مزدور کا حق اور حکومت کی ذمے داری…

’مزدور‘ کی تعریف یا اس کا مفہوم تلاش کرنا کوئی آسان کام نہیں کیونکہ مزدوری کے عمل کا تعی

'مزدور' کی تعریف یا اس کا مفہوم تلاش کرنا کوئی آسان کام نہیں کیونکہ مزدوری کے عمل کا تعین، یعنی کہ یہ کہاں سے شروع ہو کر کہاں اختتام پذیر ہوتا ہے، ایک انتہائی مشکل کام ہے، اگرچہ بہت سے ماہرین نے اس سلسلے میں اپنے اپنے نظریات پیش کیے مگر کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی جگہ پر کوئی نہ کوئی خلا باقی ہی نظر آیا، شاید یہی وجہ ہے کہ خود ایک مزدور شخص بھی عملی طور پر استحصال ہی کا شکار رہا ہے۔

یوں تو معاشرے کا قریبا ہر فرد ہی ورکر ہوتا ہے اور وہ کسی نہ حیثیت میں خدمات انجام دے رہا ہوتا ہے، یہاں تک کہ ایک گھریلو خاتون بھی اپنے گھر کا نظام چلاتی ہے، گھر کے کام کاج جن میں کھانا بنانا، برتن جھاڑو وغیرہ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں، مگر معاشرے میں اس نوعیت کی خدمات کو مزدوری کے طور پر نہیں گردانا جاتا۔ اسی طرح کھیتوں میں کام کرنے والے وہ کسان جو اپنی زمین میں کھیتی باڑی کرتے ہیں، فصل اگاتے اور پھر کاٹتے ہیں، ان کے اس عمل کے دوران ان کے اہل خانہ بھی ان کے ساتھ برابر کے شریک رہتے ہیں، ان کسانوں کے بیوی بچے کھیتوں میں ہل چلانے سے لے کر فصل کی کٹائی تک حسب استطاعت حصہ ڈالتے ہیں۔

یہ لوگ بھی خالصتا ورکر ہی ہوتے ہیں مگر ان کے لیے بھی ورکرکی اصطلاح استعمال نہیں ہوتی بلکہ ورکر اس کو تصور کیا جاتا ہے جس کی خدمات کوئی سرمایہ کار (جو کاروبار کے لیے سرمایہ لگاتا ہے) لیتا ہے اور خدمات کے عوض میں اس کے لیے اجرت مقررکرتا ہے۔ چونکہ ایک زمانے سے ایسا ہوتا چلا آیا ہے، مگر یہ ورکر جو مختلف سرمایہ کاروں کے پاس کام کرتے تھے، سرمایہ کار یا کمپنی کا مالک اس سے جتنا چاہے کام لے سکتا تھا اور اس کے لیے جتنی بھی چاہے اجرت مقرر کرسکتا تھا جس سے ورکر کا استحصال ہوتا تھا، اسی تناظر میں عالمی سطح پر قانون سازی کی گئی جس کے تحت مزدور کے حقوق کا خیال رکھنا کسی بھی آجر کے لیے ضروری قرار دیا گیا، جس میں بنیادی انسانی حقوق سر فہرست رہے جب کہ دیگر حقوق بھی طے کیے گئے۔

ترقی یافتہ ممالک میں تو ایک مزدور کے حق کا خیال رکھا گیا، مگر ترقی پذیرممالک میں چونکہ مزدور اپنے حق ہی سے نابلد رہا اور فکر معاش کے باعث اپنے آجر سے ہمیشہ بلیک میل ہوتا رہا، روزگارکے مواقعے کم ہونے کے باعث وہ کم اجرت پر زیادہ کام کرتا رہا۔

اس سے قطع نظر کہ مزدور کون ہے، ہمارا موضوع مزدوری کے ساتھ غربت جیسا عالمگیر مسئلہ ہے، جہاں محنت یا خدمات کے عوض میں کسی شخص کو وہ اجر نہیں مل پاتا جو اس کا حق ہے۔

غربت اور بیروزگاری کے آثار تو امریکا، برطانیہ، فرانس جیسے جدید و ترقی یافتہ ممالک میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں، وہاں بھی مزدور طبقہ موجود ہے لیکن وہاں کی حکومتیں اپنے عوام کے مسائل حل کرنے کو پہلی ترجیح سمجھتی ہیں، غربت و بے روزگاری کے خاتمے اور تعلیم و صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے ٹھوس، جامع اور قابل عمل منصوبہ بندی کرتی ہیں، بیروزگاروں کو وظائف اور مفت طبی وتعلیمی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ وہاں غربت کی شرح کم ہے، جب کہ ہمارے یہاں برسر اقتدار طبقہ عوام کے مسائل سے غافل یا پھر جان بوجھ کر آنکھیں موندے رکھنے کو ترجیح دیتا ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے لگانے اور عوام کی تقدیر سنوارنے کے دعویدار جمہوریت کے چیمپئن سیاست دان انتخابی مہمات میں اپنے کروڑوں غریب ووٹروں سے بلند و بانگ دعوے اور وعدے کرنے کے باوجود اقتدار میں آتے ہی ان کے مسائل کے حل سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔


ایک اندازے کے مطابق ملک میں 5 کروڑ 50 ہزار افراد مزدور پیشہ ہیں جن میں 80 فی صد مرد اور 20 فی صد خواتین شامل ہیں جب کہ ملک کی 33 فی صد آبادی محنت کشوں پر مشتمل ہے۔ فیکٹریوں اورکارخانوں میں کام کرنے والے افراد کے بنیادی حقوق کی جو خلاف ورزیاں آج دستور بن چکی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کی صنعتوں، فیکٹریوں میں محنت کش جبری مشقّت کر رہے ہیں اور انھیں جنسی اور جسمانی تشدد سمیت مختلف طرح کے استحصال کا سامنا ہے۔

پاکستانی کی صنعت ایک ایسا شعبہ ہے جو پوری طرح قواعد و ضوابط کے تابع نہیں، اسی لیے یہاں کام کرنے والے افراد کے حقوق کو بری طرح پامال کیا جارہا ہے۔ فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں میں اکثریت خواتین کی ہے جو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ذکر کرنے سے خائف رہتی ہیں، لیکن اس کے باوجود بعض خواتین کا کہنا ہے کہ انھیں کام کی آڑ میں جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

گزشتہ برس ستمبر کے مہینے میں کراچی میں واقع گارمنٹس فیکٹری میں آتشزدگی کا دلسوز سانحہ پیش آیا، جو انسانی جانوں کے ضیاع کے لحاظ سے ملکی تاریخ کا بدترین واقعہ ثابت ہوا۔ اس آتشزدگی کے نتیجے میں تین سو انسٹھ فیکٹری ورکر جل کر خاکستر ہوگئے تھے، جب کہ تینتیس لاشیں ایسی تھیں کہ جن کی شناخت ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے بھی ممکن نہ ہوسکی۔ اتنی بڑی تعداد میں مزدوروں کی ہلاکت نے سرکاری مشینری اور بیوروکریسی کے کرپٹ نظام پر سے پردہ اٹھا دیا۔ متاثرہ خاندانوں، سول سوسائٹی اور ذرایع ابلاغ کی جانب سے اس معاملے کی شفاف تحقیقات اور ذمے داروں کو عبرت ناک سزا دینے کے شدید مطالبے پر متعدد تحقیقاتی ٹیموں کے قیام کا اعلان کیا گیا۔

پولیس کے اعلیٰ افسران کی سربراہی میں تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی، تحقیقاتی ٹیموں کی رپورٹس میں سے بعض تو تاحال منظر عام پر نہیں آسکیں، تاہم ایف آئی اے نے اپنی رپورٹ میں واضح طور پر فیکٹری مالکان، جنرل منیجر، بلڈنگ پلان کی منظوری، ہنگامی صورتحال میں بچائو کی تربیت اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے ذمے دار اداروں کو حادثے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کا ذمے دار قرار دیا تھا۔ فیکٹری میں ورکرز کی تعداد1500 سے زائد تھی جب کہ صرف چند سو ملازمین رجسٹرڈ تھے، چوری کے ڈر سے مالکان نے ہنگامی راستے مستقل طور پر بند کررکھے تھے۔ مختصر یہ کہ لیبر قوانین کے حوالے سے کسی ایک ایکٹ پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا تھا، جب کہ دوسری جانب حسب روایت پولیس کی تمام تر کوششیں فیکٹری مالکان کو بچانے میں لگی رہیں۔

یہ سب حکومت کی ناقص پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک میں غربت، بے روزگاری اور مہنگائی میں روز افزوں اضافہ ہوتا جارہاہے، جن لوگوں کے روزگار لگے ہوئے ہیں انھیں ان کا حق نہیں مل رہا، تعلیمی سہولتوں کی عدم فراہمی کے باعث مزدور اپنے حق کی آگہی سے محروم ہے، اگر اسے اپنا حق معلوم بھی ہو تو کم ترین اجرت اور مہنگے ترین مرعوب و مرغوب انصاف کا دروزاہ کھٹکھٹانا اس کے لیے ایک خواب ہی رہتا ہے۔

مزدوروں کی فلاح وبہبود ایک جامع ومتوازن لیبر پالیسی اورموثر قانون سازی کے بغیرممکن نہیں۔ اگرموثر قانون سازی کی طرف توجہ نہ دی گئی تو آجر اور مزدور کے مابین اعتمادکی فضا کا فقدان رہے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج تک کسی حکومت نے مثبت اور متوازن لیبرپالیسی دینے یا اس کے نفاذ کیلیے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش کی زحمت کی ہے اور کیا کسی حکومت نے مزدوروں کے مسائل کے ازالے کی نیت سے کبھی موثر قانون سازی کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے۔

جب تک پاکستانی عوام اس فرسودہ اور چند خاندانوں کی حکمرانی والے نظام کے خلاف اْٹھ کھڑے نہیں ہونگے، اس استحصالی نظام میں عوام اور مزدوروں کے حقوق پامال ہوتے رہیں گے، اس لیے سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام اور بالخصوص مزدور کو اس کے حقوق سے آگہی کے لیے مہمات چلائی جائیں اور ہر طبقے کے افراد اس کام کو قومی ہی نہیں بلکہ دینی فریضہ سمجھ کر بھی اپنی اپنی بساط کے مطابق حصہ ڈالیں۔
Load Next Story