غزہ کی قیمت ہماری جیب بھی دے رہی ہے
اسرائیل نے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف جوابی کارروائیاں شروع کر دیں۔
گلوبل ولیج ہونے کے جہاں بے شمار فائدے ہیں وہیں نقصانات بھی ہیں۔مثلاً تین برس پہلے تک روس اور یوکرین کی گندم پر چالیس سے زائد ممالک (بیشتر افریقی ممالک) کا دار و مدار تھا۔گندم کی کل عالمی پیداوار کا پچیس فیصد انھی دو ممالک پر منحصر تھا۔کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ دونوں میں ایک طویل جنگ چھڑ جائے گی اور اس کے سبب گندم مہنگی ہو جائے گی۔یعنی ہزاروں کلومیٹر پرے ہونے والی جنگ کے اثر سے ایتھوپیا کے پہاڑوں میں رہنے والا کسان اور بنگلہ دیش کے سندربن میں بسنے والا مچھیرا یکساں متاثر ہو رہا ہے۔
اسی طرح پچھلے دس ماہ سے غزہ میں جاری اسرائیلی نسل کشی محض دو قوموں کی بقا کا معاملہ نہیں رہا بلکہ اس بحران سے کم ازکم پینسٹھ ممالک براہ راست اور باقی بلاواسطہ متاثر ہو رہے ہیں۔ مگر کیسے ؟ یہی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سات اکتوبر کو حماس نے جنوبی اسرائیل پر حملہ کیا۔ تین روز بعد غزہ پر انتقامی اسرائیلی یلغار شروع ہوئی۔اس کے ایک ہفتے بعد اسرائیل کی شمالی سرحد پر لبنانی حزبِ اللہ نے فلسطینیوں سے یکجہتی میں اسرائیل پر حملے شروع کر دیے۔اسرائیل نے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف جوابی کارروائیاں شروع کر دیں۔جب کہ اسرائیل سے اٹھارہ سو کیلومیٹر جنوب میں واقع ملک یمن کی ہوڑی انتظامیہ بحیرہ قلزم میں ایسے بحری جہازوں کو نشانہ بنا رہی ہے جو اسرائیلی تجارت سے منسلک ہیں۔
اسرائیل کی نوے فیصد درآمد و برآمد سمندری راستے سے ہوتی ہے۔اس وقت بحیرہ روم کے کنارے واقع مرکزی اسرائیلی بندرگاہ حیفہ حزب اللہ کے میزائیلوں کی زد میں ہے۔چنانچہ درآمد و برآمد کا بیشتر دباؤ غزہ سے متصل بندرگاہ اشدود پر ہے۔جب کہ انتہائی جنوب میں بحیرہ قلزم کی جانب خلیجِ عقبہ میں کھلنے والی تیسری بڑی بندرگاہ ایلات یمنی ہوڑیوں کی ناکہ بندی کے سبب دیوالیہ ہو چکی ہے۔ایلات کی بندرگاہ پر ایشیا سے درآمد و برآمد ہوتی ہے۔ان میں سالانہ ڈیڑھ لاکھ گاڑیاں بھی شامل ہیں۔مگر اس سال صرف ایک مال بردار جہاز ہی ایلات پہنچ پایا۔ چنانچہ بندرگاہ کے آدھے عملے کی چھانٹی ہو گئی اور بقول شخصے تالا لگ گیا ۔
بحیرہ قلزم عالمی معیشت کے لیے سب سے اہم گزرگاہ ہے۔کیونکہ اس کے شمالی سرے پر نہر سویز ہے جو یورپ اور ایشیا کی اقتصادی شہ رگ ہے۔جب کہ بحیرہ قلزم کے جنوبی سرے پر افریقہ اور یمن کے درمیان واقع بیس میل چوڑی آبنائے باب المندب ہے جو بحیرہِ ہند میں کھلتی ہے۔برطانیہ اور امریکا پچھلے آٹھ ماہ سے پوری بحری طاقت لگانے کے باوجود باب المندب کی ناکہ بندی ختم نہیں کروا سکے۔اور اب اسرائیلی فضائیہ بھی ان حملوں میں شامل ہو گئی ہے۔
ہوثیوں نے ناکہ بندی کے خاتمے کو غزہ میں جنگ بندی سے مشروط کر رکھا ہے۔انھوں نے اب تک دو تجارتی جہاز ڈبوئے ہیں۔امریکا کے ایک جنگی جہاز کو نقصان پہنچایا ہے۔متعدد جہازوں اور عملے کو پکڑ رکھا ہے۔ اسرائیلی بندرگاہ ایلات پر ڈرون اور میزائیل حملے کر کے اس بندرگاہ کو ناکارہ کر دیا ہے۔جب کہ ان کے ڈرونز کی مار تل ابیب تک ہے۔
اس پورے کھیل میں بحیرہ قلزم کے شمالی سرے پر بیٹھے مصر کو بھی ٹھیک ٹھاک معاشی جھٹکا لگا ہے۔نہرسویز سے مصر کی آمدنی دس ارب ڈالر سالانہ سے زائد ہے۔ انیس ہزار مال بردار جہاز ایک ٹریلین ڈالر کا مال لے کر ہر سال اس نہر سے گزرتے ہیں۔دس سے پندرہ فیصد عالمی تجارت اور تیس فیصد کنٹینرز نہر سویز اور باب المندب سے آتے جاتے ہیں۔
جب سے ہوثیوں نے ناکہ بندی کی ہے۔مصر کی نہری آمدنی اسی فیصد گھٹ گئی ہے۔وہ نہر جس سے گزشتہ برس ماہانہ اوسطاً ایک سو بیس جہاز گزرتے تھے۔اس برس ماہانہ اوسطاً چوبیس جہاز گزر رہے ہیں۔مصر نے جہازی کمپنیوں کو راغب کرنے کے لیے رعائیتی پیکیجز کا بھی اعلان کیا ہے۔مگر دنیا کی چھبیس بڑی جہاز راں کمپنیوں میں سے کوئی بھی خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔
ان کمپنیوں نے باب المندب کی ناکہ بندی سے بچنے کے لیے یورپ اور ایشیا کو تجارتی طور پر جوڑنے والا قدیم بحری راستہ بطور متبادل اختیار کیا ہے۔یعنی واسکوڈی گاما کی طرح پورا براعظم افریقہ گھوما جائے۔چنانچہ ایشیا اور یورپ کے درمیان سفر میں ساڑھے چھ ہزار کیلو میٹر ( ساڑھے تین ہزار ناٹیکل میل) کا اضافہ ہو گیا ہے۔ان جہازوں کو نہر سویز کے سفر کی نسبت چودہ دن اضافی سفر کرنا پڑتا ہے۔
چنانچہ ان جہازوں کے ایندھن کا خرچہ فی چکر ایک ملین ڈالر تک بڑھ گیا ہے۔ انشورنس پریمیم بھی آسمان کو چھو رہا ہے۔جہاز رانوں کو زیادہ تنخواہیں دینا پڑ رہی ہیں اور راستے میں کسی بندرگاہ پر اضافی قیام کا خرچہ بھی الگ سے پڑ گیا ہے۔یہ سب لاگت جوڑ لی جائے تو اس بحران کے نتیجے میں عام آدمی تک پہلے جو شے سو روپے میں پہنچ رہی تھی اب وہی شے دو سو سے ڈھائی سو روپے میں پڑ رہی ہے۔یعنی ہم اور آپ بھی اسرائیل کی غزہ پر چڑھائی کی قیمت نہ چاہتے ہوئے ادا کر رہے ہیں۔
انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن کا ہدف ہے کہ دو ہزار تیس تک جہاز رانی کے شعبے میں کاربن ڈائی اکسائیڈ کے اخراج میں چالیس فیصد کمی ہو جائے۔اگر جنگوں کے نتیجے میں عالمی تجارت ایسے ہی تلپٹ ہوتی رہی اور جہاز رانی یوں ہی متاثر ہوتی رہی تو تمام مقررہ ماحولیاتی ہدف حتمی تاریخ گزرنے کے بعد بھی ہم سب کا منہ تکتے رہیں گے۔
ایشیا اور یورپ کے مابین تجارت کے لیے کرہِ ارض کے انتہائی شمال میں آرکیٹک سرکل کی برف پگھلنے کے نتیجے میں ممکنہ بحری راستے کے استعمال پر کئی برس سے غور ہو رہا ہے تاکہ نہر سویز کی محتاجی ختم ہو جائے۔مگر اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں ابھی خاصا وقت اور سرمایہ درکار ہے۔
اسرائیل غزہ پر کنٹرول اس لیے بھی چاہتا ہے کہ بحیرہ روم کو بحیرہ قلزم سے ملانے والی ایک سو بیس کیلومیٹر طویل ( بن گوریان کینال ) تعمیر کر سکے۔ اس نہر سے نہ صرف سپر ٹینکرز گزر سکیں گے بلکہ نہر سویز کی بندش کے سبب پیدا ہونے والے معاشی بحران سے بھی نمٹا جا سکے۔اس منصوبے سے اسرائیل کو ٹرانزٹ فیس کے طور پر بیس ارب ڈالر سالانہ ملنے کی توقع ہے۔اسرائیل اسے قابلِ عمل منصوبہ سمجھتا ہے جو صرف بارہ برس میں اپنی لاگت پوری کر سکتا ہے۔
حالانکہ اسرائیل کی نسل کش پالسییوں کو روکنے سے مشرقِ وسطی کا بحران ایک دن میں حل ہو سکتا ہے۔تاہم ریاستیں اندھی طاقت کے بجائے عقل کو بحران کے حل کا چانس آسانی سے دیں تو پھر بات ہی کیا ہے۔
مسئلہ تو کوئی بھی چٹکی بجاتے حل ہو سکتا ہے۔اصل فن تو رتی برابر معاملے کو طول دے کر اسے دودھ دینے والی گائے بنانا ہے۔اسی کو انگریزی میں ڈپلومیسی کہتے ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
اسی طرح پچھلے دس ماہ سے غزہ میں جاری اسرائیلی نسل کشی محض دو قوموں کی بقا کا معاملہ نہیں رہا بلکہ اس بحران سے کم ازکم پینسٹھ ممالک براہ راست اور باقی بلاواسطہ متاثر ہو رہے ہیں۔ مگر کیسے ؟ یہی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سات اکتوبر کو حماس نے جنوبی اسرائیل پر حملہ کیا۔ تین روز بعد غزہ پر انتقامی اسرائیلی یلغار شروع ہوئی۔اس کے ایک ہفتے بعد اسرائیل کی شمالی سرحد پر لبنانی حزبِ اللہ نے فلسطینیوں سے یکجہتی میں اسرائیل پر حملے شروع کر دیے۔اسرائیل نے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف جوابی کارروائیاں شروع کر دیں۔جب کہ اسرائیل سے اٹھارہ سو کیلومیٹر جنوب میں واقع ملک یمن کی ہوڑی انتظامیہ بحیرہ قلزم میں ایسے بحری جہازوں کو نشانہ بنا رہی ہے جو اسرائیلی تجارت سے منسلک ہیں۔
اسرائیل کی نوے فیصد درآمد و برآمد سمندری راستے سے ہوتی ہے۔اس وقت بحیرہ روم کے کنارے واقع مرکزی اسرائیلی بندرگاہ حیفہ حزب اللہ کے میزائیلوں کی زد میں ہے۔چنانچہ درآمد و برآمد کا بیشتر دباؤ غزہ سے متصل بندرگاہ اشدود پر ہے۔جب کہ انتہائی جنوب میں بحیرہ قلزم کی جانب خلیجِ عقبہ میں کھلنے والی تیسری بڑی بندرگاہ ایلات یمنی ہوڑیوں کی ناکہ بندی کے سبب دیوالیہ ہو چکی ہے۔ایلات کی بندرگاہ پر ایشیا سے درآمد و برآمد ہوتی ہے۔ان میں سالانہ ڈیڑھ لاکھ گاڑیاں بھی شامل ہیں۔مگر اس سال صرف ایک مال بردار جہاز ہی ایلات پہنچ پایا۔ چنانچہ بندرگاہ کے آدھے عملے کی چھانٹی ہو گئی اور بقول شخصے تالا لگ گیا ۔
بحیرہ قلزم عالمی معیشت کے لیے سب سے اہم گزرگاہ ہے۔کیونکہ اس کے شمالی سرے پر نہر سویز ہے جو یورپ اور ایشیا کی اقتصادی شہ رگ ہے۔جب کہ بحیرہ قلزم کے جنوبی سرے پر افریقہ اور یمن کے درمیان واقع بیس میل چوڑی آبنائے باب المندب ہے جو بحیرہِ ہند میں کھلتی ہے۔برطانیہ اور امریکا پچھلے آٹھ ماہ سے پوری بحری طاقت لگانے کے باوجود باب المندب کی ناکہ بندی ختم نہیں کروا سکے۔اور اب اسرائیلی فضائیہ بھی ان حملوں میں شامل ہو گئی ہے۔
ہوثیوں نے ناکہ بندی کے خاتمے کو غزہ میں جنگ بندی سے مشروط کر رکھا ہے۔انھوں نے اب تک دو تجارتی جہاز ڈبوئے ہیں۔امریکا کے ایک جنگی جہاز کو نقصان پہنچایا ہے۔متعدد جہازوں اور عملے کو پکڑ رکھا ہے۔ اسرائیلی بندرگاہ ایلات پر ڈرون اور میزائیل حملے کر کے اس بندرگاہ کو ناکارہ کر دیا ہے۔جب کہ ان کے ڈرونز کی مار تل ابیب تک ہے۔
اس پورے کھیل میں بحیرہ قلزم کے شمالی سرے پر بیٹھے مصر کو بھی ٹھیک ٹھاک معاشی جھٹکا لگا ہے۔نہرسویز سے مصر کی آمدنی دس ارب ڈالر سالانہ سے زائد ہے۔ انیس ہزار مال بردار جہاز ایک ٹریلین ڈالر کا مال لے کر ہر سال اس نہر سے گزرتے ہیں۔دس سے پندرہ فیصد عالمی تجارت اور تیس فیصد کنٹینرز نہر سویز اور باب المندب سے آتے جاتے ہیں۔
جب سے ہوثیوں نے ناکہ بندی کی ہے۔مصر کی نہری آمدنی اسی فیصد گھٹ گئی ہے۔وہ نہر جس سے گزشتہ برس ماہانہ اوسطاً ایک سو بیس جہاز گزرتے تھے۔اس برس ماہانہ اوسطاً چوبیس جہاز گزر رہے ہیں۔مصر نے جہازی کمپنیوں کو راغب کرنے کے لیے رعائیتی پیکیجز کا بھی اعلان کیا ہے۔مگر دنیا کی چھبیس بڑی جہاز راں کمپنیوں میں سے کوئی بھی خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔
ان کمپنیوں نے باب المندب کی ناکہ بندی سے بچنے کے لیے یورپ اور ایشیا کو تجارتی طور پر جوڑنے والا قدیم بحری راستہ بطور متبادل اختیار کیا ہے۔یعنی واسکوڈی گاما کی طرح پورا براعظم افریقہ گھوما جائے۔چنانچہ ایشیا اور یورپ کے درمیان سفر میں ساڑھے چھ ہزار کیلو میٹر ( ساڑھے تین ہزار ناٹیکل میل) کا اضافہ ہو گیا ہے۔ان جہازوں کو نہر سویز کے سفر کی نسبت چودہ دن اضافی سفر کرنا پڑتا ہے۔
چنانچہ ان جہازوں کے ایندھن کا خرچہ فی چکر ایک ملین ڈالر تک بڑھ گیا ہے۔ انشورنس پریمیم بھی آسمان کو چھو رہا ہے۔جہاز رانوں کو زیادہ تنخواہیں دینا پڑ رہی ہیں اور راستے میں کسی بندرگاہ پر اضافی قیام کا خرچہ بھی الگ سے پڑ گیا ہے۔یہ سب لاگت جوڑ لی جائے تو اس بحران کے نتیجے میں عام آدمی تک پہلے جو شے سو روپے میں پہنچ رہی تھی اب وہی شے دو سو سے ڈھائی سو روپے میں پڑ رہی ہے۔یعنی ہم اور آپ بھی اسرائیل کی غزہ پر چڑھائی کی قیمت نہ چاہتے ہوئے ادا کر رہے ہیں۔
انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن کا ہدف ہے کہ دو ہزار تیس تک جہاز رانی کے شعبے میں کاربن ڈائی اکسائیڈ کے اخراج میں چالیس فیصد کمی ہو جائے۔اگر جنگوں کے نتیجے میں عالمی تجارت ایسے ہی تلپٹ ہوتی رہی اور جہاز رانی یوں ہی متاثر ہوتی رہی تو تمام مقررہ ماحولیاتی ہدف حتمی تاریخ گزرنے کے بعد بھی ہم سب کا منہ تکتے رہیں گے۔
ایشیا اور یورپ کے مابین تجارت کے لیے کرہِ ارض کے انتہائی شمال میں آرکیٹک سرکل کی برف پگھلنے کے نتیجے میں ممکنہ بحری راستے کے استعمال پر کئی برس سے غور ہو رہا ہے تاکہ نہر سویز کی محتاجی ختم ہو جائے۔مگر اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں ابھی خاصا وقت اور سرمایہ درکار ہے۔
اسرائیل غزہ پر کنٹرول اس لیے بھی چاہتا ہے کہ بحیرہ روم کو بحیرہ قلزم سے ملانے والی ایک سو بیس کیلومیٹر طویل ( بن گوریان کینال ) تعمیر کر سکے۔ اس نہر سے نہ صرف سپر ٹینکرز گزر سکیں گے بلکہ نہر سویز کی بندش کے سبب پیدا ہونے والے معاشی بحران سے بھی نمٹا جا سکے۔اس منصوبے سے اسرائیل کو ٹرانزٹ فیس کے طور پر بیس ارب ڈالر سالانہ ملنے کی توقع ہے۔اسرائیل اسے قابلِ عمل منصوبہ سمجھتا ہے جو صرف بارہ برس میں اپنی لاگت پوری کر سکتا ہے۔
حالانکہ اسرائیل کی نسل کش پالسییوں کو روکنے سے مشرقِ وسطی کا بحران ایک دن میں حل ہو سکتا ہے۔تاہم ریاستیں اندھی طاقت کے بجائے عقل کو بحران کے حل کا چانس آسانی سے دیں تو پھر بات ہی کیا ہے۔
مسئلہ تو کوئی بھی چٹکی بجاتے حل ہو سکتا ہے۔اصل فن تو رتی برابر معاملے کو طول دے کر اسے دودھ دینے والی گائے بنانا ہے۔اسی کو انگریزی میں ڈپلومیسی کہتے ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)