آسمانِ سیاست پر حمایت اور یک جہتی کے رنگ
’ضربِ عصب‘ کی کام یابی کے لیے دعائیں، شہر میں فوج تعینات کرنے کا مطالبہ
ISLAMABAD:
مقامی سیاست میں حکومت مخالف سرگرمیوں اور احتجاج کا زور ٹوٹ گیا ہے۔
سیاسی جماعتیں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی حمایت اور افواجِ پاکستان سے یک جہتی کا اظہار کرتی نظر آرہی ہیں۔ سانحۂ لاہور کے بعد سیاسی درجۂ حرارت میں اضافہ اور پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے بڑے عوامی اجتماع کے انعقاد اور مارچ کے اعلانات کی گونج بھی میدانِ سیاست میں سنائی دے رہی ہے، لیکن پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور دیگر جماعتیں اپنے جلسوں میں کہہ چکی ہیں کہ کسی صورت جمہوری نظام کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا جائے گا۔
دوسری طرف تاجر برادری نے شہر کو فوج کے سپرد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ گذشتہ ہفتے متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ ایم کیوایم چھے جولائی کو افواج پاکستان سے اظہارِ یک جہتی کے لیے جلسۂ عام منعقدکرے گی۔ کراچی میں مزار قائد سے متصل جناح پارک میں جلسے کے لیے تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔
گذشتہ دنوں پریس کانفرنس میں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہاکہ پاکستان اپنے قیام کے بعد سے ملکی و غیرملکی خطرات اور چینلجز سے نبرد آزما رہا ہے، لیکن اب دہشت گردی کی شکل میں پاکستان کو جس قسم کا خطرہ درپیش ہے، اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ ان کے ساتھ ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے ارکان سید امین الحق اور احمد سلیم صدیقی بھی موجود تھے۔ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم پاکستان میں دہشت گردی کی مسلسل نشان دہی کرتے رہے ہیں، یہ ہماری بدنصیبی رہی کہ پچھلی حکومتوں کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں یہ مسئلہ سنگین ہو گیا اور آج ہماری نسلوںکو یہ فصل کاٹنی پڑ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور ہماری عبادت گاہیں، بزرگان دین کے مزارت، اسکولز اور سیکوریٹی فورسز سمیت معصوم شہری اور کوئی قومی ادارہ محفوظ نہیں رہا۔ ایسے حالات میں بارہا کہا گیا دہشت گردوں کا قلع قمع ہونا چاہیے لیکن سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں شامل بعض عناصر نے اس کی مخالفت کی اور دہشت گردوں کی حمایت کی گئی۔ جب حکومت وقت کے پاس کوئی اور راستہ نہ رہا تو وہ پاک فوج کے ذریعے دہشت گردوں کو مٹانے پر مجبور ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری افواج دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی بقا کی جنگ لڑرہی ہے، ان حالات میں بعض عناصر نے اس طرف سے نظریں ہٹانے اور اس آپریشن کو کم زور کرنے کے لیے ماڈل ٹاؤن جیسے افسوس ناک واقعات رونما کیے۔
ایم کیو ایم اپنا قومی فریضہ اور ذمہ داری سمجھتی ہے کہ اس وقت پاک افواج کی حوصلہ افزائی کی جائے اور انہیں یقین دلایا جائے کہ قوم ان کے ساتھ ہے، کیوں کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ ہمارے مطالبے پرکیاگیا ہے۔ اس سلسلے میں پاک افواج سے اظہار یک جہتی کے لیے عوامی اجتماع منعقدکیا جارہا ہے، ہم افواج کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پوری قوم ان کے ساتھ ہے، یہ جنگ بقا اور سلامتی کی جنگ ہے، لہٰذاہم اپنی قومی ذمہ داری نبھانے کے لیے جلسۂ عام کا انعقاد کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ الطا ف حسین کہہ چکے ہیں کہ فوج کو جوانوں کی ضرورت ہے، تو ایم کیو ایم کے تین لاکھ سے زائد کارکنان اس کے شانہ بشانہ اس جنگ میں شامل ہوں گے۔ بعد ازاں ڈاکٹرخالد مقبول صدیقی نے صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس جلسے میں شرکت کی دعوت دی جارہی ہے اور اس سلسلے میں ہمارے مختلف وفود سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں سے رابطے میں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چھے جولائی کو ثابت ہو جائے گا کہ پوری قوم دہشت گردوں کے خلاف ہے۔
کراچی میں بدامنی، ٹارگیٹ کلنگ کے خلاف حکومت کے اقدامات اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی سے مایوس تاجر برادری نے شہر میں فوج تعینات کرنے کی بات کی ہے۔ پچھلے دنوں کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر عبداللہ ذکی نے شہر کو حساس قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ عبداللہ ذکی نے اسلام آباد اور کراچی کے چند حساس علاقوں میں فوج تعینات کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے حکومت پر واضح کیا کہ مجموعی طور پر پورے کراچی میں امن وامان کی صورت حال ابتر ہے اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت پورے شہر میں فوج تعینات کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ مخصوص علاقوں میں آرمی آپریشن کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوں گے اور کراچی میں مستقل بنیادوں پر امن کی بحالی کے لیے فوج کو پورے شہر میں تعینات ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ مسلح افواج نے ہر مشکل وقت میں مثبت کردار ادا کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ عوام اور تاجر برادری فوج پر مکمل اعتماد کرتی ہے۔ کراچی میں رینجرز اور پولیس کے آپریشن سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے بلکہ صورت حال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ عبداللہ ذکی نے کہا کہ رینجرزکے محدود اختیارات اور پولیس میں سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے یہ ادارے قیام امن میں مؤثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، شہر میں امن صرف سخت اقدامات کے ذریعے ہی لایا جاسکتا ہے، اور یہ صلاحیت پاک فوج ہی رکھتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی غیر محفوظ رہا تو سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے حکومت کے تمام اقدامات برباد ہوجائیں گے۔ اسٹریٹ کرائمز، اغوا برائے تاوان، بھتا خوری اور ٹارگیٹ کلنگ کے واقعات میں تیزی آگئی ہے، لیکن قانون ان سے نمٹنے میں بے بس نظر آرہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ شہر ملکی معیشت میں بڑا حصہ دیتا ہے، لہٰذا اسی لحاظ سے کراچی کو اہمیت دی جائے۔
گذشتہ دنوں پاکستان سُنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری کی اپیل پر دہشت گروں کے خلاف پاک فوج کے آپریشن 'ضربِ عضب' کی کام یابی کے لیے یوم دعا منایا گیا۔ جمعے کے اجتماعات میں آپریشن کی کامیابی اور ملکی سلامتی کے لیے خصوصی دعائیں مانگی گئیں۔ مرکز اہل سنّت پر دعائیہ تقریب سے خطاب میں ثروت اعجاز قادری نے کہا کہ دہشت گردوں کی خلاف لڑنے والے سپاہی قوم کی اُمیدوں کا مرکز ہیں۔ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپریشن جاری رکھا جائے۔ موجودہ حالات میں کوئی نیا محاذ کھولنا ملک دشمنی کے مترادف ہوگا اور سیاست چمکانے والے ہوش کے ناخن لیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت، افواج پاکستان سے یک جہتی کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلانے میں تاخیر نہ کرے۔
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی (سندھ) کے جنرل سیکریٹری اور سینیٹر تاج حیدر نے کہا ہے کہ انتہا پسندی اور پاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ انہوں نے ہفتے کے روز پیپلز سیکریٹریٹ میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں ملک میں مذہبی انتہا پسندی کی بنیاد رکھی گئی اور آج کے حالات اسی انتہا پسندانہ سوچ کا نتیجہ ہیں۔
پچھلے دنوں شہید بے نظیر بھٹو کے 61ویں یوم پیدائش پیپلز پارٹی کے راہ نماؤں اور کارکنوں نے خون کے عطیات دیے اور اعلان کیا گیا کہ یہ خون کے عطیات دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے دوران زخمی ہونے والے فوجی جوانوں کے لیے ہیں۔
تاج حیدر نے پورے سندھ میں خون کے عطیات جمع کرنے سے متعلق بہترین انتظامات کرنے پر پیپلز ڈاکٹر فورم کے مرکزی صدر سینیٹر کریم خواجہ کو مبارک باد دی۔ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی (کراچی ڈویژن) کے عہدے داروں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی قربانیوں کی وجہ سے اس ملک میں جمہوریت قائم و دائم ہے، جمہوری اداروں کے قیام کی سزا ہمارے راہ نماؤں اور کارکنوں کو قتل کر کے دی جارہی ہے، لیکن ہم جمہوری جدوجہد شہید بے نظیر بھٹو کے ویژن کے مطابق جاری رکھیں گے اور اگر مزید قربانیاں دینا پڑیں تو وطن پر قربان ہوجائیں گے۔
پچھلے دنوں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) کے مرکزی چیئرمین زاہد بلوچ کی بازیابی کے لیے ریلی نکالی گئی۔ ریلی کے شرکا نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے، جن پر زاہد بلوچ کی بازیابی کے نعرے درج تھے۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے بی ایس او کی وائس چیئرمین کریمہ بلوچ نے کہا کہ چیئرمین زاہد بلوچ کو تین ماہ قبل کوئٹہ سے حراست میں لیا گیا تھا اور اب تک انہیں منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے، ہم مسلسل احتجاج کررہے ہیں، لیکن حکومتی سطح پر اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے خلاف لطیف جوہر بلوچ نے 46 روز تک کراچی پریس کلب کے باہر بھوک ہڑتال کی، انسانی حقوق کی تنظیموں نے یقین دہانی کرائی کہ اس مسئلے پر آواز اٹھائیں گی جس کے بعد بھوک ہڑتال ختم کر دی، لیکن یہ معاملہ اب تک حل نہیں ہوسکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہ ہمارا مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا تو بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔
مقامی سیاست میں حکومت مخالف سرگرمیوں اور احتجاج کا زور ٹوٹ گیا ہے۔
سیاسی جماعتیں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی حمایت اور افواجِ پاکستان سے یک جہتی کا اظہار کرتی نظر آرہی ہیں۔ سانحۂ لاہور کے بعد سیاسی درجۂ حرارت میں اضافہ اور پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے بڑے عوامی اجتماع کے انعقاد اور مارچ کے اعلانات کی گونج بھی میدانِ سیاست میں سنائی دے رہی ہے، لیکن پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور دیگر جماعتیں اپنے جلسوں میں کہہ چکی ہیں کہ کسی صورت جمہوری نظام کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا جائے گا۔
دوسری طرف تاجر برادری نے شہر کو فوج کے سپرد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ گذشتہ ہفتے متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ ایم کیوایم چھے جولائی کو افواج پاکستان سے اظہارِ یک جہتی کے لیے جلسۂ عام منعقدکرے گی۔ کراچی میں مزار قائد سے متصل جناح پارک میں جلسے کے لیے تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔
گذشتہ دنوں پریس کانفرنس میں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہاکہ پاکستان اپنے قیام کے بعد سے ملکی و غیرملکی خطرات اور چینلجز سے نبرد آزما رہا ہے، لیکن اب دہشت گردی کی شکل میں پاکستان کو جس قسم کا خطرہ درپیش ہے، اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ ان کے ساتھ ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے ارکان سید امین الحق اور احمد سلیم صدیقی بھی موجود تھے۔ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم پاکستان میں دہشت گردی کی مسلسل نشان دہی کرتے رہے ہیں، یہ ہماری بدنصیبی رہی کہ پچھلی حکومتوں کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں یہ مسئلہ سنگین ہو گیا اور آج ہماری نسلوںکو یہ فصل کاٹنی پڑ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور ہماری عبادت گاہیں، بزرگان دین کے مزارت، اسکولز اور سیکوریٹی فورسز سمیت معصوم شہری اور کوئی قومی ادارہ محفوظ نہیں رہا۔ ایسے حالات میں بارہا کہا گیا دہشت گردوں کا قلع قمع ہونا چاہیے لیکن سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں شامل بعض عناصر نے اس کی مخالفت کی اور دہشت گردوں کی حمایت کی گئی۔ جب حکومت وقت کے پاس کوئی اور راستہ نہ رہا تو وہ پاک فوج کے ذریعے دہشت گردوں کو مٹانے پر مجبور ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری افواج دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی بقا کی جنگ لڑرہی ہے، ان حالات میں بعض عناصر نے اس طرف سے نظریں ہٹانے اور اس آپریشن کو کم زور کرنے کے لیے ماڈل ٹاؤن جیسے افسوس ناک واقعات رونما کیے۔
ایم کیو ایم اپنا قومی فریضہ اور ذمہ داری سمجھتی ہے کہ اس وقت پاک افواج کی حوصلہ افزائی کی جائے اور انہیں یقین دلایا جائے کہ قوم ان کے ساتھ ہے، کیوں کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ ہمارے مطالبے پرکیاگیا ہے۔ اس سلسلے میں پاک افواج سے اظہار یک جہتی کے لیے عوامی اجتماع منعقدکیا جارہا ہے، ہم افواج کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پوری قوم ان کے ساتھ ہے، یہ جنگ بقا اور سلامتی کی جنگ ہے، لہٰذاہم اپنی قومی ذمہ داری نبھانے کے لیے جلسۂ عام کا انعقاد کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ الطا ف حسین کہہ چکے ہیں کہ فوج کو جوانوں کی ضرورت ہے، تو ایم کیو ایم کے تین لاکھ سے زائد کارکنان اس کے شانہ بشانہ اس جنگ میں شامل ہوں گے۔ بعد ازاں ڈاکٹرخالد مقبول صدیقی نے صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس جلسے میں شرکت کی دعوت دی جارہی ہے اور اس سلسلے میں ہمارے مختلف وفود سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں سے رابطے میں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چھے جولائی کو ثابت ہو جائے گا کہ پوری قوم دہشت گردوں کے خلاف ہے۔
کراچی میں بدامنی، ٹارگیٹ کلنگ کے خلاف حکومت کے اقدامات اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی سے مایوس تاجر برادری نے شہر میں فوج تعینات کرنے کی بات کی ہے۔ پچھلے دنوں کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر عبداللہ ذکی نے شہر کو حساس قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ عبداللہ ذکی نے اسلام آباد اور کراچی کے چند حساس علاقوں میں فوج تعینات کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے حکومت پر واضح کیا کہ مجموعی طور پر پورے کراچی میں امن وامان کی صورت حال ابتر ہے اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت پورے شہر میں فوج تعینات کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ مخصوص علاقوں میں آرمی آپریشن کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوں گے اور کراچی میں مستقل بنیادوں پر امن کی بحالی کے لیے فوج کو پورے شہر میں تعینات ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ مسلح افواج نے ہر مشکل وقت میں مثبت کردار ادا کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ عوام اور تاجر برادری فوج پر مکمل اعتماد کرتی ہے۔ کراچی میں رینجرز اور پولیس کے آپریشن سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے بلکہ صورت حال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ عبداللہ ذکی نے کہا کہ رینجرزکے محدود اختیارات اور پولیس میں سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے یہ ادارے قیام امن میں مؤثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، شہر میں امن صرف سخت اقدامات کے ذریعے ہی لایا جاسکتا ہے، اور یہ صلاحیت پاک فوج ہی رکھتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی غیر محفوظ رہا تو سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے حکومت کے تمام اقدامات برباد ہوجائیں گے۔ اسٹریٹ کرائمز، اغوا برائے تاوان، بھتا خوری اور ٹارگیٹ کلنگ کے واقعات میں تیزی آگئی ہے، لیکن قانون ان سے نمٹنے میں بے بس نظر آرہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ شہر ملکی معیشت میں بڑا حصہ دیتا ہے، لہٰذا اسی لحاظ سے کراچی کو اہمیت دی جائے۔
گذشتہ دنوں پاکستان سُنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری کی اپیل پر دہشت گروں کے خلاف پاک فوج کے آپریشن 'ضربِ عضب' کی کام یابی کے لیے یوم دعا منایا گیا۔ جمعے کے اجتماعات میں آپریشن کی کامیابی اور ملکی سلامتی کے لیے خصوصی دعائیں مانگی گئیں۔ مرکز اہل سنّت پر دعائیہ تقریب سے خطاب میں ثروت اعجاز قادری نے کہا کہ دہشت گردوں کی خلاف لڑنے والے سپاہی قوم کی اُمیدوں کا مرکز ہیں۔ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپریشن جاری رکھا جائے۔ موجودہ حالات میں کوئی نیا محاذ کھولنا ملک دشمنی کے مترادف ہوگا اور سیاست چمکانے والے ہوش کے ناخن لیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت، افواج پاکستان سے یک جہتی کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلانے میں تاخیر نہ کرے۔
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی (سندھ) کے جنرل سیکریٹری اور سینیٹر تاج حیدر نے کہا ہے کہ انتہا پسندی اور پاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ انہوں نے ہفتے کے روز پیپلز سیکریٹریٹ میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں ملک میں مذہبی انتہا پسندی کی بنیاد رکھی گئی اور آج کے حالات اسی انتہا پسندانہ سوچ کا نتیجہ ہیں۔
پچھلے دنوں شہید بے نظیر بھٹو کے 61ویں یوم پیدائش پیپلز پارٹی کے راہ نماؤں اور کارکنوں نے خون کے عطیات دیے اور اعلان کیا گیا کہ یہ خون کے عطیات دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے دوران زخمی ہونے والے فوجی جوانوں کے لیے ہیں۔
تاج حیدر نے پورے سندھ میں خون کے عطیات جمع کرنے سے متعلق بہترین انتظامات کرنے پر پیپلز ڈاکٹر فورم کے مرکزی صدر سینیٹر کریم خواجہ کو مبارک باد دی۔ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی (کراچی ڈویژن) کے عہدے داروں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی قربانیوں کی وجہ سے اس ملک میں جمہوریت قائم و دائم ہے، جمہوری اداروں کے قیام کی سزا ہمارے راہ نماؤں اور کارکنوں کو قتل کر کے دی جارہی ہے، لیکن ہم جمہوری جدوجہد شہید بے نظیر بھٹو کے ویژن کے مطابق جاری رکھیں گے اور اگر مزید قربانیاں دینا پڑیں تو وطن پر قربان ہوجائیں گے۔
پچھلے دنوں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) کے مرکزی چیئرمین زاہد بلوچ کی بازیابی کے لیے ریلی نکالی گئی۔ ریلی کے شرکا نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے، جن پر زاہد بلوچ کی بازیابی کے نعرے درج تھے۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے بی ایس او کی وائس چیئرمین کریمہ بلوچ نے کہا کہ چیئرمین زاہد بلوچ کو تین ماہ قبل کوئٹہ سے حراست میں لیا گیا تھا اور اب تک انہیں منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے، ہم مسلسل احتجاج کررہے ہیں، لیکن حکومتی سطح پر اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے خلاف لطیف جوہر بلوچ نے 46 روز تک کراچی پریس کلب کے باہر بھوک ہڑتال کی، انسانی حقوق کی تنظیموں نے یقین دہانی کرائی کہ اس مسئلے پر آواز اٹھائیں گی جس کے بعد بھوک ہڑتال ختم کر دی، لیکن یہ معاملہ اب تک حل نہیں ہوسکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہ ہمارا مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا تو بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔