ملک کو سنگین چیلنجز درپیش نمٹنے کیلئے سب کو ملکر کام کرنا ہوگا

آئین واحد متفقہ دستاویز ہے جو سب کو جوڑ سکتا ہے: تجزیہ کاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

عکاسی: وسیم نیاز

ملک کو اس وقت سیاسی، معاشی، معاشرتی و دیگر سنگین چیلنجز کا سامنا ہے جن میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔


مہنگائی اور بجلی کے زیادہ بلوںنے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی کی فضا ہے جبکہ معاشرے میں پولرائزیشن بڑھ گئی ہے جس سے مزید مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ان تمام حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے ''موجودہ ملکی بحران اور ان کا حل'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سینئر تجزیہ کاروں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔


پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد


(ڈین فیکلٹی آف بیہورل اینڈ سوشل سائنسز جامعہ پنجاب)


گزشتہ برسوں میں پاکستان میں سیاسی زوال شدت کے ساتھ نظر آرہا تھا مگر 2024ء کے پاکستان میں سیاسی زوال کے ساتھ ساتھ معاشی اور معاشرتی زوال بھی شامل ہوگیا ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔بہتری کی امید تب ہوتی ہے جب قوم یکجا ہو مگر اس وقت تو اداروں اور معاشرے کے درمیان عدم اعتماد کی صورتحال ہے جو پریشان کن ہے۔ معاشرہ انحطاط کا شکار ہے، بچے گھر اور معاشرے سے کٹ گئے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا سے رہنمائی اور پسند کا مواد لیتے ہیں جس سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔


انہیں جو بہتر لگتا ہے وہ سیکھتے اور کرتے ہیں۔ ہمارے بے روزگار نوجوانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے،ا یسے حالات میں سوشل میڈیا کے ذریعے ان کا استعمال ہو رہا ہے، وہ وقتی طور پر اپنا کتھارسسز بھی کر لیتے ہیں مگر اس سے انتشار کو فروغ مل رہا ہے۔ اس کی ذمہ داری ارباب اختیار پر ہے۔ پہلے سرکاری یونیورسٹیز کی اہمیت کو ختم کرنے کیلئے نجی یونیورسٹیاں قائم کی گئیں، سب کیمپس بنائے گئے، پھر احساس ہوا کہ اکیڈیمیا کو جو ڈیلور کرنا چاہیے تھا وہ نہیں ہو رہا۔


اس کے بعد جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ اب پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کی فیس بڑھا دی گئی ہے، تعلیمی اداروں کے فنڈز روک لیے گئے ہیں، نئے داخلوں کی شرح کم ہوگئی ہے، مشکل معاشی حالات کی وجہ سے بچے فیس ادا نہیں کر پا رہے۔ افسوس ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ بچے بھی بے روزگار ہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ انڈسٹری اور اکیڈیمیا کے درمیان کچھ طے نہیں ہے، ڈگریاں مل رہی ہیں مگر انڈسٹری میں جگہ نہیں مل رہی۔ اس طرف توجہ دینا ہوگی اور ہنگامی اقدامات کرنا ہونگے ورنہ ہمارے مسائل میں ہوشربا اضافہ ہو جائے گا۔ میرے نزدیک مسائل حل کرنے کی سب سے پہلی ذمہ داری اہل اقتدار کی ہے۔


وقت بدل گیا ہے لہٰذا معاشرتی لحاظ سے سب کو اپنے اپنے دائرہ کار، اختیارات اور اقدامات کا ازسر نو جائزہ لینا اور تعین کرنا ہوگا۔ ہمیں انفرادیت کے بجائے اجتماعی سوچ کو فروغ دینا ہوگا۔ ارباب اختیار کو سیاسی لائحہ عمل بھی طے کرنا ہوگا۔اس وقت فری اینڈ فیئر الیکشن بحرانوں کا واحد حل ہے۔ عوام کے اکثریتی ووٹ سے آنے والی حکومت مضبوط ہوگی تو بحران بھی ختم ہو جائیں گے۔


اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کو اپنا وجود قائم رکھنے کیلئے عوام کی سیاسی تربیت کرنا ہوگی، حکومت اور عوام میں باہمی اعتماد قائم کرنے سے مسائل حل ہوسکتے ہیں، اس کیلئے عملی اقدامات کرنا ہونگے، قول فعل میں تضاد ختم کرنا ہوگا ۔ ملک اور ریاست کی خاطر الفاظ کا انتخاب کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے، حکومتی ترجمانوں کی تعداد کم ہونی چاہیے، درجہ حرارت کو مزید نہیں بڑھانا چاہیے۔ حالات اگرچہ خراب ہیں مگر آئندہ دس برسوں میں بھی پاکستان میں انقلاب کی گنجائش نظر نہیں آرہی، سب انفرادیت کی سوچ رکھتے ہیں، ہمیں اپنے معاشرتی رویے ٹھیک کرنا ہونگے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانون کی ذہن سازی ہو رہی ہے جو بڑا خطرہ ہے، اس پر کام کرنا ہوگا۔



ڈاکٹر محمد ارشد


(سابق ریجنل چیئرمین ایف پی سی سی آئی )


موجودہ حالات میں مایوسی نہیں پریشانی ہے جس میں بجلی کا سب سے بڑا کردار ہے۔ مہنگی بجلی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے، 2 سے 3 لاکھ آمدنی والی کنزیومر مارکیٹ ختم ہوگئی ہے، کاروبار میں مسلسل کمی آرہی ہے، وہ مارکیٹ جہاں 35ہزار خریدار ہوتے تھے، کم ہوکر 13 ہزار رہ گئے ہیں، دکانیں بند ہو رہی ہیں، مہنگائی کی وجہ سے عوام کی قوت خرید کم ہوگئی ہے جبکہ انڈسٹری کیلئے پیداواری لاگت میں اضافہ چیلنج بن گیا ہے۔


آئی پی پیز کا بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔ 4 برس پہلے بھی ہماری ضرورت 13 ہزار میگاواٹ تھی، آج بھی اتنی ہی ہے مگر آئی پی پیز 23 ہزار میگا واٹ سے 43 ہزار میگاواٹ بجلی پیداوار پر آگئے ہیں، اس طرح 13 ہزار میگاواٹ استعمال کرنے والے 43 ہزار میگاواٹ کا بل دے رہے ہیں جو سراسر ظلم ہے، ارباب اختیار کواس پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ملک کی معاشی صورتحال یہ ہے کہ بینکوں میں موجود عوام کے 30 ٹریلن روپے، سٹیٹ بینک بطور قرض لے چکا ہے، آئی ایم ایف نے اسے مقامی بنکوں سے مزید قرض لینے سے منع کر دیا ہے۔


شرح سود زیادہ ہونے کی وجہ سے عوام کے ساتھ ساتھ بینک بھی پریشان ہیں، انڈسٹری بند ہو رہی ہے لہٰذا اگر معیشت کو سنبھالا دینا ہے تو شرح سود کو سنگل ڈیجٹ کرنا ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ بجلی سستی کی جائے، آئی پی پیز سے جان چھڑائی جائے اور پی ٹی آئی دور حکومت کی طرح کنسٹرکشن انڈسٹری کو پیکیج دیا جائے۔ یہ پیکیج غیر معینہ مدت کیلئے ہو، اس سے معاشی بہتری آئے گی۔ الائنس کی حکومتیں ہمیشہ کمزور ہوتی ہیں،معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے، حکومت، سیاسی جماعتوں سمیت سب کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ موجودہ حالات میں میثاق نظر نہیں آرہا، ضرورت پڑے تو نئے الیکشن کروا کراکثریتی جماعت کو حکومت دی جائے، کسی ایک جماعت کی حکومت ہوگی تو وہ درست اور بروقت فیصلے لے سکے گی جس سے یقینامعاشی استحکام آئے گا ۔


ڈاکٹر عاصم اللہ بخش


(سیاسی تجزیہ نگار)


قوموں کی تاریخ میں سب سے اہم 'فریم آف مائنڈ' ہوتا ہے۔ یہ وہ بیج ہے جس سے مثبت اور منفی چیزیں پھوٹتی ہیں۔میرے نزدیک دو اصطلاحیں ایسی ہیں جن کا استعمال نہیں کرنا چاہیے، پہلی 'ملک بچانے کا معاملہ' اور دوسری 'حالات بہت خراب ہیں'۔ اس سے مایوسی اور تشویش پیدا ہوتی ہے، بلکہ یہ کہا جائے کہ چیلنجز بڑھ گئے ہیں اور ہمیں ان کا حل تلاش کرنا ہے۔ حالات خراب ہیں کا تو یہی مطلب ہے کہ کوئی حل نہیں۔ میرے نزدیک ہمارا بحران درست سمت کے تعین کا ہے۔ ہم دائروں کے مسافر ہیں اور واپس وہیں آجاتے ہیں جہاں سے شروع کرتے ہیں۔ یہ پوسٹ سوشل میڈیا کا دور ہے جس میں ہر طرف ابہام ہے۔


یہ طے کرنا مشکل ہے کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ، کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے ہیجانی اور بحرانی کیفیت ہے، پولرائزیشن بڑھ گئی ہے اور قوم میں یکجا ہوکر جواب دینے کی صلاحیت ختم ہوگئی ہے۔ ان حالات میں صرف آئین پاکستان ہی ہمیں اکٹھا کر سکتا ہے۔ یہ ایک متفقہ دستاویز ہے لہٰذا اسے ہر صورت بچانا ہے،ملک خود ہی بچ جائے گا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے کسی بھی ملک میں مسائل پیدا کرنا آسان ہے۔ یوٹیوب پر خرچ کرکے، اپنی مرضی کا مواد بنوا کر، اسے پھیلایا جاتا ہے، بیانیہ بنایا جاتا ہے، پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے، جس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ امریکا، برطانیہ، بھارت، بنگلہ دیش و دیگر ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ان ممالک میں استحکام اور جمہوری تسلسل ہے، پالیسیوں کا تسلسل بھی ہے لہٰذا وہ چیلنجز پر قابو پا رہے ہیں۔


ہمارے ہاں عدم تسلسل اورعدم استحکام کی وجہ سے چیلنجز د گنے ہیں لہٰذا یہاں سوشل میڈیا پراپیگنڈہ اور مسائل پیدا کرنا قدرے آسان ہے۔ ہماری قومی سلامتی کا سب سے بڑا مسئلہ صاف اور شفاف الیکشن کا نہ ہونا ہے۔ ماضی میں اسی کے باعث ملک دولخت ہوگیا، ہم طاقت کے زور سے بھی ملک نہیں بچا سکے۔ اس کے بعد بنگلہ دیش میں کیا ہوا وہ الگ کہانی ہے لیکن اگر صاف اور شفاف انتخابات ہوتے تو ملک بچ جاتا۔ہمارے سامنے بھارت کی مثال ہے۔ اس کے اپنے بے شمار اندرونی مسائل ہیں مگر وہاں اختیارات نچلی سطح تک پہنچتے ہیں۔ وہاں 2 ماہ میں انتخابات ہوئے مگر دھاندلی کی آواز نہیں آئی، ہمارے ہاں ایک ہی دن الیکشن ہوتے ہیں اور اس میں بھی دھاندلی کا شور ااٹھتا ہے۔


افسوس ہے کہ لوگوں کا ریاست سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ ہمارے حالات جرمنی اور چاپان سے برے نہیں لیکن عوام کا اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے ڈیلور کرنے کی صلاحیت منفی ہوگئی ہے۔ معاشی ڈیفالٹ سے بچنے کیلئے حکومت نے جو اقدامات کیے اس سے عوام ڈیفالٹ ہوگئے ۔ عوام کو ریلیف دینے، ان کا اعتماد بحال کرنے اور معاشی بھنور سے نکلنے کیلئے بیرونی طاقتوں سے چھوٹ لیں، ڈسکاؤنٹ ریٹ کم کریں اور آئی پی پیز کے کپیسٹی چارجز ادا نہ کریں۔ حکمران اپنے قول و فعل میں تضاد ختم کریں، عوام کا اعتماد بحال ہوگیا تو ملک ٹھیک ہوجائے گا۔

Load Next Story