سیاسی انتشار ذمے دار کون ہوگا
اپریل 2022 میں سابق وزیر اعظم نے ملک و قوم میں اتحاد و اتفاق کے پرخچے اڑا دیے
وزیراعظم شہباز شریف نے بنوں چھاؤنی پر دہشت گردوں کے حملے میں پاک فوج کے دس جوانوں کی شہادت پر تعزیتی بیان میں کہا کہ اتحاد و اتفاق سے دہشت گردی کا مقابلہ کریں گے۔ اس جیسے روایتی بیانات عشروں سے قوم حکمرانوں سے سنتی آ رہی ہے مگر 1965 کے بعد سے ملک میں کہیں اتحاد نظر آیا ہے نہ قوم میں کسی بھی مسئلے پر اتفاق نظر آیا ہے۔
لگتا ہے کہ بانی پاکستان کی رحلت کے بعد کچھ سالوں تک ملک و قوم میں اتحاد و اتفاق رہا ہو مگر یہ ہمارے شعور سے پہلے کی بات ہے، اگر اس وقت بھی ملک و قوم میں اتحاد و اتفاق ہوتا تو شہید ملت لیاقت علی خان کے بعد ملک کا سربراہ غلام محمد کیوں ہوتا؟ جس کے دور میں ملک کے وزیراعظم، نہرو کی دھوتی کی طرح کیوں بدلتے۔ غلام محمد کے بعد اسکندر مرزا ملک کے صدر بنے مگر ملک میں اتحاد و اتفاق نظر نہ آیا تھا اور جنرل ایوب نے 27 اکتوبر 1958 کو مارشل لا لگا کر اس دن کو یوم انقلاب قرار دیا تھا جس کے بعد 1972 تک ملک کو کوئی سیاسی وزیر اعظم نصیب نہیں ہوا تھا اور 1969 میں جب جنرل یحییٰ نے جنرل ایوب کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا، جس کے بعد 1971 میں بھارت نے حملہ کر کے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا تھا۔
1970 کے انتخابات کا انعقاد جنرل یحییٰ نے کروایا تھا، جس کے نتائج اگر تسلیم کر لیے جاتے تو ملک و قوم میں اتحاد و اتفاق رہتا مگر جنرل یحییٰ کی صدارت کی خواہش نے اکثریت حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو اقتدار میں نہ آنے دیا۔ بھارتی سازش سے ملک دولخت ہوا جس کے بعد سندھ و پنجاب میں اکثریت حاصل کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو نئے پاکستان کے وزیر اعظم بننے میں کامیاب رہے، اگر جنرل یحییٰ اور زیڈ اے بھٹو کو اقتدار کی ہوس نہ ہوتی اور پہلی بار اقتدار مشرقی پاکستان کو دے دیا جاتا تو ملک میں اتحاد و اتفاق رہنا ممکن ہوسکتا تھا۔ ملک ایک تھا اقتدار کے دعویدار تین تھے جس پر ملک دو حصوں میں بٹوایا گیا جس میں جنرل یحییٰ کو ہٹا کر مکمل پاکستان کے دو حصوں کے دو وزیر اعظم بنے اور 53 سال بعد میں دو غیر سول صدر اور بے شمار وزیر اعظم آئے مگر اتحاد و اتفاق ملک سے رخصت ہو چکا تھا جسے آج وزیر اعظم شہباز شریف تلاش کر رہے ہیں کہ اتحاد و اتفاق سے ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کریں گے۔
یہ اتحاد اور اتفاق صدر جنرل ایوب خان کو 6 ستمبر 1965 میں جنگ کے باعث ضرور ملا تھا جو بعد میں 1971 کی جنگ میں بھی نہیں ملا اور اب ناپید ہو چکا ہے اور ملک کے چاروں صوبوں، سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں میں کہیں ہے اور نہ ہی کسی نے پیدا ہونے دیا کیونکہ اس کے بعد بھی اقتدار کی ہوس کی جنگ جاری ہے اور اپریل 2022 میں سازش کے تحت لائے گئے اور آئینی طور پر پہلی بار ہٹائے گئے وزیر اعظم نے تہیہ کر لیا تھا کہ میں نہیں تو ملک نہیں۔ مجھے ہٹانے سے بہتر تھا کہ ملک پر ایٹم بم گرا دیا ہوتا کہ ان کے کسی مخالف کو اقتدار میں لایا جاتا کیونکہ اقتدار صرف میرا حق تھا۔
اپریل 2022 میں سابق وزیر اعظم نے ملک و قوم میں اتحاد و اتفاق کے پرخچے اڑا دیے۔ قوم کو تقسیم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے اور اب ملک کی سیاست میں دہشت گردی نمایاں ہے جس کا نشانہ اب عسکری اداروں کو بنایا جا رہا ہے اور سیاست میں انتقام، جھوٹ، ملک دشمنی،گالیاں اور ایک دوسرے کی تذلیل باقی رہ گئی ہے۔
سیاسی قوتیں اتحاد و اتفاق کا خواب چکنا چور کر رہی ہیں اور حکومت اب پی ٹی آئی پر پابندی، بانی پی ٹی آئی پر غداری کے مقدمات بنانے کے فیصلے پر مجبورکر دی گئی ہے اور ایسے میں عمران خان نے اپنی ایسی تین شرائط رکھ دی ہیں جن پر عمل ممکن ہی نہیں ہے اور حصول اقتدار اور اقتدار بچانے کی مہم آخری مرحلے پر آگئی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کو ان کے اقتدار کے برعکس قید میں شاہانہ سہولتوں کی فراہمی اور رعایت پہ رعایت حکومت کے گلے پڑ گئی ہے اور یہ سیاسی محاذ آرائی اب اس مقام پر آگئی ہے کہ ہم نہیں تو تم نہیں ملک جائے بھاڑ میں۔ بانی پی ٹی آئیریاستی اداروں سے لڑ بھی رہے ہیں۔ الزام تراشی ان کی مسلسل بڑھ رہی ہے اور وہ ان سے مذاکرات کے ذریعے اقتدار بھی چاہتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی وجہ سے ریاست میں انتشار پیدا ہو رہا ہے جس کی اکثریت نے آئین و قانون کو بالائے طاق رکھ کر جو فیصلہ دیا ہے اسے سیاسی بنا دیا گیا ہے اور حکمران مسلم لیگ نے اپنی نظر ثانی کی درخواست میں کہہ دیا ہے کہ عدلیہ کا کام آئین سازی نہیں آئین کی تشریح کرنا ہے۔ جو پارٹی کیس میں فریق نہیں تھی اسے اضافی نشستیں کیسے دی جاسکتی ہیں۔ آئین میں آزاد ارکان کو 3 دن میں شمولیت کا حق ہے ۔
قوم تو تقسیم تھی ہی اب مزید تقسیم بڑھے گی۔ پی ٹی آئی ریاستی اداروں کو مسلسل نشانہ بنا رہی ہے اور اسے اب اپنے حق میں عدالتی فیصلے بھی مل رہے ہیں اور وہ آپے سے باہر نکلتی جا رہی ہے ایسے میں اگر ملک میں کوئی غیر آئینی اقدام ہوگیا یا حکومت ایمرجنسی لگانے پر مجبور ہوگئی تو ذمے دار کسے گردانا جائے گا۔ پی ٹی آئی اور اس کے پشت پناہوں نے واپسی کا راستہ خود ہی بند کردیا ہے۔ عوام حکومت سے سخت بے زار ہیں ، کسی فیصلے سے پی ٹی آئی کو اقتدار دے بھی دیا جائے تب بھی ملک میں اتحاد و اتفاق پیدا نہیں ہوگا اور اگر غیر آئینی اقدام کی نوبت آ بھی گئی تو پی ٹی آئی پر مزید مشکلات آئیں گی اور بہت سوں کو پھر پی سی او پر حلف اٹھانا پڑ سکتا ہیلہٰذا یہ نوبت نہیں آنی چاہیے۔
لگتا ہے کہ بانی پاکستان کی رحلت کے بعد کچھ سالوں تک ملک و قوم میں اتحاد و اتفاق رہا ہو مگر یہ ہمارے شعور سے پہلے کی بات ہے، اگر اس وقت بھی ملک و قوم میں اتحاد و اتفاق ہوتا تو شہید ملت لیاقت علی خان کے بعد ملک کا سربراہ غلام محمد کیوں ہوتا؟ جس کے دور میں ملک کے وزیراعظم، نہرو کی دھوتی کی طرح کیوں بدلتے۔ غلام محمد کے بعد اسکندر مرزا ملک کے صدر بنے مگر ملک میں اتحاد و اتفاق نظر نہ آیا تھا اور جنرل ایوب نے 27 اکتوبر 1958 کو مارشل لا لگا کر اس دن کو یوم انقلاب قرار دیا تھا جس کے بعد 1972 تک ملک کو کوئی سیاسی وزیر اعظم نصیب نہیں ہوا تھا اور 1969 میں جب جنرل یحییٰ نے جنرل ایوب کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا، جس کے بعد 1971 میں بھارت نے حملہ کر کے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا تھا۔
1970 کے انتخابات کا انعقاد جنرل یحییٰ نے کروایا تھا، جس کے نتائج اگر تسلیم کر لیے جاتے تو ملک و قوم میں اتحاد و اتفاق رہتا مگر جنرل یحییٰ کی صدارت کی خواہش نے اکثریت حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو اقتدار میں نہ آنے دیا۔ بھارتی سازش سے ملک دولخت ہوا جس کے بعد سندھ و پنجاب میں اکثریت حاصل کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو نئے پاکستان کے وزیر اعظم بننے میں کامیاب رہے، اگر جنرل یحییٰ اور زیڈ اے بھٹو کو اقتدار کی ہوس نہ ہوتی اور پہلی بار اقتدار مشرقی پاکستان کو دے دیا جاتا تو ملک میں اتحاد و اتفاق رہنا ممکن ہوسکتا تھا۔ ملک ایک تھا اقتدار کے دعویدار تین تھے جس پر ملک دو حصوں میں بٹوایا گیا جس میں جنرل یحییٰ کو ہٹا کر مکمل پاکستان کے دو حصوں کے دو وزیر اعظم بنے اور 53 سال بعد میں دو غیر سول صدر اور بے شمار وزیر اعظم آئے مگر اتحاد و اتفاق ملک سے رخصت ہو چکا تھا جسے آج وزیر اعظم شہباز شریف تلاش کر رہے ہیں کہ اتحاد و اتفاق سے ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کریں گے۔
یہ اتحاد اور اتفاق صدر جنرل ایوب خان کو 6 ستمبر 1965 میں جنگ کے باعث ضرور ملا تھا جو بعد میں 1971 کی جنگ میں بھی نہیں ملا اور اب ناپید ہو چکا ہے اور ملک کے چاروں صوبوں، سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں میں کہیں ہے اور نہ ہی کسی نے پیدا ہونے دیا کیونکہ اس کے بعد بھی اقتدار کی ہوس کی جنگ جاری ہے اور اپریل 2022 میں سازش کے تحت لائے گئے اور آئینی طور پر پہلی بار ہٹائے گئے وزیر اعظم نے تہیہ کر لیا تھا کہ میں نہیں تو ملک نہیں۔ مجھے ہٹانے سے بہتر تھا کہ ملک پر ایٹم بم گرا دیا ہوتا کہ ان کے کسی مخالف کو اقتدار میں لایا جاتا کیونکہ اقتدار صرف میرا حق تھا۔
اپریل 2022 میں سابق وزیر اعظم نے ملک و قوم میں اتحاد و اتفاق کے پرخچے اڑا دیے۔ قوم کو تقسیم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے اور اب ملک کی سیاست میں دہشت گردی نمایاں ہے جس کا نشانہ اب عسکری اداروں کو بنایا جا رہا ہے اور سیاست میں انتقام، جھوٹ، ملک دشمنی،گالیاں اور ایک دوسرے کی تذلیل باقی رہ گئی ہے۔
سیاسی قوتیں اتحاد و اتفاق کا خواب چکنا چور کر رہی ہیں اور حکومت اب پی ٹی آئی پر پابندی، بانی پی ٹی آئی پر غداری کے مقدمات بنانے کے فیصلے پر مجبورکر دی گئی ہے اور ایسے میں عمران خان نے اپنی ایسی تین شرائط رکھ دی ہیں جن پر عمل ممکن ہی نہیں ہے اور حصول اقتدار اور اقتدار بچانے کی مہم آخری مرحلے پر آگئی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کو ان کے اقتدار کے برعکس قید میں شاہانہ سہولتوں کی فراہمی اور رعایت پہ رعایت حکومت کے گلے پڑ گئی ہے اور یہ سیاسی محاذ آرائی اب اس مقام پر آگئی ہے کہ ہم نہیں تو تم نہیں ملک جائے بھاڑ میں۔ بانی پی ٹی آئیریاستی اداروں سے لڑ بھی رہے ہیں۔ الزام تراشی ان کی مسلسل بڑھ رہی ہے اور وہ ان سے مذاکرات کے ذریعے اقتدار بھی چاہتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی وجہ سے ریاست میں انتشار پیدا ہو رہا ہے جس کی اکثریت نے آئین و قانون کو بالائے طاق رکھ کر جو فیصلہ دیا ہے اسے سیاسی بنا دیا گیا ہے اور حکمران مسلم لیگ نے اپنی نظر ثانی کی درخواست میں کہہ دیا ہے کہ عدلیہ کا کام آئین سازی نہیں آئین کی تشریح کرنا ہے۔ جو پارٹی کیس میں فریق نہیں تھی اسے اضافی نشستیں کیسے دی جاسکتی ہیں۔ آئین میں آزاد ارکان کو 3 دن میں شمولیت کا حق ہے ۔
قوم تو تقسیم تھی ہی اب مزید تقسیم بڑھے گی۔ پی ٹی آئی ریاستی اداروں کو مسلسل نشانہ بنا رہی ہے اور اسے اب اپنے حق میں عدالتی فیصلے بھی مل رہے ہیں اور وہ آپے سے باہر نکلتی جا رہی ہے ایسے میں اگر ملک میں کوئی غیر آئینی اقدام ہوگیا یا حکومت ایمرجنسی لگانے پر مجبور ہوگئی تو ذمے دار کسے گردانا جائے گا۔ پی ٹی آئی اور اس کے پشت پناہوں نے واپسی کا راستہ خود ہی بند کردیا ہے۔ عوام حکومت سے سخت بے زار ہیں ، کسی فیصلے سے پی ٹی آئی کو اقتدار دے بھی دیا جائے تب بھی ملک میں اتحاد و اتفاق پیدا نہیں ہوگا اور اگر غیر آئینی اقدام کی نوبت آ بھی گئی تو پی ٹی آئی پر مزید مشکلات آئیں گی اور بہت سوں کو پھر پی سی او پر حلف اٹھانا پڑ سکتا ہیلہٰذا یہ نوبت نہیں آنی چاہیے۔