سرسبز پاکستان
یہ کاربن بیسن کے طور پرکام کرتے ہیں جو ماحول سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے آکسیجن خارج کرتے ہیں
موسمیاتی تبدیلیاں آج کل دنیا بھر میں گفتگوکا موضوع ہیں۔ ان تبدیلیوں کے اثرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جنگلات کا صفایا کرنے کے بجائے بڑے پیمانہ پر شجر کاری کی جائے۔ سچ پوچھیے تو جنگلات کی کٹائی اپنے پاؤں پر کلہاڑی چلانے کے مترادف ہے اور یہ عمل انسانوں اور حیوانوں کے لیے یکسر تباہی کا باعث ہے۔ سال رواں میں قیامت خیزگرمی نے اچھے اچھوں کے ہوش اڑا دیے اور بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں۔
اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ زمین کا درجہ حرارت شجرکاری کے فقدان کی وجہ سے تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے اور اگر آیندہ شجر کاری سے غفلت برتی گئی تو اس کا مزید خمیازہ بھگتنا پڑے گا، اگر دنیا بھر میں ہر شخص روزانہ ایک درخت لگائے تو ہم ایک دن میں 8ارب درخت لگانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں درختوں کی شدید قلت ہے شجر کاری کی مہمات کی جانب انتہائی اور فوری توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
ہم نے حالیہ موسم گرما کے دوران دیکھ لیا کہ درختوں کی کمی کا نتیجہ کتنا خوفناک اور خطرناک ہوسکتا ہے۔پاکستان جنگلات کے حوالے سے ایک غریب ملک ہے لیکن ہماری مجرمانہ غفلت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وفاقی دارالخلافہ اسلام آباد میں مارگلہ کے جنگلات میں تقریباً ہر سال شدید آگ لگتی ہے، جس کے نتیجے میں بیشمار درخت جل کر راکھ بن جاتے ہیں۔گھنے جنگلات کی بڑھتی ہوئی کمی کی وجہ سے پورے ملک میں شدید گرمی کی لہر آتی ہے اور درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسئیس سے بھی اوپر چلا جاتا ہے۔ پانی ابھی سر سے اونچا نہیں ہوا ہے اور اب بھی وقت ہے کہ ہم درختوں کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھ سکیں۔
پاکستان 166 اضلاع پر مشتمل ہے جس میں دارالخلافہ اسلام آباد،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر شامل ہیں۔ پاکستان کا کل رقبہ 881,913 مربع کلومیٹر ہے جو کہ 218 ملین کاشت شدہ اور غیرکاشت شدہ ایکڑکے برابر ہے۔ اس وقت صرف 5 فیصد زمین پر جنگلات موجود ہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ لگ بھگ 10.9 ملین ایکڑ زمین جنگلات پر مشتمل ہے۔ ماحولیاتی توازن کو محفوظ رکھنے اور موسمی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جنگلات کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
یہ کاربن بیسن کے طور پرکام کرتے ہیں جو ماحول سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے آکسیجن خارج کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ جنگلات کا ایک اورکام بھی ہے اور وہ ہے پانی سے مٹی کے کٹاؤ کی روک تھام کرنا، پانی کے وسائل کی حفاظت کرنا اور مختلف قسم کی جنگلی حیات کو قدرتی ماحول فراہم کرنا۔مزید یہ کہ جنگلات کے ذریعے بہت سارے معاشی فوائد کا حصول ممکن ہے جن میں لکڑی کی پیداوار، ماحولیاتی سیاحت اور دیگر جنگلی مصنوعات شامل ہیں۔پاکستان میں جنگلات کا رقبہ بڑھانا ایک مشکل اور محنت طلب کام ہے جس کی بہت بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں جن میں سیلاب، شدید بارش، خشک سالی اور شدید درجہ حرارت شامل ہیں۔ جنگلات کا رقبہ بڑھانے سے ان اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے، ہوا کے معیارکو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور آبادی کے آرام کو مجموعی طور پر بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ پاکستان کا جنگلاتی رقبہ متنازعہ ہے۔
فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن ( ایف اے او) کے مطابق پاکستان کے کُل رقبہ کا 2.2 فیصد جنگلات پر مشتمل ہے۔ پاکستان فورسٹ انسٹیٹیوٹ کے مطابق یہ رقبہ 5.1 فیصد ہے جب کہ 2017 میں ریڈ پلس پروگرام کے ایک سروے کے مطابق یہ رقبہ 5.7 فیصد ہے۔
ملک کا جنگلاتی رقبہ عالمی اوسط سے بہت کم ہے جو کہ ماحولیاتی پائیداری کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ پاکستان میں جنگلات کے نقصان کے اہم عوامل یہ ہیں۔ جنگلات کی کٹائی، غیر قانونی پلاٹنگ، زرعی زمین میں اضافہ اور شہروں کی تعداد میں اضافہ کا رجحان۔حکومت کو چاہیے کہ اس سلسلے میں ایک سالانہ ہدف مقررکرے جس کے تحت ہر ضلع میں 100 ایکڑ پر جنگلات اگائے جائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ درختوں کی اہمیت کے بارے میں عوامی شعور پیدا کرے۔ ماحولیاتی شعور اجاگر کرنے میں میڈیا بھی بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ زمین کا درجہ حرارت شجرکاری کے فقدان کی وجہ سے تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے اور اگر آیندہ شجر کاری سے غفلت برتی گئی تو اس کا مزید خمیازہ بھگتنا پڑے گا، اگر دنیا بھر میں ہر شخص روزانہ ایک درخت لگائے تو ہم ایک دن میں 8ارب درخت لگانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں درختوں کی شدید قلت ہے شجر کاری کی مہمات کی جانب انتہائی اور فوری توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
ہم نے حالیہ موسم گرما کے دوران دیکھ لیا کہ درختوں کی کمی کا نتیجہ کتنا خوفناک اور خطرناک ہوسکتا ہے۔پاکستان جنگلات کے حوالے سے ایک غریب ملک ہے لیکن ہماری مجرمانہ غفلت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وفاقی دارالخلافہ اسلام آباد میں مارگلہ کے جنگلات میں تقریباً ہر سال شدید آگ لگتی ہے، جس کے نتیجے میں بیشمار درخت جل کر راکھ بن جاتے ہیں۔گھنے جنگلات کی بڑھتی ہوئی کمی کی وجہ سے پورے ملک میں شدید گرمی کی لہر آتی ہے اور درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسئیس سے بھی اوپر چلا جاتا ہے۔ پانی ابھی سر سے اونچا نہیں ہوا ہے اور اب بھی وقت ہے کہ ہم درختوں کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھ سکیں۔
پاکستان 166 اضلاع پر مشتمل ہے جس میں دارالخلافہ اسلام آباد،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر شامل ہیں۔ پاکستان کا کل رقبہ 881,913 مربع کلومیٹر ہے جو کہ 218 ملین کاشت شدہ اور غیرکاشت شدہ ایکڑکے برابر ہے۔ اس وقت صرف 5 فیصد زمین پر جنگلات موجود ہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ لگ بھگ 10.9 ملین ایکڑ زمین جنگلات پر مشتمل ہے۔ ماحولیاتی توازن کو محفوظ رکھنے اور موسمی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جنگلات کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
یہ کاربن بیسن کے طور پرکام کرتے ہیں جو ماحول سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے آکسیجن خارج کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ جنگلات کا ایک اورکام بھی ہے اور وہ ہے پانی سے مٹی کے کٹاؤ کی روک تھام کرنا، پانی کے وسائل کی حفاظت کرنا اور مختلف قسم کی جنگلی حیات کو قدرتی ماحول فراہم کرنا۔مزید یہ کہ جنگلات کے ذریعے بہت سارے معاشی فوائد کا حصول ممکن ہے جن میں لکڑی کی پیداوار، ماحولیاتی سیاحت اور دیگر جنگلی مصنوعات شامل ہیں۔پاکستان میں جنگلات کا رقبہ بڑھانا ایک مشکل اور محنت طلب کام ہے جس کی بہت بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں جن میں سیلاب، شدید بارش، خشک سالی اور شدید درجہ حرارت شامل ہیں۔ جنگلات کا رقبہ بڑھانے سے ان اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے، ہوا کے معیارکو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور آبادی کے آرام کو مجموعی طور پر بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ پاکستان کا جنگلاتی رقبہ متنازعہ ہے۔
فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن ( ایف اے او) کے مطابق پاکستان کے کُل رقبہ کا 2.2 فیصد جنگلات پر مشتمل ہے۔ پاکستان فورسٹ انسٹیٹیوٹ کے مطابق یہ رقبہ 5.1 فیصد ہے جب کہ 2017 میں ریڈ پلس پروگرام کے ایک سروے کے مطابق یہ رقبہ 5.7 فیصد ہے۔
ملک کا جنگلاتی رقبہ عالمی اوسط سے بہت کم ہے جو کہ ماحولیاتی پائیداری کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ پاکستان میں جنگلات کے نقصان کے اہم عوامل یہ ہیں۔ جنگلات کی کٹائی، غیر قانونی پلاٹنگ، زرعی زمین میں اضافہ اور شہروں کی تعداد میں اضافہ کا رجحان۔حکومت کو چاہیے کہ اس سلسلے میں ایک سالانہ ہدف مقررکرے جس کے تحت ہر ضلع میں 100 ایکڑ پر جنگلات اگائے جائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ درختوں کی اہمیت کے بارے میں عوامی شعور پیدا کرے۔ ماحولیاتی شعور اجاگر کرنے میں میڈیا بھی بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔