مبارک ہو
’’مبارک ہو، مبارک ہو!‘‘ بلند آواز میں ادا کیے گئے یہ شبد میں نے تقریباً دو سال قبل اسلام آباد سنے تھے۔
''مبارک ہو، مبارک ہو!'' بلند آواز میں ادا کیے گئے یہ شبد میں نے تقریباً دو سال قبل اسلام آباد سنے تھے۔ یہ نعرہ تحریک منہاج القرآن کے سربراہ علامہ طاہر القادری نے لگایا تھا۔ ایک ایسے دھرنے کے دوران جو انھوں نے پیپلز پارٹی کی حکومت میں نظام حکومت کے خلاف پاکستان بھر سے جمع ہوئے اپنے معتقدین کے ذریعے اسلام آباد میں دیا۔ وہ سردیوں کے دن تھے اور حیران کن بات یہ رہی کہ دھرنے میں شامل ہزارہا افراد جن میں خواتین، بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے بہت منظم ہو کر اپنی جگہ پر براجمان رہے۔ اگرچہ اجتماع پر امن تھا لیکن اس کا نتیجہ کیا برآمد ہوا اس سے اب سبھی لوگ واقف ہیں۔ اور آج پھر ہر سمت علامہ ہی علامہ نظر آتے ہیں گویا:
جدھر دیکھوں تری تصویر نظر آتی ہے
آج اگر کوئی خبر سب سے زیادہ اہم ہے تو ڈاکٹر طاہر القادری کی، کبھی وہ کینیڈا میں ہیں تو کبھی برطانیہ میں۔ کبھی زمین پر طاغوتی طاقتوں سے برسر پیکار ہیں تو کبھی فضا میں گرج برس رہے ہیں۔ آواز بھی انھی کی آواز ہے۔ مضبوط و توانا، جاندار لب و لہجہ، الفاظ پر مکمل گرفت لیکن جہاں پر خیال کی بات ہو تو۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ:
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آئینہ مرا عکس ہے' پس آئینہ کوئی اور ہے
بہرحال تسلیم کرنا پڑے گا کہ احتجاج جمہوریت کے لیے ایسی دوا ہے جو اسے ہر بیماری میں شفاء دیتی ہے۔ خواہ وہ بیماری انداز بادشاہانہ ہو، یا انداز جابرانہ۔ لیکن احتجاج ہی اسے جمہوریت کی پٹڑی پر دوبارہ گامزن کرتا ہے۔ تو اس نقطہ نظر سے علامہ صاحب کے نظام پر اعتراضات، تحفظات غلط نہیں ہیں۔ ان سے اختلاف دراصل اس امر پر ممکن ہے کہ ان کے دونوں دھرنے مخصوص ایام کے دوران ہی کیوں دیے گئے یا دیے جا رہے ہیں جب حکومت اور عسکری قیادت کے درمیان تنازعے کی سی کیفیت موجود ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا پہلا دھرنا ٹھیک ان دنوں میں دیا گیا جب PPP کی حکومت پر Memogate لکھوانے کا الزام عائد تھا اور عدالت عالیہ اس کیس کو سن رہی تھی جب کہ موجودہ دھرنے کے آغاز پر بھی فضا کدورتوں سے بھری ہوئی ہے۔ تبھی یہ احساس ہوتا ہے کہ جن جمہوری قدروں کی بحالی کا وہ مطالبہ کر رہے ہیں یا جس نظام انتخاب کو ملک میں یکسر تبدیل کرنے پر ان کا اصرار ہے وہ بھی اگر اپنی مکمل شکل و صورت کے ساتھ ملک میں نافذ ہو جائے اور گویا جمہوریت اپنی تکمیل کی آخری حد کو بھی چھو لے۔ تب بھی اداروں کا تصادم کہاں ختم ہو گا۔ کیونکہ جو اختلاف آج ہے وہ بھی جیسی تیسی جمہوری حکومت سے ہی تو ہے۔
اور پھر یہ خیال بھی فزوں تر ہے کہ دھرنے یا مظاہرے کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہے۔ یا ایسا نام نہاد انقلاب جس کا دعویٰ شدت کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ (نپولین بوناپارٹ) کا کہنا ہے کہ:
''میں ایسی بھیڑ سے خوفزدہ نہیں جو 100 شیروں کی قیادت کر رہی ہو۔ میں اس شیر سے ڈرتا ہوں جس کے پیچھے 100 بھیڑیں ہوں۔''
تاریخ کے تمام انقلابات میں داعی انقلاب ہمیشہ اپنی عوام کی صف اول میں شامل رہے۔ گولی کھائی تو انھوں نے، جیلیں کاٹیں تو انھوں نے، بچے مارے گئے تو ان کے، بدترین تشدد کیا گیا تو ان پر۔ ان میں سے کسی نے اپنی سیکیورٹی حکومت وقت سے طلب کی تھی؟ گویا حفاظت بھی وہ کرے جس سے گلے شکوے ہیں۔ نگہداشت کی درخواست بھی اس سے جس کی حکومت آپ گرانے نکلے ہیں، میری نظر میں یہ سب کچھ مضحکہ خیز سا ہے۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں اور قریب قریب یہ واضح بھی ہو چکا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے دھرنے، عمران خان کے جلسے، انتخابی اصلاحات کے تمام مطالبے محض اور محض ایک ایسا ایجنڈا ہے جو نہ تو نیا ہے نہ پرانا۔
یہ مطالبات یہ ریلیاں اپنے وجود میں درپردہ ایک انتباہ ہے کہ ''حکومت کی تمام ذمے داریاں صرف آپ نہیں سنبھالیں گے۔ کچھ معاملات ہم بھی دیکھیں گے۔'' اور میری ناقص رائے میں اگر ہمارے سیاسی راہنما بشمول موجودہ حکومت اس انتباہ کو سنجیدگی سے لیں تو یہ کم از کم (Democracy) کے لیے بہتر ہو گا۔ آپ پہلے جمہوریت کو ملک میں مستقل نظام کی حیثیت سے مضبوط اور توانا ہونے دیں۔ جس کی وطن عزیز اور پوری قوم کو اشد ضرورت ہے۔
سردست مل جل کر حکومت چلا لیں۔ اور جو معاملات ملک بننے کے بعد سے عسکری قیادت کے سپرد رہے ہیں وہ انھی کو دیکھنے دیں، طے کرنے دیں۔ باقی آپ ادا کریں۔ سردست اس جانب دیکھنے سے بھی احتراز کرنے کی ضرورت ہے کہ ذمے داریوں کی تقسیم کے دوران اہم معاملات کس کے سپرد ہوئے اور تعداد میں کون آگے پیچھے رہا؟ کیونکہ اس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ رسہ کشی کی صورت میں ملک کسی ایک نظام کے فروغ سے پھر محروم رہ جائے گا۔ مثلاً اگر انڈیا سے تعلقات کی فوری بحالی پر یا وقت کے تعین پر کوئی ناخوش ہے تو بحیثیت قوم ہمیں بھی کوئی جلدی نہیں۔ نہ ہی سردست یہ ہمارا مسئلہ ہے۔ جس کے لیے ہم نے آپ کا انتخاب کیا تھا۔ ہمارے مسائل تو دیگر ہیں بھائی انھیں حل کریں۔ ملک میں جاری بدامنی، دہشت گردی، مہنگائی، تیزی سے بڑی ہوئی عصبیت کے خاتمے پر توجہ دیں۔
اور خدارا ترقیاتی کام تمام صوبوں میں یکساں طور پر کروائیں۔ موجودہ حکومت کے وزراء، اکابرین اپنے رویوں پر نظرثانی کرتے ہوئے اسے بہتر کریں۔ اگر کوئی فرد یا افراد، میڈیا کا کوئی ادارہ، کوئی سیاسی یا مذہبی راہنما آپ کی حکومتی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے اور طریقہ کار سے اختلاف کرتا ہے تو وہ آپ کا دشمن نہیں ہے بلکہ اس کی تنقید آپ کے لیے وہ آئینہ ہے جس میں آپ اپنی کارکردگی کا عکس صاف اور شفاف طور پر دیکھ سکتے ہیں اور اس میں بہتری لا سکتے ہیں۔ آپ کے دشمن تو وہ مقلد ہیں جو ہمہ وقت آپ کی خوشامد میں مصروف ہیں۔ ان کی اندھی تقلید آپ کے درست سمت کا تعین کرنے میں کبھی مددگار ثابت نہیں ہو گی۔
لگتا ہے آنے والے دن جانے والے دنوں سے زیادہ ہنگامہ خیز ثابت ہوں گے اور اس بار مون سون گرجتے، چمکتے ہوئے بادلوں کے ساتھ، طوفانی ہواؤں کے ساتھ آنے والا ہے۔ رب ذوالجلال ہم سب کی اور پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ (آمین!)
جدھر دیکھوں تری تصویر نظر آتی ہے
آج اگر کوئی خبر سب سے زیادہ اہم ہے تو ڈاکٹر طاہر القادری کی، کبھی وہ کینیڈا میں ہیں تو کبھی برطانیہ میں۔ کبھی زمین پر طاغوتی طاقتوں سے برسر پیکار ہیں تو کبھی فضا میں گرج برس رہے ہیں۔ آواز بھی انھی کی آواز ہے۔ مضبوط و توانا، جاندار لب و لہجہ، الفاظ پر مکمل گرفت لیکن جہاں پر خیال کی بات ہو تو۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ:
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آئینہ مرا عکس ہے' پس آئینہ کوئی اور ہے
بہرحال تسلیم کرنا پڑے گا کہ احتجاج جمہوریت کے لیے ایسی دوا ہے جو اسے ہر بیماری میں شفاء دیتی ہے۔ خواہ وہ بیماری انداز بادشاہانہ ہو، یا انداز جابرانہ۔ لیکن احتجاج ہی اسے جمہوریت کی پٹڑی پر دوبارہ گامزن کرتا ہے۔ تو اس نقطہ نظر سے علامہ صاحب کے نظام پر اعتراضات، تحفظات غلط نہیں ہیں۔ ان سے اختلاف دراصل اس امر پر ممکن ہے کہ ان کے دونوں دھرنے مخصوص ایام کے دوران ہی کیوں دیے گئے یا دیے جا رہے ہیں جب حکومت اور عسکری قیادت کے درمیان تنازعے کی سی کیفیت موجود ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا پہلا دھرنا ٹھیک ان دنوں میں دیا گیا جب PPP کی حکومت پر Memogate لکھوانے کا الزام عائد تھا اور عدالت عالیہ اس کیس کو سن رہی تھی جب کہ موجودہ دھرنے کے آغاز پر بھی فضا کدورتوں سے بھری ہوئی ہے۔ تبھی یہ احساس ہوتا ہے کہ جن جمہوری قدروں کی بحالی کا وہ مطالبہ کر رہے ہیں یا جس نظام انتخاب کو ملک میں یکسر تبدیل کرنے پر ان کا اصرار ہے وہ بھی اگر اپنی مکمل شکل و صورت کے ساتھ ملک میں نافذ ہو جائے اور گویا جمہوریت اپنی تکمیل کی آخری حد کو بھی چھو لے۔ تب بھی اداروں کا تصادم کہاں ختم ہو گا۔ کیونکہ جو اختلاف آج ہے وہ بھی جیسی تیسی جمہوری حکومت سے ہی تو ہے۔
اور پھر یہ خیال بھی فزوں تر ہے کہ دھرنے یا مظاہرے کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہے۔ یا ایسا نام نہاد انقلاب جس کا دعویٰ شدت کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ (نپولین بوناپارٹ) کا کہنا ہے کہ:
''میں ایسی بھیڑ سے خوفزدہ نہیں جو 100 شیروں کی قیادت کر رہی ہو۔ میں اس شیر سے ڈرتا ہوں جس کے پیچھے 100 بھیڑیں ہوں۔''
تاریخ کے تمام انقلابات میں داعی انقلاب ہمیشہ اپنی عوام کی صف اول میں شامل رہے۔ گولی کھائی تو انھوں نے، جیلیں کاٹیں تو انھوں نے، بچے مارے گئے تو ان کے، بدترین تشدد کیا گیا تو ان پر۔ ان میں سے کسی نے اپنی سیکیورٹی حکومت وقت سے طلب کی تھی؟ گویا حفاظت بھی وہ کرے جس سے گلے شکوے ہیں۔ نگہداشت کی درخواست بھی اس سے جس کی حکومت آپ گرانے نکلے ہیں، میری نظر میں یہ سب کچھ مضحکہ خیز سا ہے۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں اور قریب قریب یہ واضح بھی ہو چکا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے دھرنے، عمران خان کے جلسے، انتخابی اصلاحات کے تمام مطالبے محض اور محض ایک ایسا ایجنڈا ہے جو نہ تو نیا ہے نہ پرانا۔
یہ مطالبات یہ ریلیاں اپنے وجود میں درپردہ ایک انتباہ ہے کہ ''حکومت کی تمام ذمے داریاں صرف آپ نہیں سنبھالیں گے۔ کچھ معاملات ہم بھی دیکھیں گے۔'' اور میری ناقص رائے میں اگر ہمارے سیاسی راہنما بشمول موجودہ حکومت اس انتباہ کو سنجیدگی سے لیں تو یہ کم از کم (Democracy) کے لیے بہتر ہو گا۔ آپ پہلے جمہوریت کو ملک میں مستقل نظام کی حیثیت سے مضبوط اور توانا ہونے دیں۔ جس کی وطن عزیز اور پوری قوم کو اشد ضرورت ہے۔
سردست مل جل کر حکومت چلا لیں۔ اور جو معاملات ملک بننے کے بعد سے عسکری قیادت کے سپرد رہے ہیں وہ انھی کو دیکھنے دیں، طے کرنے دیں۔ باقی آپ ادا کریں۔ سردست اس جانب دیکھنے سے بھی احتراز کرنے کی ضرورت ہے کہ ذمے داریوں کی تقسیم کے دوران اہم معاملات کس کے سپرد ہوئے اور تعداد میں کون آگے پیچھے رہا؟ کیونکہ اس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ رسہ کشی کی صورت میں ملک کسی ایک نظام کے فروغ سے پھر محروم رہ جائے گا۔ مثلاً اگر انڈیا سے تعلقات کی فوری بحالی پر یا وقت کے تعین پر کوئی ناخوش ہے تو بحیثیت قوم ہمیں بھی کوئی جلدی نہیں۔ نہ ہی سردست یہ ہمارا مسئلہ ہے۔ جس کے لیے ہم نے آپ کا انتخاب کیا تھا۔ ہمارے مسائل تو دیگر ہیں بھائی انھیں حل کریں۔ ملک میں جاری بدامنی، دہشت گردی، مہنگائی، تیزی سے بڑی ہوئی عصبیت کے خاتمے پر توجہ دیں۔
اور خدارا ترقیاتی کام تمام صوبوں میں یکساں طور پر کروائیں۔ موجودہ حکومت کے وزراء، اکابرین اپنے رویوں پر نظرثانی کرتے ہوئے اسے بہتر کریں۔ اگر کوئی فرد یا افراد، میڈیا کا کوئی ادارہ، کوئی سیاسی یا مذہبی راہنما آپ کی حکومتی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے اور طریقہ کار سے اختلاف کرتا ہے تو وہ آپ کا دشمن نہیں ہے بلکہ اس کی تنقید آپ کے لیے وہ آئینہ ہے جس میں آپ اپنی کارکردگی کا عکس صاف اور شفاف طور پر دیکھ سکتے ہیں اور اس میں بہتری لا سکتے ہیں۔ آپ کے دشمن تو وہ مقلد ہیں جو ہمہ وقت آپ کی خوشامد میں مصروف ہیں۔ ان کی اندھی تقلید آپ کے درست سمت کا تعین کرنے میں کبھی مددگار ثابت نہیں ہو گی۔
لگتا ہے آنے والے دن جانے والے دنوں سے زیادہ ہنگامہ خیز ثابت ہوں گے اور اس بار مون سون گرجتے، چمکتے ہوئے بادلوں کے ساتھ، طوفانی ہواؤں کے ساتھ آنے والا ہے۔ رب ذوالجلال ہم سب کی اور پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ (آمین!)