بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی اور بی این پی کے برسوں سے لاپتہ متعدد رہنما بازیاب

سیکڑوں اپوزیشن رہنماؤں اور کارکنوں کی ضمانت منظور

سیکڑوں اپوزیشن رہنماؤں اور کارکنوں کی ضمانت منظور

بنگلہ دیش میں طلبا تحریک کے نتیجے میں وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کا تختہ الٹنے کے بعد جہاں ایک طرف سابق وزرا کی پکڑدھکڑ جاری ہے وہیں دوسری طرف برسوں سے جیلوں میں قید اپوزیشن رہنماؤں کی رہائی کا عمل شروع ہوگیا۔

ڈھاکا ٹریبیون کے مطابق ڈھاکہ کی ایک عدالت نے کوٹہ اصلاحات کی تحریک کے دوران گرفتار بی این پی کی قائمہ کمیٹی کے رکن امیر خسرو محمود چوہدری اور جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل میاں غلام پرور سمیت بی این پی اور جماعت اسلامی کے ایک ہزار سے زائد رہنماؤں اور کارکنوں کی ضمانت منظور کرکے رہائی کا حکم دے دیا۔

8 سال سے لاپتہ نوجوان کی بازیابی

بنگلہ دیش جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن مرحوم میر قاسم علی کے لاپتہ بیٹے بیرسٹر میر احمد بن قاسم ارمان بھی 8 سال بعد گھر واپس آگئے۔ ڈیلی بنگلہ دیش کے مطابق ان کے اہل خانہ نے فیس بک پر ارمان کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا الحمدللہ ارمان اب آزاد ہے۔



10 اگست 2016 کو رات نامعلوم افراد بیرسٹر میر احمد کو زبردستی اٹھا کر لے گئے جس کے بعد سے وہ لاپتہ تھے اور ان کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔

علاوہ ازیں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سابق امیر غلام اعظم مرحوم کے لاپتہ بیٹے سابق بریگیڈیئر جنرل عبداللہ الامان اعظمی بھی گھر واپس آگئے۔

بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق جماعت اسلامی کے فیس بک پیج پر اس اطلاع کی تصدیق کی گئی۔ سابق بریگیڈیئر جنرل عبداللہ امان اعظمی کو 22 اگست 2016 کی رات گھر سے سادہ لباس اہلکار اٹھاکر لے گئے تھے اور اب 8 سال بعد ان کی رہائی عمل میں آئی۔




عوامی لیگ کی حکومت آنے کے بعد عبداللہ اعظمی کو فوج سے نکال دیا گیا تھا۔ جماعت اسلامی نے بارہا ان کی رہائی کے مطالبات کیے لیکن حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان کی گرفتاری سے انکار کیا تھا۔

بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق ڈھاکہ کی ایک عدالت نے بی این پی کے رہنما غیاث الدین المامون کی ضمانت منظور کرلی۔ انہیں سونالی بینک کرپشن کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ڈھاکہ میٹروپولیٹن کے سینئر اسپیشل جج کی عدالت نے ان کی ضمانت منظور کرلی۔

مزید پڑھیں: عوامی دباؤ اور احتجاج پر بنگلادیشی وزیراعظم حسینہ واجد مستعفیٰ

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ حسینہ واجد سکیورٹی فورسز نے تقریباً 600 سے زائد افراد کو اغوا اور غائب کیا جن میں سے متعدد لوگوں کا تعلق حزب اختلاف کی بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور ملک کی سب سے بڑی اسلام پسند جماعت کالعدم جماعت اسلامی سے تھا۔

لاپتہ افراد کی رہائی کے لیے مہم چلانے والی انجمن مائر داک (ماؤں کی پکار) نامی تنظیم کی کوآرڈینیٹر سنجیدہ اسلام نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہمیں جوابات چاہئیں، کم از کم 20 خاندان ڈھاکہ میں ملٹری انٹیلی جنس فورس کی عمارت کے باہر جمع ہیں اور اپنے رشتہ داروں کی رہائی کا انتظار کر رہے ہیں۔

13 سال بعد دفتر کھل گیا

جماعت اسلامی نے منگل کو ڈھاکہ میں اپنا پارٹی دفتر ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک بند رہنے کے بعد کھول دیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ جماعت کے طلبہ ونگ اسلامی چھاترا شبر کا ہیڈ آفس بھی دوبارہ کھول دیا گیا۔

جماعت کے ترجمان عطاء الرحمان سرکار نے ترک میڈیا اناطولو کو بتایا کہ موگ بازار محلے میں پارٹی کا ہیڈ آفس 2011 میں زبردستی بند کر دیا گیا تھا، اور عدالتی حکم کے باوجود اسے دوبارہ کھولنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد مستعفی ہونے کے بعد بھارت فرار ہوگئی ہیں جس کے بعد سے کئی وزراء اور عوامی لیگ کے سینئر رہنماؤں کے بیرون ملک فرار ہونے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔
Load Next Story