طوفانی بارشیں عوام کی حرماں نصیبی
مون سون کی بارشوں کا آغاز ہوتے ہی شہری خدمت کے اداروں کے انتظامات کی قلعی کھل گئی ہے
این ڈی ایم اے نے ملک بھر میں مون سون سے جانی و مالی نقصانات کی تفصیلات جاری کردیں۔ طوفانی بارشوں میں مختلف حادثات سے 104افراد جاں بحق، 216 زخمی،490گھر جزوی یا مکمل گرگئے جب کہ118مویشی سیلابی ریلوں میں بہہ گئے۔ اپر چترال میں گلیشیر پھٹنے سے ریلوں کے باعث کئی علاقے متاثر ہوئے اور ایمرجنسی لگا دی گئی۔ کراچی میں بارش کے بعد سیلابی صورتحال ہے، جس کے باعث نشیبی علاقے زیر آب آگئے اور نظام درہم برہم ہوگیا جب کہ کچھ علاقوں سے بجلی بھی غائب ہے۔
بارانِ نعمت زندگی کی علامت اور گرمی سے مرجھائے چہروں کے لیے خوشی کی نوید ہوتی ہے مگر ہماری حرماں نصیبی کہ بارشوں کا سلسلہ ہمارے لیے ہر سال ایک نئی زحمت بن کر نمودار ہوتا ہے۔ گزشتہ ماہ جس قیامت خیز گرمی کا سامنا کرنا پڑا، اس کے سبب مون سون کا شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ محکمہ موسمیات نے جب مون سون کی نوید سنائی تو گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ قحط زدہ تھر و چولستان میں زندگی کی بہاریں لوٹنے کی امید بھی جاگزیں ہوئی مگر بارشوں کا سلسلہ جب شروع ہوا تو وہی صورتحال دیکھنے کو ملی جو عموماً ہر سال ملک کے مختلف علاقوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کو شدید سیلابوں کے لیے تیار رہنا چاہیے کیونکہ ملک کے گلیشیئر بڑی تیزی سے پگھل رہے ہیں اور پانی کا رخ زمینی علاقوں کی طرف ہے۔ دریاؤں میں سیلابی کیفیت پیدا ہونے سے انفرا اسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے اس لیے متعلقہ محکموں کو چوکس رہنا چاہیے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی میں موسلادھار بارش نے تباہی مچا دی ہے، راولپنڈی کی نشیبی بستیاں پانی میں ڈوب گئیں۔
املاک کو شدید نقصان اور پانی گھروں میں داخل ہونے پر شہریوں نے نقل مکانی شروع کردی۔ راولپنڈی میں برساتی نالوں کی صفائی نہ ہونے اور موسلادھار بارش سے سیلابی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ مختلف عمارتوں میں پانچ سے دس فٹ تک پانی داخل ہوگیا ہے۔ پارکنگ میں موجود درجنوں گاڑیاں ناکارہ ہوچکی ہیں، گھروں میں داخل ہونے والے پانی سے املاک کو شدید نقصان پہنچا ہے، ایسا ہر سال ہوتا ہے کہ مون سون کے دوران تباہ کن صورت حال دیکھنے میں آتی ہے، ناقص انتظامات کی وجہ سے نہ صرف کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا ہے بلکہ قیمتی انسانی جانیں بھی چلی جاتی ہیں۔ اس سال یہ شرح کچھ زیادہ ہی ہے۔
پاکستان میں مون سون عام طور پر جولائی سے ستمبر تک چلتا ہے، اسی طرح گلیشیئر بھی پگھلتے ہیں اور دریاؤں میں سیلاب آ جاتا ہے، ایک طرف بارش کا پانی تو دوسری طرف سیلابی ریلے، خاص طور پر کچی بستیوں اور دیہی علاقوں میں تباہی مچاتے ہیں۔ پانی بلاشبہ ہمارے لیے بہت ضروری ہے اور ماہرین کے مطابق بارشوں کی کاشت کاری کے لیے اشد ضرورت ہوتی ہے مگر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں کمی اور معمول سے زیادہ بارشیں بھی تباہی کا باعث بن جاتی ہیں۔
مون سون کی بارشوں کا آغاز ہوتے ہی شہری خدمت کے اداروں کے انتظامات کی قلعی کھل گئی ہے۔ محکمہ موسمیات اس سال مون سون کے سیزن میں ریکارڈ بارشیں ہونے کی پیش گوئی کر رہا ہے اور شدید بارشوں کے سبب سیلاب کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے، مگر ہمارے ہاں اب تک سیلاب کے ممکنہ خدشات سے نمٹنے کے لیے مطلوبہ اقدامات ہی مکمل نہیں کیے جاسکے۔ امسال گزشتہ سال کے تجربے کے پیش نظر بہتر اقدامات کی توقع کی جا رہی تھی مگر حالیہ بارشوں میں درجنوں افراد کی ہلاکت سے یہ غمازی ہو رہی ہے کہ آیندہ دنوں میں ہمیں کس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ہمارے ہاں یہ روایت رہی ہے کہ ہمیشہ پانی سر سے گزرنے کے بعد ہی ہوش میں آیا جاتا ہے۔ 1956سے اب تک مون سون میں ہم چھ بڑے سیلابوں کا سامنا کرچکے ہیں جن میں شدید جانی و مالی نقصان اُٹھانا پڑا۔ محکمہ موسمیات مون سون کا یہ سلسلہ ستمبر تک دراز ہونے کے امکانات ظاہر کر رہا ہے جب کہ درجہ حرارت زیادہ رہنے کی وجہ سے اس سال گلیشیئرز کے زیادہ پگھلنے کا خدشہ بھی موجود ہے۔ 2020میں کراچی کا اربن فلڈ ابھی کل ہی کی بات معلوم ہوتی ہے۔
اتنی تیز طوفانی بارشوں کے بعد پانی کی خوش اسلوبی سے آناً فاناً نکاسی اِس نظام کے بس میں نہیں، ظاہر ہے اِس کام میں وقت لگنا تھا سو لگا، بارش جب بھی اِس انداز میں برسے گی، اِس طرح کے مسائل تو پیدا ہوں گے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ متعلقہ اداروں نے نکاسی آب کے انتظامات کس حد تک تسلی بخش کیے ہوئے ہیں اور بے ہنگم رہائشی آبادیاں، جن میں نکاسی آب کے معقول انتظامات نہیں، کس حد تک اِس صورت کی ذمے دار ہیں؟ نصف صدی پہلے کے لاہور میں اور آج کے لاہور میں زمین آسمان کا فرق ہے، شہر پھیلتا جا رہا ہے، نئی نئی آبادیاں وجود میں آرہی ہیں، پانی کا روزمرہ استعمال بھی ہزاروں گنا زیادہ ہوگیا ہے، لوگوں نے نالوں کے اوپر چھتیں ڈال کر تعمیرات کر لی ہیں، نالے تنگ ہوگئے ہیں، کہیں کہیں تو یہ اتنے تنگ ہیں کہ معمولی سی نکاسی بھی مشکل سے ہوتی ہے، لیکن بارش اور خصوصاً تیز بارش کی صورت میں پانی روانی کے ساتھ اِن نالوں سے نہیں گزر سکتا، اِس لیے یہ سڑکوں پر اور نشیب میں واقع گھروں میں پھیل جاتا ہے اور لوگوں کے لیے زحمت کا باعث بنتا ہے۔
لاہور کے نواحی علاقوں میں سیکڑوں ایسی آبادیاں بس گئی ہیں، جو کسی زمانے میں آبی گزر گاہ تھیں۔ شالیمار باغ کے عقب کے سارے علاقے میں انواع و اقسام کے باغات اور کھیت ہی کھیت تھے، بارشیں برستیں تو یہ باغات لہلہاتے اور کھیتوں سے طرح طرح کی خوشبوئیں اُٹھتی تھیں، راوی کناروں سے بہہ نکلتا تو پانی اِن کھیتوں میں پھیل جاتا جو فصلوں کی روئیدگی میں مددگار ہوتا، اب یہ باغ اجڑگئے،کھیت کھلیان ختم ہوگئے اور اِن کی جگہ سنگ و خشت کی بے ہنگم عمارتوں نے لے لی، جہاں لاکھوں انسان آباد ہوگئے۔
یہ آبادیاں کسی ترتیب سے نہیں بنیں، بس کسی ایک جگہ گھر بننا شروع ہوگئے اور بنتے چلے گئے، حتیٰ کہ عمارتوں کے جنگل اُگ آئے، اِن عمارتوں کا کوئی نقشہ نہیں، جس میں بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھا گیا ہو، بس جیسے لوگوں کا دل چاہا انھوں نے تعمیرات کر لیں، اب جب بارش ہوتی ہے تو پانی کا راستہ کون روک سکتا ہے، چنانچہ نتیجہ یہ ہے کہ پانی ہر گلی اور نشیب والے گھروں میں داخل ہو جاتا ہے اور پھر اپنے وقت کے ساتھ ہی نکلتا ہے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ اچھی خاصی پوش آبادیوں میں بھی لوگ اِس پہلو کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ مکان کی تعمیر پر کروڑوں لگا دیں گے، لیکن چند لاکھ روپے نکاسی آب کے سسٹم پر لگاتے ہوئے انھیں دُکھ ہوتا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ غریب غُربا کی بستیوں کے ساتھ ساتھ خوشحال علاقے بھی زیر آب آجاتے ہیں۔
ضرورت تو اس امر کی ہے کہ معمول کے ایام میں شہر کے سیوریج سسٹم کا جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ بڑے پائپ کی جگہ چھوٹے پائپ بچھا کر ٹھیکیداروں نے کہاں کہاں ہاتھ دکھایا ہے؟ لیکن یہ اِس لیے نہیں ہوتا کہ تعمیراتی کام کی نگرانی کرنے والے افسر موقع پر تشریف نہیں لے جاتے اور محض کاغذات کا پیٹ بھر کر مطمئن ہو جاتے ہیں، ظاہر ہے سیوریج کا جو نظام صرف گھروں کے پانی کے اخراج کے لیے بنایا گیا ہو وہ تیز بارشوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے سیلابی ریلے کے پانی کا نکاس کیوں کر کر سکتا ہے؟ لاہور کی جو سڑکیں ابھی حال ہی میں تعمیر ہوئی تھیں بارش میں وہاں بھی پانی کھڑا نظر آیا۔
ہمارا عمومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ ہم سول ورکس کے لیے ساری ذمے داری متعلقہ سرکاری اداروں پر ڈال دیتے ہیں اور شہری عموماً اِس ضمن میں اپنی ذمے داریوں سے پہلو تہی کرتے ہیں، جو نئی آبادیاں تعمیر ہوتی ہیں، اُن کی تعمیر کے وقت دیکھا جانا چاہیے کہ بارشوں کی صورت میں پانی کے بہاؤ کا رُخ کس طرف ہو گا، نکاسی آب کے لیے بنائی جانے والی نالیاں بارشوں کے پانی کا نکاس تو نہیں کرسکتیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ تعمیرات کے لیے سخت قواعد بنائے جائیں اور بارشوں کے پانی کے نکاس کو اہمیت دے کر راستے بنائے جائیں، جو سسٹم اِس وقت کام کر رہا ہے یہ جب تک موجود ہے اُس وقت تک بارشوں کی صورت میں وہی کچھ ہو گا جو پہلے ہوتا رہا ہے، یعنی سڑکیں جھیلیں بنتی رہیں گی اورگھر پانی میں ڈوبتے رہیں گے۔ ترقی کے سرکاری ادارے چونکہ ذمے داری سے کام نہیں کر رہے اِس لیے ایسے میں لوگوں کی اجتماعی ذمے داری بڑھ جاتی ہے۔
یہ رویہ بھی ترک کرنا ہوگا کہ تیز بارش کون سی روز ہوتی ہے۔ چند گھنٹے یا چند دن کے شور شرابے کے بعد خاموش ہو کر بیٹھے رہنا مسئلے کا حل نہیں، اس کے لیے مسلسل باخبر اور خبردار رہنا ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ حکام اور متعلقہ ادارے مون سون کی معمول سے زیادہ بارشوں کے ممکنہ اثرات سے نمٹنے کے لیے تمام پیشگی احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور عوام کے جان و املاک کو محفوظ رکھنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ مستقل بنیادوں پر سیلابی بارشوں کے خطرات سے محفوظ رہنے کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی کپیسٹی کو وسیع کرنا چاہیے تاکہ پانی کی قلت کے مسئلے پر بھی کسی حد تک قابو پایا جا سکے۔
بارانِ نعمت زندگی کی علامت اور گرمی سے مرجھائے چہروں کے لیے خوشی کی نوید ہوتی ہے مگر ہماری حرماں نصیبی کہ بارشوں کا سلسلہ ہمارے لیے ہر سال ایک نئی زحمت بن کر نمودار ہوتا ہے۔ گزشتہ ماہ جس قیامت خیز گرمی کا سامنا کرنا پڑا، اس کے سبب مون سون کا شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ محکمہ موسمیات نے جب مون سون کی نوید سنائی تو گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ قحط زدہ تھر و چولستان میں زندگی کی بہاریں لوٹنے کی امید بھی جاگزیں ہوئی مگر بارشوں کا سلسلہ جب شروع ہوا تو وہی صورتحال دیکھنے کو ملی جو عموماً ہر سال ملک کے مختلف علاقوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کو شدید سیلابوں کے لیے تیار رہنا چاہیے کیونکہ ملک کے گلیشیئر بڑی تیزی سے پگھل رہے ہیں اور پانی کا رخ زمینی علاقوں کی طرف ہے۔ دریاؤں میں سیلابی کیفیت پیدا ہونے سے انفرا اسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے اس لیے متعلقہ محکموں کو چوکس رہنا چاہیے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی میں موسلادھار بارش نے تباہی مچا دی ہے، راولپنڈی کی نشیبی بستیاں پانی میں ڈوب گئیں۔
املاک کو شدید نقصان اور پانی گھروں میں داخل ہونے پر شہریوں نے نقل مکانی شروع کردی۔ راولپنڈی میں برساتی نالوں کی صفائی نہ ہونے اور موسلادھار بارش سے سیلابی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ مختلف عمارتوں میں پانچ سے دس فٹ تک پانی داخل ہوگیا ہے۔ پارکنگ میں موجود درجنوں گاڑیاں ناکارہ ہوچکی ہیں، گھروں میں داخل ہونے والے پانی سے املاک کو شدید نقصان پہنچا ہے، ایسا ہر سال ہوتا ہے کہ مون سون کے دوران تباہ کن صورت حال دیکھنے میں آتی ہے، ناقص انتظامات کی وجہ سے نہ صرف کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا ہے بلکہ قیمتی انسانی جانیں بھی چلی جاتی ہیں۔ اس سال یہ شرح کچھ زیادہ ہی ہے۔
پاکستان میں مون سون عام طور پر جولائی سے ستمبر تک چلتا ہے، اسی طرح گلیشیئر بھی پگھلتے ہیں اور دریاؤں میں سیلاب آ جاتا ہے، ایک طرف بارش کا پانی تو دوسری طرف سیلابی ریلے، خاص طور پر کچی بستیوں اور دیہی علاقوں میں تباہی مچاتے ہیں۔ پانی بلاشبہ ہمارے لیے بہت ضروری ہے اور ماہرین کے مطابق بارشوں کی کاشت کاری کے لیے اشد ضرورت ہوتی ہے مگر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں کمی اور معمول سے زیادہ بارشیں بھی تباہی کا باعث بن جاتی ہیں۔
مون سون کی بارشوں کا آغاز ہوتے ہی شہری خدمت کے اداروں کے انتظامات کی قلعی کھل گئی ہے۔ محکمہ موسمیات اس سال مون سون کے سیزن میں ریکارڈ بارشیں ہونے کی پیش گوئی کر رہا ہے اور شدید بارشوں کے سبب سیلاب کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے، مگر ہمارے ہاں اب تک سیلاب کے ممکنہ خدشات سے نمٹنے کے لیے مطلوبہ اقدامات ہی مکمل نہیں کیے جاسکے۔ امسال گزشتہ سال کے تجربے کے پیش نظر بہتر اقدامات کی توقع کی جا رہی تھی مگر حالیہ بارشوں میں درجنوں افراد کی ہلاکت سے یہ غمازی ہو رہی ہے کہ آیندہ دنوں میں ہمیں کس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ہمارے ہاں یہ روایت رہی ہے کہ ہمیشہ پانی سر سے گزرنے کے بعد ہی ہوش میں آیا جاتا ہے۔ 1956سے اب تک مون سون میں ہم چھ بڑے سیلابوں کا سامنا کرچکے ہیں جن میں شدید جانی و مالی نقصان اُٹھانا پڑا۔ محکمہ موسمیات مون سون کا یہ سلسلہ ستمبر تک دراز ہونے کے امکانات ظاہر کر رہا ہے جب کہ درجہ حرارت زیادہ رہنے کی وجہ سے اس سال گلیشیئرز کے زیادہ پگھلنے کا خدشہ بھی موجود ہے۔ 2020میں کراچی کا اربن فلڈ ابھی کل ہی کی بات معلوم ہوتی ہے۔
اتنی تیز طوفانی بارشوں کے بعد پانی کی خوش اسلوبی سے آناً فاناً نکاسی اِس نظام کے بس میں نہیں، ظاہر ہے اِس کام میں وقت لگنا تھا سو لگا، بارش جب بھی اِس انداز میں برسے گی، اِس طرح کے مسائل تو پیدا ہوں گے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ متعلقہ اداروں نے نکاسی آب کے انتظامات کس حد تک تسلی بخش کیے ہوئے ہیں اور بے ہنگم رہائشی آبادیاں، جن میں نکاسی آب کے معقول انتظامات نہیں، کس حد تک اِس صورت کی ذمے دار ہیں؟ نصف صدی پہلے کے لاہور میں اور آج کے لاہور میں زمین آسمان کا فرق ہے، شہر پھیلتا جا رہا ہے، نئی نئی آبادیاں وجود میں آرہی ہیں، پانی کا روزمرہ استعمال بھی ہزاروں گنا زیادہ ہوگیا ہے، لوگوں نے نالوں کے اوپر چھتیں ڈال کر تعمیرات کر لی ہیں، نالے تنگ ہوگئے ہیں، کہیں کہیں تو یہ اتنے تنگ ہیں کہ معمولی سی نکاسی بھی مشکل سے ہوتی ہے، لیکن بارش اور خصوصاً تیز بارش کی صورت میں پانی روانی کے ساتھ اِن نالوں سے نہیں گزر سکتا، اِس لیے یہ سڑکوں پر اور نشیب میں واقع گھروں میں پھیل جاتا ہے اور لوگوں کے لیے زحمت کا باعث بنتا ہے۔
لاہور کے نواحی علاقوں میں سیکڑوں ایسی آبادیاں بس گئی ہیں، جو کسی زمانے میں آبی گزر گاہ تھیں۔ شالیمار باغ کے عقب کے سارے علاقے میں انواع و اقسام کے باغات اور کھیت ہی کھیت تھے، بارشیں برستیں تو یہ باغات لہلہاتے اور کھیتوں سے طرح طرح کی خوشبوئیں اُٹھتی تھیں، راوی کناروں سے بہہ نکلتا تو پانی اِن کھیتوں میں پھیل جاتا جو فصلوں کی روئیدگی میں مددگار ہوتا، اب یہ باغ اجڑگئے،کھیت کھلیان ختم ہوگئے اور اِن کی جگہ سنگ و خشت کی بے ہنگم عمارتوں نے لے لی، جہاں لاکھوں انسان آباد ہوگئے۔
یہ آبادیاں کسی ترتیب سے نہیں بنیں، بس کسی ایک جگہ گھر بننا شروع ہوگئے اور بنتے چلے گئے، حتیٰ کہ عمارتوں کے جنگل اُگ آئے، اِن عمارتوں کا کوئی نقشہ نہیں، جس میں بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھا گیا ہو، بس جیسے لوگوں کا دل چاہا انھوں نے تعمیرات کر لیں، اب جب بارش ہوتی ہے تو پانی کا راستہ کون روک سکتا ہے، چنانچہ نتیجہ یہ ہے کہ پانی ہر گلی اور نشیب والے گھروں میں داخل ہو جاتا ہے اور پھر اپنے وقت کے ساتھ ہی نکلتا ہے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ اچھی خاصی پوش آبادیوں میں بھی لوگ اِس پہلو کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ مکان کی تعمیر پر کروڑوں لگا دیں گے، لیکن چند لاکھ روپے نکاسی آب کے سسٹم پر لگاتے ہوئے انھیں دُکھ ہوتا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ غریب غُربا کی بستیوں کے ساتھ ساتھ خوشحال علاقے بھی زیر آب آجاتے ہیں۔
ضرورت تو اس امر کی ہے کہ معمول کے ایام میں شہر کے سیوریج سسٹم کا جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ بڑے پائپ کی جگہ چھوٹے پائپ بچھا کر ٹھیکیداروں نے کہاں کہاں ہاتھ دکھایا ہے؟ لیکن یہ اِس لیے نہیں ہوتا کہ تعمیراتی کام کی نگرانی کرنے والے افسر موقع پر تشریف نہیں لے جاتے اور محض کاغذات کا پیٹ بھر کر مطمئن ہو جاتے ہیں، ظاہر ہے سیوریج کا جو نظام صرف گھروں کے پانی کے اخراج کے لیے بنایا گیا ہو وہ تیز بارشوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے سیلابی ریلے کے پانی کا نکاس کیوں کر کر سکتا ہے؟ لاہور کی جو سڑکیں ابھی حال ہی میں تعمیر ہوئی تھیں بارش میں وہاں بھی پانی کھڑا نظر آیا۔
ہمارا عمومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ ہم سول ورکس کے لیے ساری ذمے داری متعلقہ سرکاری اداروں پر ڈال دیتے ہیں اور شہری عموماً اِس ضمن میں اپنی ذمے داریوں سے پہلو تہی کرتے ہیں، جو نئی آبادیاں تعمیر ہوتی ہیں، اُن کی تعمیر کے وقت دیکھا جانا چاہیے کہ بارشوں کی صورت میں پانی کے بہاؤ کا رُخ کس طرف ہو گا، نکاسی آب کے لیے بنائی جانے والی نالیاں بارشوں کے پانی کا نکاس تو نہیں کرسکتیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ تعمیرات کے لیے سخت قواعد بنائے جائیں اور بارشوں کے پانی کے نکاس کو اہمیت دے کر راستے بنائے جائیں، جو سسٹم اِس وقت کام کر رہا ہے یہ جب تک موجود ہے اُس وقت تک بارشوں کی صورت میں وہی کچھ ہو گا جو پہلے ہوتا رہا ہے، یعنی سڑکیں جھیلیں بنتی رہیں گی اورگھر پانی میں ڈوبتے رہیں گے۔ ترقی کے سرکاری ادارے چونکہ ذمے داری سے کام نہیں کر رہے اِس لیے ایسے میں لوگوں کی اجتماعی ذمے داری بڑھ جاتی ہے۔
یہ رویہ بھی ترک کرنا ہوگا کہ تیز بارش کون سی روز ہوتی ہے۔ چند گھنٹے یا چند دن کے شور شرابے کے بعد خاموش ہو کر بیٹھے رہنا مسئلے کا حل نہیں، اس کے لیے مسلسل باخبر اور خبردار رہنا ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ حکام اور متعلقہ ادارے مون سون کی معمول سے زیادہ بارشوں کے ممکنہ اثرات سے نمٹنے کے لیے تمام پیشگی احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور عوام کے جان و املاک کو محفوظ رکھنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ مستقل بنیادوں پر سیلابی بارشوں کے خطرات سے محفوظ رہنے کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی کپیسٹی کو وسیع کرنا چاہیے تاکہ پانی کی قلت کے مسئلے پر بھی کسی حد تک قابو پایا جا سکے۔