طاقت کے استعمال سے…
آپ بلوچستان کب گئے تھے؟ آپ لاپتہ افراد کی بازیابی کی تحریکوں میں کیوں سرگرم رہے ہیں؟ 72 سالہ اسد اقبال بٹ دل کے مریض ہیں۔ ڈاکٹروں نے کچھ برس قبل انھیں دل کا بائی پاس کرانے کا مشورہ دیا تھا مگر دوسرے ڈاکٹرز اس مشورے سے متفق نہیں تھے، یوں ان کا بائی پاس نہ ہوسکا، ڈاکٹروں نے حتمی طور پر انھیں دواؤں پر زندگی گزارنے کا مشورہ دیا تھا۔
اسد اقبال بٹ جمعرات 25 جولائی کو صبح ہلکی ورزش سے فارغ ہوکر ابھی اخبارات کے مطالعے اور ناشتے سے فارغ ہوئے تھے کہ پولیس نے انھیں گھر سے گرفتار کرلیا۔ اسد اقبال بٹ انسانی حقوق کمیشن HRCP کے چیئر پرسن ہیں۔ ان کی گرفتاری کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ٹی وی چینلز سے بریکنگ نیوز نشر ہونے لگی۔ صحافی اورکیمرہ مین تھانہ پہنچ گئے۔ اسد اقبال بٹ کی تھانے میں موجودگی کی تصاویر ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے لگیں۔ ایچ آر سی پی کے ہیڈکوارٹر نے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ کی گرفتاری پر مذمتی بیان فوری طور پر ٹیوٹر پر جاری کیا، یوں ہر طرف سے اسد بٹ کی گرفتاری کی مذمت ہونے لگی۔
اسد اقبال بٹ ایک بے داغ سیاسی کارکن کی شہرت کے مالک ہیں۔ 60ء کی دہائی کے وسط میں بائیں بازوکی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہوئے اورکراچی میں کامرس کی تعلیم کے لیے کالج میں داخلہ لیا۔ اسد اقبال بٹ نے طلبہ یونین میں کام کرنا شروع کیا۔ اس زمانے میں طلبہ یونین کا ادارہ فعال تھا، وہ تین دفعہ طلبہ یونین کے عہدیدار منتخب ہوئے۔کالجوں کی منتخب طلبہ قیادت انٹرکالجیٹ باڈی کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔
اسد اقبال بٹ کمیونسٹ پارٹی چین نوازگروپ کے ہمدردوں میں شامل ہوئے اور پھر رکن بن گئے۔ کمیونسٹ پارٹی کی ہدایت پر تعلیم مکمل کرنے پر قومی مزدور محاذ میں کام کرنے لگے۔ اسد اقبال بٹ این ایس ایف کے سابق صدر معراج محمد خان کی ایماء پر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے، وہ 90ء کی دہائی تک پیپلز پارٹی میں سرگرم ِ عمل رہے۔ جسٹس دراب پٹیل، عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمن کی ایماء پر ایچ آر سی پی میں شامل ہوئے۔ اسد اقبال بٹ تب سے انسانی حقوق کی بالادستی کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
اس دوران لیاری سے بھی بعض کارکن لاپتہ ہوئے۔ بلوچستان اس صدی کے آغاز سے شدید بدامنی کا شکار ہے۔ صدی کے آغاز کے ساتھ بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس مری کو نامعلوم افراد نے قتل کیا۔ حکومت نے نواب خیر بخش مری کو گرفتارکیا۔ سردار نواب اکبر بگٹی کے گاؤں پر اچانک بمباری شروع کردی گئی۔
اکبر بگٹی کو اپنا گھر چھوڑنا پڑا اور ایک آپریشن کے دوران نواب اکبر بگٹی کو قتل کیا گیا، یوں بلوچستان دہشت گردی کی نذر ہوا۔ سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ دیگر صوبوں سے آئے ہوئے ڈاکٹروں، انجینئروں، صحافیوں،اساتذہ اور خواتین کو ٹارگٹ کلنگ کرنے کی لہرآئی جس کے بعد سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں ملنے لگیں۔ سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا معاملہ شدت اختیار کر گیا۔گوادرکے ماہی گیروں پر سمندر میں داخل ہوکر مچھلی کے شکار پر عملاً پابندی عائد ہوگئی۔
سیاسی کارکنوں کے لاپتہ کرنے کا معاملہ بلوچستان میں بدامنی کا باعث رہا۔ ایک لاپتہ شخص کی لاش ویرانے سے ملی تو اس کا باپ ماما قدیر بلوچ نے لاپتہ افراد کی رہائی کے لیے جدوجہد کا عزم کیا۔ ماما قدیر نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد تک پیدل مارچ کیا۔ ان کا خیرمقدم کیا گیا مگر اسلام آباد کی حکومت ان کی دادرسی نہ کرپائی۔ ماما قدیر مایوس ہونے والی شخصیت نہیں ہیں۔ سی پیک کی تعمیر سے ترقی کا بہت شور ہوا۔
اس منصوبے کے تحت گوادرکو چین کے شہر سنکیانگ سے منسلک کردیا گیا۔ گوادرکی بندرگاہ اور ایئرپورٹ کی تعمیرکا سلسلہ شروع ہوا مگر بلوچستان کے عوام کو علاقے کی ترقی کا کوئی ثمر نہ ملا۔ گوادرکے شہریوں کا واحد پیشہ مچھلی بانی ہے۔گوادر شہر کے 95 فیصد خاندان مچھلی پکڑنے کا کام کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن نے بلوچ قوم کا بیانیہ اختیارکیا۔گوادرکے ماہی گیروں کی تحریک دو سال تک جاری رہی۔ ماہی گیروں کے کچھ مطالبات پورے ہوئے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے تربت سے اسلام آباد تک سردی میں طویل مارچ کیا۔ اس مارچ کی راہ میں مختلف رکاوٹیں کھڑی کی گئیں مگر ہزاروں افراد اسلام آباد پہنچنے تک کامیاب ہوئے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ اور ان ساتھیوں نے عدم تشدد کا بیانیہ اختیارکیا اورلاپتہ افراد کی بازیابی پر مکمل زور دیا مگر اسلام آباد کے حکمرانوں نے اس پرکوئی توجہ نہ دی۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے 28 جولائی کو بلوچستان کے لوگوں کوگوادرکے قومی اجتماع میں شرکت کی دعوت دی تھی، یہ پرامن اجتماع ہونا تھا۔ بلوچستان سے بڑی تعداد میں افراد جن میں اکثریت خواتین اور نوجوانوں کی ہے،اس دھرنا میں شرکت کے لیے روانہ ہوئے۔ راستہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اورکئی مقامات پر تصادم ہوئے۔
بلوچستان کی تمام جماعتوں نے جن میں صدر زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف کو اعتمادکا ووٹ دینے والی جماعتیں بھی شامل ہیں، اس دھرنا کی حمایت کی ہے۔ بلوچستان عملی طور پر دس دن سے مکمل طور پر مفلوج ہے۔ ایران سے آنے والے زائرین تافتان کی سرحد تک پھنسے ہوئے ہیں۔ ریاست اسد بٹ کو تو طاقت کے ذریعے بلوچستان جانے سے روکنے میں تو کامیاب ہوگئی مگر بڑی تعداد میں بلوچوں کو روک نہ پائی، یہ مسئلہ طاقت کے استعمال سے حل نہیں ہوسکتا۔