پاکستان کے لیے سبق
روسیوں نے اپنے بنجر علاقے کو ترقی دینے کے لیے بیشمار جانیں قربان کردیں
روس کے بابائے سائنس میخائیل لومنوسوو نے دو سو سال پہلے جو پیشگوئی کی تھی وہ حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی ہے۔ اس نے کہا تھا کہ روس کی طاقت سائبیریا کے راستے پروان چڑھے گی۔ سائبیریا کا موازنہ بلوچستان اور قبائلی علاقوں کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان اس معاملے میں روس سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ گزشتہ سو سال کے عرصے میں روس نے سائبیریا جیسے ویران علاقے کو ترقی دے کر کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔
اگر ماسکو کو روس کا داخلی دروازہ کہا جائے تو سائبیریا کی مشرقی حدود میں واقعہ ولادی وستوک کو روس کا خارجی دروازہ کہا جاسکتا ہے۔ روس کے عظیم طاقت بننے کے پس پشت بہت سارے عوامل ہیں لیکن روس کی کایا پلٹ دینے والا سب سے بڑا عنصر روس کی ٹرانس سائبیرین ریلوے ہے (1891-1905) جو کہ 5,727 میل یا 9289 کلومیٹر کے وسیع رقبہ پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کے داخلی دروازہ (سائبیریا) کو خارجی دروازہ (ولادی وستوک) سے جوڑنے کی غیر معمولی اہلیت رکھتی ہے۔
یہ کامیابی روس کے لیے کیا معنی رکھتی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ رومی سلطنت کے دور اور ہارڈن کے وقت میں 53,000 میل لمبی سڑکیں تھیں جن میں بہت سی پکی تھیں لیکن انیسویں صدی میں سائبیریا کی سڑکیں اور راستے دھول مٹی سے اٹے ہوئے اور خستہ حال تھے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ روس کے محنتی اور جفاکش لوگوں نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ روسیوں کا یہ کارنامہ ہمارے لیے سبق ہے۔ دوسری جانب ہم ہیں کہ اپنے قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان کو یکسر نظراندازکیے ہوئے ہاتھ پر ہاتھ دھرے ہوئے بیٹھے ہیں۔
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے
ہماری کاہلی اور بے حسی کی کوئی حد نہیں۔ ہم نے اپنی غیرت اور حمیت کو گروی رکھ چھوڑا ہے، جس کی وجہ سے ہم کشکول اٹھائے ہوئے بھکاری کی طرح دنیا بھر میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ ہماری کئی نسلیں اسی طرح ایڑیاں رگڑتے رگڑتے گزرگئی ہیں اور معلوم نہیں کہ اور کتنی نسلیں اسی طرح گزر جائیں گی۔
سائبیریا روس کے 77 فیصد وسیع و عریض رقبہ پر مشتمل ہے جب کہ بلوچستان کا کُل رقبہ پاکستان کا محض 43.6 فیصد اور پاک افغان بارڈرکی طرف پھیلے ہوئے قبائلی علاقہ جات کا رقبہ پاکستان کے صرف 3.4 فیصد کے برابر ہے۔ ایک طرف محنت کشی ہے اور دوسری جانب کام چوری ہے۔ جی چاہتا ہے کہ چلو بھر پانی میں ڈوب کر مرجائیں۔ روس کی قبائلی علاقہ کی کہانی محنت اور جفاکشی کی داستان ہے۔ اس کے برعکس ہماری کہانی کے لیے الفاظ میسر نہیں آرہے۔
روسیوں نے اپنے بنجر علاقے کو ترقی دینے کے لیے بیشمار جانیں قربان کردیں۔ چین کے ساتھ CPEC معاہدہ پاکستان کے لیے ایک سنہری موقع ہے۔کاش! ہم روس کی مثال کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے اس نادر موقعے سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکیں۔روسیوں کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے سائبیریا کے لق و دق علاقے کو اپنی شبانہ روز محنت سے انتہائی ترقی یافتہ علاقے میں تبدیل کردیا۔ کم و بیش یہی کمال چینیوں کا ہے جو آج دنیا کی حیران کن ترقی یافتہ قوم بن چکے ہیں اور امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرات رکھتے ہیں ۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ آنے والا دور چین کا دور ہوگا۔
روس کی سرزمین میں تیل کے بڑے بڑے ذخائر موجود ہیں، جن کی وجہ سے امریکا کے مقابلے میں اسے فوقیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ روس کی سرزمین میں دیگر قیمتی ذخائر بھی موجود ہیں جن میں کوئلہ، لوہا، مینگنیز، سیسہ، نِکِل، کوبالٹ، ٹنگسٹن اورگندھک شامل ہیں۔ سائبیریا میں سونے اور ہیروں کے ذخائر بھی موجود ہیں۔
ہماری بھی خوش بختی کسی سے کم نہیں ہے کیونکہ وطن عزیزکی سرزمین کے تلے قدرتی گیس، کوئلے اور دیگر معدنیات کے ذخائر موجود ہیں۔ہمارا جو حال ہے وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں۔ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے جس یکجہتی اور جذبے کی ضرورت ہے وہ ناپید ہے۔ شخصیت پرستی اور ہوس اقتدار نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔روس کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اسے اہل اور مخلص قیادت میسر آئی۔ کاش، ہمیں بھی ایسی قیادت میسر آجاتی، اگرچہ پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے لیکن ابھی بھی وقت ہے کہ ہم سدھر جائیں اور ہوش کے ناخن لیں ورنہ اب نہیں تو پھرکبھی بھی نہیں۔
اگر ماسکو کو روس کا داخلی دروازہ کہا جائے تو سائبیریا کی مشرقی حدود میں واقعہ ولادی وستوک کو روس کا خارجی دروازہ کہا جاسکتا ہے۔ روس کے عظیم طاقت بننے کے پس پشت بہت سارے عوامل ہیں لیکن روس کی کایا پلٹ دینے والا سب سے بڑا عنصر روس کی ٹرانس سائبیرین ریلوے ہے (1891-1905) جو کہ 5,727 میل یا 9289 کلومیٹر کے وسیع رقبہ پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کے داخلی دروازہ (سائبیریا) کو خارجی دروازہ (ولادی وستوک) سے جوڑنے کی غیر معمولی اہلیت رکھتی ہے۔
یہ کامیابی روس کے لیے کیا معنی رکھتی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ رومی سلطنت کے دور اور ہارڈن کے وقت میں 53,000 میل لمبی سڑکیں تھیں جن میں بہت سی پکی تھیں لیکن انیسویں صدی میں سائبیریا کی سڑکیں اور راستے دھول مٹی سے اٹے ہوئے اور خستہ حال تھے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ روس کے محنتی اور جفاکش لوگوں نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ روسیوں کا یہ کارنامہ ہمارے لیے سبق ہے۔ دوسری جانب ہم ہیں کہ اپنے قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان کو یکسر نظراندازکیے ہوئے ہاتھ پر ہاتھ دھرے ہوئے بیٹھے ہیں۔
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے
ہماری کاہلی اور بے حسی کی کوئی حد نہیں۔ ہم نے اپنی غیرت اور حمیت کو گروی رکھ چھوڑا ہے، جس کی وجہ سے ہم کشکول اٹھائے ہوئے بھکاری کی طرح دنیا بھر میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ ہماری کئی نسلیں اسی طرح ایڑیاں رگڑتے رگڑتے گزرگئی ہیں اور معلوم نہیں کہ اور کتنی نسلیں اسی طرح گزر جائیں گی۔
سائبیریا روس کے 77 فیصد وسیع و عریض رقبہ پر مشتمل ہے جب کہ بلوچستان کا کُل رقبہ پاکستان کا محض 43.6 فیصد اور پاک افغان بارڈرکی طرف پھیلے ہوئے قبائلی علاقہ جات کا رقبہ پاکستان کے صرف 3.4 فیصد کے برابر ہے۔ ایک طرف محنت کشی ہے اور دوسری جانب کام چوری ہے۔ جی چاہتا ہے کہ چلو بھر پانی میں ڈوب کر مرجائیں۔ روس کی قبائلی علاقہ کی کہانی محنت اور جفاکشی کی داستان ہے۔ اس کے برعکس ہماری کہانی کے لیے الفاظ میسر نہیں آرہے۔
روسیوں نے اپنے بنجر علاقے کو ترقی دینے کے لیے بیشمار جانیں قربان کردیں۔ چین کے ساتھ CPEC معاہدہ پاکستان کے لیے ایک سنہری موقع ہے۔کاش! ہم روس کی مثال کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے اس نادر موقعے سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکیں۔روسیوں کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے سائبیریا کے لق و دق علاقے کو اپنی شبانہ روز محنت سے انتہائی ترقی یافتہ علاقے میں تبدیل کردیا۔ کم و بیش یہی کمال چینیوں کا ہے جو آج دنیا کی حیران کن ترقی یافتہ قوم بن چکے ہیں اور امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرات رکھتے ہیں ۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ آنے والا دور چین کا دور ہوگا۔
روس کی سرزمین میں تیل کے بڑے بڑے ذخائر موجود ہیں، جن کی وجہ سے امریکا کے مقابلے میں اسے فوقیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ روس کی سرزمین میں دیگر قیمتی ذخائر بھی موجود ہیں جن میں کوئلہ، لوہا، مینگنیز، سیسہ، نِکِل، کوبالٹ، ٹنگسٹن اورگندھک شامل ہیں۔ سائبیریا میں سونے اور ہیروں کے ذخائر بھی موجود ہیں۔
ہماری بھی خوش بختی کسی سے کم نہیں ہے کیونکہ وطن عزیزکی سرزمین کے تلے قدرتی گیس، کوئلے اور دیگر معدنیات کے ذخائر موجود ہیں۔ہمارا جو حال ہے وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں۔ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے جس یکجہتی اور جذبے کی ضرورت ہے وہ ناپید ہے۔ شخصیت پرستی اور ہوس اقتدار نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔روس کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اسے اہل اور مخلص قیادت میسر آئی۔ کاش، ہمیں بھی ایسی قیادت میسر آجاتی، اگرچہ پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے لیکن ابھی بھی وقت ہے کہ ہم سدھر جائیں اور ہوش کے ناخن لیں ورنہ اب نہیں تو پھرکبھی بھی نہیں۔