نیتن یاہو کی امریکا میں اہم ملاقاتیں
دو چار روز قبل بھی عالمی عدالت انصاف فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے
اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو امریکا کے سرکاری دورے پر ہیں، اس دوران انھوں نے امریکا کی اعلیٰ اور اہم ترین شخصیات سے ملاقات کی ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق نیتن یاہو نے گزشتہ روز واشنگٹن ڈی سی میں امریکا کے صدر جوبائیڈن سے ملاقات کی ہے۔ میڈیا نے اس ملاقات کے حوالے سے جو خبر دی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ امریکا کے صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے معاہدے کو تیزی سے حتمی شکل دیں۔
نیتن یاہو نے دوسری ملاقات امریکا کی نائب صدر کملا ہیرس سے کی ہے، اس ملاقات میں نائب صدر کملا ہیرس نے بھی غزہ میں اموات پرا اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ امریکا کی نائب صدر کملا ہیرس نے اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات کے دوران دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ ہم غزہ کی صورت حال پر خاموش نہیں رہیں گے، غزہ جنگ بندی معاہدہ کرنے کا وقت آگیا ۔ انھوں نے اسرائیلی وزیر اعظم پر زور دیا کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے کے لیے اقدامات کریں اس سے فلسطینی شہریوں کی مشکلات میں آسانی پیدا ہوگی۔
امریکا میں صدارتی الیکشن ہونے والے ہیں۔ کملا ہیرس ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار ہیں۔ پہلے صدر جوبائیڈن امیدوار تھے لیکن ڈھلتی عمر اور ناساز طبیعت کے باعث انھوں نے کملا ہیرس کی حمایت کر کے خود صدارتی امیدوار سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے۔ ریپبلکن پارٹی نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کر دیا ہے اور وہ پورے زور وشور سے اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
امریکا میں صدارتی الیکشن کی مہم شروع ہو چکی ہے، ایسے حالات میں امریکی انتظامیہ کی روایت یہی ہے کہ وہ صدارتی مہم کے دوران کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرتی۔ لہٰذا نیتن یاہو کا دورۂ امریکا اس اعتبار سے خاصا معنی خیز ہے۔ نیتن یاہو نے ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی ملاقات کی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو اسرائیل کا بڑا حامی تصور کیا جاتا ہے جب کہ ڈیموکریٹس کے بارے میں اسرائیلی دائیں بازو کی حکومتیں اپنے تحفظات رکھتی ہیں۔ نیتن یاہو کا تعلق بھی چونکہ اسرائیل کے دائیں بازو سے ہے، اس لیے وہ صدر جوبائیڈن سے وہ کچھ حاصل نہیں کرسکے جس کی اسرائیل کو ضرورت تھی۔
اب حالیہ دورے میں ان کی ملاقاتیں ظاہر کر رہی ہیں کہ وہ مستقبل کو سامنے رکھ کر امریکا کے صدارتی امیدواروں کے ساتھ معاملات طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ادھر عوامی جمہوریہ چین حماس اور فلسطین اتھارٹی کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں بیجنگ میں اہم ملاقات ہو چکی ہے۔
جہاں تک عوامی جمہوریہ چین کا تعلق ہے، تو چین اسرائیل پر اتنا اثرورسوخ نہیں رکھتا کہ وہ نیتن یاہو کی سربراہیم یں قائم اسرائیلی حکومت کو غزہ میں فوری جنگ بندی پر مجبور کر سکے البتہ چینی قیادت مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک اور اسرائیل دونوں کے لیے ناپسندیدہ بھی نہیں ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اگر چین کی قیادت متحرک ڈپلومیسی کے ساتھ آگے بڑھے تو معاملات میں بہتری کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی میں بھی چین نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
اب چین نے فلسطینیوں کے گروپوں کے حوالے سے یکساں پالیسی کی بات کی ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ چینی قیادت پی ایل او اور حماس کے ساتھ یکساں اور برابری کی سطح پر سفارت کاری کر سکتی ہے، دونوں فلسطینی گروپ چین کی بات سن سکتے ہیں۔ اگر فلسطینی قیادت کسی ایک نکتے پر متفق ہو جائے تو تنازع فلسطین کے حل کے امکانات زیادہ روشن ہو سکتے ہیں اور اسرائیلی قیادت پر عالمی دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اسرائیل کی کوشش یہ ہے کہ وہ اپنی شرائط پر فلسطینیوں سے کوئی معاہدہ کرے۔ اس وقت چونکہ اسرائیل کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا ہے، حتیٰ کہ اسرائیل کے تاریخی اتحادی بھی اس کی پالیسی پر تنقید کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں اسرائیل کو امریکا اور مغربی یورپ کی حمایت کی اشد ضرورت ہے۔ نیتن یاہو کے دورہ امریکا کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
یہ حالات فلسطینیوں کے حق میں ہیں، اس وقت امریکی انتظامیہ اسرائیل اور غزہ کے حوالے سے کوئی غیرمعمولی فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ تقریباً اگلے چھ سات ماہ تک یہی صورت حال رہے گی۔ برطانیہ میں لیبر پارٹی نے بھی تازہ تازہ حکومت بنائی ہے۔ نئی برطانوی حکومت بھی فوری طور پر اسرائیل کے حق میں کوئی غیرمعمولی فیصلہ نہیں لے سکتی۔
یہی صورت حال فرانس میں ہے۔ اس کے برعکس چین عالمی حالات کو اپنے حق میں کرنے کے لیے متحرک کردار ادا کر رہا ہے۔ فلسطینیوں کی قیادت پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام خصوصاً خواتین اور بچوں کی حالت زار کو سامنے رکھ کر اپنی جنگ حکمت عملی پر غور کرے۔ یہ اچھا موقع ہے اور فلسطین کی قیادت کو اس موقعے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
حماس اور پی ایل او کے درمیان اختلافات کا سارا فائدہ اسرائیل کو ہو رہا ہے۔ فلسطین کی قیادت کو اب حتمی فیصلہ کر لینا چاہیے کہ ان کی تحریک آزادی کی بنیاد قوم پرستی نظریے پر ہے یا مذہب کی بنیاد پر۔ اگر فلسطینی قیادت نظریاتی طور پر تقسیم رہی تو آزادیٔ فلسطین کی منزل حاصل کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتی جائے گا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں جنگ بند نہیں کی ہے بلکہ وہ فلسطینی اتھارٹی کے علاقوں میں بھی کارروائیاں کر رہا ہے۔ گزشتہ روز کی اطلاعات کے مطابق اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں سیکڑوں فلسطینی شہریوں اور یہودی اسرائیلیوں نے غزہ میں جنگ اور تشدد کے سلسلے کے خاتمے کے لیے امن مارچ کیا ہے۔ انھوں نے غزہ میں جنگ بندی اور فلسطین اسرائیل تعلقات کو دوبارہ معمول پر لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ اس سے نیتن یاہو کی حکومت پر اندرونی طور پر زبردست دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حماس اور پی ایل او کی قیادت کے لیے بھی اس میں ایک سبق ہے کہ فلسطینی عوام جنگ سے تنگ آ چکے ہیں۔ اگر فلسطینی قیادت بھی ہٹ دھرمی پر قائم رہی تو فلسطینی عوام اپنی قیادت سے بھی ناراض ہو سکتے ہیں۔ ادھر اسرائیل کے وہ یہودی شہری جو دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت کے مخالف ہیں، وہ بھی میدان میں ہیں۔ اس سے نیتن یاہو پر شدید دباؤ بڑھا ہے لیکن ابھی نیتن یاہو طاقت کا استعمال جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ اسرائیلی فوج نے خان یونس میں زمینی کارروائی میں توسیع کردی جس کے باعث فلسطینی شہری قبرستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں، غیر ملکی میڈیا کے مطابق اسرائیل کی جانب سے تباہ حال غزہ کی پٹی میں تازہ حملوں کا سلسلہ جاری ہے، اسرائیل کے لڑاکا طیاروں نے خان یونس، بوریج پناہ گزین کیمپوں اور غزہ سٹی میں گھروں پر بمباری کردی جس کے نتیجے میں متعدد فلسطینی شہید ہوگئے۔
مغربی کنارے میں حماس کے ایک رہنما کی طبیعت ناساز ہونے کے بعد ان کا اسرائیلی حراست میں انتقال ہو گیا۔ 63سالہ مصطفی محمد ابو عرہ جنوبی اسرائیل کی رامون جیل سے اسپتال منتقل کیے جانے کے بعد انتقال کر گئے۔ حماس کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا ہے۔ جب سے غزہ کا تنازع شروع ہوا ہے، اسرائیل کی جارحیت مسلسل جاری ہے۔ اسرائیل میں بسنے والے فلسطینیوں کے لیے حالات خاصے خراب ہو رہے ہیں۔
حماس کے وہ رہنما جو بیرون ملک چلے گئے ہیں، وہ تو محفوظ ہیں لیکن جو اسرائیلی علاقے میں ہیں، ان کی جانیں شدید خطرے میں ہیں۔ عالمی اداروں اور عالمی سربراہوں نے بارہا دفعہ اسرائیل کو غزہ میں جنگ بند کرنے کا کہا ہے لیکن اسرائیل کی حکومت نے کسی کی بات نہیں مانی اور وہ مسلسل فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے۔ عالمی عدالت انصاف بھی اسرائیلی حکومت کو غزہ میں جنگ بند کرنے کا حکم دے چکی ہے مگر اس کے باوجود فسطینیوں کا قتل عام جاری ہے۔
دو چار روز قبل بھی عالمی عدالت انصاف فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ آئی سی جے نے قرار دیا ہے کہ اسرائیل کو جتنا جلد ممکن ہو فوری طور پر مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے نکل جانا چاہیے۔ عالمی عدالت انصاف نے فیصلہ تو دے دیا ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایسے فیصلوں پر عملدرآمد کون کروائے گا؟ امریکا، برطانیہ، فرانس اور یورپی یونین کھل کر اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں۔ عرب لیگ بھی اس حوالے سے مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہے کیونکہ فلسطینیوں کی سیاسی قیادت کے حوالے سے عرب ملکوں کی اپنی اپنی پالیسی ہے۔ ایسے حالات میں بہتر راستہ یہی ہے کہ چین کی کاوشوں کا ساتھ دیا جائے اور غزہ کے فلسطینیوں کے تحفظ کا بندوبست کیا جائے۔
نیتن یاہو نے دوسری ملاقات امریکا کی نائب صدر کملا ہیرس سے کی ہے، اس ملاقات میں نائب صدر کملا ہیرس نے بھی غزہ میں اموات پرا اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ امریکا کی نائب صدر کملا ہیرس نے اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات کے دوران دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ ہم غزہ کی صورت حال پر خاموش نہیں رہیں گے، غزہ جنگ بندی معاہدہ کرنے کا وقت آگیا ۔ انھوں نے اسرائیلی وزیر اعظم پر زور دیا کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے کے لیے اقدامات کریں اس سے فلسطینی شہریوں کی مشکلات میں آسانی پیدا ہوگی۔
امریکا میں صدارتی الیکشن ہونے والے ہیں۔ کملا ہیرس ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار ہیں۔ پہلے صدر جوبائیڈن امیدوار تھے لیکن ڈھلتی عمر اور ناساز طبیعت کے باعث انھوں نے کملا ہیرس کی حمایت کر کے خود صدارتی امیدوار سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے۔ ریپبلکن پارٹی نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کر دیا ہے اور وہ پورے زور وشور سے اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
امریکا میں صدارتی الیکشن کی مہم شروع ہو چکی ہے، ایسے حالات میں امریکی انتظامیہ کی روایت یہی ہے کہ وہ صدارتی مہم کے دوران کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرتی۔ لہٰذا نیتن یاہو کا دورۂ امریکا اس اعتبار سے خاصا معنی خیز ہے۔ نیتن یاہو نے ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی ملاقات کی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو اسرائیل کا بڑا حامی تصور کیا جاتا ہے جب کہ ڈیموکریٹس کے بارے میں اسرائیلی دائیں بازو کی حکومتیں اپنے تحفظات رکھتی ہیں۔ نیتن یاہو کا تعلق بھی چونکہ اسرائیل کے دائیں بازو سے ہے، اس لیے وہ صدر جوبائیڈن سے وہ کچھ حاصل نہیں کرسکے جس کی اسرائیل کو ضرورت تھی۔
اب حالیہ دورے میں ان کی ملاقاتیں ظاہر کر رہی ہیں کہ وہ مستقبل کو سامنے رکھ کر امریکا کے صدارتی امیدواروں کے ساتھ معاملات طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ادھر عوامی جمہوریہ چین حماس اور فلسطین اتھارٹی کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں بیجنگ میں اہم ملاقات ہو چکی ہے۔
جہاں تک عوامی جمہوریہ چین کا تعلق ہے، تو چین اسرائیل پر اتنا اثرورسوخ نہیں رکھتا کہ وہ نیتن یاہو کی سربراہیم یں قائم اسرائیلی حکومت کو غزہ میں فوری جنگ بندی پر مجبور کر سکے البتہ چینی قیادت مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک اور اسرائیل دونوں کے لیے ناپسندیدہ بھی نہیں ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اگر چین کی قیادت متحرک ڈپلومیسی کے ساتھ آگے بڑھے تو معاملات میں بہتری کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی میں بھی چین نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
اب چین نے فلسطینیوں کے گروپوں کے حوالے سے یکساں پالیسی کی بات کی ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ چینی قیادت پی ایل او اور حماس کے ساتھ یکساں اور برابری کی سطح پر سفارت کاری کر سکتی ہے، دونوں فلسطینی گروپ چین کی بات سن سکتے ہیں۔ اگر فلسطینی قیادت کسی ایک نکتے پر متفق ہو جائے تو تنازع فلسطین کے حل کے امکانات زیادہ روشن ہو سکتے ہیں اور اسرائیلی قیادت پر عالمی دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اسرائیل کی کوشش یہ ہے کہ وہ اپنی شرائط پر فلسطینیوں سے کوئی معاہدہ کرے۔ اس وقت چونکہ اسرائیل کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا ہے، حتیٰ کہ اسرائیل کے تاریخی اتحادی بھی اس کی پالیسی پر تنقید کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں اسرائیل کو امریکا اور مغربی یورپ کی حمایت کی اشد ضرورت ہے۔ نیتن یاہو کے دورہ امریکا کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
یہ حالات فلسطینیوں کے حق میں ہیں، اس وقت امریکی انتظامیہ اسرائیل اور غزہ کے حوالے سے کوئی غیرمعمولی فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ تقریباً اگلے چھ سات ماہ تک یہی صورت حال رہے گی۔ برطانیہ میں لیبر پارٹی نے بھی تازہ تازہ حکومت بنائی ہے۔ نئی برطانوی حکومت بھی فوری طور پر اسرائیل کے حق میں کوئی غیرمعمولی فیصلہ نہیں لے سکتی۔
یہی صورت حال فرانس میں ہے۔ اس کے برعکس چین عالمی حالات کو اپنے حق میں کرنے کے لیے متحرک کردار ادا کر رہا ہے۔ فلسطینیوں کی قیادت پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام خصوصاً خواتین اور بچوں کی حالت زار کو سامنے رکھ کر اپنی جنگ حکمت عملی پر غور کرے۔ یہ اچھا موقع ہے اور فلسطین کی قیادت کو اس موقعے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
حماس اور پی ایل او کے درمیان اختلافات کا سارا فائدہ اسرائیل کو ہو رہا ہے۔ فلسطین کی قیادت کو اب حتمی فیصلہ کر لینا چاہیے کہ ان کی تحریک آزادی کی بنیاد قوم پرستی نظریے پر ہے یا مذہب کی بنیاد پر۔ اگر فلسطینی قیادت نظریاتی طور پر تقسیم رہی تو آزادیٔ فلسطین کی منزل حاصل کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتی جائے گا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں جنگ بند نہیں کی ہے بلکہ وہ فلسطینی اتھارٹی کے علاقوں میں بھی کارروائیاں کر رہا ہے۔ گزشتہ روز کی اطلاعات کے مطابق اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں سیکڑوں فلسطینی شہریوں اور یہودی اسرائیلیوں نے غزہ میں جنگ اور تشدد کے سلسلے کے خاتمے کے لیے امن مارچ کیا ہے۔ انھوں نے غزہ میں جنگ بندی اور فلسطین اسرائیل تعلقات کو دوبارہ معمول پر لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ اس سے نیتن یاہو کی حکومت پر اندرونی طور پر زبردست دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حماس اور پی ایل او کی قیادت کے لیے بھی اس میں ایک سبق ہے کہ فلسطینی عوام جنگ سے تنگ آ چکے ہیں۔ اگر فلسطینی قیادت بھی ہٹ دھرمی پر قائم رہی تو فلسطینی عوام اپنی قیادت سے بھی ناراض ہو سکتے ہیں۔ ادھر اسرائیل کے وہ یہودی شہری جو دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت کے مخالف ہیں، وہ بھی میدان میں ہیں۔ اس سے نیتن یاہو پر شدید دباؤ بڑھا ہے لیکن ابھی نیتن یاہو طاقت کا استعمال جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ اسرائیلی فوج نے خان یونس میں زمینی کارروائی میں توسیع کردی جس کے باعث فلسطینی شہری قبرستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں، غیر ملکی میڈیا کے مطابق اسرائیل کی جانب سے تباہ حال غزہ کی پٹی میں تازہ حملوں کا سلسلہ جاری ہے، اسرائیل کے لڑاکا طیاروں نے خان یونس، بوریج پناہ گزین کیمپوں اور غزہ سٹی میں گھروں پر بمباری کردی جس کے نتیجے میں متعدد فلسطینی شہید ہوگئے۔
مغربی کنارے میں حماس کے ایک رہنما کی طبیعت ناساز ہونے کے بعد ان کا اسرائیلی حراست میں انتقال ہو گیا۔ 63سالہ مصطفی محمد ابو عرہ جنوبی اسرائیل کی رامون جیل سے اسپتال منتقل کیے جانے کے بعد انتقال کر گئے۔ حماس کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا ہے۔ جب سے غزہ کا تنازع شروع ہوا ہے، اسرائیل کی جارحیت مسلسل جاری ہے۔ اسرائیل میں بسنے والے فلسطینیوں کے لیے حالات خاصے خراب ہو رہے ہیں۔
حماس کے وہ رہنما جو بیرون ملک چلے گئے ہیں، وہ تو محفوظ ہیں لیکن جو اسرائیلی علاقے میں ہیں، ان کی جانیں شدید خطرے میں ہیں۔ عالمی اداروں اور عالمی سربراہوں نے بارہا دفعہ اسرائیل کو غزہ میں جنگ بند کرنے کا کہا ہے لیکن اسرائیل کی حکومت نے کسی کی بات نہیں مانی اور وہ مسلسل فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے۔ عالمی عدالت انصاف بھی اسرائیلی حکومت کو غزہ میں جنگ بند کرنے کا حکم دے چکی ہے مگر اس کے باوجود فسطینیوں کا قتل عام جاری ہے۔
دو چار روز قبل بھی عالمی عدالت انصاف فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ آئی سی جے نے قرار دیا ہے کہ اسرائیل کو جتنا جلد ممکن ہو فوری طور پر مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے نکل جانا چاہیے۔ عالمی عدالت انصاف نے فیصلہ تو دے دیا ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایسے فیصلوں پر عملدرآمد کون کروائے گا؟ امریکا، برطانیہ، فرانس اور یورپی یونین کھل کر اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں۔ عرب لیگ بھی اس حوالے سے مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہے کیونکہ فلسطینیوں کی سیاسی قیادت کے حوالے سے عرب ملکوں کی اپنی اپنی پالیسی ہے۔ ایسے حالات میں بہتر راستہ یہی ہے کہ چین کی کاوشوں کا ساتھ دیا جائے اور غزہ کے فلسطینیوں کے تحفظ کا بندوبست کیا جائے۔