تاجروں کا مطالبہ یونیورسٹی میں تحقیق پر پابندی
50 سالہ ڈاکٹر شرافت علی کراچی کے گنجان آباد علاقے گلبہار میں 35 سال سے کلینک چلا رہے تھے۔
50 سالہ ڈاکٹر شرافت علی کراچی کے گنجان آباد علاقے گلبہار میں 35 سال سے کلینک چلا رہے تھے۔ وہ اس علاقے میں غریب مریضوں کے مفت علاج معالجے کے لیے مشہور تھے۔ جمعے کو دو موٹر سائیکل سوا ر ان کے کلینک میں داخل ہوئے اور بندوق سے ڈاکٹر شرافت کو براہِ راست نشانہ بنایا۔ ڈاکٹر شرافت علی شدید زخمی ہوگئے اور حملہ آور اپنا مشن کامیابی سے مکمل کر کے کراچی میں کہیں روپوش ہوگئے۔ ڈاکٹر شرافت کو اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ راستے میں ہی شہید ہوگئے نتیجتاً ایک بیوہ ، ایک بیٹا اور دو بیٹیاں اپنے سرپرست سے محروم ہوگئے۔ علاقے کے لوگ عرصہ دراز تک ایک اچھے ڈاکٹر کو یاد کریں گے۔
لوگوں نے ڈاکٹر شرافت کی نمازِ جنازہ میں بھاری تعداد میںشرکت کر کے مرحوم سے اپنی محبت کا ثبوت دیا۔ کراچی میں اس سال 8ڈاکٹر قتل ہوچکے ہیں ۔2010سے اب تک قتل ہونے والے ڈاکٹروں کی تعداد 37ہوگئی ہے۔ کراچی میں ایک سال میں جتنے ڈاکٹر قتل ہوئے ہیں اتنے ڈاکٹر پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگوں میں بھی ہلاک نہیں ہوئے تھے۔ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عبداﷲ ذکی نے وزیر اعظم کے نام ایک خط میں مطالبہ کیا ہے کہ کراچی میں پولیس اور رینجرز ناکام ہوگئی ہے، اس بناء پر شہر کو فوج کے حوالے کیا جائے۔
روزنامہ ایکسپریس کے رپورٹر احتشام مفتی کی رپورٹ کے مطابق عبداﷲ ذکی نے اپنے اس خط میں دو مطالبات پیش کیے ہیں اور دھمکی دی ہے کہ اگر مطالبات منظور نہ ہوئے تو 15 دن تک احتجاجی لائحہ عمل مرتب کیا جائے گا۔ تاجروں اور صنعت کاروں کے نمایندوں کا کہنا ہے کہ جرائم پیشہ افراد کی آماج گاہوں پر براہِ راست ہاتھ ڈالنے سے گریز کیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موبائل کی پری پیڈ سموں کی فروخت پر پابندی عائد کی جائے۔
خریداروں کے شناختی کارڈ حاصل کیے جائیں اور ان کے پتے پر سم بھیجی جائے۔ اس طرح کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کی تصدیق کے لیے شہر کے مختلف علاقوں میں سروے کیا جائے۔ پھر اندرونِ ملک سے آنے والے افراد کے شناختی کارڈ میں ان کے کراچی اور آبائی علاقے کے پتے درج کیے جائیں اور ان کی تصدیق کی جائے۔ عبداﷲ ذکی کاکہنا ہے کہ اس وقت 7 تاجر اغواء کاروں کی تحویل میں ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان گروہوں کا مکمل خاتمہ نہیں کرپارہے، لہٰذا اس صورتحال میں تاجر اور صنعت کار غیر ممالک میں منتقل ہونے کے منصوبوں کو حتمی شکل دینے پر مجبور ہیں۔
موجودہ حکومت کے برسرِ اقتدار میں آنے کے بعد جب کراچی میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری نہیں ہوئی تو وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر ٹارگیٹڈ آپریشن شروع کیا تھا۔ اس آپریشن کی کمانڈ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے سپرد کی گئی۔ کراچی پولیس اور رینجرز کی مشترکہ کمانڈ کے تحت آپریشن شروع ہوا۔ اس آپریشن کی بناء پر سیاسی وجوہات پر مبنی ٹارگٹ کلنگ تو رک گئیں مگر فرقہ وارانہ جنگ، ڈاکٹروں، وکلاء، اساتذہ اور پولیس افسران وغیرہ کی ٹارگٹ کلنگ میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اسی طرح اغواء برائے تاوان کی وارداتیں بھی جاری رہیں۔
لیاری میں گینگ وار میں شدت آئی مگر پھر وزیر اعظم کی سخت ہدایات کے بعد گینگ وار کے سرکردہ افراد کراچی سے فرار ہوگئے۔ کچھ کے دبئی جانے اور کچھ کی لندن میں موجودگی کی خبریں اخبارات کی زینت بنیں مگر اسٹریٹ کرائم اور بھتے کی وصولی کے لیے دستی بموں کے استعمال میں کوئی فرق نہیں آیا۔ کراچی میں صورتحال اس حد تک خراب ہوئی کہ اس کا اندازہ شہر کے مصروف تجارتی علاقے طارق روڈ سے متصل ایک مصروف ہوٹل پر دستی بم سے حملے میں اس کے کارکنوں کی ہلاکت کے بعد اس ہوٹل کی مسلسل بندش اور پولیس کی ملزمان کی گرفتاری میں مسلسل ناکامی سے لگایا جاسکتا ہے۔
اس آپریشن کے آغاز پر یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پولیس میں میرٹ کی بنیاد پر بھرتیاں کی جائیں گی اور پولیس کے انٹیلی جنس نیٹ ورک کو فعال کیا جائے گا اور پولیس ،انٹیلی جنس بیورو، آئی ایس آئی اور دیگر عسکری ایجنسیوں کے نیٹ ورک کو مربوط کیا جائے گا۔ اس طرح انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں بھی قائم ہونگی اور صوبائی حکومت گواہوں کے تحفظ کا قانون نافذ کرے گی، پھر غیر قانونی اسلحے کی برآمد کے لیے مشترکہ آپریشن ہوگا۔
اس کے ساتھ ہی آپریشن کی نگرانی کے لیے منتخب نمایندوں پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے گی تاکہ آپریشن کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں شکایات کا ازالہ ہوسکے، مگر وفاقی اور صوبائی حکومت نے آپریشن کے اہداف پورے کرنے کے لیے ان فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کیا۔ جب طالبان نے پولیس کے جیالے افسر چوہدری اسلم کو نشانہ بنایا تو یہ قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں، پولیس، رینجرز اور مسلح افواج کے لیے زبردست دھچکا تھا۔ اس وقت آپریشن کی خامیوں کا جائزہ لے کر ایک مربوط آپریشن شروع کردیا جاتا تو صورتحال بہتر ہوجاتی مگر پھر وفاقی اور صوبائی حکومت میں پولیس افسروں کی تقرریوں پر تنازعہ شروع ہوگیا۔
رینجرز حکام نے کراچی پولیس میں ہونے والے تبادلوں پر سخت تحفظات کا اظہار کیا۔ سندھ کی حکومت کراچی میں امن و امان کو اہمیت دینے کے بجائے صوبائی خودمختاری کے سوال کو اہمیت دینے لگی۔ سپریم کورٹ کے جونیئر افسروں کو سینئر عہدوں پر تقرر کے بارے میں ایک فیصلے نے افراتفری مچادی۔ یوں ایسے پولیس افسران تعینات ہوئے جو اس آپریشن کے اہداف پورے کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ مگر اس معاملے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ مسلح افواج کا ذیلی ادارہ سندھ رینجرز بھی صورتحال کو کنٹرول کرنے میں اسی طرح ناکام ہوا جس طرح کراچی پولیس ہوئی تھی۔
اب صورتحال یہ ہے کہ صرف عام شہری ہی نہیں بلکہ پولیس اور رینجرز کے افسراز بھی آئے دن قتل ہورہے ہیں۔ تاجروں کا یہ مطالبہ کہ کراچی کو فوج کے حوالے کرنے سے صورتحال بہتر ہوجائے گی حقائق کے مطابق نہیں۔ فوج کراچی میں 90کی دہائی سے مختلف نوعیت کے آپریشن کرتی رہی ہے مگر محض فوج صورتحال کو بہتر نہیں کرسکتی۔ فوج ملک کی مشرقی سرحدوں پر ایک اہم ترین آپریشن میں مصروف ہے۔ اس کو کراچی میں مصروف کرنے کا مطالبہ آپریشن ضربِ عضب کو کمزور کرنا ہوگا۔ کراچی جیسی صورتحال دنیا کے کئی بڑے شہروں میں تھی۔
ممبئی، نیویارک، لاس اینجلس اور شکاگو وغیرہ اس کی روشن مثالیں ہیں۔ ان شہروں میں سول انتظامیہ نے امن و امان کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دورکیں۔اگر وزیر اعظم نواز شریف ،سابق صدر آصف علی زرداری اور الطاف حسین حقیقی بنیادوں پر کراچی میں امن قائم کرنا چاہتے ہیں تو کراچی میں میرٹ کی بنیاد پر پولیس کا جدید نظام قائم کیا جائے اور ایماندار اور اہل افراد کو ہی اہم عہدوں پر تعینات کیا جائے ۔ پولیس کے ساتھ رینجرز اور فوج کو بھی ایک مربوط حکمتِ عملی تیار کرنی ہوگی، کراچی میں تمام جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف سختی سے آپریشن کیا جائے۔
اس کے ساتھ ہی کراچی کے مضافاتی علاقوں سے طالبان کی کمین گاہیں ختم کی جائیںاور انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کے ججوں، وکلاء اور گواہوں کے تحفظ کے لیے ایک علیحدہ فورس قائم کی جائے۔ اس کے ساتھ ہی پورے ملک میں غیر قانونی اسلحے کی برآمدگی کے لیے آپریشن شروع کیا جائے۔ جب پورے ملک میں غیر قانونی اسلحہ دستیاب نہیں ہوگا تو ملزمان اپنے عزائم کو پورا نہیں کرپائیں گے۔ جرمنی کی حکومت سندھ پولیس کی تربیت اور پولیس سے متعلق قوانین کو بہتر بنانے کے لیے امداد دے رہی ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومت کو ایسے منصوبوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ یہ مناسب وقت ہے کہ اس وقت فو ج شمالی وزیرستان میں ایک مربوط آپریشن کررہی ہے۔ ایسے آپریشن پورے ملک میں ہونے چاہئیں۔ اس کے ساتھ ہی دہشت گردوں کا مالیاتی سپلائی کو روکنے کے لیے سعودی عرب، خلیجی ممالک اور ایران کو تیار کیا جائے۔ اگر حکمراں میرٹ کی بنیاد پر فیصلے کریں گے تو کوئی اور ڈاکٹر شرافت قتل نہیں ہوگا اور پھر عوام دہشت گردوں سے تحفظ حاصل کرنے پر مجبور نہیں ہونگے۔
یونیورسٹیوں کا بنیادی فریضہ تدریس اور تحقیق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اساتذہ کے تقرر اور ترقیوں کے لیے تحقیقی ڈگری ایم ایس اور پی ایچ ڈی لازم کردی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی سرکاری یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور طلبہ کی تحقیقی سرگرمیوں پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔سرکاری یونیورسٹیاں اساتذہ کو تدریس کے ساتھ ساتھ تحقیق کے لیے بھی مختلف نوعیت کی مراعات دیتی ہیں۔ اساتذہ کو تدریس کے ساتھ تحقیق کی بھی مکمل اجازت ہوتی ہے۔
یوں گزشتہ 60 برسوں کے دوران ہزاروں اساتذہ اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے پی ایچ ڈی پروجیکٹ کی تکمیل کرپائے ہیں مگر کراچی کی ایک غیر سرکاری یونیورسٹی جناح یونیورسٹی برائے خواتین کی انتظامیہ نے اساتذہ پر پابندی لگادی ہے کہ وہ تدریس یا تحقیق میں سے صرف ایک کام کرسکتے ہیں۔ یوں اساتذہ کے لیے تحقیق کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ یہ پابندی یونیورسٹیوں کی نگرانی کرنے والے ادارے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہدایت کی بھی خلاف ورزی ہے۔ یونیورسٹی کے حکام کو دوسری یونیورسٹیوں کی روایت کے مطابق اساتذہ کو تدریس کے ساتھ تحقیق کی بھی اجازت دی جائے۔
لوگوں نے ڈاکٹر شرافت کی نمازِ جنازہ میں بھاری تعداد میںشرکت کر کے مرحوم سے اپنی محبت کا ثبوت دیا۔ کراچی میں اس سال 8ڈاکٹر قتل ہوچکے ہیں ۔2010سے اب تک قتل ہونے والے ڈاکٹروں کی تعداد 37ہوگئی ہے۔ کراچی میں ایک سال میں جتنے ڈاکٹر قتل ہوئے ہیں اتنے ڈاکٹر پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگوں میں بھی ہلاک نہیں ہوئے تھے۔ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عبداﷲ ذکی نے وزیر اعظم کے نام ایک خط میں مطالبہ کیا ہے کہ کراچی میں پولیس اور رینجرز ناکام ہوگئی ہے، اس بناء پر شہر کو فوج کے حوالے کیا جائے۔
روزنامہ ایکسپریس کے رپورٹر احتشام مفتی کی رپورٹ کے مطابق عبداﷲ ذکی نے اپنے اس خط میں دو مطالبات پیش کیے ہیں اور دھمکی دی ہے کہ اگر مطالبات منظور نہ ہوئے تو 15 دن تک احتجاجی لائحہ عمل مرتب کیا جائے گا۔ تاجروں اور صنعت کاروں کے نمایندوں کا کہنا ہے کہ جرائم پیشہ افراد کی آماج گاہوں پر براہِ راست ہاتھ ڈالنے سے گریز کیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موبائل کی پری پیڈ سموں کی فروخت پر پابندی عائد کی جائے۔
خریداروں کے شناختی کارڈ حاصل کیے جائیں اور ان کے پتے پر سم بھیجی جائے۔ اس طرح کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کی تصدیق کے لیے شہر کے مختلف علاقوں میں سروے کیا جائے۔ پھر اندرونِ ملک سے آنے والے افراد کے شناختی کارڈ میں ان کے کراچی اور آبائی علاقے کے پتے درج کیے جائیں اور ان کی تصدیق کی جائے۔ عبداﷲ ذکی کاکہنا ہے کہ اس وقت 7 تاجر اغواء کاروں کی تحویل میں ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان گروہوں کا مکمل خاتمہ نہیں کرپارہے، لہٰذا اس صورتحال میں تاجر اور صنعت کار غیر ممالک میں منتقل ہونے کے منصوبوں کو حتمی شکل دینے پر مجبور ہیں۔
موجودہ حکومت کے برسرِ اقتدار میں آنے کے بعد جب کراچی میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری نہیں ہوئی تو وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر ٹارگیٹڈ آپریشن شروع کیا تھا۔ اس آپریشن کی کمانڈ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے سپرد کی گئی۔ کراچی پولیس اور رینجرز کی مشترکہ کمانڈ کے تحت آپریشن شروع ہوا۔ اس آپریشن کی بناء پر سیاسی وجوہات پر مبنی ٹارگٹ کلنگ تو رک گئیں مگر فرقہ وارانہ جنگ، ڈاکٹروں، وکلاء، اساتذہ اور پولیس افسران وغیرہ کی ٹارگٹ کلنگ میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اسی طرح اغواء برائے تاوان کی وارداتیں بھی جاری رہیں۔
لیاری میں گینگ وار میں شدت آئی مگر پھر وزیر اعظم کی سخت ہدایات کے بعد گینگ وار کے سرکردہ افراد کراچی سے فرار ہوگئے۔ کچھ کے دبئی جانے اور کچھ کی لندن میں موجودگی کی خبریں اخبارات کی زینت بنیں مگر اسٹریٹ کرائم اور بھتے کی وصولی کے لیے دستی بموں کے استعمال میں کوئی فرق نہیں آیا۔ کراچی میں صورتحال اس حد تک خراب ہوئی کہ اس کا اندازہ شہر کے مصروف تجارتی علاقے طارق روڈ سے متصل ایک مصروف ہوٹل پر دستی بم سے حملے میں اس کے کارکنوں کی ہلاکت کے بعد اس ہوٹل کی مسلسل بندش اور پولیس کی ملزمان کی گرفتاری میں مسلسل ناکامی سے لگایا جاسکتا ہے۔
اس آپریشن کے آغاز پر یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پولیس میں میرٹ کی بنیاد پر بھرتیاں کی جائیں گی اور پولیس کے انٹیلی جنس نیٹ ورک کو فعال کیا جائے گا اور پولیس ،انٹیلی جنس بیورو، آئی ایس آئی اور دیگر عسکری ایجنسیوں کے نیٹ ورک کو مربوط کیا جائے گا۔ اس طرح انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں بھی قائم ہونگی اور صوبائی حکومت گواہوں کے تحفظ کا قانون نافذ کرے گی، پھر غیر قانونی اسلحے کی برآمد کے لیے مشترکہ آپریشن ہوگا۔
اس کے ساتھ ہی آپریشن کی نگرانی کے لیے منتخب نمایندوں پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے گی تاکہ آپریشن کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں شکایات کا ازالہ ہوسکے، مگر وفاقی اور صوبائی حکومت نے آپریشن کے اہداف پورے کرنے کے لیے ان فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کیا۔ جب طالبان نے پولیس کے جیالے افسر چوہدری اسلم کو نشانہ بنایا تو یہ قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں، پولیس، رینجرز اور مسلح افواج کے لیے زبردست دھچکا تھا۔ اس وقت آپریشن کی خامیوں کا جائزہ لے کر ایک مربوط آپریشن شروع کردیا جاتا تو صورتحال بہتر ہوجاتی مگر پھر وفاقی اور صوبائی حکومت میں پولیس افسروں کی تقرریوں پر تنازعہ شروع ہوگیا۔
رینجرز حکام نے کراچی پولیس میں ہونے والے تبادلوں پر سخت تحفظات کا اظہار کیا۔ سندھ کی حکومت کراچی میں امن و امان کو اہمیت دینے کے بجائے صوبائی خودمختاری کے سوال کو اہمیت دینے لگی۔ سپریم کورٹ کے جونیئر افسروں کو سینئر عہدوں پر تقرر کے بارے میں ایک فیصلے نے افراتفری مچادی۔ یوں ایسے پولیس افسران تعینات ہوئے جو اس آپریشن کے اہداف پورے کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ مگر اس معاملے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ مسلح افواج کا ذیلی ادارہ سندھ رینجرز بھی صورتحال کو کنٹرول کرنے میں اسی طرح ناکام ہوا جس طرح کراچی پولیس ہوئی تھی۔
اب صورتحال یہ ہے کہ صرف عام شہری ہی نہیں بلکہ پولیس اور رینجرز کے افسراز بھی آئے دن قتل ہورہے ہیں۔ تاجروں کا یہ مطالبہ کہ کراچی کو فوج کے حوالے کرنے سے صورتحال بہتر ہوجائے گی حقائق کے مطابق نہیں۔ فوج کراچی میں 90کی دہائی سے مختلف نوعیت کے آپریشن کرتی رہی ہے مگر محض فوج صورتحال کو بہتر نہیں کرسکتی۔ فوج ملک کی مشرقی سرحدوں پر ایک اہم ترین آپریشن میں مصروف ہے۔ اس کو کراچی میں مصروف کرنے کا مطالبہ آپریشن ضربِ عضب کو کمزور کرنا ہوگا۔ کراچی جیسی صورتحال دنیا کے کئی بڑے شہروں میں تھی۔
ممبئی، نیویارک، لاس اینجلس اور شکاگو وغیرہ اس کی روشن مثالیں ہیں۔ ان شہروں میں سول انتظامیہ نے امن و امان کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دورکیں۔اگر وزیر اعظم نواز شریف ،سابق صدر آصف علی زرداری اور الطاف حسین حقیقی بنیادوں پر کراچی میں امن قائم کرنا چاہتے ہیں تو کراچی میں میرٹ کی بنیاد پر پولیس کا جدید نظام قائم کیا جائے اور ایماندار اور اہل افراد کو ہی اہم عہدوں پر تعینات کیا جائے ۔ پولیس کے ساتھ رینجرز اور فوج کو بھی ایک مربوط حکمتِ عملی تیار کرنی ہوگی، کراچی میں تمام جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف سختی سے آپریشن کیا جائے۔
اس کے ساتھ ہی کراچی کے مضافاتی علاقوں سے طالبان کی کمین گاہیں ختم کی جائیںاور انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کے ججوں، وکلاء اور گواہوں کے تحفظ کے لیے ایک علیحدہ فورس قائم کی جائے۔ اس کے ساتھ ہی پورے ملک میں غیر قانونی اسلحے کی برآمدگی کے لیے آپریشن شروع کیا جائے۔ جب پورے ملک میں غیر قانونی اسلحہ دستیاب نہیں ہوگا تو ملزمان اپنے عزائم کو پورا نہیں کرپائیں گے۔ جرمنی کی حکومت سندھ پولیس کی تربیت اور پولیس سے متعلق قوانین کو بہتر بنانے کے لیے امداد دے رہی ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومت کو ایسے منصوبوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ یہ مناسب وقت ہے کہ اس وقت فو ج شمالی وزیرستان میں ایک مربوط آپریشن کررہی ہے۔ ایسے آپریشن پورے ملک میں ہونے چاہئیں۔ اس کے ساتھ ہی دہشت گردوں کا مالیاتی سپلائی کو روکنے کے لیے سعودی عرب، خلیجی ممالک اور ایران کو تیار کیا جائے۔ اگر حکمراں میرٹ کی بنیاد پر فیصلے کریں گے تو کوئی اور ڈاکٹر شرافت قتل نہیں ہوگا اور پھر عوام دہشت گردوں سے تحفظ حاصل کرنے پر مجبور نہیں ہونگے۔
یونیورسٹیوں کا بنیادی فریضہ تدریس اور تحقیق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اساتذہ کے تقرر اور ترقیوں کے لیے تحقیقی ڈگری ایم ایس اور پی ایچ ڈی لازم کردی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی سرکاری یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور طلبہ کی تحقیقی سرگرمیوں پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔سرکاری یونیورسٹیاں اساتذہ کو تدریس کے ساتھ ساتھ تحقیق کے لیے بھی مختلف نوعیت کی مراعات دیتی ہیں۔ اساتذہ کو تدریس کے ساتھ تحقیق کی بھی مکمل اجازت ہوتی ہے۔
یوں گزشتہ 60 برسوں کے دوران ہزاروں اساتذہ اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے پی ایچ ڈی پروجیکٹ کی تکمیل کرپائے ہیں مگر کراچی کی ایک غیر سرکاری یونیورسٹی جناح یونیورسٹی برائے خواتین کی انتظامیہ نے اساتذہ پر پابندی لگادی ہے کہ وہ تدریس یا تحقیق میں سے صرف ایک کام کرسکتے ہیں۔ یوں اساتذہ کے لیے تحقیق کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ یہ پابندی یونیورسٹیوں کی نگرانی کرنے والے ادارے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہدایت کی بھی خلاف ورزی ہے۔ یونیورسٹی کے حکام کو دوسری یونیورسٹیوں کی روایت کے مطابق اساتذہ کو تدریس کے ساتھ تحقیق کی بھی اجازت دی جائے۔