بات کچھ اِدھر اُدھر کی خودکشی تو ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہوتی ہے
یہ تاثر انتہائی غلط ہےکہ خودکشیاں ترقی پزیر ممالک میں ہی ہوتی ہیں، یہ تصویر کا صرف ایک رُخ ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہے
خودکشی کا لفظ ذہن میں آتے ہی جہاں ایک تکلیف دہ تاثر سر اٹھاتا ہے وہیں خودکشی کرنے والے انسان کو خود اپنی زندگی سے حد درجے مایوسی اور بے زاری پر افسوس بھی ہوتا ہے ۔ ایک انسانی زندگی نہ صرف اس کے اپنے لیے بلکہ اس کے پیاروں اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے ملک و قوم کے لیے بھی قیمتی اثاثے کا درجہ رکھتی ہے ۔
دور جدید میں جہاں انسان کو بے تحاشہ آسائیشات اور تفریحی مواقع میسر ہیں اسی قدر نفسیاتی الجھنیں ، زندگی سے بے زاری و مایوسی جیسے مہلک عناصر بھی شدت سے پائے جاتے ہیں اکثر اوقات زندگی سے مایوس افراد زندگی سے تنگ آکر خودکشی کر لیتے ہیں ۔ہمارے معاشرے میں ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ خودکشی کا رجحان محض ترقی پذیر یا تیسری دنیا کے افراد میں ہی پایا جاتاہے اور عام طور پر وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ چونکہ یہاں روزگار کا مسئلہ ہے لیکن اِس لیے لوگ اپنی زندگی سے تنگ آکر خودکشی کرلیتے ہیں۔ لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ خودکش کرنے کی یہ واحد وجہ نہیں ہے بلکہ زہنی مسائل، معاشرے کی ابتر صورتحال ابھی اِس مسئلہ کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہیں۔ جبکہ یہ تاثر کہ خودکشی محض ترقی پزیر ممالک کی سوغات ہے سراسر غلط ہے اور یہ تصویر کا ایک رُخ ہے اور دوسرا رُخ یا تو ہم دیکھنے سے عاری ہیں یا پھر دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔
امریکااور برطانیہ جیسے ممالک جنہیں میں اور آپ عالمی طاقت سمجھتے ہیں ، سمجھنے سے اختلاف نہیں بس کہنا یہ چاہتی ہوں کہ اُن ممالک میں بھی لوگ زندہ رہنے کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں اور اُس کی بہت ساری وجوہات ہیں جن کے حوالے سے وہاں کے کرتا دھرتا سخت پریشانی میں منتلا ہیں کہ آخر کس طرح لوگوں کو اِس بات پر قائل کیا جائے کہ زندگی ایک نعمت ہے اور اِس کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ صرف امریکا میں 1999 سے 2010 تک خودکشی کی شرح میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔آپ اپنے آنکھوں پر شک مت کیجیے کیونکہ ابھی آپ نے جو بھی پڑھا ہے وہ بالکل ٹھیک پڑھا ہے۔
حال ہی میں ایک رپورٹ کے مطابق امریکی شہر سان فرانسیسکو میں حکام نے 76ملین امریکی ڈالر کی خطیر رقم سے مشہور پل گولڈن گیٹ برج پر اسٹیل کی جال لگانے کے منصوبہ شروع کیا ہے۔گولڈن گیٹ برج1937 میں بنایا گیا تھا اور اُس وقت سے اب تک1400سے زائد افرادچھلانگ لگا کر خودکشی کر چکے ہیں۔ یہ منصو بہ خودکشی کرنے والے افراد کے لواحقین کی مہم اور حکومتی تعاون کے نتیجے میں عمل میں آیا جبکہ پل کے جنرل منیجر ڈینس میولیگان کے مطابق پل پر جال لگانے کا منصوبہ 2018تک مکمل ہوجائیگا۔
بلاشبہ شہریوں کی جانیں ضائع ہونے سے بچانے کے لیے یہ ایک احسن اقدام ہے بس شاید یہی وہ ایک وجہ ہے جو خودکشی کے معاملے پر ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتے ہیں۔ مگر نقطہ یہ نہیں کہ آپ کوئی باڑ لگا دیں یا دیگر انتظامات کرلیں۔ مگر خودکشی روکنے کا حل تو یہ ہے کہ اُس نقطہ تک پہنچا جائے کہ آخر وہ کونسی وجوہات ہیں کہ اِتنی بڑی تعداد میں لوگ اپنی زندگی کے سفر کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ جب تک اُن وجوہات پر غور نہیں کیا جاتا میں نہیں سمجھتی کہ لوگ ایسی حرکتوں سے باز آجائیں کیونکہ خودکشی کے اور بھی راستے نکالے جاسکتے ہیں جیسے جب ایک راستہ بند ہوتا ہے تو 10 کھل جاتے ہیں۔
دور جدید میں جہاں انسان کو بے تحاشہ آسائیشات اور تفریحی مواقع میسر ہیں اسی قدر نفسیاتی الجھنیں ، زندگی سے بے زاری و مایوسی جیسے مہلک عناصر بھی شدت سے پائے جاتے ہیں اکثر اوقات زندگی سے مایوس افراد زندگی سے تنگ آکر خودکشی کر لیتے ہیں ۔ہمارے معاشرے میں ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ خودکشی کا رجحان محض ترقی پذیر یا تیسری دنیا کے افراد میں ہی پایا جاتاہے اور عام طور پر وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ چونکہ یہاں روزگار کا مسئلہ ہے لیکن اِس لیے لوگ اپنی زندگی سے تنگ آکر خودکشی کرلیتے ہیں۔ لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ خودکش کرنے کی یہ واحد وجہ نہیں ہے بلکہ زہنی مسائل، معاشرے کی ابتر صورتحال ابھی اِس مسئلہ کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہیں۔ جبکہ یہ تاثر کہ خودکشی محض ترقی پزیر ممالک کی سوغات ہے سراسر غلط ہے اور یہ تصویر کا ایک رُخ ہے اور دوسرا رُخ یا تو ہم دیکھنے سے عاری ہیں یا پھر دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔
امریکااور برطانیہ جیسے ممالک جنہیں میں اور آپ عالمی طاقت سمجھتے ہیں ، سمجھنے سے اختلاف نہیں بس کہنا یہ چاہتی ہوں کہ اُن ممالک میں بھی لوگ زندہ رہنے کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں اور اُس کی بہت ساری وجوہات ہیں جن کے حوالے سے وہاں کے کرتا دھرتا سخت پریشانی میں منتلا ہیں کہ آخر کس طرح لوگوں کو اِس بات پر قائل کیا جائے کہ زندگی ایک نعمت ہے اور اِس کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ صرف امریکا میں 1999 سے 2010 تک خودکشی کی شرح میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔آپ اپنے آنکھوں پر شک مت کیجیے کیونکہ ابھی آپ نے جو بھی پڑھا ہے وہ بالکل ٹھیک پڑھا ہے۔
حال ہی میں ایک رپورٹ کے مطابق امریکی شہر سان فرانسیسکو میں حکام نے 76ملین امریکی ڈالر کی خطیر رقم سے مشہور پل گولڈن گیٹ برج پر اسٹیل کی جال لگانے کے منصوبہ شروع کیا ہے۔گولڈن گیٹ برج1937 میں بنایا گیا تھا اور اُس وقت سے اب تک1400سے زائد افرادچھلانگ لگا کر خودکشی کر چکے ہیں۔ یہ منصو بہ خودکشی کرنے والے افراد کے لواحقین کی مہم اور حکومتی تعاون کے نتیجے میں عمل میں آیا جبکہ پل کے جنرل منیجر ڈینس میولیگان کے مطابق پل پر جال لگانے کا منصوبہ 2018تک مکمل ہوجائیگا۔
بلاشبہ شہریوں کی جانیں ضائع ہونے سے بچانے کے لیے یہ ایک احسن اقدام ہے بس شاید یہی وہ ایک وجہ ہے جو خودکشی کے معاملے پر ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتے ہیں۔ مگر نقطہ یہ نہیں کہ آپ کوئی باڑ لگا دیں یا دیگر انتظامات کرلیں۔ مگر خودکشی روکنے کا حل تو یہ ہے کہ اُس نقطہ تک پہنچا جائے کہ آخر وہ کونسی وجوہات ہیں کہ اِتنی بڑی تعداد میں لوگ اپنی زندگی کے سفر کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ جب تک اُن وجوہات پر غور نہیں کیا جاتا میں نہیں سمجھتی کہ لوگ ایسی حرکتوں سے باز آجائیں کیونکہ خودکشی کے اور بھی راستے نکالے جاسکتے ہیں جیسے جب ایک راستہ بند ہوتا ہے تو 10 کھل جاتے ہیں۔