادی اور ایسی روکھی پھیکی ' نہ کوئی بارات ہے، نہ بینڈ باجا، نہ کہیں ڈھولک بجی ہے، نہ سہاگ کے گیت گائے گئے ہیں۔ اتنے میں کمرے کا دروازہ کھلا۔ دروازے میں شیخ عبداللہ کھڑے تھے۔ چھریرے بدن کے قدر آور، اسمارٹ، چاق و چوبند اور جاذب نظر شیخ عبد اللہ نپے تُلے قدموں سے پہلے تاثیرکی والدہ کی طرف بڑھے اور بہت ادب سے جھک کر انھیں سلام عرض کیا۔
انھوں نے بھی سر جھکا کر شیخ عبداللہ کے سلام کا جواب دیا۔ پھر وہ میری طرف آئے اور مجھے بھی جھک کر تعظیم دی اور پھر بہت نرمی سے انگلش اور اردو میں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ '' اسلام میں شادی کا بندھن دراصل ایک طرح کا باہمی معاہدہ ہوتا ہے، دلہا دلہن کے درمیان جس کی دونوں فریقوں کو لازماً پابندی کرنی ہوتی ہے۔ آپ کی شادی کی سب شرائط تحریری طور پر نکاح نامے میں شامل کرلی گئی ہیں اور اسلامی طریق کار کے مطابق اس نکاح کی کارروائی کو شروع کرنے سے پہلے مجھے آپ کی باقاعدہ اجازت کی ضرورت ہے۔ پھر انھوں نے نکاح کی جملہ شرائط مجھے انگلش میں سمجھائیں اور کہا کہ آپ کا نکاح نامہ آپ کی بہن کرس اور ایم ڈی تاثیرکے نکاح نامے کی بنیاد پر ہی تیار کیا گیا ہے جسے علامہ اقبال نے مرتب کیا تھا۔''
یوں ایلس اور فیض کی شادی پایہ تکمیل کو پہنچی۔ تاثیر اورکرس نے براتیوں اور مہمانوں کے لیے کشمیری کھانوں کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ دو ایک دن سری نگر میں قیام کیا گیا۔ دلہا دلہن نے ڈل جھیل پر بوٹ میں ہنی مون منایا ۔ دونوں بھائی اور بعض دوسرے لوگ شادی کے دوسرے ہی دن لاہورکے لیے روانہ ہوچکے تھے کہ یہاں پہنچ کر انھیں ولیمے کی دعوت کا اہتمام کرنا تھا ۔ واپسی میں فیض، ایلس، جوش اور مجاز بس کے ذریعے راولپنڈی کے لیے روانہ ہوئے اور وہاں سے بذریعہ ریل لاہورکا سفر اختیارکیا۔ جیب میں بس اتنی ہی رقم تھی جس میں تین انٹرکلاس کے ٹکٹ اور ایک سلیپر میرے لیے مخصوص کرائی جاسکی۔ سلیپرکا اہتمام اس لیے کیا گیا کہ مجھے راستے میں لیٹنے کی سہولت رہے۔
یہ بھی نئی نویلی دلہن کا اعزاز تھا ورنہ پورا سفر ہی بیٹھے بیٹھے طے کرنا پڑتا۔ جیسا کہ فیض، جوش اور مجاز نے کیا۔ پروگرام کے مطابق ایلس کو راولپنڈی کے ویٹنگ روم میں گھس کر روزمرہ لباس کی جگہ دلہن کا شادی والا جوڑا بدلنا پڑا، کیونکہ یہاں سے روانہ ہوکر ٹرین کو لاہور ہی پہنچنا تھا جہاں پروگرام کے مطابق بارات کے خیر مقدم کا اہتمام تھا، وہاں فیض کے گھر والے، عورتیں اور بچے بھی جمع ہوں گے۔ ویٹنگ روم میں موجود عورتوں نے ایک گوری میم کو ہندوستانی دلہن کے روپ میں حیرت سے دیکھا اور ان میں سے جو ایک دو اسمارٹ اور نوجوان لڑکیاں تھیں،انھوں نے ایلس کے سنگھار میں اس کی خوب مدد بھی کی۔ انھیں بہرحال اس بات پر بہت حیرت تھی کہ یہ کیسی دلہن ہے جس نے نہ تو کوئی زیور پہنا ہے اور نہ کوئی بھڑ ک دار جھمکے وغیرہ، نہ میک اپ کی چمک دمک ہے، نہ سر پر دلہنوں والا گھونگھٹ ہے، نہ قیمتی کشمیری شال۔ اور سب سے زیادہ حیرت انھیں ایلس کے جوتوں پر تھی کہ شادی کے لباس پر عام رواجی شوزکا بھلا کیا جوڑ تھا۔''
اُس وقت بھلا کسی کے وہم و گمان میں تھا کہ یہ دونوں بیروت کی گلیوں سے توپوں کے دھماکوں میں رخصت ہوں گے۔
یاسر عرفات سے مل کر طے یہ پایا کہ بیروت سے انگریزی میں ایک رسالہ LOTUSنکالا جائے۔ یاسر عرفات جس رسالے کے چیف ایڈیٹر ہوں اور فیض صاحب ایڈیٹر، اسے مضامین کی کیا کمی؟ یہ میرے لیے اعزازکی بات تھی کہ پہلے شمارے کے لیے فیض صاحب نے میری ایک کہانی ''رنگ تمام خوں شدہ'' کا ترجمہ کیا اور جب وہ آخری مرتبہ اپنے گاؤں جارہے تھے تو مسز ایلس فیض کو ٹائپ کرنے کے لیے دے کرگئے۔ فیض صاحب کے رخصت ہونے کے بعد یہ تمام تفصیلات مجھے مرحوم نصیر ترابی سے معلوم ہوئیں۔
فیض صاحب اور ان کی بیگم جب بیروت میں تھے تو ان کے لیے پریشان رہتے تھے۔ وہ لوگ پاکستان ، واپس آئے تو لاہور، اسلام آباد اورکراچی میں ان کے لیے مختصر نشستیں ہوئی۔ ایک مختصر نشست کا اہتمام ڈاکٹر طارق سہیل اور سید سبط حسن نے کیا تھا۔ سامعین میں بھی ہم چند لوگ ہی تھے۔ فیض صاحب نے اپنے اداس لہجے میں ہمیں ایک نغمہ ''کربلائے بیروت'' سنایا۔ وہ ایک اداس کردینے والی رات تھی، ہم ان سے جدا ہوئے۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ ہم فیض صاحب سے آخری بار مل رہے ہیں۔
فیض صاحب سے اداسی کی باتوں کو یاد کرتے ہوئے میں ان دنوں کو بھی یاد کرنا چاہ رہی ہوں جب فیض صاحب نوجوان تھے اور ایلس کے ساتھ ان کا رشتہ استوار ہو رہا تھا۔ چالیس برس پہلے ان کی بارات سری نگر محلہ میں آئی تھی۔ ایلس کہتی ہیں کہ''شادی پر فیض تو وہی روزمرہ کے گرم سوٹ میں تھے،کوئی خاص اہتمام نہیں تھا بس گلے میں گوٹے کا ایک موٹا ہار ڈال رکھا تھا، جو اُن کی والدہ نے لاہور سے بھیجا تھا۔ سہرے وغیرہ کا دور دور تک پتا نہ تھا۔ اس گوٹے کے ہار کو میں نے عمر بھر اس توجہ سے محفوظ رکھا کہ ان کی دونوں بیٹوں کی شادی میں دلہوں کے گلوں میں باری باری یہی ہار بطور تبرک ڈالا گیا تھا۔''
ایلس نے مزید لکھا ہے کہ '' اس موقعے پر میں نے لال رنگ کی بہت خوبصورت ساڑی پہنی تھی جس پر سنہرے تاروں کا شاندارکام کیا گیا تھا۔ یہ ساڑی فیض نے چند ماہ قبل شملہ سے میرے لیے خریدی تھی۔ شاہی محل میں یوں تو سب انتظام تھا، بس مہمان گنتی کے تھے۔ عورتیں محض چند ایک ہی تھیں۔ ان میں سب سے زیادہ پُرجوش تو تاثیر اورکرس کی چھوٹی بیٹی سلمیٰ تھی جو حیرت سے کبھی مجھے دیکھتی تھی اورکبھی فیض اور دوسرے لوگوں کو۔ اس کے لیے یہ سب کچھ عجیب اور عام زندگی سے کتنا مختلف تھا۔ ادھر تاثیرکی خوبصورت پرکشش اور ہنس مکھ والدہ تھیں جو الگ تھلگ بیٹھی اپنا چھوٹا سا حقہ گڑگڑا رہی تھیں۔ رفیع پیرکی بہن اور اس کی لڑکیاں بھی تھیں۔
عورتوں میں تو بس ایک ہی سرگوشی جاری تھی کہ لو بھلا یہ کیا شادی ہوئی؟ فیض اور ایلس کی شادی اور ایسی روکھی پھیکی ' نہ کوئی بارات ہے، نہ بینڈ باجا، نہ کہیں ڈھولک بجی ہے، نہ سہاگ کے گیت گائے گئے ہیں۔ اتنے میں کمرے کا دروازہ کھلا۔ دروازے میں شیخ عبداللہ کھڑے تھے۔ چھریرے بدن کے قدر آور، اسمارٹ، چاق و چوبند اور جاذب نظر شیخ عبد اللہ نپے تُلے قدموں سے پہلے تاثیرکی والدہ کی طرف بڑھے اور بہت ادب سے جھک کر انھیں سلام عرض کیا۔
انھوں نے بھی سر جھکا کر شیخ عبداللہ کے سلام کا جواب دیا۔ پھر وہ میری طرف آئے اور مجھے بھی جھک کر تعظیم دی اور پھر بہت نرمی سے انگلش اور اردو میں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ '' اسلام میں شادی کا بندھن دراصل ایک طرح کا باہمی معاہدہ ہوتا ہے، دلہا دلہن کے درمیان جس کی دونوں فریقوں کو لازماً پابندی کرنی ہوتی ہے۔ آپ کی شادی کی سب شرائط تحریری طور پر نکاح نامے میں شامل کرلی گئی ہیں اور اسلامی طریق کار کے مطابق اس نکاح کی کارروائی کو شروع کرنے سے پہلے مجھے آپ کی باقاعدہ اجازت کی ضرورت ہے۔ پھر انھوں نے نکاح کی جملہ شرائط مجھے انگلش میں سمجھائیں اور کہا کہ آپ کا نکاح نامہ آپ کی بہن کرس اور ایم ڈی تاثیرکے نکاح نامے کی بنیاد پر ہی تیار کیا گیا ہے جسے علامہ اقبال نے مرتب کیا تھا۔''
یوں ایلس اور فیض کی شادی پایہ تکمیل کو پہنچی۔ تاثیر اورکرس نے براتیوں اور مہمانوں کے لیے کشمیری کھانوں کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ دو ایک دن سری نگر میں قیام کیا گیا۔ دلہا دلہن نے ڈل جھیل پر بوٹ میں ہنی مون منایا ۔ دونوں بھائی اور بعض دوسرے لوگ شادی کے دوسرے ہی دن لاہورکے لیے روانہ ہوچکے تھے کہ یہاں پہنچ کر انھیں ولیمے کی دعوت کا اہتمام کرنا تھا ۔ واپسی میں فیض، ایلس، جوش اور مجاز بس کے ذریعے راولپنڈی کے لیے روانہ ہوئے اور وہاں سے بذریعہ ریل لاہورکا سفر اختیارکیا۔ جیب میں بس اتنی ہی رقم تھی جس میں تین انٹرکلاس کے ٹکٹ اور ایک سلیپر میرے لیے مخصوص کرائی جاسکی۔ سلیپرکا اہتمام اس لیے کیا گیا کہ مجھے راستے میں لیٹنے کی سہولت رہے۔
یہ بھی نئی نویلی دلہن کا اعزاز تھا ورنہ پورا سفر ہی بیٹھے بیٹھے طے کرنا پڑتا۔ جیسا کہ فیض، جوش اور مجاز نے کیا۔ پروگرام کے مطابق ایلس کو راولپنڈی کے ویٹنگ روم میں گھس کر روزمرہ لباس کی جگہ دلہن کا شادی والا جوڑا بدلنا پڑا، کیونکہ یہاں سے روانہ ہوکر ٹرین کو لاہور ہی پہنچنا تھا جہاں پروگرام کے مطابق بارات کے خیر مقدم کا اہتمام تھا، وہاں فیض کے گھر والے، عورتیں اور بچے بھی جمع ہوں گے۔ ویٹنگ روم میں موجود عورتوں نے ایک گوری میم کو ہندوستانی دلہن کے روپ میں حیرت سے دیکھا اور ان میں سے جو ایک دو اسمارٹ اور نوجوان لڑکیاں تھیں،انھوں نے ایلس کے سنگھار میں اس کی خوب مدد بھی کی۔ انھیں بہرحال اس بات پر بہت حیرت تھی کہ یہ کیسی دلہن ہے جس نے نہ تو کوئی زیور پہنا ہے اور نہ کوئی بھڑ ک دار جھمکے وغیرہ، نہ میک اپ کی چمک دمک ہے، نہ سر پر دلہنوں والا گھونگھٹ ہے، نہ قیمتی کشمیری شال۔ اور سب سے زیادہ حیرت انھیں ایلس کے جوتوں پر تھی کہ شادی کے لباس پر عام رواجی شوزکا بھلا کیا جوڑ تھا۔''
اُس وقت بھلا کسی کے وہم و گمان میں تھا کہ یہ دونوں بیروت کی گلیوں سے توپوں کے دھماکوں میں رخصت ہوں گے۔