پاکستانی ایتھلیٹس تاحال خالی ہاتھ تمغوں کا انتظار مزید طویل
ان سے میڈلز حاصل کرنے کے معجزوں کی توقع رکھنا بھی محض دیوانے کا خواب ہی کہا جاسکتا ہے
زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح کھیلوں میں بھی پاکستان روبہ زوال ہے، حالیہ پیرس اولمپکس میں 7 ایتھلیٹس شریک ہوئے اور شوٹرز کے بعد سوئمرز بھی ابتدائی راؤنڈ میں اختتامی نمبرز کے ساتھ 'جوائے ٹرپ' ختم کرنے پر مطمئن دکھائی دے رہے ہیں۔ تقریباً ساڑھے 24 کروڑ کی آبادی والے ملک پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں اب تک 10 اولمپکس میڈلز ہی جیتے جاسکے ہیں، ان میں سے 8 قومی کھیل ہاکی میں رہے، اولمپکس میں پاکستان کی کہانی المناک ہی نہیں بلکہ ناقابل یقین ہے، اس میں کئی عناصر شامل ہیں، ان میں اندرونی سیاست، اقربا پروری، وسائل کی کمی، کرپشن اور ذاتی مفادات کا حصول وغیرہ سب شامل ہیں۔
ہاکی میں پاکستان نے 1956 میں سلور اور 1960 میں طلائی تمغہ نام کیا، 1964 میں ایک بار پھر چاندی کا تمغہ پایا، 1968 میں پہلی پوزیشن حاصل کی، 1972 میں گرین شرٹس نے دوسرے نمبر پر اکتفا کیا، 1976 میں تیسرے درجے کے ساتھ وکٹری اسٹینڈ پر جگہ بنائی، 1984 میں قومی ہاکی ٹیم نے اب تک آخری بار ملک کو طلائی تمغے کا حقدار بنوایا تھا، 1992 کے بارسلونا اولمپکس میں بھی ہاکی ٹیم نے تیسری پوزیشن حاصل کی، اس بار بھی اولمپکس میں پاکستانی ٹیم کوالیفائی نہیں کر پائی، محمد بشیر نے 1960 کے روم اولمپکس میں ریسلنگ ویلٹر ویٹ میں برانز جبکہ باکسر حسین شاہ نے 1988 کے سیول اولمپکس میں برانز میڈل گلے کا ہار بنایا تھا۔
مزید پڑھیں: پیرس اولمپکس؛ پاکستان کی تینوں کھلاڑی ایونٹ سے باہر ہوگئیں
پیرس اولمپکس میں شریک پاکستان کے ایتھلیٹس اس بار بھی تاحال خالی ہاتھ ہیں، شوٹرز کشمالہ طلعت اور گلفام جوزف کی پرفارمنس مایوس کن رہی، دونوں سنگلز ایونٹس کے بعد مکسڈ ڈبلز میں بھی ابتدائی مرحلے سے باہر ہوگئے، شوٹرز 10 میٹر پسٹل فائنل تک رسائی پانے میں ناکام رہے، پاکستان نے مکسڈ ٹیم ایونٹ میں 600 میں سے 571 پوائنٹس بنائے، یوں 17 میں سے 14 ویں پوزیشن رہی۔ گلفام جوزف اور کشمالہ طلعت 10 میٹر ایئرپسٹل ایونٹ کی انفرادی کیٹیگریز میں بھی خاص پرفارم نہیں کرپائے تھے، جوزف نے 10 میٹر ایئرپسٹل انفرادی ایونٹ میں 33 شرکا میں 22 ویں پوزیشن پر اختتام کیا، ویمنز کیٹیگری میں کشمالہ بھی 44 شوٹرز میں 31 ویں نمبر پر اختتام کرپائیں، انھوں نے 567 پوائنٹس پائے۔
پیرس گیمز 2024 میں شریک 2 پاکستانی سوئمرز جہاں آرا نبی اور احمد درانی انفرادی طور پر اولمپئنز کا ٹیگ پانے کو ہی اپنی کامیابی قرار دیتے ہیں، دونوں اپنے ایونٹس کے ابتدائی مراحل سے باہر ہوگئے، جہاں آرا نے ویمنز 200 میٹر فری اسٹائل ایونٹ میں 30 سوئمرز میں سے 26 ویں پوزیشن حاصل کی، اپنی ہیٹ کے 7 سوئمرز میں سے انھوں نے تیسرے نمبر پر اختتام کیا تھا۔ پاکستان کے مرد تیراک احمد درانی بھی 200 میٹر فری اسٹائل ایونٹ میں اپنی ہیٹ میں آخری نمبر پر رہے، ان کی پرفارمنس ایک منٹ 58.67 سیکنڈز رہی، وہ اپنے بہترین ٹائم ایک منٹ 55 سیکنڈز کو بھی برقرار نہیں رکھ پائے، انھوں نے ایونٹ میں شریک 25 سوئمرز میں سب سے آخری پوزیشن پر اکتفا کیا، وہ سیمی فائنلز کے لیے کوالیفائی کرنے والے آخری سوئمر سے 11 سیکنڈز پیچھے رہے۔
مزید پڑھیں: پیرس اولمپکس؛ پاکستانی فائقہ ریاض خواتین کی 100 میٹر کی دوڑ مقابلوں سے باہر
اسپرنٹر فائقہ ریاض بھی دیگر ہم وطنوں کی طرح خاص پرفارم نہیں کرپائیں، وہ ہیٹ کی ٹاپ 10 میں رہیں نہ اگلے 5 مجموعی بہترین پلیئرز میں جگہ بناسکیں، ابتدائی راؤنڈ میں انھوں نے 12.49 کی پرفارمنس پیش کی، فائقہ اپنی ہیٹ میں چھٹے نمبر پر رہیں۔ گیمز میں شریک پاکستان کے پانچویں ایتھلیٹ کا قصہ بھی تمام ہوگیا، خاتون شوٹر کشمالہ طلعت نے 25 میٹر ایئرپسٹل ایونٹ کے کوالیفکیشن میں حصہ لیا لیکن فائنل راؤنڈ میں جگہ نہیں بناسکیں، اب جی ایم بشیر 25 میٹر ریپڈ فائر پسٹل میں اتوار کو حصہ لیں گے،6 اگست کو جیولین تھرو میں ارشد ندیم بھی ایکشن میں نظر آئیں گے۔
ایک جانب جہاں ہم ایتھلیٹس کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو دوسری جانب ہمیں ان عوامل کی بھی نشاندہی کرنی چاہیے جس سے یہ صورتحال وجود میں آئی، ایتھلیٹس کو ٹریننگ کے لیے بھرپور سہولیات مہیا نہ کرنا اور حوصلہ افزائی نہ کرنا بھی اس میں شامل ہے، ایسے میں ان سے میڈلز حاصل کرنے کے معجزوں کی توقع رکھنا بھی محض دیوانے کا خواب ہی کہا جاسکتا ہے، ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم باتیں تو اچھی اچھی کرتے ہیں لیکن جب عمل کا وقت آئے تو اپنے ذاتی مفادات کو مقدم رکھنا چاہتے ہیں ، وہیں سے خرابی شروع ہوجاتی ہے، ہمیں ذاتی مقاصد سے بلند ہوکر ملکی وقار کا سوچنا ہوگا تب ہی کھیلوں میں بھی بہتری کے آثار نمایاں ہوپائیں گے،محض نعرے اور دعووں سے مثبت نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے، ایتھلیٹس کو اولمپکس جیسے بڑے ایونٹ کے لیے تیار کرنے کیلئے طویل حکمت عملی اور اچھے منتظمین کی ضرورت ہے جو قومی وقار کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ کام مشن کے طور پر مکمل کریں۔n
ہاکی میں پاکستان نے 1956 میں سلور اور 1960 میں طلائی تمغہ نام کیا، 1964 میں ایک بار پھر چاندی کا تمغہ پایا، 1968 میں پہلی پوزیشن حاصل کی، 1972 میں گرین شرٹس نے دوسرے نمبر پر اکتفا کیا، 1976 میں تیسرے درجے کے ساتھ وکٹری اسٹینڈ پر جگہ بنائی، 1984 میں قومی ہاکی ٹیم نے اب تک آخری بار ملک کو طلائی تمغے کا حقدار بنوایا تھا، 1992 کے بارسلونا اولمپکس میں بھی ہاکی ٹیم نے تیسری پوزیشن حاصل کی، اس بار بھی اولمپکس میں پاکستانی ٹیم کوالیفائی نہیں کر پائی، محمد بشیر نے 1960 کے روم اولمپکس میں ریسلنگ ویلٹر ویٹ میں برانز جبکہ باکسر حسین شاہ نے 1988 کے سیول اولمپکس میں برانز میڈل گلے کا ہار بنایا تھا۔
مزید پڑھیں: پیرس اولمپکس؛ پاکستان کی تینوں کھلاڑی ایونٹ سے باہر ہوگئیں
پیرس اولمپکس میں شریک پاکستان کے ایتھلیٹس اس بار بھی تاحال خالی ہاتھ ہیں، شوٹرز کشمالہ طلعت اور گلفام جوزف کی پرفارمنس مایوس کن رہی، دونوں سنگلز ایونٹس کے بعد مکسڈ ڈبلز میں بھی ابتدائی مرحلے سے باہر ہوگئے، شوٹرز 10 میٹر پسٹل فائنل تک رسائی پانے میں ناکام رہے، پاکستان نے مکسڈ ٹیم ایونٹ میں 600 میں سے 571 پوائنٹس بنائے، یوں 17 میں سے 14 ویں پوزیشن رہی۔ گلفام جوزف اور کشمالہ طلعت 10 میٹر ایئرپسٹل ایونٹ کی انفرادی کیٹیگریز میں بھی خاص پرفارم نہیں کرپائے تھے، جوزف نے 10 میٹر ایئرپسٹل انفرادی ایونٹ میں 33 شرکا میں 22 ویں پوزیشن پر اختتام کیا، ویمنز کیٹیگری میں کشمالہ بھی 44 شوٹرز میں 31 ویں نمبر پر اختتام کرپائیں، انھوں نے 567 پوائنٹس پائے۔
پیرس گیمز 2024 میں شریک 2 پاکستانی سوئمرز جہاں آرا نبی اور احمد درانی انفرادی طور پر اولمپئنز کا ٹیگ پانے کو ہی اپنی کامیابی قرار دیتے ہیں، دونوں اپنے ایونٹس کے ابتدائی مراحل سے باہر ہوگئے، جہاں آرا نے ویمنز 200 میٹر فری اسٹائل ایونٹ میں 30 سوئمرز میں سے 26 ویں پوزیشن حاصل کی، اپنی ہیٹ کے 7 سوئمرز میں سے انھوں نے تیسرے نمبر پر اختتام کیا تھا۔ پاکستان کے مرد تیراک احمد درانی بھی 200 میٹر فری اسٹائل ایونٹ میں اپنی ہیٹ میں آخری نمبر پر رہے، ان کی پرفارمنس ایک منٹ 58.67 سیکنڈز رہی، وہ اپنے بہترین ٹائم ایک منٹ 55 سیکنڈز کو بھی برقرار نہیں رکھ پائے، انھوں نے ایونٹ میں شریک 25 سوئمرز میں سب سے آخری پوزیشن پر اکتفا کیا، وہ سیمی فائنلز کے لیے کوالیفائی کرنے والے آخری سوئمر سے 11 سیکنڈز پیچھے رہے۔
مزید پڑھیں: پیرس اولمپکس؛ پاکستانی فائقہ ریاض خواتین کی 100 میٹر کی دوڑ مقابلوں سے باہر
اسپرنٹر فائقہ ریاض بھی دیگر ہم وطنوں کی طرح خاص پرفارم نہیں کرپائیں، وہ ہیٹ کی ٹاپ 10 میں رہیں نہ اگلے 5 مجموعی بہترین پلیئرز میں جگہ بناسکیں، ابتدائی راؤنڈ میں انھوں نے 12.49 کی پرفارمنس پیش کی، فائقہ اپنی ہیٹ میں چھٹے نمبر پر رہیں۔ گیمز میں شریک پاکستان کے پانچویں ایتھلیٹ کا قصہ بھی تمام ہوگیا، خاتون شوٹر کشمالہ طلعت نے 25 میٹر ایئرپسٹل ایونٹ کے کوالیفکیشن میں حصہ لیا لیکن فائنل راؤنڈ میں جگہ نہیں بناسکیں، اب جی ایم بشیر 25 میٹر ریپڈ فائر پسٹل میں اتوار کو حصہ لیں گے،6 اگست کو جیولین تھرو میں ارشد ندیم بھی ایکشن میں نظر آئیں گے۔
ایک جانب جہاں ہم ایتھلیٹس کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو دوسری جانب ہمیں ان عوامل کی بھی نشاندہی کرنی چاہیے جس سے یہ صورتحال وجود میں آئی، ایتھلیٹس کو ٹریننگ کے لیے بھرپور سہولیات مہیا نہ کرنا اور حوصلہ افزائی نہ کرنا بھی اس میں شامل ہے، ایسے میں ان سے میڈلز حاصل کرنے کے معجزوں کی توقع رکھنا بھی محض دیوانے کا خواب ہی کہا جاسکتا ہے، ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم باتیں تو اچھی اچھی کرتے ہیں لیکن جب عمل کا وقت آئے تو اپنے ذاتی مفادات کو مقدم رکھنا چاہتے ہیں ، وہیں سے خرابی شروع ہوجاتی ہے، ہمیں ذاتی مقاصد سے بلند ہوکر ملکی وقار کا سوچنا ہوگا تب ہی کھیلوں میں بھی بہتری کے آثار نمایاں ہوپائیں گے،محض نعرے اور دعووں سے مثبت نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے، ایتھلیٹس کو اولمپکس جیسے بڑے ایونٹ کے لیے تیار کرنے کیلئے طویل حکمت عملی اور اچھے منتظمین کی ضرورت ہے جو قومی وقار کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ کام مشن کے طور پر مکمل کریں۔n