مہنگی بجلی اور غریب عوام

دراصل آئی پی پیز سے معاہدے 1994 سے شروع ہوئے جب ملک میں بجلی کی سخت قلت تھی

کاش! کالا باغ ڈیم تعمیر ہوگیا ہوتا تو آج ملک میں بجلی کا جو بحران برپا ہے وہ نہ ہوتا اور قوم آج جو مہنگی ترین بجلی خرید کر سخت پریشان ہے، ہرگز پریشان نہ ہوتی۔ آخر کالا باغ ڈیم کیوں تعمیر نہیں ہو سکا؟ جب کہ اس کی تعمیر کے تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے تھے حتیٰ کہ اس پروجیکٹ کے لیے ضروری مشینری تک خریدی جا چکی تھی اور مجوزہ ڈیم کی تعمیر والی جگہ پہنچا دی گئی تھی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں مرحوم جنرل(ر) پرویز مشرف بالکل مخلص تھے مگر خیبرپختونخوا اور سندھ کی قوم پرست قیادتاس کی سخت مخالف تھیں، بلوچستان کے قوم پرستوں نے بھی مخالف کی،کئی صاحبان نے تو یہاں تک دھمکی دے دی تھی کہ اگر ان کے احتجاج کے باوجود ڈیم تعمیرکیا گیا تو وہ اسے برداشت نہیں کر پائیں گے اور بم سے اڑا دیں گے۔ اس ڈیم کی شاید اس دھمکی کے باوجود بھی تعمیر شروع ہو جاتی اگر پیپلز پارٹی اور اے این پی کی جانب سے اس کی مخالفت نہ کی جاتی۔ لگتا ہے پرویز مشرف ان سیاسی جماعتوں کے ڈیم کے خلاف ہونے کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے کیونکہ انھیں اپنی حکومت کے لیے خطرہ پیدا ہوتا نظر آرہا تھا۔

بہرحال وہ وقت بھی گیا اور موقع بھی گیا، اب بجلی کے بحران کوکیسے قابو کیا جائے اور کمر توڑ بجلی کے بلوں کو کیسے کم کیا جائے۔ موجودہ بجٹ میں بجلی کے ریٹ اتنے زیادہ بڑھا دیے گئے ہیں کہ ان بلوں کو دیکھ کر عوام کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔ اس وقت ایک طرف مہنگائی کی مار عوام پر ہے تو دوسری طرف آمدنی میں اضافے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔ نوکری پیشہ ہی کیا کاروباری لوگ بھی ان بھاری بھرکم بلوں سے سخت نالاں ہیں۔

بلوں کے بوجھ نے تو کتنے ہی لوگوں کے ہوش اڑا دیے ہیں۔ ان ہی بلوں کی وجہ سے ایک خاتون خانہ کی خودکشی کی خبر اخباروں میں چھپ چکی ہے۔ یہ بھی خبر ہے کہ بجلی کے بل کو بھرنے کے معاملے میں دو بھائیوں میں تکرار ہوئی اور یہ اتنی بڑھی کہ طیش میں آ کر ایک بھائی نے دوسرے کو ایسا زد و کوب کیا کہ وہ دنیا کو ہی چھوڑ گیا۔ کیا یہ عوام کی ابتر اور کسمپرسی کی حالت حکومت کو نظر نہیں آتی؟ اگر مہینہ بھر کی تمام کمائی صرف بجلی کے بل کو جمع کرانے میں خرچ کر دی جائے تو پھر گیس پانی بچوں کی اسکول،کالج کی فیس اور کھانے پینے کا کیا ہوگا؟ ہر چیزکی ایک حد ہوتی ہے یہاں تو ہر مہینے ہی بجلی کے بلوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔


سوال یہ ہے کہ حکومت کیوں لاچار اور مجبور نظر آئی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ آئی ایم ایف نے عوام کے ساتھ جو زیادتی کی ہے، اس میں حکومت کی رضامندی شامل تھی۔ حکومت کی اس رضامندی سے ظاہر ہوتا ہے، اس میں، اس کی بھی کچھ کمزوریوں چھپی ہوئی ہیں مگر اب ان مجبوریوں کا پردہ چاک ہو چکا ہے وہ دراصل آئی پی پیز کیگردشی قرضے ہیں۔

دراصل آئی پی پیز سے معاہدے 1994 سے شروع ہوئے جب ملک میں بجلی کی سخت قلت تھی۔ اس وقت کی حکومت نے بجلی کے مسئلے سے اپنی جان چھڑانے کے لیے یہ مہنگے معاہدے کیے تھے۔ ہماری حکومتوں نے تو خیر عوام کے ساتھ جوکیا وہ اب سب کے سامنے ہے۔ کاش کہ آئی پی پیز ہی اب عوام کی حالت زار پر ترس کھائیں ،ان پر نظرثانی کے لیے تیار ہو جائیں۔ پھر یہ بھی تماشا دیکھیے کہ بجلی کے بل میں صرف بجلی کی اصل قیمت ہی درج نہیں ہوتی ہے بلکہ مختلف ٹیکس اور اخراجات بھی شامل ہوتے ہیں۔

اس سے نہ صرف عوام کی مالی حالت خستہ ہو رہی ہے بلکہ معیشت سمیت ہر شعبہ زندگی میں ترقی کا عمل متاثر ہو رہا ہے۔ حکومت ایک طرف ایکسپورٹ بڑھانے پر زور دے رہی ہے تو دوسری طرف بجلی کے ریٹ بڑھا کر پیداواری عمل میں خود ہی رکاوٹ ڈال رہی ہے۔ عوام مہنگی بجلی سے پریشان ہیں تو دوسری طرف بجلی کی چوری اور لینڈ لاسز کی وجہ سے ہر سال کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا ہے، جو عوام پر تھوپا جا رہا ہے۔ حکومت کی خاموشی کا راز اب بے نقاب ہو چکا ہے، ویسے تو اس وقت (ن) لیگ کی حکومت کو اس تمام کارروائی کا ذمے دار سمجھا جا رہا ہے مگر ایسا نہیں ہے اس میں ملک کی تینوں بڑی سیاسی پارٹیاں یعنی تحریک انصاف، (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی شامل ہیں۔

پاکستان ایک غریب ملک ہے اسے سستی بجلی کی ضرورت ہے جو صرف ڈیموں کی تعمیر سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ پہلے کالا باغ ڈیم تعمیر نہیں ہونے دیا گیا اور اب خبر ہے کہ بھاشا ڈیم کی تعمیر بھی روک دی گئی ہے۔ دیگر ڈیموں کی تعمیر میں بھی سست روی جاری ہے یہ قوم کے ساتھ سنگین مذاق ہے۔
Load Next Story