یہ جنگ اب ہماری جنگ بن گئی ہے

دہشت گردی اور خودکش حملوں نے پاکستانی معاشرے کو جنگل کا معاشرہ بنا دیا ہے

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

پاکستانی معاشرہ سر سے پیر تک جرائم میں لت پت ہوگیا ہے۔

ان جرائم میں اسٹریٹ کرائم سے لے کر دہشت گردی، خودکش حملے، بینک ڈکیتیاں، اغوا برائے تاوان، کارو کاری، عزت کے نام پر قتل جیسے بے شمار جرائم ہیں، جن کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی عذاب بن کر رہ گئی ہے۔

ہر انسان اپنے آپ کو گھر کے اندر گھر کے باہر غیر محفوظ سمجھتا ہے۔ پورے ملک میں خوف و دہشت کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ خاص طور پر دہشت گردی اور خودکش حملوں نے پاکستانی معاشرے کو جنگل کا معاشرہ بنا دیا ہے۔

یہ سارے جرائم بنیادی طور پر نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام کی پیداوار ہیں۔ اغوا برائے تاوان کے منافع بخش کاروبار میں وڈیرہ شاہی نظام کے محافظوں کے ملوث ہونے کی باتیں اسمبلیوں میں کی جا رہی ہیں۔ دہشت گردی اور خودکش حملوں کے پیچھے جن مقاصد کی نوید دی جارہی ہے، اس کا تعلق بھی قبائلی کلچر سے ہے۔ ان تمام جرائم کو روکنے میں صوبائی اور وفاقی انتظامیہ مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔

صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ ان بدترین حقائق سے لگایا جا سکتا ہے کہ دہشت گرد ملک کی دفاعی تنصیبات پر انتہائی بے باکی سے حملے کر رہے ہیں۔ مہران ایئربیس، کامرہ ایئربیس، حتیٰ کہ جی ایچ کیو پر کامیاب حملوں سے ان کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سیکیورٹی فورسز کا استعمال عموماً انتہائی صورتوں میں ہوتا ہے لیکن تشویش ناک صورت حال یہ ہے کہ دہشت گرد سیکیورٹی فورسز کے قافلوں اور چوکیوں پر حملے کر کے خود سیکیورٹی فورسز کو غیر محفوظ بنا رہے ہیں۔

بلوچستان میں آزادی کی جنگ کے نام پر دہشت گردی اور سبوتاژ کی جو وحشیانہ وارداتیں ہو رہی ہیں، اس کی وجہ سے بلوچستان شمالی وزیرستان بن گیا ہے اور اطلاعات کے مطابق بلوچستان میں بھی دہشت گرد انتہا پسند طاقتیں مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں۔ سرکاری اعلیٰ حکام کے مطابق بلوچستان میں بعض بیرونی طاقتیں بھی متحرک ہیں۔

اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ ملک بھر میں ایسی خوف و دہشت کی فضا مسلط کر دی جائے کہ عوام سڑکوں پر نکل آئیں اور اس افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہا پسند طاقتیں ریاستی اقتدار پر قابض ہونے کی سازش کو کامیاب بنا سکیں۔

اس حوالے سے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ملک کی سیاسی جماعتیں اور اعتدال پسند مذہبی قوتیں متحد ہو کر ان خوف ناک بلائوں کا مقابلہ کرتیں لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ دیکھا یہ جا رہا ہے کہ حکومت سے باہر یہ ساری جماعتیں ان ساری خرابیوں کی ذمے داری حکومت پر ڈال کر عوام کے اشتعال کا رخ حکومت کی طرف پھیرنے کی احمقانہ کوششیں کر رہی ہیں۔


اور اس کا حل انتخابات بتا رہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت اس صورتِ حال کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو گئی ہے لیکن جو طاقتیں ملک کو غیر مستحکم کرنے میں ایک انتہائی منصوبہ بند اور منظم طریقے سے کام کر رہی ہیں، اس کا حل محض حکومت کی تبدیلی یا انتخابات ہر گز نہیں ہے، کیونکہ ملک کو غیر مستحکم کرنے والی طاقتیں اب اس قدر مستحکم ہیں اور ان کے مقاصد اس قدر خطرناک ہیں کہ حکومتوں کی تبدیلی کا عمل ان طاقتوں کے منہ میں لگام نہیں ڈال سکتا بلکہ اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ حکومت کو تبدیل کرنے کی کوئی کوشش انتہا پسند طاقتوں کو اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کرنے کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔

اس انتہائی تشویش ناک صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس ہولناک حقیقت سے کیا جا سکتا ہے کہ ایسے حالات کو کنٹرول کرنے والی آخری طاقت سیکیورٹی فورسز کو دہشت گردوں نے بے دست و پا بنا کر رکھ دیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس بیماری کی ذمے داری امریکا پر عاید ہوتی ہے کہ اس نے محض اپنے سیاسی مفادات کی خاطر اس خطے میں مذہبی انتہا پسندوں کو استعمال کیا لیکن اس کی پرورش کردہ یہ طاقتیں اب خود اس کے سامنے کھڑی ہوئی ہیں۔ دہشت گردی کو جنم دینے والے ملک دہشت گردی کے خلاف جو جنگ لڑ رہے ہیں اور جس پر وہ اب تک کھربوں ڈالر خرچ کر چکے ہیں، یہ جنگ اب خصوصی طور پر ان کی جنگ نہیں رہی ہے، بلکہ عملاً اب یہ جنگ ہماری جنگ بن گئی ہے۔

بعض وہ طاقتیں جن کے مقاصد انتہا پسند طاقتوں کے مقاصد سے ہم آہنگ ہیں، یہ سمجھنے سے قاصر نظر آتی ہیں کہ اس قسم کی بے لگام عسکری اور نظریاتی انتہا پسندی ان کی اعتدال پسندی کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج بن جائے گی، جس کا عملی مظاہرہ مشرق وسطیٰ میں ہو رہا ہے اور خود اسلامسٹ حکومتیں ان جنونی طاقتوں سے خوف زدہ نظر آ رہی ہیں۔

پاکستان میں اقتدار کا ہر صورت حصول ہمارے سیاست دانوں کی زندگی کا واحد مقصد رہا ہے لیکن آج پاکستان ٹوٹ پھوٹ اور مذہبی انتہا پسندی کے جس مقام پر کھڑا نظر آ رہا ہے، اگر ہمارے محترم سیاست دان اور قابلِ احترام مذہبی قیادت اس کا ادراک نہ کر سکی اور اس صورت حال کو حصولِ اقتدار کا ذریعہ بناتی رہی تو ملک ایک ایسی خطرناک آندھی کی زد میں آ جائے گا جو سیاست دانوں کے حصولِ اقتدار کی بے تابانہ خواہش اور مذہبی طاقتوں کی اعتدال پسندی سب کو اڑا لے جائے گی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی حکومت عوامی اور قومی مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو انتخابات کے ذریعے حکومت کو تبدیل کرنے اور نئی سیاسی جماعتوں کو برسر اقتدار لا کر حالات کو سدھارنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن مسئلہ محض عوامی مسائل کو حل کرنے میں حکومت کی ناکامی کا نہیں ہے۔

نہ اپوزیشن کے ذریعے حکومت تبدیل کرنے کا تجربہ کرنے کا ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں سرگرم انتہا پسند طاقتیں پوری منصوبہ بندی، پوری تیاری اور نظم و ضبط کے ساتھ ملک کا اقتدار حاصل کرنے کی طرف بڑھ رہی ہیں اور علی الاعلان سیاست دانوں پر بھی یہ الزام لگا رہی ہیں کہ ہم ان لبرل طاقتوں کو بھی اپنا دشمن اور اپنی راہ کا پتھر سمجھتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ ہمارے سیاست دانوں، اعتدال پسند مذہبی طاقتوں اور خوش فہم اہلِ دانش اور اہلِ قلم دوستوں کو سنجیدگی سے ان سنگین حالات اور ان کے سنگین نتائج کا احساس کرنا چاہیے۔ اور محض حصولِ اقتدار کی خاطر اس سنگین خطرے کو پس پشت نہیں ڈالنا چاہیے جو اس ملک کے مستقبل کو ہڑپ کرنے کی پوری تیاری کر چکا ہے۔

اقتدار کا حصول ہر سیاسی جماعت کا جمہوری حق ہوتا ہے لیکن جب حقیقت یہ ہو کہ اپوزیشن کی حکومت میں آنے سے اس خطرناک صورت حال کو کنٹرول کرنے کے بجائے اس کی سنگینی میں اضافے کا امکان ہو تو بجائے اقتدار کی لڑائی کے ساری سیاسی مذہبی جماعتوں اور عوام کو مل کر اس سنگین صورت حال سے ملک کو نکالنے کی ذمے داری پوری کرنی چاہیے اور اس کے لیے اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ سماجی جرائم، بینک ڈکیتیوں کے جلو میں جو جنگ لڑی جا رہی ہے، وہ امریکا یا نیٹو کی جنگ نہیں، اب ہماری جنگ بن گئی ہے۔
Load Next Story