بھارتی فوج کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار کشمیری خواتین دہائیوں سے انصاف کی منتظر

1989ء سے 2020ء تک 11224 کشمیری خواتین بھارتی فوج کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہو چکی ہیں

(فوٹو: فائل)

بھارتی فوج کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی کشمیری خواتین دہائیوں بعد بھی انصاف کی منتظر ہیں۔


بھارت کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دبانے کے لیے اجتماعی زیاتی کو بطور ہتھیار کرتا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ننگی بھارتی جمہوریت کا سب سے بڑا شکار کشمیری خواتین ہیں۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 1989ء سے 2020ء تک 11224 کشمیری خواتین بھارتی فوج کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہو چکی ہیں۔ صرف 1992ء ہی میں 882 کشمیری خواتین اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئیں۔


1994ء کی ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج اجتماعی زیادتی کو خوف پھلانے اور اجتماعی سزا کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ بھارتی فوج مجاہدین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے طور پر لوٹ مار، قتل عام اور جنسی زیادتی کرتی ہے۔


ایشیا واچ کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک ہفتے میں 44 ماورائے عدالت قتل اور جنسی زیادتی کے 15 واقعات رپورٹ ہوئے۔ سزا اور جزا کے نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے بھارتی فوج کی پرتشدد کارروائیاں بھی برسوں سے جاری ہیں۔


ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 76 سال گزرنے کے باوجود زیادتی میں ملوث کسی کردار کو سز انہیں دی گئی۔ ریسرچ سوسائٹی آف انٹر نیشنل لا کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فورسز نے 11 سے 60 سال تک کی خواتین کو بھی نہ بخشا۔ بھارتی حکومت کی طرف سے کھلی چھوٹ کے نتیجے میں بھارتی افواج بلا خوف و خطر جنسی زیادتی کے جرائم میں ملوث ہیں۔



1996ء میں ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج ریپ کو تحریک آزادی کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔ بایان بورڈ آف ڈائریکٹرز کی 2005ء کی ایک رپورٹ کے مطابق کشمیری خواتین کے خلاف جنسی زیادتی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ شب ماتھوڑ کے مطابق ریپ کشمیر میں بھارتی حکمت عملی کا اہم جزو ہے۔ Council For Social Development کے مطابق بھارتی فوجیوں کو زیادتی پر اکسانے میں AFSPA کا مرکزی کردار ہے۔


دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق 1979ء سے 2020ء تک میجر رینک کے 150 سے زائد بھارتی فوجی افسران منظم انداز میں جنسی زیادتی میں ملوث تھے۔ 23 فروری 1991ء کو 4 راجپوتانہ رائفل کے جوانوں نے ضلع کپواڑہ کے گائوں کنن پوش پورہ میں 100 سے زائد کشمیری خواتین سے زیادتی کی۔ 17 مارچ 1991ء کو چیف جسٹس جموں و کشمیر کے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے 53 کشمیری خواتین نے بھارتی فوجیوں کی طرف سے عصمت دری کا اعتراف بھی کیا۔


15 سے 21 مارچ 1991ء کے دوران ہونے والے طبی معائنوں میں 32 کشمیری خواتین پر تشدد اور جنسی زیادتی ثابت ہوئی۔ 1992ء میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ میں بھی کہا گیا کہ کنن پوش پورہ سانحے میں بھارتی فوج کے خلاف اجتماعی زیادتی کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔


اپریل 2018ء میں کٹھوعہ میں ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں سے زمین خالی کروانے کی خاطر 8 سالہ آصفہ بانو کو 7 دن مندر میں زیادتی کا نشانہ بنایا اور زیادتی کے بعد بے رحمانہ طریقے سے قتل کردیا۔


کشمیری عدالتوں میں 1000سے زائد زیادتی کے مقدمات زیر التوا ہیں۔ 19اپریل 2023 ء کو بی جے پی کے رہنما نے ضلع بارہ مولہ میں ایک خاتون کو زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ 10اکتوبر 1992ء کو 22 گرینیڈئیر کے جوانوں نے ضلع پونہ کے شوکیاں میں 9 خواتین کواجتماعی زیادتی کا شکار بنایا۔


انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اورخواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی این جی اوز کو چاہیے کہ وہ بھارتی فوج کی اس درندگی پر اسے انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔

Load Next Story