ٹھیک ٹھیک نشانے
آیندہ انتخابات سے پہلے ’’ناپسندیدہ افراد‘‘ کو سیاسی اکھاڑے سے باہر رکھنے کا عمل شروع ہو گیا ہے
MULTAN:
مجھے طاقتور لوگوں کے مشکلات میں گھر جانے کے بعد ان کے بارے میں کلمہ حق کہنے کی عادت نہیں۔
جتنی ہمت کر سکتا ہوں وہ ان کے عروج کے دنوں میں ہی دِکھا دیا کرتا ہوں۔ رحمن ملک سے میرا تعلق ورنہ 1994 سے ہے۔ ان دنوں وہ مرحوم نصیر اللہ بابر کی مشفقانہ چھتری کے سائے تلے ایف آئی اے میں بجلی کی سی سرعت کے ساتھ ترقی کی منازل طے کر رہے تھے۔
اسلام آباد میں مقیم صحافیوں کو اچانک کہیں سے نمودار ہو کر ریاستی قوت اور اختیار پر قبضہ جما لینے والے افسران حیران کر دیتے ہیں۔ رپورٹروں کا فطری تجسس انھیں چین سے بیٹھنے ہی نہیں دیتا۔ ہمہ وقت کھوج لگاتے رہتے ہیں کہ اچانک کہیں سے نمودا ر ہو کر اقتدار کے اسٹیج پر چھا جانے والا کون ہے، کس شہر سے تعلق رکھتا ہے، سرکار سے کب اور کس حیثیت میں وابستہ ہوا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی طاقت کا ''اصل سرچشمہ'' کیا ہے۔
میں نے بھی کھوج لگائی تو کچھ چسکے دار باتوں کا پتہ چلا۔ ان میں سے چند ایک کا اپنے انگریزی کے ایک اخبار میں باقاعدگی سے چھپنے والے کالم میں تذکرہ بھی شروع کر دیا۔ پھر یوں ہوا کہ مجھے ایک بہت ہی عزیز صحافی نے اطلاع دی کہ وہ کسی کام سے ان دنوں محترمہ بے نظیر بھٹو کی سب سے وفادار معتمد ناہید خان صاحبہ کے ہاں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک رحمن ملک غصے سے بھرے ان کے کمرے میں داخل ہوئے اور بڑی ہذیانی کیفیت میں میری تحریروں کے بارے میں شکایات کا دفتر کھول دیا۔ میرے عزیز صحافی نے یہ واقعہ سنا کر یہ مشورہ بھی دیا کہ مجھے احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
میرے وہ دن البتہ تیزی سے رخصت ہوتی ہوئی جوانی والے تھے۔ بجائے احتیاط سے کام لینے کے میں نے ناہید خان کے دفتر میں ہونے والے واقعہ کی تفصیل لکھ کر وعدہ کر لیا کہ اپنے آیندہ کالموں میں رحمن ملک نامی افسر کا سارا کچا چٹھہ کھول کر رکھ دوں گا۔ یہ الگ بات ہے کہ مجھے اس کا موقعہ ہی نہ مل ۔
رحمن ملک نے میرے ساتھ ملاقات کر لی اور اس دوران ایک ایسا فقرہ کہہ دیا جس نے میری زبان اور قلم ان کی ذات کے بارے میں ہمیشہ کے لیے بند کر دیے۔ بالآخر وہ طاقتور بھی نہ رہے۔ جلا وطن ہو کر لندن چلے گئے۔ 2006 کے آخری مہینوں میں پھر یہ بات کھل گئی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت لانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔
2008 کے انتخابات کے بعد یہ منصوبہ اپنی تکمیل کو پہنچا۔ اگرچہ جس ''سجن'' یعنی محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیے یہ محفل سجائی گئی تھی اِس دُنیا میں نہ رہیں۔ 27 دسمبر 2007کے منحوس دن بے دردی سے قتل کر دی گئیں۔
بہرحال مجھے 2006سے یقین تھا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو وزیر داخلہ رحمن ملک ہوں گے۔ وہ بالآخر بن گئے اور جتنا عرصہ بھی اس وزارت کے بادشاہ رہے اپنی مرضی چلاتے رہے۔ یوسف رضا گیلانی بھی انھیں سر عام ''رحمن بابا'' پکار کر اپنی بے بسی کا اظہار کیا کرتے تھے۔ راجہ پرویز اشرف تو ایسے ہی کسی شمار میں نہیں۔
میں آپ کو یہ اطلاع بھی دے سکتا ہوں کہ ایک مرتبہ مولانا فضل الرحمن نے بھی، جن کی کہی بات صدر زرداری خال خال ہی نظر انداز کیا کرتے ہیں، ایوان صدر میں اپنی ایک ملاقات کے دوران رحمن ملک کے خلاف بڑے سنگین الزامات لگائے۔ صدر زرداری نے ان کی باتیں بڑے خلوص و احترام سے سنیں مگر مولانا کو ''درگزر'' کا مشورہ دینے کے سوا کچھ نہ کر پائے۔ وقت مگر بڑی ظالم شے ہے کبھی ایک سا نہیں رہتا۔
بہت اچھے دن گزارنے کے بعد رحمن ملک اب مشکل میں ہیں۔ ان کے اچھے دنوں کی طرح بُرے دن بھی کبھی ختم ہو جائیں گے۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
رحمن ملک کی ذات سے بالا تر جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ آیندہ انتخابات سے پہلے ''ناپسندیدہ افراد'' کو سیاسی اکھاڑے سے باہر رکھنے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ یوسف رضا گیلانی وزارتِ عظمیٰ سے فارغ ہو کر آیندہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نا اہل ہو گئے ہیں۔ فاروق نائیک کے ذریعے ''وہ چٹھی'' لکھنے کا وعدہ بھی کر لیا گیا ہے اور اب وفاقی حکومت کے ایک بڑے ہی اہم ''تھمب'' رحمن ملک تقریباََ فارغ کر دیے گئے ہیں۔
ذرا غور کیجیے تو یہ سارا ''تطہیری'' عمل احتساب کے نام پر بنائے کسی کارخانے کے ذریعے نہیں ہو رہا ہے۔ ''صفائی ستھرائی'' پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے ذریعے ہو رہی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ عدالتی چھلنی کے ذریعے ہونے والا ''تطہیری عمل'' تھکا دینے کی حد تک طویل ہو تا نظر آتا ہے۔ مگر اس کی بدولت ان لوگوں کی اُمیدیں بھی خاک میں مل جاتی ہیں جو روزانہ کسی نہ کسی ٹی وی چینل کی اسکرین پر بیٹھے اس ملک کے ''اصل وارثوں'' کو ستو پینے کے طعنے دیتے رہتے ہیں۔
پھر'' قابل، ایماندار اور محب الوطن، ٹیکنوکریٹس'' کا ایک گروہ بھی ہے، اس گروہ کے متحرک چہرے تواتر سے انگریزی زبان میں لکھ رہے ہیں کہ پاکستان تباہی کے دہانے تک پہنچ چکا ہے۔ کسی ''مردِ مجاہد'' کو اُٹھ کر اس ''گلے سڑے نظام '' کو ختم کر دینا چاہیے۔
بجائے نئے انتخابات کروانے کے دو سے تین سال تک کے لیے ایک ''قومی حکومت'' بنا دی جائے۔ ''قابل، ایماندار اور محب الوطن ٹیکنوکریٹس'' کی یہ حکومت ''ٹھوس اور سخت'' فیصلے کرنے کے بعد ملکی معیشت کو بحال کر کے ترقی کے راستوں پر ڈالے۔
معیشت کی بحالی اور بہتری کے ان دنوں میں ہی ''کڑا احتساب کرنے کے لیے ایک نیا کارخانہ بھی قائم کر دیا جائے جو بدعنوان سیاستدانوں کو اُلٹا لٹکا کر ''قوم کی لوٹی ہوئی دولت'' واپس لائے تا کہ آیندہ کسی''جھوٹے، خائن اور بدعنوان شخص'' کو انتخاب میں حصہ لینے کی جرأت بھی نہ ہو۔
سپریم کورٹ ان دنوں جو کچھ کر رہا ہے اس کی روشنی میں ''کڑا احتساب'' کرنے والوں کو اقتدار سونپنے کی خواہشات کے خریدار ڈھونڈنا بڑا مشکل ہو جائے گا۔ ہمارے ''اہل، ایماندار اور محب الوطن ٹیکنوکریٹس'' کو اب ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف وغیرہ کو نوکری کی درخواستیں بھیجنا شروع کر دینا چاہیے۔
دوسرا راستہ کسی NGO کا Consultant بننے کا ہے۔ اس میں مگر مصیبت یہ کہ این جی اوز کو مالی مدد فراہم کرنے والے یورپی ممالک کو اپنی فکر کھائے جا رہی ہے۔ ان کی پہلی ترجیح اسپین، یونان اور آئر لینڈ کی معیشت کو مکمل تباہی سے بچانا ہے۔ امریکا کا حال بھی پتلاہے۔ اوباما نے بڑی مشکل سے تیزی سے پھیلتی بے روزگاری پر تھوڑا قابو پایا ہے۔
وہ دوبارہ منتخب ہو گیا تو بجائے یورپ اور جنوبی ایشیاء پر توجہ دینے کے اپنا رُخ مشرق بعید کی طرف موڑ دے گا۔ جاپان کے ساتھ مل کر ویتنام، کمبوڈیا، فلپائن اور تھائی لینڈ کو نئے ''ایشیائی ٹائیگرز'' بنایا جائے گا۔ بھارت اس عمل میں حصہ ڈالے گا اور اپنا حصہ وصول بھی کرے گا کیونکہ چین کو اس کی ''اوقات'' میں رکھنا ہے۔ پاکستان میں نئے انتخابات کروانے کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں رہ گیا۔ ''جھوٹے، خائن اور بدعنوان'' لوگوں کو ان انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نا اہل قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ موجود ہے اور وہ توانا اور متحرک بھی ہے۔ ''ٹھیک ٹھیک نشانے'' لگا رہا ہے۔
مجھے طاقتور لوگوں کے مشکلات میں گھر جانے کے بعد ان کے بارے میں کلمہ حق کہنے کی عادت نہیں۔
جتنی ہمت کر سکتا ہوں وہ ان کے عروج کے دنوں میں ہی دِکھا دیا کرتا ہوں۔ رحمن ملک سے میرا تعلق ورنہ 1994 سے ہے۔ ان دنوں وہ مرحوم نصیر اللہ بابر کی مشفقانہ چھتری کے سائے تلے ایف آئی اے میں بجلی کی سی سرعت کے ساتھ ترقی کی منازل طے کر رہے تھے۔
اسلام آباد میں مقیم صحافیوں کو اچانک کہیں سے نمودار ہو کر ریاستی قوت اور اختیار پر قبضہ جما لینے والے افسران حیران کر دیتے ہیں۔ رپورٹروں کا فطری تجسس انھیں چین سے بیٹھنے ہی نہیں دیتا۔ ہمہ وقت کھوج لگاتے رہتے ہیں کہ اچانک کہیں سے نمودا ر ہو کر اقتدار کے اسٹیج پر چھا جانے والا کون ہے، کس شہر سے تعلق رکھتا ہے، سرکار سے کب اور کس حیثیت میں وابستہ ہوا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی طاقت کا ''اصل سرچشمہ'' کیا ہے۔
میں نے بھی کھوج لگائی تو کچھ چسکے دار باتوں کا پتہ چلا۔ ان میں سے چند ایک کا اپنے انگریزی کے ایک اخبار میں باقاعدگی سے چھپنے والے کالم میں تذکرہ بھی شروع کر دیا۔ پھر یوں ہوا کہ مجھے ایک بہت ہی عزیز صحافی نے اطلاع دی کہ وہ کسی کام سے ان دنوں محترمہ بے نظیر بھٹو کی سب سے وفادار معتمد ناہید خان صاحبہ کے ہاں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک رحمن ملک غصے سے بھرے ان کے کمرے میں داخل ہوئے اور بڑی ہذیانی کیفیت میں میری تحریروں کے بارے میں شکایات کا دفتر کھول دیا۔ میرے عزیز صحافی نے یہ واقعہ سنا کر یہ مشورہ بھی دیا کہ مجھے احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
میرے وہ دن البتہ تیزی سے رخصت ہوتی ہوئی جوانی والے تھے۔ بجائے احتیاط سے کام لینے کے میں نے ناہید خان کے دفتر میں ہونے والے واقعہ کی تفصیل لکھ کر وعدہ کر لیا کہ اپنے آیندہ کالموں میں رحمن ملک نامی افسر کا سارا کچا چٹھہ کھول کر رکھ دوں گا۔ یہ الگ بات ہے کہ مجھے اس کا موقعہ ہی نہ مل ۔
رحمن ملک نے میرے ساتھ ملاقات کر لی اور اس دوران ایک ایسا فقرہ کہہ دیا جس نے میری زبان اور قلم ان کی ذات کے بارے میں ہمیشہ کے لیے بند کر دیے۔ بالآخر وہ طاقتور بھی نہ رہے۔ جلا وطن ہو کر لندن چلے گئے۔ 2006 کے آخری مہینوں میں پھر یہ بات کھل گئی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت لانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔
2008 کے انتخابات کے بعد یہ منصوبہ اپنی تکمیل کو پہنچا۔ اگرچہ جس ''سجن'' یعنی محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیے یہ محفل سجائی گئی تھی اِس دُنیا میں نہ رہیں۔ 27 دسمبر 2007کے منحوس دن بے دردی سے قتل کر دی گئیں۔
بہرحال مجھے 2006سے یقین تھا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو وزیر داخلہ رحمن ملک ہوں گے۔ وہ بالآخر بن گئے اور جتنا عرصہ بھی اس وزارت کے بادشاہ رہے اپنی مرضی چلاتے رہے۔ یوسف رضا گیلانی بھی انھیں سر عام ''رحمن بابا'' پکار کر اپنی بے بسی کا اظہار کیا کرتے تھے۔ راجہ پرویز اشرف تو ایسے ہی کسی شمار میں نہیں۔
میں آپ کو یہ اطلاع بھی دے سکتا ہوں کہ ایک مرتبہ مولانا فضل الرحمن نے بھی، جن کی کہی بات صدر زرداری خال خال ہی نظر انداز کیا کرتے ہیں، ایوان صدر میں اپنی ایک ملاقات کے دوران رحمن ملک کے خلاف بڑے سنگین الزامات لگائے۔ صدر زرداری نے ان کی باتیں بڑے خلوص و احترام سے سنیں مگر مولانا کو ''درگزر'' کا مشورہ دینے کے سوا کچھ نہ کر پائے۔ وقت مگر بڑی ظالم شے ہے کبھی ایک سا نہیں رہتا۔
بہت اچھے دن گزارنے کے بعد رحمن ملک اب مشکل میں ہیں۔ ان کے اچھے دنوں کی طرح بُرے دن بھی کبھی ختم ہو جائیں گے۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
رحمن ملک کی ذات سے بالا تر جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ آیندہ انتخابات سے پہلے ''ناپسندیدہ افراد'' کو سیاسی اکھاڑے سے باہر رکھنے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ یوسف رضا گیلانی وزارتِ عظمیٰ سے فارغ ہو کر آیندہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نا اہل ہو گئے ہیں۔ فاروق نائیک کے ذریعے ''وہ چٹھی'' لکھنے کا وعدہ بھی کر لیا گیا ہے اور اب وفاقی حکومت کے ایک بڑے ہی اہم ''تھمب'' رحمن ملک تقریباََ فارغ کر دیے گئے ہیں۔
ذرا غور کیجیے تو یہ سارا ''تطہیری'' عمل احتساب کے نام پر بنائے کسی کارخانے کے ذریعے نہیں ہو رہا ہے۔ ''صفائی ستھرائی'' پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے ذریعے ہو رہی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ عدالتی چھلنی کے ذریعے ہونے والا ''تطہیری عمل'' تھکا دینے کی حد تک طویل ہو تا نظر آتا ہے۔ مگر اس کی بدولت ان لوگوں کی اُمیدیں بھی خاک میں مل جاتی ہیں جو روزانہ کسی نہ کسی ٹی وی چینل کی اسکرین پر بیٹھے اس ملک کے ''اصل وارثوں'' کو ستو پینے کے طعنے دیتے رہتے ہیں۔
پھر'' قابل، ایماندار اور محب الوطن، ٹیکنوکریٹس'' کا ایک گروہ بھی ہے، اس گروہ کے متحرک چہرے تواتر سے انگریزی زبان میں لکھ رہے ہیں کہ پاکستان تباہی کے دہانے تک پہنچ چکا ہے۔ کسی ''مردِ مجاہد'' کو اُٹھ کر اس ''گلے سڑے نظام '' کو ختم کر دینا چاہیے۔
بجائے نئے انتخابات کروانے کے دو سے تین سال تک کے لیے ایک ''قومی حکومت'' بنا دی جائے۔ ''قابل، ایماندار اور محب الوطن ٹیکنوکریٹس'' کی یہ حکومت ''ٹھوس اور سخت'' فیصلے کرنے کے بعد ملکی معیشت کو بحال کر کے ترقی کے راستوں پر ڈالے۔
معیشت کی بحالی اور بہتری کے ان دنوں میں ہی ''کڑا احتساب کرنے کے لیے ایک نیا کارخانہ بھی قائم کر دیا جائے جو بدعنوان سیاستدانوں کو اُلٹا لٹکا کر ''قوم کی لوٹی ہوئی دولت'' واپس لائے تا کہ آیندہ کسی''جھوٹے، خائن اور بدعنوان شخص'' کو انتخاب میں حصہ لینے کی جرأت بھی نہ ہو۔
سپریم کورٹ ان دنوں جو کچھ کر رہا ہے اس کی روشنی میں ''کڑا احتساب'' کرنے والوں کو اقتدار سونپنے کی خواہشات کے خریدار ڈھونڈنا بڑا مشکل ہو جائے گا۔ ہمارے ''اہل، ایماندار اور محب الوطن ٹیکنوکریٹس'' کو اب ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف وغیرہ کو نوکری کی درخواستیں بھیجنا شروع کر دینا چاہیے۔
دوسرا راستہ کسی NGO کا Consultant بننے کا ہے۔ اس میں مگر مصیبت یہ کہ این جی اوز کو مالی مدد فراہم کرنے والے یورپی ممالک کو اپنی فکر کھائے جا رہی ہے۔ ان کی پہلی ترجیح اسپین، یونان اور آئر لینڈ کی معیشت کو مکمل تباہی سے بچانا ہے۔ امریکا کا حال بھی پتلاہے۔ اوباما نے بڑی مشکل سے تیزی سے پھیلتی بے روزگاری پر تھوڑا قابو پایا ہے۔
وہ دوبارہ منتخب ہو گیا تو بجائے یورپ اور جنوبی ایشیاء پر توجہ دینے کے اپنا رُخ مشرق بعید کی طرف موڑ دے گا۔ جاپان کے ساتھ مل کر ویتنام، کمبوڈیا، فلپائن اور تھائی لینڈ کو نئے ''ایشیائی ٹائیگرز'' بنایا جائے گا۔ بھارت اس عمل میں حصہ ڈالے گا اور اپنا حصہ وصول بھی کرے گا کیونکہ چین کو اس کی ''اوقات'' میں رکھنا ہے۔ پاکستان میں نئے انتخابات کروانے کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں رہ گیا۔ ''جھوٹے، خائن اور بدعنوان'' لوگوں کو ان انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نا اہل قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ موجود ہے اور وہ توانا اور متحرک بھی ہے۔ ''ٹھیک ٹھیک نشانے'' لگا رہا ہے۔