سارا قصور رفیق بلوچ کا تھا
بجلی کے بلوں کی ادائیگی کا مسئلہ پورے ملک پر محیط ہوگیا ہے۔
لیاری کا مکین اصغر بلوچ چاکیواڑہ کے قریب ایک عمارت میں چوکیدار تھا۔ کے الیکٹرک کے اہلکاروں نے عمارت کے مالکان پر بجلی چوری کا الزام لگایا تھا۔ کے الیکٹرک اہلکار جس پولیس پارٹی کے ساتھ اس عمارت میں آئے تو وہاں اس عمارت کا کوئی مالک موجود نہ تھا۔
پولیس والے اپنے فرائض کو پورا کرنے کے لیے رفیق بلوچ کوگرفتارکرنے آئے اور رفیق بلوچ کا نام ایف آئی آر میں درج کردیا گیا، رفیق بلوچ کو جیل بھیج دیا گیا۔ رفیق بلوچ جیل میں سخت گرمی کی بناء پر شدید بیمار ہوا اور جاں بحق ہوگیا۔ رفیق بلوچ کی موت کی وجہ مہنگی بجلی اور کے الیکٹرک کی انتظامیہ کی غریب دشمنی تھی۔ بجلی کے بلوں کے بوجھ کے بڑھنے سے متوسط طبقے کا ماہانہ بجٹ تہس نہس ہوگیا۔
چند سال قبل تک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا ایک خاندان بجٹ کی بنیادی ترجیحات میں مکان کا کرایہ ( اگر اپنا مکان نہیں ہے)،کھانے پینے کے اخراجات، بچوں کی تعلیم پر ہونے والے اخراجات اور بیماریوں کے علاج کے اخراجات شامل ہوتے تھے۔ نچلے متوسط طبقہ کے لوگ اپنے قریبی رشتے داروں کی شادیوں کے لیے قرض لیتے تھے یا روایتی کمیٹی کے عمل میں شریک ہو کر ان اخراجات کو پورا کرتے تھے، مگرگزشتہ دو برسوں کے دوران بجلی اور گیس کے نرخوں میں کئی سو فیصد اضافے سے نچلے متوسط طبقہ کا تو ذکر ہی کیا متوسط طبقہ کا بجٹ تک عدم توازن کا شکار ہوگیا ہے۔ اب بجٹ میں سب سے اہم مسئلہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی کا بن گیا ہے۔
بجلی کے بلوں کی ادائیگی کا مسئلہ پورے ملک پر محیط ہوگیا ہے۔ بنیادی اشیاء کی قیمتیں آسمان پر پہنچنے سے عام آدمی کے لیے یہ طے کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ وہ بجلی کا بل ادا کرے یا مکان کا کرایہ ادا کرے یا اپنے بچوں کو بھوک کے عنصریت سے بچانے کے لیے ضروری اشیاء خریدے، بجلی کے مہنگا ہونے کی داستان پیپلزپارٹی کے دوسرے دورِحکومت سے شروع ہوئی ہے۔ 90ء کی دہائی کے وسط میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو شہید دوسری دفعہ وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان ہوئیں تو بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے پورا ملک متاثر تھا۔
مشیروں نے وزیر اعظم اور ان کے شوہرکو مشورہ دیا کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بجلی کے شعبے میں سرمایہ کاری پر متوجہ کیا جائے، یوں بجلی کے شعبے میں Independent Power Producers (IPPs) کی سرمایہ کاری شروع ہوئی۔ ان غیر ملکی سرمایہ کاروں سے انتہائی مہنگے ٹیرف پر بجلی پیدا کرنے کے معاہدے پر دستخط ہوئے، یوں پہلی دفعہ کراچی کی سرحد سے متصل بلوچستان کے شہر حب میں سعودی سرمایہ کاروں کے تعاون سے حب پاور پروجیکٹ (HubCo) پروجیکٹ قائم ہوا۔
مظفرگڑھ میں بھی محمود کوٹ کے مقام پر Lacpir Power Project مکمل ہوا۔ اسی طرح محمود کوٹ اورکراچی میں مقامی سرمایہ کاروں نے اپنے پاور پروجیکٹ قائم کیے، جب میاں نواز شریف دوسری دفعہ وزیر اعظم بنے تو پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف آئی پی پی کی سرمایہ کاری میں کمیشن لینے کے الزامات کی بازگشت سنائی دی مگر پھر میاں صاحب کی حکومت نے بھی انتہائی سخت شرائط پر غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بجلی کے شعبے میں پاور پلانٹ لگانے کی اجازت دیدی۔ برسر اقتدار آنے والی حکومت نے اس پالیسی کو برقرار رکھا اور اب تک 144 کے قریب پاور پروجیکٹ قائم ہوئے۔
یہ بات بھی عام ہوگئی کہ سی پیک کے تحت قائم پاور پروجیکٹ کے علاوہ باقی پروجیکٹ میں سے کچھ حکومت کے ہیں، باقی ملک کے بااثر خاندانوں کے ہیں جن میں سے کچھ کا تعلق برسر اقتدار جماعتوں سے بھی ہے۔ اب یہ خبریں معمول بن گئیں کہ ملک میں بجلی کی پیداوار بڑھ گئی ہے مگر بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کی بناء پر ملک کے بیشتر علاقے لوڈ شیڈنگ کا شکار ہیں۔ جب میاں شہباز شریف کی قیادت میں دو سال قبل مخلوط حکومت قائم ہوئی تو میاں صاحب کی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کرتے ہوئے بجلی،گیس اور پٹرولیم مصنوعات کو دی جانے والی سبسڈی ختم کرنی شروع کی، جس کی بناء پرگزشتہ دو برسوں میں بجلی کے نرخ دو سو فیصد سے زیادہ ہوگئے۔
اقتصادی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ حکومت بجلی کی پیداوار میں خودکفیل ہونے کے باوجود آئی پی پیز سے بجلی نہیں خریدتی پھر بھی انھیں ڈالر میں ادائیگی کرتی رہی ہے۔ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے ایک دفعہ بتایا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ڈالرکے بجائے مقامی کرنسی میں ادائیگی شروع کردی تھی۔ معروف سرمایہ کار سابق نگراں وزیر گوہر اعجاز نے آئی پی پیزکے کردارکو افشاء کرنا شروع کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 80 فیصد آئی پی پیز 40 خاندانوں اور حکومت کے ہیں۔
گزشتہ 3ماہ میں آئی پی پیزکو 450 ارب روپے کی بھاری ادائیگیاں کی گئیں۔گوہر اعجاز نے آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کے تجزیے کے بعد کہا کہ اس ملک کے غریبوں کی آمدنی میں سے 40 خاندانوں کو خوشحالی تفویض کردی گئی ہے۔ اس مد میں صرف 3 ماہ کے دوران 150 ارب روپے ادا کیے گئے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ 4 پاور پلانٹس کو بجلی پیدا کیے بغیر 10ارب روپے ماہانہ ادا کیے جا رہے ہیں اور ان میں سے آدھے پاور پلانٹس 10فیصد سے بھی کم کیپیسٹی پر کام کر رہے ہیں۔ کراچی کے صنعتی علاقہ کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے صدر جوہر علی قلندر اور دیگر عہدیداروں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ آئی پی پیزکو دفاعی بجٹ سے زیادہ رقم ادا کی جا رہی ہے۔ انھوں نے وزیر اعظم سے سوال کیا کہ وفاقی حکومت کو 240 ملین افراد کے مفاد سے زیادہ 40 خاندانوں کا مفاد عزیز ہے۔
ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ملک میں 45,000 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس میں سے صرف 22,000 میگاواٹ بجلی استعمال ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صنعتی شعبہ کو پہلے 35 روپے فی یونٹ بجلی ملتی تھی جو اب 60 روپے فی یونٹ ہوگئی ہے۔ اس میں سے 18 روپے فی یونٹ کیپیسٹی چارجزکے ہوتے ہیں۔ اس طرح 2,000 بلین روپے کیپیسٹی چارجزکی مد میں ادا کیے جا رہے ہیں۔ ایسے ہی مطالبات فیڈرل بی ایریا ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے عہدیداروں نے بھی کیے ہیں۔ اقتصادی بیورو پر رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی نے لکھا ہے کہ پاکستان میں بجلی کے نرخ بھارت، بنگلہ دیش اور ویتنام کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ توانائی کے وزیر اویس لغاری اس صورتحال میں اب کھل کر باتیں کرنے لگے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کو یکطرفہ طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اب تو وہ Economical Load Shadingکی بھی اصطلاح استعمال کر رہے ہیں۔ اس اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ جس علاقے میں بجلی کے بلوں کی صد فی صد ریکوری نہیں ہوتی وہاں لوڈ شیڈنگ ہو۔ انھوں نے گزشتہ دنوں یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ حکومت کے پاس وافر مقدار میں بجلی موجود ہے مگر حکومت لوڈ شیڈنگ کرکے اربوں روپے بچا رہی ہے۔
گزشتہ دنوں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق دو برسوں میں بجلی کے ٹیرف میں فی یونٹ 25 روپے 77 پیسے کا اضافہ ہوا ہے اور صارفین پر دو سال میں 2000 ارب روپے کا اضافی بوجھ بھی بڑھ گیا ہے، مہنگی بجلی کی وجہ کیپیسٹی چارجز ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 22 سرکاری کمپنیوں کوکیپیسٹی چارجز کا 48 فیصد حصہ ملتا ہے یوں سرکار ی کمپنیوں کو اس مد میں اب تک 160 ارب 30 کروڑ روپے ادا کیے جاچکے ہیں۔ یوں اس پورے کھیل میں 40خاندانوں اور حکومت کے وارے نیارے ہیں۔ ساری باتوں سے یہ سبق ملتا ہے کہ ''سارا قصور رفیق بلوچ کا تھا۔''
پولیس والے اپنے فرائض کو پورا کرنے کے لیے رفیق بلوچ کوگرفتارکرنے آئے اور رفیق بلوچ کا نام ایف آئی آر میں درج کردیا گیا، رفیق بلوچ کو جیل بھیج دیا گیا۔ رفیق بلوچ جیل میں سخت گرمی کی بناء پر شدید بیمار ہوا اور جاں بحق ہوگیا۔ رفیق بلوچ کی موت کی وجہ مہنگی بجلی اور کے الیکٹرک کی انتظامیہ کی غریب دشمنی تھی۔ بجلی کے بلوں کے بوجھ کے بڑھنے سے متوسط طبقے کا ماہانہ بجٹ تہس نہس ہوگیا۔
چند سال قبل تک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا ایک خاندان بجٹ کی بنیادی ترجیحات میں مکان کا کرایہ ( اگر اپنا مکان نہیں ہے)،کھانے پینے کے اخراجات، بچوں کی تعلیم پر ہونے والے اخراجات اور بیماریوں کے علاج کے اخراجات شامل ہوتے تھے۔ نچلے متوسط طبقہ کے لوگ اپنے قریبی رشتے داروں کی شادیوں کے لیے قرض لیتے تھے یا روایتی کمیٹی کے عمل میں شریک ہو کر ان اخراجات کو پورا کرتے تھے، مگرگزشتہ دو برسوں کے دوران بجلی اور گیس کے نرخوں میں کئی سو فیصد اضافے سے نچلے متوسط طبقہ کا تو ذکر ہی کیا متوسط طبقہ کا بجٹ تک عدم توازن کا شکار ہوگیا ہے۔ اب بجٹ میں سب سے اہم مسئلہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی کا بن گیا ہے۔
بجلی کے بلوں کی ادائیگی کا مسئلہ پورے ملک پر محیط ہوگیا ہے۔ بنیادی اشیاء کی قیمتیں آسمان پر پہنچنے سے عام آدمی کے لیے یہ طے کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ وہ بجلی کا بل ادا کرے یا مکان کا کرایہ ادا کرے یا اپنے بچوں کو بھوک کے عنصریت سے بچانے کے لیے ضروری اشیاء خریدے، بجلی کے مہنگا ہونے کی داستان پیپلزپارٹی کے دوسرے دورِحکومت سے شروع ہوئی ہے۔ 90ء کی دہائی کے وسط میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو شہید دوسری دفعہ وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان ہوئیں تو بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے پورا ملک متاثر تھا۔
مشیروں نے وزیر اعظم اور ان کے شوہرکو مشورہ دیا کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بجلی کے شعبے میں سرمایہ کاری پر متوجہ کیا جائے، یوں بجلی کے شعبے میں Independent Power Producers (IPPs) کی سرمایہ کاری شروع ہوئی۔ ان غیر ملکی سرمایہ کاروں سے انتہائی مہنگے ٹیرف پر بجلی پیدا کرنے کے معاہدے پر دستخط ہوئے، یوں پہلی دفعہ کراچی کی سرحد سے متصل بلوچستان کے شہر حب میں سعودی سرمایہ کاروں کے تعاون سے حب پاور پروجیکٹ (HubCo) پروجیکٹ قائم ہوا۔
مظفرگڑھ میں بھی محمود کوٹ کے مقام پر Lacpir Power Project مکمل ہوا۔ اسی طرح محمود کوٹ اورکراچی میں مقامی سرمایہ کاروں نے اپنے پاور پروجیکٹ قائم کیے، جب میاں نواز شریف دوسری دفعہ وزیر اعظم بنے تو پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف آئی پی پی کی سرمایہ کاری میں کمیشن لینے کے الزامات کی بازگشت سنائی دی مگر پھر میاں صاحب کی حکومت نے بھی انتہائی سخت شرائط پر غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بجلی کے شعبے میں پاور پلانٹ لگانے کی اجازت دیدی۔ برسر اقتدار آنے والی حکومت نے اس پالیسی کو برقرار رکھا اور اب تک 144 کے قریب پاور پروجیکٹ قائم ہوئے۔
یہ بات بھی عام ہوگئی کہ سی پیک کے تحت قائم پاور پروجیکٹ کے علاوہ باقی پروجیکٹ میں سے کچھ حکومت کے ہیں، باقی ملک کے بااثر خاندانوں کے ہیں جن میں سے کچھ کا تعلق برسر اقتدار جماعتوں سے بھی ہے۔ اب یہ خبریں معمول بن گئیں کہ ملک میں بجلی کی پیداوار بڑھ گئی ہے مگر بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کی بناء پر ملک کے بیشتر علاقے لوڈ شیڈنگ کا شکار ہیں۔ جب میاں شہباز شریف کی قیادت میں دو سال قبل مخلوط حکومت قائم ہوئی تو میاں صاحب کی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کرتے ہوئے بجلی،گیس اور پٹرولیم مصنوعات کو دی جانے والی سبسڈی ختم کرنی شروع کی، جس کی بناء پرگزشتہ دو برسوں میں بجلی کے نرخ دو سو فیصد سے زیادہ ہوگئے۔
اقتصادی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ حکومت بجلی کی پیداوار میں خودکفیل ہونے کے باوجود آئی پی پیز سے بجلی نہیں خریدتی پھر بھی انھیں ڈالر میں ادائیگی کرتی رہی ہے۔ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے ایک دفعہ بتایا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ڈالرکے بجائے مقامی کرنسی میں ادائیگی شروع کردی تھی۔ معروف سرمایہ کار سابق نگراں وزیر گوہر اعجاز نے آئی پی پیزکے کردارکو افشاء کرنا شروع کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 80 فیصد آئی پی پیز 40 خاندانوں اور حکومت کے ہیں۔
گزشتہ 3ماہ میں آئی پی پیزکو 450 ارب روپے کی بھاری ادائیگیاں کی گئیں۔گوہر اعجاز نے آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کے تجزیے کے بعد کہا کہ اس ملک کے غریبوں کی آمدنی میں سے 40 خاندانوں کو خوشحالی تفویض کردی گئی ہے۔ اس مد میں صرف 3 ماہ کے دوران 150 ارب روپے ادا کیے گئے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ 4 پاور پلانٹس کو بجلی پیدا کیے بغیر 10ارب روپے ماہانہ ادا کیے جا رہے ہیں اور ان میں سے آدھے پاور پلانٹس 10فیصد سے بھی کم کیپیسٹی پر کام کر رہے ہیں۔ کراچی کے صنعتی علاقہ کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے صدر جوہر علی قلندر اور دیگر عہدیداروں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ آئی پی پیزکو دفاعی بجٹ سے زیادہ رقم ادا کی جا رہی ہے۔ انھوں نے وزیر اعظم سے سوال کیا کہ وفاقی حکومت کو 240 ملین افراد کے مفاد سے زیادہ 40 خاندانوں کا مفاد عزیز ہے۔
ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ملک میں 45,000 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس میں سے صرف 22,000 میگاواٹ بجلی استعمال ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صنعتی شعبہ کو پہلے 35 روپے فی یونٹ بجلی ملتی تھی جو اب 60 روپے فی یونٹ ہوگئی ہے۔ اس میں سے 18 روپے فی یونٹ کیپیسٹی چارجزکے ہوتے ہیں۔ اس طرح 2,000 بلین روپے کیپیسٹی چارجزکی مد میں ادا کیے جا رہے ہیں۔ ایسے ہی مطالبات فیڈرل بی ایریا ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے عہدیداروں نے بھی کیے ہیں۔ اقتصادی بیورو پر رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی نے لکھا ہے کہ پاکستان میں بجلی کے نرخ بھارت، بنگلہ دیش اور ویتنام کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ توانائی کے وزیر اویس لغاری اس صورتحال میں اب کھل کر باتیں کرنے لگے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کو یکطرفہ طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اب تو وہ Economical Load Shadingکی بھی اصطلاح استعمال کر رہے ہیں۔ اس اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ جس علاقے میں بجلی کے بلوں کی صد فی صد ریکوری نہیں ہوتی وہاں لوڈ شیڈنگ ہو۔ انھوں نے گزشتہ دنوں یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ حکومت کے پاس وافر مقدار میں بجلی موجود ہے مگر حکومت لوڈ شیڈنگ کرکے اربوں روپے بچا رہی ہے۔
گزشتہ دنوں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق دو برسوں میں بجلی کے ٹیرف میں فی یونٹ 25 روپے 77 پیسے کا اضافہ ہوا ہے اور صارفین پر دو سال میں 2000 ارب روپے کا اضافی بوجھ بھی بڑھ گیا ہے، مہنگی بجلی کی وجہ کیپیسٹی چارجز ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 22 سرکاری کمپنیوں کوکیپیسٹی چارجز کا 48 فیصد حصہ ملتا ہے یوں سرکار ی کمپنیوں کو اس مد میں اب تک 160 ارب 30 کروڑ روپے ادا کیے جاچکے ہیں۔ یوں اس پورے کھیل میں 40خاندانوں اور حکومت کے وارے نیارے ہیں۔ ساری باتوں سے یہ سبق ملتا ہے کہ ''سارا قصور رفیق بلوچ کا تھا۔''