آئی ایس آئی سندھ حکومت کیخلاف توہین عدالت کا مقدمہ دائر کریگی وکیل
دونوں فریقین اراضی کی منتقلی کیلیے عدالت کا کندھا استعمال کرنا چاہتے ہیں، جسٹس آصف سعید کھوسہ
انٹر سروسز انٹیلی جنس سروسز( آئی ایس آئی) کے وکیل کا کہناہے کہ آئی ایس آئی کو رہائشی مقاصد کے لیے 10ایکڑ اراضی کا قبضہ نہ دینے پر حکومت سندھ کے خلاف توہین عدالت کامقدمہ دائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
آئی ایس آئی کے وکیل راجا محمد ارشاد نے کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی بینچ کے رکن جسٹس انور ظہیر جمالی نے آئی ایس آئی کی نظرثانی درخواست کی سماعت دوران ریمارکس دیے کہ آئی ایس آئی کو اراضی کی منتقلی کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کے 28نومبر 2013 کے فیصلے کے برعکس اقدام پر حکومت سندھ کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ دائر ہوسکتا ہے، ان ریمارکس کی روشنی میں سندھ حکومت کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ دائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 5رکنی بینچ نے ڈی جی آئی ایس آئی کی جانب سے کراچی غربی مین اراضی کی الاٹمنٹ کے حوالے سے نظر ثانی پٹیشن کی سماعت کی، پاکستان ایئرفورس ( پی اے ایف) نے بھی اسی علاقے میں 350ایکڑ اراضی کی الاٹمنٹ کے حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ آئی ایس آئی کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ ہاں یہ میری غلطی ہے، مجھے اس کیس میں توہین عدالت کی درخواست دائرکرنی چاہیے، وکیل نے عدالت سے درخواست کی انھیں نظر ثانی درخواست واپس لینے کی اجازت دی جائے۔
قبل ازیں سندھ کے محکمہ ریونیو کے وکیل احمر پیرزادہ نے کہاکہ اگر عدالت آئی ایس آئی کو اراضی کا الاٹمنٹ روکنے سے متعلق اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتیہے تو صوبائی حکومت کو آئی ایس آئی اور پی اے ایف کو اراضی کی منتقلی پر کوئی اعتراض نہیں۔ واضح رہے کہ 28نومبر2012کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت سندھ ریونیو ڈپارٹمنٹ کوسرکاری اراضی کی منتقلی، ریکارڈ میں اندراجات سے روک دیا گیاتھا جبکہ سرکاری اراضی کے حکومتی استعمال کے لیے دستاویزی کارروائی کی اجازت دی گئی تھی۔عدالت نے کہاکہ اس وضاحت کے بعدسرکاری استعمال کیلیے اراضی کی منتقلی پر کوئی پابندی نہیں۔
جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اراضی کا استعمال سرکاری مقاصد کے لیے ہورہا ہے یا نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ دونوں فریقین اراضی کی منتقلی کے لیے عدالت کا کندھا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ آئی ایس آئی کے وکیل نے کہا کہ میری مشکل یہ ہے کہ میں ایک خفیہ ادارے کی نمائندگی کررہا ہوں اور اراضی کے استعمال کے حوالے سے اصل مقاصد کو ظاہر نہیں کیا جاسکتا، عدالت اس اراضی کے استعمال کے حوالے سے میری رپورٹ ملاحظہ کرسکتی ہے۔ جسٹس نثار نے کہا کہ اراضی کے استعمال کے حوالے سے سندھ ریونیو ڈپارٹمنٹ سے بات کی جائے۔ جسٹس ثاقب نے کہاکہ سرکاری اراضی گورنمنٹ ملازمین کی رہائش کے لیے منتقل کی جاسکتی ہے۔
عدالت نے آئی ایس آئی کی نظرثانی درخواست پر کسی قسم کا حکم جاری کرنے سے انکار کردیا۔ بعدازاں آئی ایس آئی کے وکیل نے نظرثانی درخواست واپس لے لی تاکہ سندھ حکومت کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی جاسکے۔ سندھ کے ایک اعلیٰ افسر نے عدالت کے احاطے میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت سندھ سپریم کورٹ کے حکم کے بغیر آئی ایس آئی کو 10ایکڑ اور ایئرفورس کو 350ایکڑ اراضی الاٹ نہیں کرنا چاہتی۔ انھوں نے کہا کہ دونوں ادارے ہائوسنگ سوسائیٹیاں بنانے کے لیے اراضی حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن اراضی کا الاٹمنٹ سپریم کورٹ کے 28نومبر 2012کے حکم کے منافی ہے۔
آئی ایس آئی کے وکیل راجا محمد ارشاد نے کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی بینچ کے رکن جسٹس انور ظہیر جمالی نے آئی ایس آئی کی نظرثانی درخواست کی سماعت دوران ریمارکس دیے کہ آئی ایس آئی کو اراضی کی منتقلی کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کے 28نومبر 2013 کے فیصلے کے برعکس اقدام پر حکومت سندھ کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ دائر ہوسکتا ہے، ان ریمارکس کی روشنی میں سندھ حکومت کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ دائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 5رکنی بینچ نے ڈی جی آئی ایس آئی کی جانب سے کراچی غربی مین اراضی کی الاٹمنٹ کے حوالے سے نظر ثانی پٹیشن کی سماعت کی، پاکستان ایئرفورس ( پی اے ایف) نے بھی اسی علاقے میں 350ایکڑ اراضی کی الاٹمنٹ کے حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ آئی ایس آئی کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ ہاں یہ میری غلطی ہے، مجھے اس کیس میں توہین عدالت کی درخواست دائرکرنی چاہیے، وکیل نے عدالت سے درخواست کی انھیں نظر ثانی درخواست واپس لینے کی اجازت دی جائے۔
قبل ازیں سندھ کے محکمہ ریونیو کے وکیل احمر پیرزادہ نے کہاکہ اگر عدالت آئی ایس آئی کو اراضی کا الاٹمنٹ روکنے سے متعلق اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتیہے تو صوبائی حکومت کو آئی ایس آئی اور پی اے ایف کو اراضی کی منتقلی پر کوئی اعتراض نہیں۔ واضح رہے کہ 28نومبر2012کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت سندھ ریونیو ڈپارٹمنٹ کوسرکاری اراضی کی منتقلی، ریکارڈ میں اندراجات سے روک دیا گیاتھا جبکہ سرکاری اراضی کے حکومتی استعمال کے لیے دستاویزی کارروائی کی اجازت دی گئی تھی۔عدالت نے کہاکہ اس وضاحت کے بعدسرکاری استعمال کیلیے اراضی کی منتقلی پر کوئی پابندی نہیں۔
جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اراضی کا استعمال سرکاری مقاصد کے لیے ہورہا ہے یا نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ دونوں فریقین اراضی کی منتقلی کے لیے عدالت کا کندھا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ آئی ایس آئی کے وکیل نے کہا کہ میری مشکل یہ ہے کہ میں ایک خفیہ ادارے کی نمائندگی کررہا ہوں اور اراضی کے استعمال کے حوالے سے اصل مقاصد کو ظاہر نہیں کیا جاسکتا، عدالت اس اراضی کے استعمال کے حوالے سے میری رپورٹ ملاحظہ کرسکتی ہے۔ جسٹس نثار نے کہا کہ اراضی کے استعمال کے حوالے سے سندھ ریونیو ڈپارٹمنٹ سے بات کی جائے۔ جسٹس ثاقب نے کہاکہ سرکاری اراضی گورنمنٹ ملازمین کی رہائش کے لیے منتقل کی جاسکتی ہے۔
عدالت نے آئی ایس آئی کی نظرثانی درخواست پر کسی قسم کا حکم جاری کرنے سے انکار کردیا۔ بعدازاں آئی ایس آئی کے وکیل نے نظرثانی درخواست واپس لے لی تاکہ سندھ حکومت کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی جاسکے۔ سندھ کے ایک اعلیٰ افسر نے عدالت کے احاطے میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت سندھ سپریم کورٹ کے حکم کے بغیر آئی ایس آئی کو 10ایکڑ اور ایئرفورس کو 350ایکڑ اراضی الاٹ نہیں کرنا چاہتی۔ انھوں نے کہا کہ دونوں ادارے ہائوسنگ سوسائیٹیاں بنانے کے لیے اراضی حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن اراضی کا الاٹمنٹ سپریم کورٹ کے 28نومبر 2012کے حکم کے منافی ہے۔