’’ہاں‘‘ اور ’’نہیں‘‘

قائد اعظم کے بعد آنے والے سیاست دانوں نے نظریاتی سیاست کے بجائے مفادات کی سیاست کو فروغ دیا

mjgoher@yahoo.com

قوموں کی زندگی میں ان کے ماضی کی تاریخ انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ جو قومیں اور ان کے رہنما و حکمران اپنے ماضی کے تلخ و شیریں تجربات سے سبق حاصل کرتے ہیں وہی لوگ شان دار مستقبل کی تشکیل و تعمیر کی صحیح انداز میں صورت گری کر سکتے ہیں۔

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جو قومیں اپنے ماضی کی تاریخ کے نشیب و فراز اور اس کے سیاسی، معاشی اور سماجی اثرات کو اپنے پیش نظر رکھتی ہیں، انھیں آنے والے دور کے لیے ٹھوس، مثبت، جامع اور دُور رس نتائج کے حامل فیصلے کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ اسی طرز عمل سے قوموں کا فلسفہ تاریخ متعین ہوتا ہے جو فکر و نظریے کا تعین اور اس کے سیاسی اظہار اور درست معاشی تشکیل کی راہیں ہموار کرتا ہے۔

اپنے ماضی کی قومی تاریخ سے صرف نظر کرنا، اس سے غفلت برتنا اور سیکھنے کے عمل سے روگردانی کرنا مستقبل کی تباہی و بربادی کا سبب بنتا ہے۔ ایسا رویہ وہی قومیں اختیار کرتی ہیں جن کے رہنما و قائدین نظریاتی و فکری پسماندگی کا شکار ہوں۔ دور اندیشی، بردباری، سنجیدگی، عفو و درگزر اور اتحاد و اتفاق کے فکر و فلسفے کی باریکیوں کو سمجھنے اور اس کی گہرائی و گیرائی کو پرکھنے سے قاصر ہوں۔ ایسے رہبران اپنی قوم کی تعمیر و ترقی میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کرسکتے۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اپنی تاریخ کا بھرپور جائزہ لے کر اپنے مستقبل کی صورت گری کرتی ہیں، جو قومیں ماضی میں غلامی کے زیر اثر رہی ہوں تو وہ غلامی کے دور کے تمام منفی اثرات، روایات اور اقدار سے خود کو ہمیشہ کے لیے علیحدہ کر لیتی ہیں اور آزادی و خود مختاری کی بنیاد پر اپنے مستقبل کی راہوں کو خود متعین کرتی ہیں اورکامیابی کی منازل طے کرنے لگتی ہیں۔


یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آزادی سے قبل برصغیر کے مسلمانوں نے برطانوی سامراج کے دو سو سالہ دور حکمرانی میں سفاکیت، ظلم و ستم، تشدد، قتل و غارت، سیاسی، سماجی، معاشی و اقتصادی تباہی کے مناظر دیکھے۔ دو صدیوں کی غلامی میں مسلمانوں کا ہر شعبہ زندگی میں استحصال کیا گیا جس کے اثرات 14 اگست 1947 کو آزادی کے بعد بھی کہیں کہیں آج بھی نظر آتے ہیں۔ آزادی کی تحریک کے روح رواں اور بانی وطن قائد اعظم نے مسلمانوں کو انگریزوں کی غلامی سے تو مادی طور پر نجات دلا دی لیکن ہم ذہنی غلامی سے کلی طور پر نجات حاصل نہ کر سکے۔

قائد اعظم ایک نظریاتی رہنما تھے۔ ان کے فکر و فلسفے، اصولوں، نظریات، فرمودات، ارشادات سے ہمارے ارباب اختیار نے رہنمائی حاصل کرنا مناسب ہی نہ سمجھا۔ آئین و قانون کی حکمرانی اور جمہوریت اور نااصولی نظریاتی سیاست کی جو بساط قائد اعظم نے بچھائی تھی اور ملک و قوم کی ترقی و خوش حالی اور روشن مستقبل کے حوالے سے جو راہیں متعین کی تھیں، آج سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی وہ راستے سنسان اور ویران پڑے ہیں۔

قائد اعظم کے بعد آنے والے سیاست دانوں نے نظریاتی سیاست کے بجائے مفادات کی سیاست کو فروغ دیا۔ تحمل، صبر، برداشت اور رواداری کے بجائے نفرت، غصہ، انتقام اور میں نہ مانوں کی روایت کو جنم دیا اور افہام و تفہیم سے آگے بڑھنے کے راستے مسدود کر دیے۔ سیاست دانوں نے قائد کی سیاست کو گالی بنا دیا۔ ملک دولخت ہوگیا لیکن ہمارے ارباب سیاست نے سبق سیکھا اور نہ ہی اپنے رویوں میں لچک پیدا کی۔ ہماری سیاست آج بھی اسی مقام پر کھڑی ہوئی ہے۔

حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی کشمکش مثل ماضی آج بھی جاری ہے۔ نہ حکومت ایک قدم پیچھے ہٹنے اور افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے پر تیار ہے اور نہ ہی اپوزیشن اپنی انا کے خول سے باہر آنے پر آمادہ ہے۔ دونوں کو اپنے اپنے سیاسی و جماعتی مفادات کی فکر ہے ملک اور عوام کا کسی کو احساس نہیں۔ آج حالت یہ ہے کہ ملک پر اربوں ڈالر کا قرضہ ہے، معیشت آئی ایم ایف کے شکنجوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ عوام غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور مہنگی بجلی کے عذاب میں مبتلا ہیں اور سراپا احتجاج ہیں۔ صنعتیں بند اورکاروبار ٹھپ ہو چکا ہے۔ عوام پریشان حال ہیں اور حکمرانوں کو اپنی لڑائیوں سے فرصت نہیں مل رہی۔ سیاست دانوں کی کمزوریوں و نااہلیوں کے باعث فوج کو سیاست میں مداخلت کے مواقع ملے۔ قائد اعظم نے کہا تھا کہ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے اور بیوروکریٹ عوام کے خادم ہیں لیکن آج سب کچھ قائد کے فرمان کے الٹ ہو رہا ہے۔

بیوروکریسی بادشاہ بنی ہوئی ہے اور سیاست دان عسکری چوکھٹ پر سر جھکاتے ہیں۔ اپوزیشن کو حکمران اتحاد سے بات کرنے کے بجائے عسکری قیادت سے بات کرنے میں آسانی نظر آتی ہے کہ وہی طاقت کا اصل منبع ہے۔ ایوان عدل میں ابھرتی تقسیم کے عمل نے ماحول کو اور کشیدہ کر دیا ہے۔ مخصوص نشستوں پر اکثریتی فیصلے کے بعد اقلیتی ججز کے دو اختلافی نوٹ نے نئے سوالات کو جنم دے دیا ہے اور آئینی و قانونی بحران اور سیاسی رسہ کشی کو اور مہمیز کر دے گا۔ سوال یہ ہے کہ قائد اعظم کے پاکستان میں سیاست کے تمام ادارے آئین و قانون کے مطابق کام کر رہے ہیں یا ایک دوسرے پر بالادستی کی جنگ میں مصروف ہیں؟ ایک سوال کا جواب ''ہاں'' میں اور ایک کا ''نہیں'' میں دیا جاسکتا ہے، فیصلہ قارئین پر۔
Load Next Story