مفاہمت کی سیاست کے امکانات
سیاست اور جمہوریت میں سب درست نہیں ہوتا اور نہ ہی سب کی حکمت عملیاں منصفانہ اور شفاف ہوتی ہیں
پاکستان کی سیاست باہمی تضادات، ٹکراو، محاذآرائی ، الزام تراشی یا کردار کشی کے گرد گھوم رہی ہے ۔ سیاسی فریقین گالم گلوچ کو اپنے مخالفین کے خلاف ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب اصول ، نظریے اور سچائی کی بات سیاست اور جمہوریت کے تناظر میں کی جاتی ہے تو طنز کیا جاتا ہے کہ آپ تصوراتی یا خوابی گفتگو کررہے ہیں ۔ جو معاملات اور فیصلے سیاست اور جمہوریت کا بیڑہ غرق کرتے ہیں اسے سیاسی حکمت عملیوں کی بنیاد پر پرکھ کر ہم سیاست اور سیاسی جماعتوں سمیت سیاسی قیادت کو بچانا ہماری کوششوں کا حصہ ہوتا ہے ۔عمومی طور پر منطق دی جاتی ہے کہ سیاست میں مفاہمت اور ایک دوسرے کی سیاسی قبولیت یا سیاسی رواداری کی بنیاد پرچلنے کا عمل ہی سیاسی استحکام سمیت جمہوری عمل کو مضبوط بناتا ہے ۔
اس وقت بھی ملک کو مجموعی طور پر جن سنگین حالات کا سامنا ہے وہ ہم سے غیر معمولی اقدامات کی توقع رکھتا ہے۔ سیاست میں اختلاف اور تنقید اپنی جگہ مگر اسے سیاسی بنیادوں پر دیکھنے کی بجائے ہم دشمنی اور ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو خاتمہ تک محدود کردیں تو سیاسی عمل ہو یا جمہوری عمل کے مقابلے میں ہمیں سیاسی انتشار اور بگاڑ کا کھیل نمایاں طور پر غالب نظر آتا ہے ۔ حکومت، حزب اختلاف، اسٹیبلیشمنٹ ، بیوروکریسی ، میڈیا ، سول سوسائٹی اور عدلیہ سب ہی مجموعی طور پر ایک دوسرے سے الجھاو اور تناو رکھتے ہیں ۔ہمارے جیسے ملکوں میں جہاں سیاست ، جمہوریت اور آئین و قانون سمیت عوامی مفاد کی بنیاد پر حکمرانی کا نظام اپنے اندر داخلی تضادات یا مصنوعی یا جعلی پن رکھتا ہے وہیں '' مفاہمت کی سیاست '' کا کارڈ بھی ہمیں ذاتیات کی سطح پر مبنی سیاست یا مفادات کے گرد نظر آتا ہے ۔جو بھی قومی سطح پر مفاہمت کی سیاست کے کھیل ہمیں دیکھنے کو ملے ہیں اس میں جعلی پن کا کھیل غالب نظر آتا ہے۔
حالیہ سیاست میں ایک طرف عمران خان اسٹیبلیشمنٹ اور حکومت کے ساتھ محاذ آرائی میں مصروف ہیں تو دوسری طرف ہمیں حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ عدلیہ کے ساتھ ٹکراو میں ہیں ۔ ایک قدم آگے بڑھیں تو میڈیا اور سول سوسائٹی بھی اس ٹکراؤ کا حصہ ہے ۔سیاسی محاذ پر ٹکراو کا ماحول پی ٹی آئی یا عمران خان اور حکومت کے درمیان نظر آتا لیکن محمود خان اچکزئی ، سردار اختر مینگل، آفتاب شیر پاو، جماعت اسلامی ، عوامی نیشنل پارٹی ، جے یو آئی سب ہی ناخوش نظر آتے ہیں ۔ ادھر ڈیجیٹل میڈیا کے بارے میں منفی تاثر ابھر رہا ہے۔ مفاہمت کی سیاست جب اپنی اہمیت کھودے یا اس میں جعلی پن ہو تو پھر جمہوریت اور زیادہ کمزور ہوجاتی ہے ۔معاملات بلوچستان سے جڑے ہوں یا خیبر پختونخواہ میں انتہا پسندی سمیت دہشت گردی کے معاملات ہوں، حکمت عملی میں نقائص نظر آتے ہیں۔سب جگہ مسائل کا غلبہ اور اس کے نتیجے میں بداعتمادی اور غیریقینی بڑھ رہی ہے ۔ جو ریاست، حکومت اور معاشرے سمیت سیاسی نظام کے مفاد کے خلاف ہے ۔ کسی سیاسی جماعت پر پابندی ، غداری کے مقدمے چلانے کا اعلان یا کسی کو سیکیورٹی رسک قرار دے کر مسائل حل نہیںبلکہ اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہوتے ہیں ۔
سیاست اور جمہوریت میں سب درست نہیں ہوتا اور نہ ہی سب کی حکمت عملیاں منصفانہ اور شفاف ہوتی ہیں ۔ غلطیاں سب ہی کرتے ہیں ، یہ غلطیاں جان بوجھ کر بھی ہوتی ہیں اور لاشعوری طور پر بھی ہوتی ہیں ۔ غلطیوں کا علاج مکالمہ ،بات چیت، غلطیوں کو تسلیم کرنے او رہر کسی کو سیاسی راستہ دینے اور قبولیت سے جڑا ہوتا ہے ۔مگرایسے لگتا ہے کہ ہمارے یہاں فریقین ذاتی انا اور دشمنی کے کھیل میں بہت آگے تک چلے گئے ہیں جہاں سے واپسی کے امکانات کم ہیں ۔ ہرفریق سمجھتا ہے کہ واپسی اس کی سیاسی خود کشی ہوگی اور اسے سیاسی شکست کے طور پر سمجھا جائے گا۔
اس لیے ہٹ ڈھرمی کا غلبہ ہے ۔ عمران خان سیاسی فریقوں کے مقابلے میں فوج یا اسٹیبلیشمنٹ سے مزاکرات چاہتے ہیں جو ان پر سیاسی تنقید کے دروازوں کو کھولتا ہے ۔کیونکہ سیاست او رجمہوریت میں تو سیاست دانوں کو باہمی سطح پر موجود مسائل پر بات چیت کرنی ہوتی ہے ۔لیکن یہ مسئلہ اتنا سادہ نہیں کہ اسے ایسے ہی دیکھا جائے جو ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں ۔ہماری قومی سیاست میں اسٹیبلیشمنٹ ایک بڑی حقیقت کے طور پر موجود ہے او راس کے سیاسی کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔ ایسے نظام میں جہاں سیاست ، جمہوریت ، آئینی و قانونی پہلو کمزور ہوں اور یہ ادارے خود اپنی بقا کی جنگ لڑرہے ہوں تو وہاں اسٹیبلیشمنٹ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
اس لیے مشکلات سے نکلنے کے لیے مذاکرات بھی کیے جاسکتے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود عمران خان کو یکسر طور پر سیاسی قوتوں سے مزاکرات نہ کرنے کی اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرنا چاہیے۔مان لیتے ہیں کہ حکومتی سیاسی قوتوں کے پاس اختیارات نہیں اور نہ ہی وہ پی ٹی آئی سے مذاکرات میں کسی بھی سطح پر سنجیدہ ہیں او رنہ ہی پی ٹی آئی کو ریلیف دینا چاہتے ہیں تو ایسے میں ان سے مذاکرات نہ کرنے کے بجائے ان کے باہمی تضادات کو نمایاں کرکے بے نقاب کرنا ہی سیاسی حکمت عملی ہونی چاہیے ۔حکومت کو بھی سمجھنا چاہیے کہ ایک طرف طاقت کا استعمال ، مخالفین کو جیلوں میں بند رکھنا اور دوسری طرف مفاہمت یا مذاکرات کی بات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے کسی بھی سطح پرسنجیدہ لیا جاتا ہے۔
حکومت پر پہلی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مفاہمت اور مذاکرات کو ہر سطح پر یقینی بنانے کے لیے سازگار ماحول کو پیدا کرے جو سیاسی تلخیوں کو کم کرنے کا سبب بنیں تاکہ مفاہمت پر بات آگے بڑھ سکے ۔لیکن ایسے لگتا ہے کہ خود حکومت نے بھی پی ٹی آئی کے ساتھ مفاہمت کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہوا ہے ۔ اسٹیبلیشمنٹ کے بارے میںیہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ وہ مفاہمت کی بجائے ٹکراو یا کسی کا خاتمہ چاہتی ہے ۔کیونکہ مفاہمت کا عمل اسی بنیاد پر آگے بڑھتا ہے جب ہم ایک دوسرے کے سیاسی و غیر سیاسی وجود کو قبول کرتے ہیں ۔ اسی طرح مفاہمت کا عمل شروع ہوتا اورہمیں کھلے دل اور ذہن کے ساتھ مذاکرات کے عمل کی سیاسی میز سجانی ہوگی اور سب فریقین کو مل بیٹھ کر قومی مسائل کا حل تلاش کرنے اور ممکنہ اقدامات پر کوئی مشترک حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی ۔
طاقت کی بنیاد پر یا غیر سیاسی حکمت عملی کو اختیار کرکے ہم نے پہلے ہی حالات کو بند گلی میں دکھیل دیا ہے ۔ اس کھیل نے کسی ایک فریق کو نہیں بلکہ سب کو کمزور وکٹ پر کھڑا کردیا ہے ۔پورا ریاستی ، حکومتی ، معاشی اور سیکیورٹی کا نظام خطرات کی زد میں ہے اور ہم ان بڑے اہم معاملات کو نظرانداز کرکے غیر سنجیدہ ، غیر ضروری اور دشمنی یا ٹکراو کی سیاست کرکے ایک دوسرے کے خلاف سیاسی اسکورنگ کے کھیل کو اپنی بنیاد بنا چکے ہیں ۔ یاد رکھیں سیاست کا مقابلہ سیاست او رجمہوریت کی بنیاد پر اور سیاسی میدان میں ہوسکتا ہے ۔ ایک سیاسی بیانیہ کا مقابلہ دوسرے سیاسی بیانیہ کی بنیاد پر ممکن ہوتا ہے ۔ اس لیے حقیقی ، منصفانہ اور شفاف مفاہمت کی بنیاد پر اگر ہم آگے بڑھیں گے تو قومی مسائل کا حل بھی نکل سکے گا۔
اس وقت بھی ملک کو مجموعی طور پر جن سنگین حالات کا سامنا ہے وہ ہم سے غیر معمولی اقدامات کی توقع رکھتا ہے۔ سیاست میں اختلاف اور تنقید اپنی جگہ مگر اسے سیاسی بنیادوں پر دیکھنے کی بجائے ہم دشمنی اور ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو خاتمہ تک محدود کردیں تو سیاسی عمل ہو یا جمہوری عمل کے مقابلے میں ہمیں سیاسی انتشار اور بگاڑ کا کھیل نمایاں طور پر غالب نظر آتا ہے ۔ حکومت، حزب اختلاف، اسٹیبلیشمنٹ ، بیوروکریسی ، میڈیا ، سول سوسائٹی اور عدلیہ سب ہی مجموعی طور پر ایک دوسرے سے الجھاو اور تناو رکھتے ہیں ۔ہمارے جیسے ملکوں میں جہاں سیاست ، جمہوریت اور آئین و قانون سمیت عوامی مفاد کی بنیاد پر حکمرانی کا نظام اپنے اندر داخلی تضادات یا مصنوعی یا جعلی پن رکھتا ہے وہیں '' مفاہمت کی سیاست '' کا کارڈ بھی ہمیں ذاتیات کی سطح پر مبنی سیاست یا مفادات کے گرد نظر آتا ہے ۔جو بھی قومی سطح پر مفاہمت کی سیاست کے کھیل ہمیں دیکھنے کو ملے ہیں اس میں جعلی پن کا کھیل غالب نظر آتا ہے۔
حالیہ سیاست میں ایک طرف عمران خان اسٹیبلیشمنٹ اور حکومت کے ساتھ محاذ آرائی میں مصروف ہیں تو دوسری طرف ہمیں حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ عدلیہ کے ساتھ ٹکراو میں ہیں ۔ ایک قدم آگے بڑھیں تو میڈیا اور سول سوسائٹی بھی اس ٹکراؤ کا حصہ ہے ۔سیاسی محاذ پر ٹکراو کا ماحول پی ٹی آئی یا عمران خان اور حکومت کے درمیان نظر آتا لیکن محمود خان اچکزئی ، سردار اختر مینگل، آفتاب شیر پاو، جماعت اسلامی ، عوامی نیشنل پارٹی ، جے یو آئی سب ہی ناخوش نظر آتے ہیں ۔ ادھر ڈیجیٹل میڈیا کے بارے میں منفی تاثر ابھر رہا ہے۔ مفاہمت کی سیاست جب اپنی اہمیت کھودے یا اس میں جعلی پن ہو تو پھر جمہوریت اور زیادہ کمزور ہوجاتی ہے ۔معاملات بلوچستان سے جڑے ہوں یا خیبر پختونخواہ میں انتہا پسندی سمیت دہشت گردی کے معاملات ہوں، حکمت عملی میں نقائص نظر آتے ہیں۔سب جگہ مسائل کا غلبہ اور اس کے نتیجے میں بداعتمادی اور غیریقینی بڑھ رہی ہے ۔ جو ریاست، حکومت اور معاشرے سمیت سیاسی نظام کے مفاد کے خلاف ہے ۔ کسی سیاسی جماعت پر پابندی ، غداری کے مقدمے چلانے کا اعلان یا کسی کو سیکیورٹی رسک قرار دے کر مسائل حل نہیںبلکہ اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہوتے ہیں ۔
سیاست اور جمہوریت میں سب درست نہیں ہوتا اور نہ ہی سب کی حکمت عملیاں منصفانہ اور شفاف ہوتی ہیں ۔ غلطیاں سب ہی کرتے ہیں ، یہ غلطیاں جان بوجھ کر بھی ہوتی ہیں اور لاشعوری طور پر بھی ہوتی ہیں ۔ غلطیوں کا علاج مکالمہ ،بات چیت، غلطیوں کو تسلیم کرنے او رہر کسی کو سیاسی راستہ دینے اور قبولیت سے جڑا ہوتا ہے ۔مگرایسے لگتا ہے کہ ہمارے یہاں فریقین ذاتی انا اور دشمنی کے کھیل میں بہت آگے تک چلے گئے ہیں جہاں سے واپسی کے امکانات کم ہیں ۔ ہرفریق سمجھتا ہے کہ واپسی اس کی سیاسی خود کشی ہوگی اور اسے سیاسی شکست کے طور پر سمجھا جائے گا۔
اس لیے ہٹ ڈھرمی کا غلبہ ہے ۔ عمران خان سیاسی فریقوں کے مقابلے میں فوج یا اسٹیبلیشمنٹ سے مزاکرات چاہتے ہیں جو ان پر سیاسی تنقید کے دروازوں کو کھولتا ہے ۔کیونکہ سیاست او رجمہوریت میں تو سیاست دانوں کو باہمی سطح پر موجود مسائل پر بات چیت کرنی ہوتی ہے ۔لیکن یہ مسئلہ اتنا سادہ نہیں کہ اسے ایسے ہی دیکھا جائے جو ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں ۔ہماری قومی سیاست میں اسٹیبلیشمنٹ ایک بڑی حقیقت کے طور پر موجود ہے او راس کے سیاسی کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔ ایسے نظام میں جہاں سیاست ، جمہوریت ، آئینی و قانونی پہلو کمزور ہوں اور یہ ادارے خود اپنی بقا کی جنگ لڑرہے ہوں تو وہاں اسٹیبلیشمنٹ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
اس لیے مشکلات سے نکلنے کے لیے مذاکرات بھی کیے جاسکتے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود عمران خان کو یکسر طور پر سیاسی قوتوں سے مزاکرات نہ کرنے کی اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرنا چاہیے۔مان لیتے ہیں کہ حکومتی سیاسی قوتوں کے پاس اختیارات نہیں اور نہ ہی وہ پی ٹی آئی سے مذاکرات میں کسی بھی سطح پر سنجیدہ ہیں او رنہ ہی پی ٹی آئی کو ریلیف دینا چاہتے ہیں تو ایسے میں ان سے مذاکرات نہ کرنے کے بجائے ان کے باہمی تضادات کو نمایاں کرکے بے نقاب کرنا ہی سیاسی حکمت عملی ہونی چاہیے ۔حکومت کو بھی سمجھنا چاہیے کہ ایک طرف طاقت کا استعمال ، مخالفین کو جیلوں میں بند رکھنا اور دوسری طرف مفاہمت یا مذاکرات کی بات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے کسی بھی سطح پرسنجیدہ لیا جاتا ہے۔
حکومت پر پہلی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مفاہمت اور مذاکرات کو ہر سطح پر یقینی بنانے کے لیے سازگار ماحول کو پیدا کرے جو سیاسی تلخیوں کو کم کرنے کا سبب بنیں تاکہ مفاہمت پر بات آگے بڑھ سکے ۔لیکن ایسے لگتا ہے کہ خود حکومت نے بھی پی ٹی آئی کے ساتھ مفاہمت کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہوا ہے ۔ اسٹیبلیشمنٹ کے بارے میںیہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ وہ مفاہمت کی بجائے ٹکراو یا کسی کا خاتمہ چاہتی ہے ۔کیونکہ مفاہمت کا عمل اسی بنیاد پر آگے بڑھتا ہے جب ہم ایک دوسرے کے سیاسی و غیر سیاسی وجود کو قبول کرتے ہیں ۔ اسی طرح مفاہمت کا عمل شروع ہوتا اورہمیں کھلے دل اور ذہن کے ساتھ مذاکرات کے عمل کی سیاسی میز سجانی ہوگی اور سب فریقین کو مل بیٹھ کر قومی مسائل کا حل تلاش کرنے اور ممکنہ اقدامات پر کوئی مشترک حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی ۔
طاقت کی بنیاد پر یا غیر سیاسی حکمت عملی کو اختیار کرکے ہم نے پہلے ہی حالات کو بند گلی میں دکھیل دیا ہے ۔ اس کھیل نے کسی ایک فریق کو نہیں بلکہ سب کو کمزور وکٹ پر کھڑا کردیا ہے ۔پورا ریاستی ، حکومتی ، معاشی اور سیکیورٹی کا نظام خطرات کی زد میں ہے اور ہم ان بڑے اہم معاملات کو نظرانداز کرکے غیر سنجیدہ ، غیر ضروری اور دشمنی یا ٹکراو کی سیاست کرکے ایک دوسرے کے خلاف سیاسی اسکورنگ کے کھیل کو اپنی بنیاد بنا چکے ہیں ۔ یاد رکھیں سیاست کا مقابلہ سیاست او رجمہوریت کی بنیاد پر اور سیاسی میدان میں ہوسکتا ہے ۔ ایک سیاسی بیانیہ کا مقابلہ دوسرے سیاسی بیانیہ کی بنیاد پر ممکن ہوتا ہے ۔ اس لیے حقیقی ، منصفانہ اور شفاف مفاہمت کی بنیاد پر اگر ہم آگے بڑھیں گے تو قومی مسائل کا حل بھی نکل سکے گا۔