پیکا ایکٹ کے تحت درج مقدمہ رؤف حسن کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری منظور
عدالت نے 50، 50 ہزار روپے مچلکوں کے عوض ضمانتیں منظور کیں
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد نے پیکا ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات روف حسن اور دیگر کی ضمانت بعد از گرفتاری منظور کر لی۔
درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ڈیوٹی مجسٹریٹ عباس شاہ نے کی۔ پی ٹی آئی وکیل علی بخاری و دیگر عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ ایف آئی اے پراسیکیوٹر عامر شیخ اور تفتیشی افسر ریکارڈ سمیت عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ عدالت نے 50، 50 ہزار روپے مچلکوں کے عوض ضمانتیں منظور کیں۔
علی بخاری ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ احمد وقاص جنجوعہ کے انکشاف پر روؤف حسن کے خلاف مقدمہ درج ہوا، مقدمے میں نامزد 8 ملزمان تنخواہ لینے والے ملازم ہیں، ان 8 ملزمان کا روؤف حسن سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے، ملزمان میں کچھ نائب قاصد، ڈیسک آپریٹر اور ریسیپشنسٹ وغیرہ ہیں، ان ملازمین نے ملک کو کیا نقصان پہنچایا، ان کا یہ قصور کہ وہ نوکری کرتے ہیں۔
وکیل نے کہا کہ الزام ہے کہ روؤف حسن نے پی ٹی آئی سوشل میڈیا کا الگ سیل بنایا ہوا، الزام ہے کہ روؤف حسن کی ایما پر سوشل میڈیا پر ریاست مخالف کمپین چلائی جاتی ہے، مسئلہ یہ ہے کہ چوروں کو چور نہ کہا جائے ، روؤف حسن اور دیگر پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں، بندہ پکڑ کر ایف آئی آر درج کی جا رہی ہے، ایف آئی آر میں تو سیکشن 9 کے حوالے سے ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا۔ اس ایف آئی آر میں بے ترتیب الزامات لگائے گئے ہیں، عدالت ضمانت دے سکتی یا مقدمے سے ڈسچارج کر سکتی ہے۔
علی بخاری ایڈووکیٹ نے سیکشن 9، 10 اور 11 کا حوالہ دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا کہ ملزمان نے کیا جرم کیا ہے۔ علی بخاری ایڈووکیٹ کی جانب سے سیکشن 9، 10 اور 11 کے حوالے سے جسٹس بابر ستار کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا۔ جسٹس بابر ستار نے فیصلے میں لکھا کہ جتنا عرصہ ملزمان گرفتار رہیں گے وہ آئین کے خلاف ہوگا۔
علی بخاری ایڈووکیٹ نے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اعظم سواتی ایک ٹویٹ کرنے کے کیس میں گرفتار ہوئے، ضمانت پر رہا ہونے کے بعد دوبارہ ٹویٹ کر دیا تب بھی اسلام آباد ہائیکورٹ نے ضمانت منظور کرلی۔ وکیل نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ رؤف حسن اور دیگر کی ضمانت منظور کی جائے۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر عامر شیخ نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 14 ملزمان میں نے 12 ملزمان گرفتار ہیں جبکہ 2 خواتین ہونے کی وجہ سے ضمانت پر ہیں، اس کیس میں چار ٹیکنیکل رپورٹس موجود ہیں، رپورٹس کے مطابق 100 سے زائد واٹس ایپ گروپس چل رہے جن سے اشتعال پھیلایا جاتا ہے۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر کی جانب سے مختلف ٹویٹس کے ٹرانسکرپٹ پڑھے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ رؤف حسن جو بات کرتے ہیں ان کی بات سے بیانیہ بنایا جاتا ہے، بھارت سے بات کرکے بیانیہ بنایا جاتا ہے، خونی انقلاب کا بیانیہ بنایا گیا، مختلف فرقہ واریت والی کمپین چلائی جاتی ہے، راہول رائے انڈین ایجنسی را کا فرنٹ مین ہے، ملزم لیاقت نے بی ایل ایف کی چیزوں کا پروپیگنڈا بنا رہا ہے، ڈیجیٹل ٹیم میں پاکستانی، انڈین اور دیگر غیر ملکی شامل ہیں۔
علی بخاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے مختلف ٹویٹس کا ذکر کیا اس سے ہمارا کیا تعلق ہے، رؤف حسن ترجمان پی ٹی آئی میڈیا کوآرڈینیٹر نہیں ہیں۔
عدالت نے روؤف حسن اور دیگر کی ضمانت بعد از گرفتاری پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ڈیوٹی مجسٹریٹ عباس شاہ نے کی۔ پی ٹی آئی وکیل علی بخاری و دیگر عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ ایف آئی اے پراسیکیوٹر عامر شیخ اور تفتیشی افسر ریکارڈ سمیت عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ عدالت نے 50، 50 ہزار روپے مچلکوں کے عوض ضمانتیں منظور کیں۔
علی بخاری ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ احمد وقاص جنجوعہ کے انکشاف پر روؤف حسن کے خلاف مقدمہ درج ہوا، مقدمے میں نامزد 8 ملزمان تنخواہ لینے والے ملازم ہیں، ان 8 ملزمان کا روؤف حسن سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے، ملزمان میں کچھ نائب قاصد، ڈیسک آپریٹر اور ریسیپشنسٹ وغیرہ ہیں، ان ملازمین نے ملک کو کیا نقصان پہنچایا، ان کا یہ قصور کہ وہ نوکری کرتے ہیں۔
وکیل نے کہا کہ الزام ہے کہ روؤف حسن نے پی ٹی آئی سوشل میڈیا کا الگ سیل بنایا ہوا، الزام ہے کہ روؤف حسن کی ایما پر سوشل میڈیا پر ریاست مخالف کمپین چلائی جاتی ہے، مسئلہ یہ ہے کہ چوروں کو چور نہ کہا جائے ، روؤف حسن اور دیگر پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں، بندہ پکڑ کر ایف آئی آر درج کی جا رہی ہے، ایف آئی آر میں تو سیکشن 9 کے حوالے سے ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا۔ اس ایف آئی آر میں بے ترتیب الزامات لگائے گئے ہیں، عدالت ضمانت دے سکتی یا مقدمے سے ڈسچارج کر سکتی ہے۔
علی بخاری ایڈووکیٹ نے سیکشن 9، 10 اور 11 کا حوالہ دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا کہ ملزمان نے کیا جرم کیا ہے۔ علی بخاری ایڈووکیٹ کی جانب سے سیکشن 9، 10 اور 11 کے حوالے سے جسٹس بابر ستار کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا۔ جسٹس بابر ستار نے فیصلے میں لکھا کہ جتنا عرصہ ملزمان گرفتار رہیں گے وہ آئین کے خلاف ہوگا۔
علی بخاری ایڈووکیٹ نے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اعظم سواتی ایک ٹویٹ کرنے کے کیس میں گرفتار ہوئے، ضمانت پر رہا ہونے کے بعد دوبارہ ٹویٹ کر دیا تب بھی اسلام آباد ہائیکورٹ نے ضمانت منظور کرلی۔ وکیل نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ رؤف حسن اور دیگر کی ضمانت منظور کی جائے۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر عامر شیخ نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 14 ملزمان میں نے 12 ملزمان گرفتار ہیں جبکہ 2 خواتین ہونے کی وجہ سے ضمانت پر ہیں، اس کیس میں چار ٹیکنیکل رپورٹس موجود ہیں، رپورٹس کے مطابق 100 سے زائد واٹس ایپ گروپس چل رہے جن سے اشتعال پھیلایا جاتا ہے۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر کی جانب سے مختلف ٹویٹس کے ٹرانسکرپٹ پڑھے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ رؤف حسن جو بات کرتے ہیں ان کی بات سے بیانیہ بنایا جاتا ہے، بھارت سے بات کرکے بیانیہ بنایا جاتا ہے، خونی انقلاب کا بیانیہ بنایا گیا، مختلف فرقہ واریت والی کمپین چلائی جاتی ہے، راہول رائے انڈین ایجنسی را کا فرنٹ مین ہے، ملزم لیاقت نے بی ایل ایف کی چیزوں کا پروپیگنڈا بنا رہا ہے، ڈیجیٹل ٹیم میں پاکستانی، انڈین اور دیگر غیر ملکی شامل ہیں۔
علی بخاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے مختلف ٹویٹس کا ذکر کیا اس سے ہمارا کیا تعلق ہے، رؤف حسن ترجمان پی ٹی آئی میڈیا کوآرڈینیٹر نہیں ہیں۔
عدالت نے روؤف حسن اور دیگر کی ضمانت بعد از گرفتاری پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔