وفاق اور خیبر پختونخوا کی حکومت میں بڑھتا ہوا تناؤ
مرکز اور صوبہ کے درمیان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے جاری تحریک کی وجہ سے پہلے ہی سے تناؤ موجود ہے
شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب کو بجاطور پر پاکستان کی بقاء کی جنگ قراردیاجا رہا ہے کیونکہ مذکورہ آپریشن کا مقصد ملک کو عسکریت پسندی اور انتہا پسندی سے نجات دلانا ہے اور مذکورہ آپریشن کرنے کا مقصد بھی یہی ہے۔
حالانکہ یہ بات بھی سامنے کی ہے کہ گزشتہ پیپلزپارٹی کی حکومت میں امریکہ کی جانب سے شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کرنے کے حوالے سے انتہا کا دباؤ تھا تاہم پاکستانی حکومت نے اس وقت مذکورہ دباؤکو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا کیونکہ وہاں پر حافظ گل بہادر اور دیگر گروپوں سے کیے گئے امن معاہدوں کو پیش نظر رکھا جا رہاتھا اور یہ توقع کی جا رہی تھی کہ مذکورہ معاہدوں کے باعث عسکریت پسند معاملا ت کو سلجھانے کی جانب لے جائیں گے تاہم توقعات کے برعکس ایسا نہ ہوسکا اور ایسے وقت میں جبکہ مذاکراتی عمل بہرکیف جاری تھا۔
کراچی ائیر پورٹ کو نشانہ بنایا گیا جس کے بعد حکومت اور سکیورٹی فورسز کے پاس کوئی وجہ نہیں رہ جاتی تھی کہ وہ کاروائی نہ کریں اور اسی بنا پر شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کیا گیا جو جاری ہے جس کے نتیجے میں پانچ لاکھ کے قریب افراد وہاں سے نقل مکانی کرتے ہوئے خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں آچکے ہیں جن کے حوالے سے مرکزی اور صوبائی حکومتیں اپنے طور پر اقدامات کر رہی ہیں اورصوبائی حکومت کی جانب سے بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس بھی اسی تناظر میں تھی۔
توقع تو یہ کی جا رہی تھی کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کرنے سے قبل مرکزی حکومت کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو اعتما د میں لے گی تاہم مرکز نے نہ تو آپریشن ضرب عضب شروع ہونے سے قبل کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا اور نہ اب سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا ہے۔ تاہم خیبرپختونخوا حکومت نے اس موقع پر آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ضرور کیا ہے جسے اس تناظر میں دیکھاجا رہا ہے چونکہ تحریک انصاف بھی اس آپریشن کے حق میں نہیں تھی اور اس کی اتحادی جماعت ،جماعت اسلامی بھی۔
اس لیے مذکورہ دونوں پارٹیوں کی جانب سے یہ مناسب سمجھا گیا کہ وہ تمام پارٹیوں کی قیادت کو بلاکر انھیں اس صورتحال کے حوالے سے اعتماد میں بھی لیں اور ساتھ ہی آئی ڈی پیز کی مدد کیلئے بھی ان سے بات کی جا سکے ، اس اعتبار سے یقینی طور پر صوبائی حکومت کی اے پی سی کامیاب رہی کیونکہ سوائے قومی وطن پارٹی کے تمام سیاسی جماعتوں کے صوبائی قائدین اس کانفرنس میں شریک رہے۔ تاہم مذکورہ سیاسی قائدین اس اے پی سی کے فورم پر نہ تو آئی ڈی پیز کی امداد کیلئے فنڈز فراہمی کا اعلان کرسکے اور نہ ہی انہوں نے اپنی سیاسی جماعتوں کو آئی ڈی پیز کی مشکلات میں کمی لانے کی غرض سے متحرک کرنے کے بارے میں کوئی اعلان کیا ۔ مذکورہ آل پارٹیز کانفرنس میں صوبائی حکومت کی جانب سے عالمی اداروں سے مدد کی اپیل کی گئی ہے جو اپنی جگہ حیران کن ہے ۔
یہ اعلان اس حوالے سے غیر متوقع ہے کہ اب تک مرکزی اور صوبائی حکومتیں بار ، بار اس موقف کا اعادہ کرتی آئی ہیں کہ ہم آئی ڈی پیز کی امداد کے لیے کسی بھی قسم کی غیر ملکی امداد نہیں لیں گے اور نہ ہی عالمی برادری اور عالمی اداروں سے رجوع کریں گے۔ ایسے میں صوبائی حکومت کی جانب سے مذکورہ پالیسی سے ایک قدم آگے جاتے ہو ئے غیر ملکی امداد لینے کا اعلان یقینی طور پر حیران کن بھی ہے اور چونکا دینے والا بھی کیونکہ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ مذکورہ اعلان صوبائی حکومت کے زیر اہتمام منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس کی جانب سے مرکز کے ساتھ مشاورت کیے بغیر کیا گیا کیونکہ اگر اس سلسلے میں مرکزی حکومت کے ساتھ مشاورت کی گئی ہوتی تو لازمی طور پر یہ اعلان مرکزی حکومت ہی کرتی لیکن ایسا نہیں ہے ۔
اس لیے اس بارے میں وضاحت ہونا ضروری ہے تاکہ معاملات واضح ہوسکیں کیونکہ موجودہ حالات میں معاملات بہر کیف واضح نظر نہیں آرہے اس لیے کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ مرکزی حکومت آئی ڈی پیز کی مدد کے لیے عالمی اداروں اور برادری سے مدد نہیں مانگ رہی اور اپنے طور پر تمام وسائل فراہم کرنے کا اعلان کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب صوبائی حکومت یہ مدد مانگ رہی ہے اور ہوسکتا ہے کہ اس کے جواب میں وزیراعلیٰ کے فنڈ میں بیرونی دنیا سے فنڈز منتقل بھی ہوں تو ان فنڈز کی پوزیشن کیا ہوگی اور کیا اس سے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تناؤ میں مزید اضافہ نہیں ہوگا؟
مرکز اور صوبہ کے درمیان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے جاری تحریک کی وجہ سے پہلے ہی سے تناؤ موجود ہے کیونکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا مرکز کے خلاف لب ولہجہ دن بدن سخت سے سخت ہوتا جا رہا ہے جس کے ساتھ ہی وہ خیبرپختونخوا اسمبلی کو تحلیل کرنے کی بات بھی کر رہے ہیں اور انہوں نے پنجاب اور سندھ اسمبلیوں میں موجود اپنے ارکان سے استعفے بھی لے لیے ہیں جس سے لگتا ہے کہ وہ ''کچھ ''کرنے جا رہے ہیں اور ان کی اس مہم جوئی کی وجہ سے مرکزی حکومت یقینی طور پر پریشانی میں مبتلا ہے کیونکہ اگر عمران خان نے اس مہم جوئی کا آغاز کیا تو یہ معاملہ صرف کسی ایک یا ایک سے زائد صوبوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ یہ سلسلہ آگے تک جائے گا جس کو واضح طور پر محسوس کیا جا رہا ہے۔
تحریک انصاف کی قیادت بھی اس صورت حال کو پورے طریقہ سے اپنی گرفت میں رکھنا چاہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر ایک جانب پنجاب اور سندھ اسمبلیوں میں موجود تحریک انصاف کے ارکان سے استعفے مانگے گئے ہیں تو دوسری جانب خیبرپختونخوا کے حوالے سے بھی ایسی صورت حال جاری ہے ، اگرچہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے حوالے سے صورت حال مختلف ہے کیونکہ ضرورت پڑنے پر خیبرپختونخوا اسمبلی سے تحریک انصاف کے ارکان استعفے نہیں دیں گے بلکہ اسمبلی کو تحلیل کیاجائے گا اور یہ اقدام ایک موثر ہتھیار کے طور پر صوبائی حکومت اور تحریک انصاف کے ہاتھوں میں موجود ہے تاہم اس کے باوجود صوبہ میں پی ٹی آئی اور حکومت کے بڑوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ تحریک انصاف کے ارکان کی ذہن سازی کرتے ہوئے ان سے استعفے حاصل کرلیں تاکہ اگر اسمبلی کو تحلیل کرنے کے موقع پر مذکورہ ارکان کی جانب سے کوئی مسلہ پیدا کیا جاتا ہے تو اس صورت میں ان کے یہ استعفے استعمال کیے جاسکیں اور آئندہ چند دنوں میں اس حوالے سے باقاعدہ طور پر کام شروع بھی کردیا جائے گا ،ایسے حالات میں مرکز اور صوبہ کے درمیان تعلقات میں بہتری آنا خام خیالی ہی نظر آتی ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آئی کا انتخابی عمل مکمل ہوگیا ہے،اے این پی کے حوالے سے تو حسب توقع صورت حال سامنے آئی ہے کیونکہ الیکشن کی بجائے سلیکشن سے کا م لیاجانا تھا اس لیے امیر حیدر ہوتی اور میاں افتخار حسین سہولت کے ساتھ صدر اور جنرل سیکرٹری کے عہدوں پر پہنچ گئے ۔
اے این پی میں تو جو ہوا سو ہوا لیکن جو جے یو آئی میں ہوا وہ توقعات کے بالکل ہی برعکس ہے کیونکہ مولانا عطاء الرحمن، مولانا گل نصیب خان کا سہارا لے کر جس طریقہ سے میدان میں اتر ے تھے اس کے بعد ان کی ناکامی اور شجاع الملک کی کامیابی کی کوئی توقع نہیں تھی لیکن اس کے باوجود ایسا ہوگیا جسے کہنے والے شجاع الملک کی فتح نہیں عطاء الرحمن کی شکست کہہ رہے ہیں۔
حالانکہ یہ بات بھی سامنے کی ہے کہ گزشتہ پیپلزپارٹی کی حکومت میں امریکہ کی جانب سے شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کرنے کے حوالے سے انتہا کا دباؤ تھا تاہم پاکستانی حکومت نے اس وقت مذکورہ دباؤکو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا کیونکہ وہاں پر حافظ گل بہادر اور دیگر گروپوں سے کیے گئے امن معاہدوں کو پیش نظر رکھا جا رہاتھا اور یہ توقع کی جا رہی تھی کہ مذکورہ معاہدوں کے باعث عسکریت پسند معاملا ت کو سلجھانے کی جانب لے جائیں گے تاہم توقعات کے برعکس ایسا نہ ہوسکا اور ایسے وقت میں جبکہ مذاکراتی عمل بہرکیف جاری تھا۔
کراچی ائیر پورٹ کو نشانہ بنایا گیا جس کے بعد حکومت اور سکیورٹی فورسز کے پاس کوئی وجہ نہیں رہ جاتی تھی کہ وہ کاروائی نہ کریں اور اسی بنا پر شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کیا گیا جو جاری ہے جس کے نتیجے میں پانچ لاکھ کے قریب افراد وہاں سے نقل مکانی کرتے ہوئے خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں آچکے ہیں جن کے حوالے سے مرکزی اور صوبائی حکومتیں اپنے طور پر اقدامات کر رہی ہیں اورصوبائی حکومت کی جانب سے بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس بھی اسی تناظر میں تھی۔
توقع تو یہ کی جا رہی تھی کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کرنے سے قبل مرکزی حکومت کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو اعتما د میں لے گی تاہم مرکز نے نہ تو آپریشن ضرب عضب شروع ہونے سے قبل کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا اور نہ اب سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا ہے۔ تاہم خیبرپختونخوا حکومت نے اس موقع پر آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ضرور کیا ہے جسے اس تناظر میں دیکھاجا رہا ہے چونکہ تحریک انصاف بھی اس آپریشن کے حق میں نہیں تھی اور اس کی اتحادی جماعت ،جماعت اسلامی بھی۔
اس لیے مذکورہ دونوں پارٹیوں کی جانب سے یہ مناسب سمجھا گیا کہ وہ تمام پارٹیوں کی قیادت کو بلاکر انھیں اس صورتحال کے حوالے سے اعتماد میں بھی لیں اور ساتھ ہی آئی ڈی پیز کی مدد کیلئے بھی ان سے بات کی جا سکے ، اس اعتبار سے یقینی طور پر صوبائی حکومت کی اے پی سی کامیاب رہی کیونکہ سوائے قومی وطن پارٹی کے تمام سیاسی جماعتوں کے صوبائی قائدین اس کانفرنس میں شریک رہے۔ تاہم مذکورہ سیاسی قائدین اس اے پی سی کے فورم پر نہ تو آئی ڈی پیز کی امداد کیلئے فنڈز فراہمی کا اعلان کرسکے اور نہ ہی انہوں نے اپنی سیاسی جماعتوں کو آئی ڈی پیز کی مشکلات میں کمی لانے کی غرض سے متحرک کرنے کے بارے میں کوئی اعلان کیا ۔ مذکورہ آل پارٹیز کانفرنس میں صوبائی حکومت کی جانب سے عالمی اداروں سے مدد کی اپیل کی گئی ہے جو اپنی جگہ حیران کن ہے ۔
یہ اعلان اس حوالے سے غیر متوقع ہے کہ اب تک مرکزی اور صوبائی حکومتیں بار ، بار اس موقف کا اعادہ کرتی آئی ہیں کہ ہم آئی ڈی پیز کی امداد کے لیے کسی بھی قسم کی غیر ملکی امداد نہیں لیں گے اور نہ ہی عالمی برادری اور عالمی اداروں سے رجوع کریں گے۔ ایسے میں صوبائی حکومت کی جانب سے مذکورہ پالیسی سے ایک قدم آگے جاتے ہو ئے غیر ملکی امداد لینے کا اعلان یقینی طور پر حیران کن بھی ہے اور چونکا دینے والا بھی کیونکہ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ مذکورہ اعلان صوبائی حکومت کے زیر اہتمام منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس کی جانب سے مرکز کے ساتھ مشاورت کیے بغیر کیا گیا کیونکہ اگر اس سلسلے میں مرکزی حکومت کے ساتھ مشاورت کی گئی ہوتی تو لازمی طور پر یہ اعلان مرکزی حکومت ہی کرتی لیکن ایسا نہیں ہے ۔
اس لیے اس بارے میں وضاحت ہونا ضروری ہے تاکہ معاملات واضح ہوسکیں کیونکہ موجودہ حالات میں معاملات بہر کیف واضح نظر نہیں آرہے اس لیے کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ مرکزی حکومت آئی ڈی پیز کی مدد کے لیے عالمی اداروں اور برادری سے مدد نہیں مانگ رہی اور اپنے طور پر تمام وسائل فراہم کرنے کا اعلان کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب صوبائی حکومت یہ مدد مانگ رہی ہے اور ہوسکتا ہے کہ اس کے جواب میں وزیراعلیٰ کے فنڈ میں بیرونی دنیا سے فنڈز منتقل بھی ہوں تو ان فنڈز کی پوزیشن کیا ہوگی اور کیا اس سے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تناؤ میں مزید اضافہ نہیں ہوگا؟
مرکز اور صوبہ کے درمیان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے جاری تحریک کی وجہ سے پہلے ہی سے تناؤ موجود ہے کیونکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا مرکز کے خلاف لب ولہجہ دن بدن سخت سے سخت ہوتا جا رہا ہے جس کے ساتھ ہی وہ خیبرپختونخوا اسمبلی کو تحلیل کرنے کی بات بھی کر رہے ہیں اور انہوں نے پنجاب اور سندھ اسمبلیوں میں موجود اپنے ارکان سے استعفے بھی لے لیے ہیں جس سے لگتا ہے کہ وہ ''کچھ ''کرنے جا رہے ہیں اور ان کی اس مہم جوئی کی وجہ سے مرکزی حکومت یقینی طور پر پریشانی میں مبتلا ہے کیونکہ اگر عمران خان نے اس مہم جوئی کا آغاز کیا تو یہ معاملہ صرف کسی ایک یا ایک سے زائد صوبوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ یہ سلسلہ آگے تک جائے گا جس کو واضح طور پر محسوس کیا جا رہا ہے۔
تحریک انصاف کی قیادت بھی اس صورت حال کو پورے طریقہ سے اپنی گرفت میں رکھنا چاہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر ایک جانب پنجاب اور سندھ اسمبلیوں میں موجود تحریک انصاف کے ارکان سے استعفے مانگے گئے ہیں تو دوسری جانب خیبرپختونخوا کے حوالے سے بھی ایسی صورت حال جاری ہے ، اگرچہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے حوالے سے صورت حال مختلف ہے کیونکہ ضرورت پڑنے پر خیبرپختونخوا اسمبلی سے تحریک انصاف کے ارکان استعفے نہیں دیں گے بلکہ اسمبلی کو تحلیل کیاجائے گا اور یہ اقدام ایک موثر ہتھیار کے طور پر صوبائی حکومت اور تحریک انصاف کے ہاتھوں میں موجود ہے تاہم اس کے باوجود صوبہ میں پی ٹی آئی اور حکومت کے بڑوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ تحریک انصاف کے ارکان کی ذہن سازی کرتے ہوئے ان سے استعفے حاصل کرلیں تاکہ اگر اسمبلی کو تحلیل کرنے کے موقع پر مذکورہ ارکان کی جانب سے کوئی مسلہ پیدا کیا جاتا ہے تو اس صورت میں ان کے یہ استعفے استعمال کیے جاسکیں اور آئندہ چند دنوں میں اس حوالے سے باقاعدہ طور پر کام شروع بھی کردیا جائے گا ،ایسے حالات میں مرکز اور صوبہ کے درمیان تعلقات میں بہتری آنا خام خیالی ہی نظر آتی ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آئی کا انتخابی عمل مکمل ہوگیا ہے،اے این پی کے حوالے سے تو حسب توقع صورت حال سامنے آئی ہے کیونکہ الیکشن کی بجائے سلیکشن سے کا م لیاجانا تھا اس لیے امیر حیدر ہوتی اور میاں افتخار حسین سہولت کے ساتھ صدر اور جنرل سیکرٹری کے عہدوں پر پہنچ گئے ۔
اے این پی میں تو جو ہوا سو ہوا لیکن جو جے یو آئی میں ہوا وہ توقعات کے بالکل ہی برعکس ہے کیونکہ مولانا عطاء الرحمن، مولانا گل نصیب خان کا سہارا لے کر جس طریقہ سے میدان میں اتر ے تھے اس کے بعد ان کی ناکامی اور شجاع الملک کی کامیابی کی کوئی توقع نہیں تھی لیکن اس کے باوجود ایسا ہوگیا جسے کہنے والے شجاع الملک کی فتح نہیں عطاء الرحمن کی شکست کہہ رہے ہیں۔