قرضوں کی ری شیڈولنگ ریلیف مل سکتا ہے
پاکستانی معیشت کو اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں ہونے والے فوائد ان قرضوں سے کہیں زیادہ ہوں گے
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے مطابق پاکستان نے چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے کہا ہے کہ وہ اپنے 12 بلین ڈالر سے زائد کے سالانہ قرض کے پورٹ فولیو کو تین سے پانچ سال تک رول اوور کریں، تاکہ اگلے ماہ تک 7 بلین ڈالر کے اقتصادی بیل آؤٹ کے لیے آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری حاصل کی جا سکے۔
پاکستان کے ذمے بیرونی قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ ملک کے معاشی منتظمین کے لیے ہمیشہ ہی سے تشویش کا باعث رہا ہے۔ پاکستان کو دو طرفہ اور کثیر جہتی ڈونرز کے ساتھ باہمی مشاورت کے ذریعے قرضوں کی تنظیم نو کی ضرورت ہے تاکہ انھیں پائیدار بنایا جا سکے۔ دوسری صورت میں حکومت کو اپنی آمدنی کے ذرایع کئی گنا بڑھانے ہوں گے۔ پاکستان معاشی مشکلات کا تاحال شکار ہے اور اس میں سب سے زیادہ تشویش کی بات ملک پر واجب الادا بیرونی قرضوں کا حجم ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران وزیر خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے بیجنگ سے درآمدی کوئلے پر مبنی منصوبوں کو مقامی کوئلے میں تبدیل کرنے اور توانائی کے شعبے کی ذمے داریوں میں 15 بلین ڈالر سے زائد کی دوبارہ پرو فائل کرنے کی درخواست سرفہرست ہے۔ ان حالات میں دو طرفہ قرضوں کی ری شیڈولنگ سے پاکستان کو کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔ چینی بینکوں سے حاصل کردہ قرضہ بھی ری شیڈول کرانے کے لیے بات چیت کا عمل جاری ہے، جو پاکستان کو ادا کرنا ہے، گو اس حوالے سے دوسرا راستہ موجود ضرور ہے جو کٹھن اور دشوار ہونے کے ساتھ طویل اور صبر آزما ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ چین توانائی کے شعبے کے قرضوں کو ری شیڈول کرنے کی پاکستان کی درخواست کو یکسر مسترد نہیں کرے گا، کیونکہ پاکستانی اپنی بندرگاہوں کے ذریعے چین کے صوبے سنکیانگ میں قائم صنعتوں کو سپورٹ کررہا ہے، اور چین مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیاء ریاستوں، اور افریقہ و جنوبی افریقہ تک اپنی تجارت کو فروغ دے رہا ہے۔ چین برسوں سے پاکستان کا سب سے بڑا غیرملکی سرمایہ کار رہا ہے، تاہم چین کی سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے جو مالی سال 2024 میں سب سے زیادہ رہی۔
چین پر ہمارا انحصار بڑھ گیا ہے،کیونکہ ہم توانائی کے شعبے کے قرضوں میں 15 ارب ڈالر کو ری شیڈول کرنے، چین سے سب سے زیادہ ایف ڈی آئی حاصل کرنے اور اپنے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر کے طور پر ان پر انحصار کرنے کے لیے بات چیت کرتے ہیں۔23 مارچ 2018 کو پیپلز بینک آف چائنا نے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے چین کی اسٹیٹ ایڈمنسٹریشن آف فارن ایکسچینج (ایس اے ایف ای) کے ذریعے 2 ارب ڈالر کا قرض فراہم کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
یہ قرض 2018 کے بعد سے ہر سال رول اوور کیا جا رہا ہے، جس میں سب سے حالیہ رول اوور 29 فروری 2024 کو ہوا ہے۔ قرض مارچ میں واجب الادا تھا اور اسے ایک سال کے لیے بڑھا دیا گیا تھا۔ وفاقی حکومت نے رواں مالی سال چین اور سعودی عرب سے 9 ارب ڈالرز کا قرض رول اوور کرانے کا منصوبہ تیارکرلیا، پاکستان کو 20 ارب 80 کروڑ ڈالر سے زیادہ کی ادائیگیاں کرنی ہیں جب کہ ملک کو پروجیکٹ فنانسنگ کی مد میں 10 ارب 70 کروڑ ڈالر کی یقین دہانیاں ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے 37 ماہ کے آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج کو حاصل کرنے اور توانائی کے شعبے میں زرمبادلہ کے اخراج اور صارفین کے ٹیرف کو کم کرنے کے لیے دوست ممالک چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ 27 بلین ڈالر سے زیادہ کے قرضوں اور واجبات کی دوبارہ پروفائلنگ کی کوشش شروع کردی ہے۔ پاکستان کو رواں مالی سال میں بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ ماہرین معاشی مشکلات میں گھرے پاکستان کے لیے ان قرضوں کی بروقت ادائیگی کو چیلنج قرار دے رہے ہیں۔
ملک پر واجب الادا بیرونی قرضوں کا بڑا حصہ یعنی 44 فی صد کثیر جہتی ایجنسیوں جیسے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، اے ڈی بی اور اسلامی ترقیاتی بینک کا ہے اور اس قرض کی دوبارہ پرو فائلنگ نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح پاکستان کے ذمے کمرشل قرضہ بیرونی قرضوں کا 14 فی صد ہے اور قرض کے اس حصے کی بھی دوبارہ پروفائلنگ کافی مشکل ہے کیوں کہ اس میں اسٹیک ہولڈرز کی ایک بڑی تعداد شامل ہوتی ہے۔ جی ڈی پی کی نسبت قرضوں کا زیادہ تناسب ڈیفالٹ کے امکانات کو بڑھاتا ہے۔
اس تناسب کے بڑھنے سے حکومت کو سالانہ بجٹ کا ایک بڑا حصہ قرض کی ادائیگی کے لیے مختص کرنا پڑتا ہے، اس طرح پبلک سیکٹر کے ترقیاتی پروگراموں سمیت دیگر اخراجات کے لیے رقم کم رہ جاتی ہے۔ قرضوں کے حجم کے بڑھنے کی وجہ مسلسل مالی خساروں والے بجٹ ہیں۔ اس وجہ سے قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ کل قرضہ نہ صرف خسارے پر محیط بجٹ کے باعث بلکہ دیگر وجوہات کی بنا پر بھی بڑھ سکتا ہے جس میں شرح سود میں اضافہ اور دیگر کرنسیوں سے روپے کی شرح مبادلہ میں اضافہ شامل ہوسکتی ہیں۔
اندرونی قرضہ جو کل قرضوں کے حجم کا کوئی 60 فی صد ہے، اس کو کم کرنے کے لیے حکومتِ پاکستان کو اپنی ٹیکس آمدنی بڑھانی ہوگی اور ٹیکس اصلاحات کیے بغیر اس میں اضافے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ماہرین کے مطابق شہریوں کو ٹیکس دینے پر قائل کرنے کے لیے حکومت کو اپنی کارکردگی بہتر بنانا ہوگی اور اس کے لیے اپنے غیر ضروری اخراجات گھٹا کر عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے ہوں گے۔ دوسری اہم چیز حکومت کو شرح سود کم کرنا ہوگی۔ اس قدر شرح سود جہاں ملک میں کاروبار کرنے کو ناممکن بناتی ہے وہیں یہ خود حکومت کے لیے قرضوں کا بوجھ بڑھانے کا باعث بن رہی ہے۔ شرح سود کا انحصار اس بات پر ہے کہ ملک میں مہنگائی کی کیا صورتِ حال ہے اور مہنگائی بڑھنے کی صورت میں حکومت کے لیے آئی ایم ایف کی دی گئی واضح ہدایات کے مطابق شرح سود بڑھانا ضروری ہے۔
اس کے لیے حکومت کو آئی ایم ایف کو قائل کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی وجوہات جہاں غیر دستاویزی معیشت ہے وہیں یہ رسد میں کمی کے مسائل کی وجہ سے مہنگائی بڑھتی ہے جب کہ طلب میں اضافے سے منسلک وجوہات محدود ہیں۔ پاکستان نے سازگار مالیاتی انتظامات کی وجہ سے سی پیک کے تحت چینی سرمایہ کاری کا انتخاب کیا ہے۔ چین ایک ایسے وقت میں پاکستان کی ترقی میں مدد کے لیے آگے بڑھا جب غیر ملکی سرمایہ کاری ختم ہو چکی تھی اور اقتصادی سرگرمیاں توانائی کی قلت اور بنیادی ڈھانچے کے خلا کی وجہ سے مفلوج ہو رہی تھیں۔ سی پیک قرضوں کی ادائیگی اور توانائی کے شعبے کے اخراج کے حوالے سے کوئی فوری بوجھ نہیں ڈال رہا ہے۔
پاکستانی معیشت کو اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں ہونے والے فوائد ان قرضوں سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ سی پیک نے پاکستان کو معاشی طور پر ترقی کرنے کے بے پناہ مواقع فراہم کیے ہیں۔ یہ اقتصادی ترقی کے لیے ایک انجن ہے اور اس سے پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو میں 2 سے 3 فیصد تک اضافہ متوقع ہے۔
اس نے توانائی، ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے اور سپلائی چین کی رکاوٹوں پر قابو پانے میں بھی سہولت فراہم کی ہے۔ سی پیک کے تحت گوادر کی ترقی سے سمندری شعبے بالخصوص ساحلی سیاحت اور مقامی ماہی گیری کی صنعت کو تقویت ملے گی جس سے مقامی کمیونٹیز کو فائدہ پہنچے گا۔ گوادر کو ترجیحی طور پر جاری رکھا گیا ہے اور اسے بلیو اکانومی کے اصولوں پر مبنی ایک اسٹینڈ اسٹون پروجیکٹ اور ٹرانس شپمنٹ حب کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔توانائی کے منصوبے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) موڈ کے تحت چلائے جا رہے ہیں اور مالیات بنیادی طور پر نجی کمپنیاں چائنا ڈویلپمنٹ بینک اور چائنا ایگزم بینک سے ان کی اپنی بیلنس شیٹ سے لیتی ہیں، لہٰذا، کوئی بھی قرض چینی سرمایہ کاروں کی طرف سے پاکستانی حکومت کی ذمے داری سے لیا جاتا ہے۔
پاکستان نے سازگار مالیاتی انتظامات کی وجہ سے سی پیک کے تحت چینی سرمایہ کاری کا انتخاب کیا ہے۔ چین ایک ایسے وقت میں پاکستان کی ترقی میں مدد کے لیے آگے بڑھا جب غیر ملکی سرمایہ کاری ختم ہوچکی تھی اور اقتصادی سرگرمیاں توانائی کی قلت اور بنیادی ڈھانچے کے خلا کی وجہ سے مفلوج ہو رہی تھیں۔ سی پیک قرضوں کی ادائیگی اور توانائی کے شعبے کے اخراج کے حوالے سے کوئی فوری بوجھ نہیں ڈال رہا ہے۔ پاکستانی معیشت کو اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں ہونے والے فوائد ان قرضوں سے کہیں زیادہ ہوں گے۔سی پیک نے پاکستان کو معاشی طور پر ترقی کرنے کے بے پناہ مواقع فراہم کیے ہیں۔ دوسری جانب آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو ٹیک اینڈ پے میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ 48 فیصد آئی پی پیز 40 بڑے خاندانوں کی ملکیت ہیں، بجلی کی اصل قیمت 30 روپے یونٹ کے بجائے 60 روپے وصول کی جارہی ہے۔
معیشت کی فوری تنظیمِ نو کی ضرورت ہے۔ افراطِ زر آسمان کی حدوں کو چُھو رہا ہے، پٹرولیم اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کی بدولت یہ اشیاء عام آدمی کے لیے بہت مہنگی ہوگئی ہیں۔ بجلی بھی بہت مہنگی ہو گئی ہے جس سے شہری ناراض ہیں۔ پاکستان کو غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانا ہو گا اور اس کے لیے برآمدات اور بیرونی سرمایہ کاری اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ترسیلاتِ زر کو بڑھانا ہوگا۔
پاکستان کے ذمے بیرونی قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ ملک کے معاشی منتظمین کے لیے ہمیشہ ہی سے تشویش کا باعث رہا ہے۔ پاکستان کو دو طرفہ اور کثیر جہتی ڈونرز کے ساتھ باہمی مشاورت کے ذریعے قرضوں کی تنظیم نو کی ضرورت ہے تاکہ انھیں پائیدار بنایا جا سکے۔ دوسری صورت میں حکومت کو اپنی آمدنی کے ذرایع کئی گنا بڑھانے ہوں گے۔ پاکستان معاشی مشکلات کا تاحال شکار ہے اور اس میں سب سے زیادہ تشویش کی بات ملک پر واجب الادا بیرونی قرضوں کا حجم ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران وزیر خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے بیجنگ سے درآمدی کوئلے پر مبنی منصوبوں کو مقامی کوئلے میں تبدیل کرنے اور توانائی کے شعبے کی ذمے داریوں میں 15 بلین ڈالر سے زائد کی دوبارہ پرو فائل کرنے کی درخواست سرفہرست ہے۔ ان حالات میں دو طرفہ قرضوں کی ری شیڈولنگ سے پاکستان کو کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔ چینی بینکوں سے حاصل کردہ قرضہ بھی ری شیڈول کرانے کے لیے بات چیت کا عمل جاری ہے، جو پاکستان کو ادا کرنا ہے، گو اس حوالے سے دوسرا راستہ موجود ضرور ہے جو کٹھن اور دشوار ہونے کے ساتھ طویل اور صبر آزما ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ چین توانائی کے شعبے کے قرضوں کو ری شیڈول کرنے کی پاکستان کی درخواست کو یکسر مسترد نہیں کرے گا، کیونکہ پاکستانی اپنی بندرگاہوں کے ذریعے چین کے صوبے سنکیانگ میں قائم صنعتوں کو سپورٹ کررہا ہے، اور چین مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیاء ریاستوں، اور افریقہ و جنوبی افریقہ تک اپنی تجارت کو فروغ دے رہا ہے۔ چین برسوں سے پاکستان کا سب سے بڑا غیرملکی سرمایہ کار رہا ہے، تاہم چین کی سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے جو مالی سال 2024 میں سب سے زیادہ رہی۔
چین پر ہمارا انحصار بڑھ گیا ہے،کیونکہ ہم توانائی کے شعبے کے قرضوں میں 15 ارب ڈالر کو ری شیڈول کرنے، چین سے سب سے زیادہ ایف ڈی آئی حاصل کرنے اور اپنے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر کے طور پر ان پر انحصار کرنے کے لیے بات چیت کرتے ہیں۔23 مارچ 2018 کو پیپلز بینک آف چائنا نے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے چین کی اسٹیٹ ایڈمنسٹریشن آف فارن ایکسچینج (ایس اے ایف ای) کے ذریعے 2 ارب ڈالر کا قرض فراہم کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
یہ قرض 2018 کے بعد سے ہر سال رول اوور کیا جا رہا ہے، جس میں سب سے حالیہ رول اوور 29 فروری 2024 کو ہوا ہے۔ قرض مارچ میں واجب الادا تھا اور اسے ایک سال کے لیے بڑھا دیا گیا تھا۔ وفاقی حکومت نے رواں مالی سال چین اور سعودی عرب سے 9 ارب ڈالرز کا قرض رول اوور کرانے کا منصوبہ تیارکرلیا، پاکستان کو 20 ارب 80 کروڑ ڈالر سے زیادہ کی ادائیگیاں کرنی ہیں جب کہ ملک کو پروجیکٹ فنانسنگ کی مد میں 10 ارب 70 کروڑ ڈالر کی یقین دہانیاں ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے 37 ماہ کے آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج کو حاصل کرنے اور توانائی کے شعبے میں زرمبادلہ کے اخراج اور صارفین کے ٹیرف کو کم کرنے کے لیے دوست ممالک چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ 27 بلین ڈالر سے زیادہ کے قرضوں اور واجبات کی دوبارہ پروفائلنگ کی کوشش شروع کردی ہے۔ پاکستان کو رواں مالی سال میں بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ ماہرین معاشی مشکلات میں گھرے پاکستان کے لیے ان قرضوں کی بروقت ادائیگی کو چیلنج قرار دے رہے ہیں۔
ملک پر واجب الادا بیرونی قرضوں کا بڑا حصہ یعنی 44 فی صد کثیر جہتی ایجنسیوں جیسے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، اے ڈی بی اور اسلامی ترقیاتی بینک کا ہے اور اس قرض کی دوبارہ پرو فائلنگ نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح پاکستان کے ذمے کمرشل قرضہ بیرونی قرضوں کا 14 فی صد ہے اور قرض کے اس حصے کی بھی دوبارہ پروفائلنگ کافی مشکل ہے کیوں کہ اس میں اسٹیک ہولڈرز کی ایک بڑی تعداد شامل ہوتی ہے۔ جی ڈی پی کی نسبت قرضوں کا زیادہ تناسب ڈیفالٹ کے امکانات کو بڑھاتا ہے۔
اس تناسب کے بڑھنے سے حکومت کو سالانہ بجٹ کا ایک بڑا حصہ قرض کی ادائیگی کے لیے مختص کرنا پڑتا ہے، اس طرح پبلک سیکٹر کے ترقیاتی پروگراموں سمیت دیگر اخراجات کے لیے رقم کم رہ جاتی ہے۔ قرضوں کے حجم کے بڑھنے کی وجہ مسلسل مالی خساروں والے بجٹ ہیں۔ اس وجہ سے قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ کل قرضہ نہ صرف خسارے پر محیط بجٹ کے باعث بلکہ دیگر وجوہات کی بنا پر بھی بڑھ سکتا ہے جس میں شرح سود میں اضافہ اور دیگر کرنسیوں سے روپے کی شرح مبادلہ میں اضافہ شامل ہوسکتی ہیں۔
اندرونی قرضہ جو کل قرضوں کے حجم کا کوئی 60 فی صد ہے، اس کو کم کرنے کے لیے حکومتِ پاکستان کو اپنی ٹیکس آمدنی بڑھانی ہوگی اور ٹیکس اصلاحات کیے بغیر اس میں اضافے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ماہرین کے مطابق شہریوں کو ٹیکس دینے پر قائل کرنے کے لیے حکومت کو اپنی کارکردگی بہتر بنانا ہوگی اور اس کے لیے اپنے غیر ضروری اخراجات گھٹا کر عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے ہوں گے۔ دوسری اہم چیز حکومت کو شرح سود کم کرنا ہوگی۔ اس قدر شرح سود جہاں ملک میں کاروبار کرنے کو ناممکن بناتی ہے وہیں یہ خود حکومت کے لیے قرضوں کا بوجھ بڑھانے کا باعث بن رہی ہے۔ شرح سود کا انحصار اس بات پر ہے کہ ملک میں مہنگائی کی کیا صورتِ حال ہے اور مہنگائی بڑھنے کی صورت میں حکومت کے لیے آئی ایم ایف کی دی گئی واضح ہدایات کے مطابق شرح سود بڑھانا ضروری ہے۔
اس کے لیے حکومت کو آئی ایم ایف کو قائل کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی وجوہات جہاں غیر دستاویزی معیشت ہے وہیں یہ رسد میں کمی کے مسائل کی وجہ سے مہنگائی بڑھتی ہے جب کہ طلب میں اضافے سے منسلک وجوہات محدود ہیں۔ پاکستان نے سازگار مالیاتی انتظامات کی وجہ سے سی پیک کے تحت چینی سرمایہ کاری کا انتخاب کیا ہے۔ چین ایک ایسے وقت میں پاکستان کی ترقی میں مدد کے لیے آگے بڑھا جب غیر ملکی سرمایہ کاری ختم ہو چکی تھی اور اقتصادی سرگرمیاں توانائی کی قلت اور بنیادی ڈھانچے کے خلا کی وجہ سے مفلوج ہو رہی تھیں۔ سی پیک قرضوں کی ادائیگی اور توانائی کے شعبے کے اخراج کے حوالے سے کوئی فوری بوجھ نہیں ڈال رہا ہے۔
پاکستانی معیشت کو اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں ہونے والے فوائد ان قرضوں سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ سی پیک نے پاکستان کو معاشی طور پر ترقی کرنے کے بے پناہ مواقع فراہم کیے ہیں۔ یہ اقتصادی ترقی کے لیے ایک انجن ہے اور اس سے پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو میں 2 سے 3 فیصد تک اضافہ متوقع ہے۔
اس نے توانائی، ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے اور سپلائی چین کی رکاوٹوں پر قابو پانے میں بھی سہولت فراہم کی ہے۔ سی پیک کے تحت گوادر کی ترقی سے سمندری شعبے بالخصوص ساحلی سیاحت اور مقامی ماہی گیری کی صنعت کو تقویت ملے گی جس سے مقامی کمیونٹیز کو فائدہ پہنچے گا۔ گوادر کو ترجیحی طور پر جاری رکھا گیا ہے اور اسے بلیو اکانومی کے اصولوں پر مبنی ایک اسٹینڈ اسٹون پروجیکٹ اور ٹرانس شپمنٹ حب کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔توانائی کے منصوبے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) موڈ کے تحت چلائے جا رہے ہیں اور مالیات بنیادی طور پر نجی کمپنیاں چائنا ڈویلپمنٹ بینک اور چائنا ایگزم بینک سے ان کی اپنی بیلنس شیٹ سے لیتی ہیں، لہٰذا، کوئی بھی قرض چینی سرمایہ کاروں کی طرف سے پاکستانی حکومت کی ذمے داری سے لیا جاتا ہے۔
پاکستان نے سازگار مالیاتی انتظامات کی وجہ سے سی پیک کے تحت چینی سرمایہ کاری کا انتخاب کیا ہے۔ چین ایک ایسے وقت میں پاکستان کی ترقی میں مدد کے لیے آگے بڑھا جب غیر ملکی سرمایہ کاری ختم ہوچکی تھی اور اقتصادی سرگرمیاں توانائی کی قلت اور بنیادی ڈھانچے کے خلا کی وجہ سے مفلوج ہو رہی تھیں۔ سی پیک قرضوں کی ادائیگی اور توانائی کے شعبے کے اخراج کے حوالے سے کوئی فوری بوجھ نہیں ڈال رہا ہے۔ پاکستانی معیشت کو اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں ہونے والے فوائد ان قرضوں سے کہیں زیادہ ہوں گے۔سی پیک نے پاکستان کو معاشی طور پر ترقی کرنے کے بے پناہ مواقع فراہم کیے ہیں۔ دوسری جانب آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو ٹیک اینڈ پے میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ 48 فیصد آئی پی پیز 40 بڑے خاندانوں کی ملکیت ہیں، بجلی کی اصل قیمت 30 روپے یونٹ کے بجائے 60 روپے وصول کی جارہی ہے۔
معیشت کی فوری تنظیمِ نو کی ضرورت ہے۔ افراطِ زر آسمان کی حدوں کو چُھو رہا ہے، پٹرولیم اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کی بدولت یہ اشیاء عام آدمی کے لیے بہت مہنگی ہوگئی ہیں۔ بجلی بھی بہت مہنگی ہو گئی ہے جس سے شہری ناراض ہیں۔ پاکستان کو غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانا ہو گا اور اس کے لیے برآمدات اور بیرونی سرمایہ کاری اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ترسیلاتِ زر کو بڑھانا ہوگا۔