ایک غلط فیصلہ
کہا جا رہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سنجیدہ قیادت پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے حق میں نہیں
پاکستان کا قیام ایک سیاسی جماعت مسلم لیگ کے قائد محمد علی جناح کی انتھک شبانہ روز سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں عمل میں آیا۔ قائد اعظم نے سیاست میں اعلیٰ جمہوری اقدار کی ہمیشہ پاس داری کی۔ انھوں نے پاکستان مسلم لیگ کو اصولی، شفاف اور کرپشن و بدعنوانی سے پاک سیاست کے ذریعے عوام میں مقبول بنایا اور تاریخ ساز جدوجہد کر کے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے 14 اگست 1947 کو ایک آزاد، خودمختار اسلامی مملکت کے قیام کو یقینی بنایا۔
قائد اعظم نے جمہوریت کی بقا، آئین کی پاس داری اور قانون کی حکمرانی کے رہنما اصول متعین کیے۔ آنے والے سیاست دانوں کے لیے تنظیم، اتحاد اور ایمان کا وہ کامل پیغام دیا کہ جس پر چل کر وہ وطن عزیز کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکتے تھے۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ 75 سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا۔ 14 اگست 2024 کو قوم اپنا 77 واں یوم آزادی منانے کی تیاری کر رہی ہے لیکن قائد کے بعد آنے والے رہنما و قائدین نے قول و فعل کے تضادات کے ایسے رنگ دکھائے کہ ملک میں سیاست اور سیاسی جماعتیں دونوں معتوب ٹھہرائے جاتے رہے ہیں۔
ہر سال جشن آزادی کے موقعے پر ہمارے ارباب سیاست قائد اعظم کے سیاسی فکر و فلسفے اور رہنما اصولوں و نظریات کے مطابق سیاست کرنے اور ملک کو قائد اعظم و علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر بنانے کے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں۔ افسوس کہ ان کے سارے دعوے نقش برآب ثابت ہوئے، عاقبت نااندیش سیاست دانوں کی کوتاہیوں، نااہلیوں اور غیر سنجیدہ رویوں اور منافقانہ و منتقمانہ طرز عمل کے باعث اس ملک میں جمہوریت مستحکم ہو سکی نہ ہی آئین و قانون کی حکمرانی قائم ہو سکی اور نہ ہی عوام کی نمایندہ پارلیمنٹ کی بالادستی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکا، نتیجتاً 30 سال سے زائد عرصے تک وطن غیر جمہوری قوتوں کے پنجہ استبداد میں تڑپتا رہا، آئین پامال ہوتا رہا، منتخب وزرائے اعظم پھانسی چڑھتے اور جلاوطن ہوتے رہے۔
آمروں کی کوتاہ اندیشی کے باعث مشرقی بازو ہم سے جدا ہو گیا۔ اتنے سانحات کے باوجود ہمارے ارباب سیاست نے سبق سیکھا اور نہ ہی طاقتور حلقوں نے اپنی روش بدلنے کو ضروری سمجھا۔ یہ کشمکش آج بھی ملک میں آئینی و سیاسی بحران جمہوریت کو کچوکے لگا رہی ہے اور سیاست کو گھائل کر رہی ہے۔ سیاست دان اپنی جھوٹی اناؤں کی تسکین کے لیے ایک دوسرے کے مقابل کھڑے للکار رہے ہیں۔ حکمرانوں کو طاقتور حلقوں کی آشیرباد حاصل ہے تو کل تک اپوزیشن کو بھی ایسی ہی سہولت حاصل تھی ۔ آج اسے عوام کی حمایت کا یقین کامل ہے۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ایک سیاسی جماعت مسلم لیگ ہی دوسری سیاسی جماعت تحریک انصاف کو سیاست سے باہر کرنے کے لیے اس پر پابندی لگانے کے جواز تلاش کر رہی ہے۔
سیاست کا اولین اصول یہ ہے کہ سیاست کا مقابلہ سیاست سے کیا جائے نہ کہ اپنے مخالفین کو بند گلی میں لے جا کر دیوار سے لگا دیا جائے۔ بے نظیر بھٹو کہا کرتی تھیں کہ ''جمہوریت بہترین انتقام ہے'' اور انھوں نے عملی طور پر اپنے مثبت سیاسی طرز عمل اور جمہوری سوچ کے ذریعے اسے ثابت بھی کرکے دکھایا۔ انھیں دو مرتبہ اقتدار میں آنے کا موقع ملا۔ وہ وزیر اعظم کے منصب جلیلہ پر فائز رہیں۔ اس کے باوجود انھوں نے کسی سے انتقام نہیں لیا۔ یہی مثبت جمہوری سیاست کا رہنما اصول ہے لیکن آج اقتدار ایوانوں میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں شراکتی فارمولے کے تحت موجود ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سنجیدہ قیادت پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے حق میں نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے بھی بعض سنجیدہ فکر رہنما بھی پابندی کے حق میں نہیں۔ یہ وہ کھائی ہے جس میں کل خود مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی بھی گر سکتی ہے۔ بہترین حل یہی ہے کہ پی ٹی آئی کا سیاسی میدان میں مقابلہ کیا جائے۔ اس سے جمہوریت مضبوط ہوگی۔ پابندی سے نہ صرف آئینی و سیاسی بحران پیدا ہوگا بلکہ معاشی عدم استحکام بھی جنم لے گا۔ ملک جو پہلے ہی قرضوں اور آئی ایم ایف کے شکنجوں میں جکڑا ہوا ہے مزید پاتال میں چلا جائے گا۔ عوام جو بڑھتی ہوئی مہنگائی، غربت، بے روزگاری، ٹیکسوں کے بوجھ اور بجلی کے بھاری بلز کی وجہ سے پریشان حال ہیں ان کا ردعمل موجودہ حکومت کو نئی آزمائش میں مبتلا کر دے گا۔
آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں سیاسی جماعتوں اور تنظیموں پر پابندی کے کبھی مثبت نتائج نہیں ہوتے،کیونکہ پابندی کی صورت میں دوسرے ناموں سے اپنے وجود کو منوا لیتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی کا آغاز 1954میں ہوا جب اس وقت کی حکومت نے پاکستان کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگائی۔ پابندی کا شکار ہونے والی دوسری سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی تھی۔ 2001 سے 2015 کے درمیان تقریباً 60 کے لگ بھگ مذہبی و سیاسی جماعتوں و تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی۔ لیکن اس کا وہ نتیجہ نہیں نکل سکا، جس کا اندازہ لگایا گیا تھا۔ حکومت کو ہوش مندی سے کام لینا چاہیے۔ ہواؤں کا رخ دیکھ کر فیصلے کرنا چاہئیں۔ سب کے لیے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ایک غلط فیصلہ پورے نظام کو تلپٹ کر کے رکھ سکتا ہے۔ بقول شاعر:
لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی
قائد اعظم نے جمہوریت کی بقا، آئین کی پاس داری اور قانون کی حکمرانی کے رہنما اصول متعین کیے۔ آنے والے سیاست دانوں کے لیے تنظیم، اتحاد اور ایمان کا وہ کامل پیغام دیا کہ جس پر چل کر وہ وطن عزیز کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکتے تھے۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ 75 سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا۔ 14 اگست 2024 کو قوم اپنا 77 واں یوم آزادی منانے کی تیاری کر رہی ہے لیکن قائد کے بعد آنے والے رہنما و قائدین نے قول و فعل کے تضادات کے ایسے رنگ دکھائے کہ ملک میں سیاست اور سیاسی جماعتیں دونوں معتوب ٹھہرائے جاتے رہے ہیں۔
ہر سال جشن آزادی کے موقعے پر ہمارے ارباب سیاست قائد اعظم کے سیاسی فکر و فلسفے اور رہنما اصولوں و نظریات کے مطابق سیاست کرنے اور ملک کو قائد اعظم و علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر بنانے کے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں۔ افسوس کہ ان کے سارے دعوے نقش برآب ثابت ہوئے، عاقبت نااندیش سیاست دانوں کی کوتاہیوں، نااہلیوں اور غیر سنجیدہ رویوں اور منافقانہ و منتقمانہ طرز عمل کے باعث اس ملک میں جمہوریت مستحکم ہو سکی نہ ہی آئین و قانون کی حکمرانی قائم ہو سکی اور نہ ہی عوام کی نمایندہ پارلیمنٹ کی بالادستی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکا، نتیجتاً 30 سال سے زائد عرصے تک وطن غیر جمہوری قوتوں کے پنجہ استبداد میں تڑپتا رہا، آئین پامال ہوتا رہا، منتخب وزرائے اعظم پھانسی چڑھتے اور جلاوطن ہوتے رہے۔
آمروں کی کوتاہ اندیشی کے باعث مشرقی بازو ہم سے جدا ہو گیا۔ اتنے سانحات کے باوجود ہمارے ارباب سیاست نے سبق سیکھا اور نہ ہی طاقتور حلقوں نے اپنی روش بدلنے کو ضروری سمجھا۔ یہ کشمکش آج بھی ملک میں آئینی و سیاسی بحران جمہوریت کو کچوکے لگا رہی ہے اور سیاست کو گھائل کر رہی ہے۔ سیاست دان اپنی جھوٹی اناؤں کی تسکین کے لیے ایک دوسرے کے مقابل کھڑے للکار رہے ہیں۔ حکمرانوں کو طاقتور حلقوں کی آشیرباد حاصل ہے تو کل تک اپوزیشن کو بھی ایسی ہی سہولت حاصل تھی ۔ آج اسے عوام کی حمایت کا یقین کامل ہے۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ایک سیاسی جماعت مسلم لیگ ہی دوسری سیاسی جماعت تحریک انصاف کو سیاست سے باہر کرنے کے لیے اس پر پابندی لگانے کے جواز تلاش کر رہی ہے۔
سیاست کا اولین اصول یہ ہے کہ سیاست کا مقابلہ سیاست سے کیا جائے نہ کہ اپنے مخالفین کو بند گلی میں لے جا کر دیوار سے لگا دیا جائے۔ بے نظیر بھٹو کہا کرتی تھیں کہ ''جمہوریت بہترین انتقام ہے'' اور انھوں نے عملی طور پر اپنے مثبت سیاسی طرز عمل اور جمہوری سوچ کے ذریعے اسے ثابت بھی کرکے دکھایا۔ انھیں دو مرتبہ اقتدار میں آنے کا موقع ملا۔ وہ وزیر اعظم کے منصب جلیلہ پر فائز رہیں۔ اس کے باوجود انھوں نے کسی سے انتقام نہیں لیا۔ یہی مثبت جمہوری سیاست کا رہنما اصول ہے لیکن آج اقتدار ایوانوں میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں شراکتی فارمولے کے تحت موجود ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سنجیدہ قیادت پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے حق میں نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے بھی بعض سنجیدہ فکر رہنما بھی پابندی کے حق میں نہیں۔ یہ وہ کھائی ہے جس میں کل خود مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی بھی گر سکتی ہے۔ بہترین حل یہی ہے کہ پی ٹی آئی کا سیاسی میدان میں مقابلہ کیا جائے۔ اس سے جمہوریت مضبوط ہوگی۔ پابندی سے نہ صرف آئینی و سیاسی بحران پیدا ہوگا بلکہ معاشی عدم استحکام بھی جنم لے گا۔ ملک جو پہلے ہی قرضوں اور آئی ایم ایف کے شکنجوں میں جکڑا ہوا ہے مزید پاتال میں چلا جائے گا۔ عوام جو بڑھتی ہوئی مہنگائی، غربت، بے روزگاری، ٹیکسوں کے بوجھ اور بجلی کے بھاری بلز کی وجہ سے پریشان حال ہیں ان کا ردعمل موجودہ حکومت کو نئی آزمائش میں مبتلا کر دے گا۔
آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں سیاسی جماعتوں اور تنظیموں پر پابندی کے کبھی مثبت نتائج نہیں ہوتے،کیونکہ پابندی کی صورت میں دوسرے ناموں سے اپنے وجود کو منوا لیتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی کا آغاز 1954میں ہوا جب اس وقت کی حکومت نے پاکستان کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگائی۔ پابندی کا شکار ہونے والی دوسری سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی تھی۔ 2001 سے 2015 کے درمیان تقریباً 60 کے لگ بھگ مذہبی و سیاسی جماعتوں و تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی۔ لیکن اس کا وہ نتیجہ نہیں نکل سکا، جس کا اندازہ لگایا گیا تھا۔ حکومت کو ہوش مندی سے کام لینا چاہیے۔ ہواؤں کا رخ دیکھ کر فیصلے کرنا چاہئیں۔ سب کے لیے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ایک غلط فیصلہ پورے نظام کو تلپٹ کر کے رکھ سکتا ہے۔ بقول شاعر:
لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی