اَنَاالبرق
ہر اچھی حکومت کی پہلی ترجیح عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہوتا ہے۔
وطن عزیزکو اس وقت بڑے اور سنگین بحرانوں اور چیلنجزکا سامنا ہے۔ آئینی بحران سے لے کر سیاسی بحران تک اور معاشی بحران سے لے کر توانائی کے بحران تک موجودہ حکومت قدم قدم پر مسائل اور مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ ہرگزرنے والے دن کے ساتھ اس کی پریشانیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور کسی بحران کا کوئی قابل قبول حل سجھائی نہیں دے رہا ہے۔
ملک کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر عوام ہوتے ہیں جو اپنے قیمتی ووٹوں سے نمایندوں کو منتخب کر کے اقتدار کے ایوانوں میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ نہ صرف ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں بلکہ اپنے اپنے حلقوں کے بالعموم اور قومی سطح کے بالخصوص درپیش مسائل حل کریں۔
ہر اچھی حکومت کی پہلی ترجیح عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہوتا ہے۔ جہاں وسائل کی تقسیم کا غیر مساوی اور غیرمنصفانہ نظام فروغ پانے لگے وہاں مسائل کا کوہ ہمالیہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں اقتدار میں آنے والے عوامی نمایندوں نے لوگوں کے مسائل کے حل سے چشم پوشی کرتے ہوئے اپنے حکومتی اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور اپنے ذاتی، خاندانی اور جماعتی مفادات کے تحفظ کو اپنا مطمع نظر بنا لیا، نتیجتاً پاکستان مسائلستان بن گیا۔
آج وطن عزیز میں ایک نہیں درجنوں عوامی مسائل ایسے ہیں جنھوں نے عام آدمی کا جینا دوبھرکر رکھا ہے۔ غربت، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے بڑے اور بنیادی عوامی مسائل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پیچیدہ، سنگین اورگمبھیر ہوتے جا رہے ہیں۔
نئے مالی سال کے بجٹ میں آئی ایم ایف کی ایما پر اربوں روپے کے ٹیکسوں کا جو تازہ بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا ہے اس کے نتیجے میں نہ صرف اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے بلکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے لے کرگیس و بجلی کے بلوں میں برق رفتار اضافے تک گرانی کا ایک ایسا ناقابل برداشت طوفان کھڑا ہوگیا ہے جس نے سب کو حواس باختہ کردیا ہے۔ خاص طور پر بجلی کے بلوں میں جس تیزی سے بار بار اضافہ ہو رہا ہے، اس نے عوام، تاجر، صنعت کار سب کو پریشان کر دیا ہے۔
ملک میں توانائی کا بحران ایک طویل عرصے سے سر اٹھا رہا ہے جس کے باعث 12/12 اور کہیں 18/18 گھنٹوں پر مشتمل اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا عذاب سروں پر مسلط ہے اور اب بجلی کے بلوں کے بڑھتے ہوئے گراف نے لوگوں کو دہرے عذاب میں مبتلا کردیا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ گوجرانوالہ میں 30 ہزار روپے بجلی کا بل آنے پر دو بھائیوں میں ادائیگی کے مسئلے پر تنازع پیدا ہوگیا۔ بڑے بھائی نے بجلی کے بل میں حصہ نہ ڈالنے پر چھوٹے بھائی کو قتل کردیا۔ حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ بجلی کے بھاری بلوں کے باعث عوامی سطح پر صورت حال کیا رخ اختیار کرتی جا رہی ہے۔
صنعت کار اور تاجر بھی سراپا احتجاج ہیں کہ بجلی کے بھاری بلزکی وجہ سے کاروبار تباہ اور صنعتیں بند ہو رہی ہیں جس سے معاشی بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے۔ ملک میں اس وقت بجلی کا شارٹ فال چھ ہزار میگاواٹ تک پہنچ چکا ہے اس پہ مستزاد یونٹ کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافے کے باعث بجلی کے بلزکی ادائیگی عام آدمی کے لیے جوئے شیر لانے کے برابر ہو گئی ہے۔ گزشتہ حکومتوں نے ملک میں بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے آزاد ذرایع انڈی پینڈنٹ پاور پلانٹ کے ذریعے بجلی خریدنے کے طویل مدتی ایسے غیر حقیقت پسندانہ معاہدے کیے جو اب ان کے گلے پڑ چکے ہیں۔
آئی پی پیز کو بجلی پیدا نہ کرنے کے باوجود کیپسٹی چارجزکی مد میں اربوں روپے کی ادائیگی کی جا رہی ہے۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) نے آئی پی پیزکوکھربوں روپے کے کیپسٹی چارجز دینے پر سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سابق وفاقی نگراں وزیر گوہر اعجاز کا موقف ہے کہ مہنگی بجلی عوام کو غربت میں دھکیل رہی ہے اور کاروبارکو دیوالیہ کر رہی ہے۔ ہمارے وفاقی وزیر اویس لغاری کا کہنا ہے بجلی گھر چلانے والی چینی کمپنیوں کو درآمدی کے بجائے تھر کے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا کہیں گے جس سے سات کروڑ ڈالر سالانہ کی بچت ہوگی۔
پنجاب اور سندھ حکومت نے 200 سے 500 یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے سولر اسکیم متعارف کرانے کا وعدہ کیا ہے جو مثبت اقدام ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں 185 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔ ہائیڈرل کے ذریعے ملک کے پاس 60 ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی بنانے کی استعداد ہے جو ہماری موجودہ طلب سے دوگنا زیادہ ہے۔ ان ذرایع کو استعمال کیا جائے تو آئی پی پیز پر انحصار ختم ہو سکتا ہے اور بجلی کی فی یونٹ قیمت بھی دس روپے سے زیادہ نہیں ہوگی۔ حکومت کو توانائی بحران کے خاتمے کے لیے ٹھوس، جامع اور عملی اقدامات جلد اٹھانے چاہئیں تاکہ عام آدمی کو فوری ریلیف مل سکے، ورنہ مہنگی بجلی پر عوام کا غم و غصہ حکومت پر اَنَاالبرق کی صورت گرے گا۔
ملک کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر عوام ہوتے ہیں جو اپنے قیمتی ووٹوں سے نمایندوں کو منتخب کر کے اقتدار کے ایوانوں میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ نہ صرف ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں بلکہ اپنے اپنے حلقوں کے بالعموم اور قومی سطح کے بالخصوص درپیش مسائل حل کریں۔
ہر اچھی حکومت کی پہلی ترجیح عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہوتا ہے۔ جہاں وسائل کی تقسیم کا غیر مساوی اور غیرمنصفانہ نظام فروغ پانے لگے وہاں مسائل کا کوہ ہمالیہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں اقتدار میں آنے والے عوامی نمایندوں نے لوگوں کے مسائل کے حل سے چشم پوشی کرتے ہوئے اپنے حکومتی اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور اپنے ذاتی، خاندانی اور جماعتی مفادات کے تحفظ کو اپنا مطمع نظر بنا لیا، نتیجتاً پاکستان مسائلستان بن گیا۔
آج وطن عزیز میں ایک نہیں درجنوں عوامی مسائل ایسے ہیں جنھوں نے عام آدمی کا جینا دوبھرکر رکھا ہے۔ غربت، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے بڑے اور بنیادی عوامی مسائل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پیچیدہ، سنگین اورگمبھیر ہوتے جا رہے ہیں۔
نئے مالی سال کے بجٹ میں آئی ایم ایف کی ایما پر اربوں روپے کے ٹیکسوں کا جو تازہ بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا ہے اس کے نتیجے میں نہ صرف اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے بلکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے لے کرگیس و بجلی کے بلوں میں برق رفتار اضافے تک گرانی کا ایک ایسا ناقابل برداشت طوفان کھڑا ہوگیا ہے جس نے سب کو حواس باختہ کردیا ہے۔ خاص طور پر بجلی کے بلوں میں جس تیزی سے بار بار اضافہ ہو رہا ہے، اس نے عوام، تاجر، صنعت کار سب کو پریشان کر دیا ہے۔
ملک میں توانائی کا بحران ایک طویل عرصے سے سر اٹھا رہا ہے جس کے باعث 12/12 اور کہیں 18/18 گھنٹوں پر مشتمل اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا عذاب سروں پر مسلط ہے اور اب بجلی کے بلوں کے بڑھتے ہوئے گراف نے لوگوں کو دہرے عذاب میں مبتلا کردیا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ گوجرانوالہ میں 30 ہزار روپے بجلی کا بل آنے پر دو بھائیوں میں ادائیگی کے مسئلے پر تنازع پیدا ہوگیا۔ بڑے بھائی نے بجلی کے بل میں حصہ نہ ڈالنے پر چھوٹے بھائی کو قتل کردیا۔ حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ بجلی کے بھاری بلوں کے باعث عوامی سطح پر صورت حال کیا رخ اختیار کرتی جا رہی ہے۔
صنعت کار اور تاجر بھی سراپا احتجاج ہیں کہ بجلی کے بھاری بلزکی وجہ سے کاروبار تباہ اور صنعتیں بند ہو رہی ہیں جس سے معاشی بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے۔ ملک میں اس وقت بجلی کا شارٹ فال چھ ہزار میگاواٹ تک پہنچ چکا ہے اس پہ مستزاد یونٹ کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافے کے باعث بجلی کے بلزکی ادائیگی عام آدمی کے لیے جوئے شیر لانے کے برابر ہو گئی ہے۔ گزشتہ حکومتوں نے ملک میں بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے آزاد ذرایع انڈی پینڈنٹ پاور پلانٹ کے ذریعے بجلی خریدنے کے طویل مدتی ایسے غیر حقیقت پسندانہ معاہدے کیے جو اب ان کے گلے پڑ چکے ہیں۔
آئی پی پیز کو بجلی پیدا نہ کرنے کے باوجود کیپسٹی چارجزکی مد میں اربوں روپے کی ادائیگی کی جا رہی ہے۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) نے آئی پی پیزکوکھربوں روپے کے کیپسٹی چارجز دینے پر سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سابق وفاقی نگراں وزیر گوہر اعجاز کا موقف ہے کہ مہنگی بجلی عوام کو غربت میں دھکیل رہی ہے اور کاروبارکو دیوالیہ کر رہی ہے۔ ہمارے وفاقی وزیر اویس لغاری کا کہنا ہے بجلی گھر چلانے والی چینی کمپنیوں کو درآمدی کے بجائے تھر کے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا کہیں گے جس سے سات کروڑ ڈالر سالانہ کی بچت ہوگی۔
پنجاب اور سندھ حکومت نے 200 سے 500 یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے سولر اسکیم متعارف کرانے کا وعدہ کیا ہے جو مثبت اقدام ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں 185 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔ ہائیڈرل کے ذریعے ملک کے پاس 60 ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی بنانے کی استعداد ہے جو ہماری موجودہ طلب سے دوگنا زیادہ ہے۔ ان ذرایع کو استعمال کیا جائے تو آئی پی پیز پر انحصار ختم ہو سکتا ہے اور بجلی کی فی یونٹ قیمت بھی دس روپے سے زیادہ نہیں ہوگی۔ حکومت کو توانائی بحران کے خاتمے کے لیے ٹھوس، جامع اور عملی اقدامات جلد اٹھانے چاہئیں تاکہ عام آدمی کو فوری ریلیف مل سکے، ورنہ مہنگی بجلی پر عوام کا غم و غصہ حکومت پر اَنَاالبرق کی صورت گرے گا۔