بنگلہ دیش میں احتجاج وزیراعظم حسینہ واجد سے استعفے کا مطالبہ

حسینہ واجد معذرت کرتی ہیں تو سب کچھ معمول پر آئے گا لیکن صورت حال پر قابو نہیں پا سکتیں تو اشتعال بڑھتا رہے گا، طلبہ

طلبہ ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر ہیں اور وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں—فوٹو: رائٹرز

بنگلہ دیش کے دارالحکومت میں ہزاروں افراد کے احتجاج پر پولیس کے تشدد سے 20 سے زائد افراد زخمی ہوگئے جبکہ مظاہرین نے وزیراعظم حسینہ واجد سے استعفے کا مطالبہ کردیا۔

غیرملکی خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ڈھاکا میں حسینہ واجد کے استعفے کے لیے ہونے والے عوامی احتجاج کے دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، پولیس نے مظاہرین پر ربڑ کی گولیاں برسائیں اور انہیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل فائر کیے۔

مظاہرین گزشتہ ماہ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے 150 سے زائد فراد کے خاندانوں سے انصاف کا مطالبہ کر رہے تھے۔

رپورٹ کے مطابق ڈھاکا میں نوجوانوں کی بڑی تعداد احتجاج میں شریک تھی اور وہ نعرے لگا رہے تھے کہ 'ہم انصاف چاہتے ہیں' اور حکومت مخالف بینرز لہرا رہے تھے۔

ملک کے دیگر علاقوں میں حکمران جماعت عوامی لیگ کے ضلعی دفاتر سمیت کئی عمارتیں نذر آتش کردی گئیں اور احتجاج کے دوران قانون نافذ کرنے والی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش میں طلبہ کے احتجاج میں شدت، ملک بھر میں کرفیو نافذ، فوج طلب

پولیس نے بتایا کہ مظاہرین نے شمال مشرقی قصبے حبیبانجی میں مظاہرین پر اس لیے ربڑ کی گولیاں برسائیں اور آنسو گیس فائر کیا کیونکہ ہجوم نے ان پر حملہ کیا تھا۔


انہوں نے بتایا کہ بنگلہ دیش کے شہر سلہٹ میں بھی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے کوشش کی گئی جبکہ ایک عینی شاہد کا کہنا تھا کہ پولیس کے تشدد سے 20 افراد زخمی ہوگئے۔

حبیبانجی میں تعینات پولیس عہدیدار خلیل الرحمان نے بتایا کہ مظاہرین نے عوامی لیگ کا مقامی دفتر، کئی سرکاری دفاتر اور کئی موٹرسائیکلیں بھی نذر آتش کیا تاہم پولیس نے صورت حال پر قابو پانے کے لیے ربڑ کی گولیاں چلائیں اور آنسو گیس کے شیل فائر کیے۔

بنگلہ دیش میں طویل عرصے سے حکمرانی کرنے والی عوامی لیگ کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو جنوری میں مسلسل چوتھی دفعہ وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ حال ہی میں بدترین احتجاج کا سامنا کرنا پڑا جہاں طلبہ سمیت شہریوں کی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔

خیال رہے کہ طلبہ کی قیادت میں ہونے والے احتجاج کا مقصد سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کا خاتمہ تھا، جہاں سرکاری ملازمتوں میں 1971 کی جنگ میں مارے گئے افراد کے خاندانوں کے ارکان کے لیے مختص 30 فیصد کوٹہ سمیت بڑا حصہ کوٹے کی نذر ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلادیش میں احتجاجی طلبہ کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم

ملک بھر میں ہونے والے بدترین احتجاج کے دوران پولیس اور سرکاری اہلکاروں کی فائرنگ سے 150 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے تھے اور 10 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا تھا تاہم کوٹہ سسٹم کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد احتجاج ختم کردیا گیا تھا۔

بعدازاں رواں ہفتے مذکورہ طلبہ دوبارہ سڑکوں پر آگئے اور مطالبہ کیا کہ احتجاج کے دوران جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کے ساتھ انصاف کیا جائے، اسی طرح ناقدین اور انسانی حقوق کے گروپس نے حسینہ واجد کی حکومت کو تحریک دبانے کے لیے فورس کا ظالمانہ انداز میں استعمال کرنے کا ذمہ دار قرار دیا ہے جبکہ حسینہ واجد اور ان کے وزرا اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔

ڈھاکا میں جاری احتجاج میں شامل طالب علم سید سدمان نے کہا کہ لوگ غلطیاں کرتے ہیں، اگر حسینہ واجد معذرت کرتی ہیں تو سب کچھ معمول پر آئے گا، اگر وہ صورت حال قابو نہیں کرسکتی ہیں تو اشتعال بڑھتا رہے گا۔
Load Next Story