بیوروکریٹک عبوری یا ٹیکنو کریٹک ’’قومی حکومت‘‘

دشمن کی فوجوں کیلئےقلعےکا دروازہ کھولنے والے قلعے کے باہر نہیں بلکہ قلعے کے اندر ہوتے ہیں۔

اس وقت پاکستان پر Status quo کے پجاریوں اور Rental Mentality کھلاڑیوں کا راج ہے۔ جبار جعفر

لاہور:
دنیا میں تین اقسام کی اقوام پائی جاتی ہیں۔ (1) مال دار قومیں، جن کی شناخت سادگی اورکفایت شعاری ہے، (2) قرضہ خور قومیں جن کی شناخت کرپشن اور ٹھاٹ باٹ ہے (3) کنگال قومیں جن کی شناخت قحط اور خانہ جنگی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم کس گنتی میں آتے ہیں؟

65 سال سے پاکستان پر Status quo کے پجاریوں اور Rental Mentality کے کھلاڑیوں کا قبضہ ہے۔ بیرونی قرضے لوٹ رہے ہیں یا لٹارہے ہیں۔ پاکستان کے اربوں روپے آمدنی والے ادارے ( ریلوے، اسٹیل مل وغیرہ) Ventilator پر لگے ہوئے ہیں۔ ملک کے نامور سیاستدان ایک دوسرے کے منہ پر کرپشن کی کالک تھوپنے میں مگن ہیں۔

جمہوریت کے ستون ''کون بنے گا سپریم اتھارٹی'' کھیل رہے ہیں۔ ایک میڈیا تھا جو حلق پھاڑ کر ''چور! چور!'' چلاّتا تھا اب وہ بھی کرپشن کے گولوں کی زد میں آنے کے بعد ''میں میں'' کررہا ہے۔ ذرا سہما، مایوس پاکستان (بقول شاعر) دیکھ رہا ہے:

چراغ بجھتے چلے جارہے ہیں سلسلے وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے

12 اگست ایکسپریس کی خبر کے مطابق PIA کے چیئرمین نے نئے وزیراعظم سے درخواست کی ہے کہ 16 کروڑ ڈالر فوری امداد دی جائے تاکہ ڈرائی لیز پر جہاز حاصل کیے جاسکیں۔ (2) آٹھ ارب روپے کے وفاقی قرضے معاف کیے جائیں (3) مختلف بینکوں کے واجب الادا 147ارب روپے ری شیڈول کرائے جائیں۔ وزیراعظم نے وزارتِ خزانہ کو فوری اقدامات کی ہدایت دے دی۔

سوال یہ ہے کہ آمریت گزران اور جمہوریت جاریہ کے علاوہ بھی کوئی آپشن ہے؟ آج کل ایک تجویز/ آئیڈیا/ مفروضہ/ افواہ مختصر عرصے کی ٹیکنو کریٹک عبوری حکومت کا زیرِ گردش ہے۔ کیا یہ ممکن ہے؟ سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں سب کچھ ممکن ہے۔ معین قریشی دور کی مثال سامنے ہے۔ بندے کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ تک نہیں تھا آیا، ڈنڈا گھمایا، چلا گیا۔

پھر نظر نہیں آیا۔ فرض کیجیے کہ ایسا ہوجائے تو اس کی بہترین صورت کیا ہوسکتی ہے؟ وہ کون سا ایک نکاتی اہم ترین قومی/ بنیادی/ عوامی مسئلہ ہے جس کا اگر عرصہ دوسال میں پائیدار/ مستقل حل نکالا جائے تو پاکستان کی معیشت مستحکم اور قوم خوش حال ہوسکتی ہے۔ میرے خیال میں وہ مسئلہ ''سستی بجلی'' کا حصول ہے۔ ماضی میں جس طرح ایٹم بم ہماری سلامتی کا ضامن تھا آج ''سستی بجلی'' ہماری زندگی کی ضمانت ہے۔

تعلیم، ریسرچ اور بجلی کی پیداوار پر اٹھنے والے اخراجات ''خسارہ'' نہیں بلکہ خوشحال مستقبل کی ''سرمایہ کاری'' مانے جاتے ہیں۔ بجلی توانائی ہے اور توانائی حرکت اور جس قوم میں حرکت نہیں وہ قوم محض ''ڈیڈ باڈی''۔ لہٰذا دو سال کے لیے ٹیکنو کریٹک عبوری حکومت کے بجائے چار بڑی منتخب پارٹیوں کی مخلوص ''قومی حکومت'' قائم کی جائے جس کا موٹو ''سب سے پہلے پاکستان'' ہوگا جو اپنا ہدف ''بجلی'' آپریشن سرچ لائٹ کے ذریعے حاصل کریگی۔

قومی حکومت کی کابینہ کے سارے وزراء (ایوب دور کی طرح) غیر سیاسی، پروفیشنلز، بین الاقوامی شہرت یافتہ اپنے اپنے شعبوں کے ماہر ٹیکنو کریٹ ہونگے۔ اس حکومت کو فوج، عدلیہ، میڈیا وغیرہ کی غیر مشروط حمایت حاصل ہوگی جو اس عرصے میں ''ہائی الرٹ'' رہیں گے۔ حاصل کردہ بجلی کی دو خوبیاں ہونگی سستی سے سستی، زیادہ سے زیادہ۔

ہمارے ملک میں بجلی پیدا کرنے کے مروجہ اور ممکنہ ذرایع مندرجہ ذیل ہیں۔


(1) ہائیڈل پاور (2) تھرمل پاور (3) پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ (4) تاجکستان، افغانستان، پاکستان، بھارت پائپ لائن منصوبہ۔

(1) اس وقت بارہ ہائیڈ پاور اسٹیشن صرف 8426 میگاواٹ بجلی پیدا کررہے ہیں جب کہ اس کی آسان قابلِ حصول استعداد 25000 میگاواٹ ہے۔ (مطالعہ پاکستان) چنانچہ اس ہدف کو ہنگامی بنیاد پر ''آپریشن سرچ لائٹ'' کے ذریعے حاصل کرنا چاہیے۔

(2) تھرمل پاور: KESC اور IPP's کی پیداوار ملا کر 10,600 میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے جب کہ بنگلہ دیش میں ایسے ہی پلانٹ سے ایک تہائی بجلی زیادہ پیدا کی جاتی ہے۔ یہ پلانٹ فرنس آئل سے چلتا ہے۔ اس کو تھر کے کوئلے پر لانا چاہیے۔ شاید بن قاسم میں یہ کام شروع ہوچکا ہے، اس کے نتائج دیکھ کر ''آپریشن سرچ لائٹ'' کے ذریعے اس میں تیزی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

تھرکول پاور پراجیکٹ: ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک نے یہ ثابت کردیا ہے کہ تھر کے کوئلے سے زیر زمین گیسی فیکیشن کے ذریعے کوئلے کو گیس میں تبدیل کرنے سے سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اسٹیٹس کو کے پجاریوں کو تھر کے کوئلے کی کوالٹی پر اعتراض ہے جب کہ ترکی میں ''کچرے'' سے بجلی پیدا کی جارہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا تھر کے کوئلے کے مقابلے میں ترکی کا ''کچرا'' اعلیٰ کوالٹی کا ہے۔ چین نے اس کی الگ اسٹڈی کرکے فزیبلٹی رپورٹ تک تیار کی ہوئی ہے۔ 10 ہزار میگاواٹ بجلی کے ٹارگٹ کے ساتھ یہ جناتی منصوبہ چینی جنوں کے حوالے کیا جائے، اس شرط کے ساتھ کہ چین ٹیکسٹائل انڈسٹری میں پاکستان سے تعاون کرے گاجس میں چین اور پاکستان دونوں کا برابر برابر کا فائدہ ہے۔

کیسے؟(1) چین بھوکے کو کھانے کے لیے مچھلی نہیں دیتا بلکہ مچھلی پکڑنا سِکھا دیتا ہے (2) اس وقت بنگلہ دیش میں چین کے تعاون سے ٹیکسٹائل ملوں کا جال بچھادیا گیا ہے جہاں مرد تو مرد لاکھوں عورتیں کام کر رہی ہیں۔ (3) آج کل چینی مصنوعات ہزاروں میل کا سفر طے کرکے شاہراہ ریشم سے گزر کر شمالی علاقہ پنجاب سے ہوتی ہوئی کراچی کی بندرگاہ پہنچتی ہیں جو بین الاقوامی مارکیٹوں (خلیجی ممالک، افریقی اور یورپین ممالک) سے سب سے قریب ہے۔

اگر یہی مال کراچی میں تیار ہو کر کراچی کی بندرگاہ سے روانہ ہوجائے تو چین کو اور کیا چاہیے؟ (4) ہمارے پاس پیداوار کے تین ستون مزدور، مشینیں اور میٹریل موجود ہے۔ ٹیکسٹائل کی اعلیٰ تربیت یافتہ افرادی قوت سستی بجلی کی کمی کی وجہ سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہیں۔ ٹیکسٹائل کی جدید ترین مشینیں جو ماضی میں بگ ٹٹ دوڑتی تھیں اب دلکی چل رہی ہیں۔ اعلیٰ کوالٹی کی روئی گھر کی پیداوار ہے امپورٹ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اخراجات کی بچت کے علاوہ (جنگ ہو یا امن) مسلسل سپلائی کی گارنٹی! چین کو اور کیا چاہیے؟

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ: ایران اپنے علاقے میں پائپ لائن ڈال چکا۔ پاکستان کو اپنے علاقے میں پائپ بچھانے کے لیے 24 ارب روپے کی پیشکش کی ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد یومیہ دو کروڑ مکعب میٹر گیس درآمد ہو گی۔ یہ منصوبہ 2014 تک مکمل ہونا ہے ورنہ تاخیر کی ذمے دار پارٹی کو 20 کروڑ ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ یہاں مسئلہ امریکی دبائو کا ہے جب کہ ہمارا موٹو ہی ''سب سے پہلے پاکستان'' ہے۔

وسط ایشیا بھارت پائپ لائن منصوبہ: یہ امریکی حمایت یافتہ منصوبہ سراسر امریکی اور بھارت کے مفاد کا ہے جو پاکستان کے تعاون کے بغیر مکمل ہو ہی نہیں سکتا۔ (بیچ میں افغانستان بھی ہے) پاکستان اس منصوبے میں تعاون کرے بشرطیکہ امریکا پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی طرف سے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لے۔

پٹرول مہنگا، ہر چیز مہنگی۔ بجلی سستی ہر چیز سستی۔ اس لیے کہ صنعتی پہیہ رواں دواں ہوگا تو پیداوار میں بھی اضافہ ہوگا۔ نہ صرف حکومت کے ٹیکس میں اضافہ ہوگا بلکہ ایکسپورٹ سے زرمبادلہ کے ذخائربھی بڑھیں گے۔ لاکھوں افراد کو روزگار ملے گا تو کرائم ریٹ بھی گر جائے گا۔ مہنگائی کم ہوگی تو خوش حالی میں بھی اضافہ ہوگا۔ معاشی استحکام پیدا ہوگا تو بیرونی قرضوں سے بھی نجات ملے گی، بیرونی سیاسی دبائو بھی ختم ہوگا، آزاد خارجہ پالیسی بھی اختیار کی جاسکے گی، یعنی سب سے پہلے پاکستان کے تحت دوستی سب سے، دشمنی کسی سے بھی نہیں۔

یہ سارے منصوبے شیخ چلّی کا خواب بھی ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ پاکستان ہے اور پاکستان میں سب کچھ ممکن ہے، کیونکہ اس وقت پاکستان پر Status quo کے پجاریوں اور Rental Mentality کھلاڑیوں کا راج ہے۔ برصغیر کی تاریخ چیخ چیخ کر آگاہ کررہی ہے کہ دشمن کی فوجوں کے لیے قلعے کا دروازہ کھولنے والے قلعے کے باہر نہیں بلکہ قلعے کے اندر ہوتے ہیں۔
Load Next Story