اسماعیل ہنیہ کی شہادت ایک المیہ
شیخ احمد یاسین کو فجر کی نماز کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے اسرائیل کے ہیلی کاپٹر نے حملہ کر کے شہید کردیا
اس صدی میں فلسطین کی آزادی کا علم بلند رکھنے والے اسماعیل ہنیہ کی شہادت صرف فلسطین کی مزاحمتی تحریک کے لیے ایک جھٹکا نہیں بلکہ اس حملے سے ایران کے نظام کی کمزوری بھی آشکار ہوگئی ہے۔ اسرائیل بین الاقوامی پابندیوں سے بچنے کے لیے اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کر رہا مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اسرائیل کے انٹیلی جنس کے نظام کی کامیابی ہے اور یہ سب اسرائیل کی جدید ٹیکنالوجی میں مہارت امریکا کی سرپرستی کی بناء پر حاصل ہوئی ہے، مگر اسرائیل کی اس جارحیت کے باوجود اب مزاحمتی تحریکیں ختم نہیں ہونگی۔
اسماعیل ہنیہ کے والدین کو 1948میں عرب اسرائیل جنگ کی وجہ سے مقبوضہ فلسطین کے قصبہ اشکون کے قریب اپنا گھر چھوڑنا پڑا تھا۔ اسماعیل ہنیہ جب نوجوانی میں قدم رکھ رہے تھے تو یاسر عرفات کی قیادت میں بی ایل او کی فلسطین کے خلاف جدوجہد جاری تھی مگر اسماعیل ہنیہ نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں عربی ادب کی تعلیم حاصل کی تھی اور اسلامی یونیورسٹی میں داخلہ لیا، وہ اسلامی تحریک میں شامل ہوئے۔
انھوں نے 1987میں غزہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ اسی سال غزہ میں اسرائیل کے خلاف بغاوت ہوگئی۔ اسماعیل نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس پر انھیں اسرائیلی حکام نے 6 ماہ تک قید رکھا، بعد ازاں انھیں حماس کے سینئر رہنماؤں عبدالعزیز الرشتی اور محمود الہریر کے علاوہ 400 سے زائد دیگر کارکنوں کے ساتھ لبنان اسرائیلی سرحد پر مراج الظہور میں جلاوطن کردیا گیا۔ اسماعیل ہنیہ کو اپنی جلاوطنی کے دوران شہرت ملنا شروع ہوئی، انھیں اسلامی یونیورسٹی غزہ کا ڈین مقررکیا گیا۔
اسرائیل نے کئی دفعہ اسماعیل ہنیہ کی جان لینے کی کوشش کی تھی۔ 2003میں اسماعیل ہنیہ اور احمد یاسین غزہ شہر کے ایک رہائشی عمارت پر ہونے والے اسرائیلی طیارے کے حملے میں معمولی زخمی ہوئے، وہ صرف چند سیکنڈ قبل اس عمارت سے باہر نکلے تھے۔
شیخ احمد یاسین کو فجر کی نماز کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے اسرائیل کے ہیلی کاپٹر نے حملہ کر کے شہید کردیا، یوں حماس کی قیادت اسماعیل ہنیہ کو سونپ دی گئی۔ حماس نے اسماعیل ہنیہ کو وزیر اعظم کے عہدہ کے لیے نامزد کیا۔ انھوں نے 20 فروری 2006 کو وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال لیا مگر اسرائیلی طیارے مسلسل ان کا تعاقب کرتے رہے اور متعدد دفعہ ان کو براہِ راست نشانہ بنایا گیا۔ مئی 2017 میں اسماعیل کو حماس کے سیاسی ونگ کا سربراہ بنایا گیا۔
اسماعیل ہنیہ کی قیادت میں انتخابات میں حماس نے کامیابی حاصل کی۔ اسماعیل نے فلسطین کے صدر محمود عباس سے باہمی تعاون پر بات چیت کی مگر یہ بات چیت نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکی اور امریکا نے اسماعیل ہنیہ کو دہشت گرد قرار دیا۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ اسماعیل ہنیہ کے حماس کے دہشت گرد ونگ سے تعلقات ہیں مگر پھر اسماعیل ہنیہ اور حماس کی کارروائیاں خاصی حد تک زیرِ زمین چلی گئی تھیں۔
امریکی صحافیوں کا کہنا ہے کہ حماس اسرائیلی انٹیلی جنس نیٹ ورک کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوئی کہ اب حماس کے پاس کسی عسکری جنگ کی صلاحیت نہیں رہی ہے مگرگزشتہ اکتوبر میں حماس کے اسرائیل کے خلاف کامیاب آپریشن سے صورتحال تبدیل ہوگئی۔ اسرائیلی اور امریکی حکام کی توقعات کے باوجود حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل کے فوجی ٹھکانوں پرکامیاب حملے کیے اور جوابی حملوں کے خلاف مدافعتی دیوارکو اتنا مضبوط کیا کہ 9 ماہ ہوچکے ہیں اسرائیل غزہ میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکا ہے، مگر اس صورتحال کا ایک منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ جو عرب ریاستیں اسرائیل کو تسلیم کرنے جارہی تھیں اب وہ رائے عامہ کے دباؤ کی وجہ سے خاموش ہوگئیں۔
اس دفعہ اسرائیلی بربریت کے خلاف پوری دنیا کی فضاء بن گئی۔ متعدد لاطینی امریکی ممالک نے اسرائیل سے تعلقات توڑ لیے۔ جنوبی افریقہ فلسطینی کاز کا سب سے بڑا حامی بن کر ابھر آیا۔ امریکا اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں نوجوان طالب علموں نے اسرائیل کی غزہ میں جارحیت کے خلاف جدوجہد کی ایک نئی تاریخ رقم کی اور بعض مبصرین کی رائے ہے کہ امریکا میں رائے عامہ اتنی تبدیل ہوئی کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہیریسن کو غزہ کے بارے میں اپنے مؤقف میں لچک پیدا کرنی پڑی۔ اس واقعے سے ایک ہفتہ قبل ایک نئی تبدیلی رونما ہوئی۔ چین نے اسماعیل ہنیہ اور فلسطین کی ریاست کے صدر محمود عباس کو بیجنگ مدعوکیا اور دونوں رہنماؤں کے درمیان پرانے اختلافات ختم ہوئے اور مستقبل کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی کی بنیاد رکھنے پر اتفاق رائے ہوا۔
ایک اہم سوال ایران کے نظام کا بھی ہے۔ اسرائیل نے گزشتہ 5 برسوں کے دوران ایران کے شہریوں کو ان کے اپنے وطن میں نشانہ بنایا ہے۔ ان میں ایک سپہ سالار اور ایٹمی سائنس کے شعبے میں کام کرنے والے سینئر پروفیسر شامل ہیں۔ ایران کے سابق صدرکی ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ہلاکت کا معاملہ بھی ابھی حل طلب ہے۔ نیویارک ٹائمز نے تو واضح طور پر لکھ دیا ہے کہ اسماعیل جس گیسٹ ہاؤس میں قیام پذیر تھے وہ پاسدارانِ انقلاب کی زیرِ نگرانی تھا اور اس گیسٹ ہاؤس میں دو ماہ قبل ریموٹ بم رکھ کر دفن کردیا گیا تھا، اگرچہ ایرانی ذرایع اس خبرکی تردید کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کو قریب سے چلانے والے میزائل سے ہلاک کیا گیا مگر اس تردید کے باوجود اس سانحے میں ایران میں موجود اسرائیلی ایجنٹوں کا کردار تو واضح ہے۔ اگرچہ ایران نے اپنے ان شہریوں کی نشاندہی کرنے والے نیٹ ورک کی تلاش اور اس نیٹ ورک کو چلانے والوں کو سزائیں دینے کے لیے بہت کچھ کیا ہوگا مگر تہران کے انتہائی محفوظ علاقے میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران کا سیکیورٹی کا نظام کمزور ہوچکا ہے۔
یہ نظام کسی فرد کو بیرونی حملے سے محفوظ نہیں رکھ سکتا۔ ایران کے امور سے آگاہی رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ ایک سیاسی گھٹن کی جڑیں خاصی گہری ہوچکی ہیں۔ چند سال قبل ایک کرد لڑکی کو جس طرح خفیہ پولیس کے اہلکاروں نے محض مخصوص لباس نہ پہننے پر قتل کیا تھا اور پھرکئی ماہ تک مزاحمتی تحریک جاری رہی تھی، ایران کی حکومت نے اس تحریک کو بظاہر کچل دیا تھا۔ مگر حالیہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
ایران میں افغانستان کی طرح غربت نہیں ہے۔ اس تناظر میں یہ سوال اہم ہوگیا ہے کہ پھر کیوں متوسط یا نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد غیر ملکی طاقتوں کے آلہ کار بننے کو تیار ہو رہے ہیں؟حالات واقعات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ تمام نظام کمزور ہوچکا ہے۔ اس نظام کو شہریوں کو آزادی دے کر اور انھیں اس میں شریک کر کے ہی مستحکم کیا جاسکتا ہے۔ اسرائیل سے جنگ کے لیے عام آدمی کو بااختیار بنانا ضروری ہے۔
اسماعیل ہنیہ کے والدین کو 1948میں عرب اسرائیل جنگ کی وجہ سے مقبوضہ فلسطین کے قصبہ اشکون کے قریب اپنا گھر چھوڑنا پڑا تھا۔ اسماعیل ہنیہ جب نوجوانی میں قدم رکھ رہے تھے تو یاسر عرفات کی قیادت میں بی ایل او کی فلسطین کے خلاف جدوجہد جاری تھی مگر اسماعیل ہنیہ نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں عربی ادب کی تعلیم حاصل کی تھی اور اسلامی یونیورسٹی میں داخلہ لیا، وہ اسلامی تحریک میں شامل ہوئے۔
انھوں نے 1987میں غزہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ اسی سال غزہ میں اسرائیل کے خلاف بغاوت ہوگئی۔ اسماعیل نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس پر انھیں اسرائیلی حکام نے 6 ماہ تک قید رکھا، بعد ازاں انھیں حماس کے سینئر رہنماؤں عبدالعزیز الرشتی اور محمود الہریر کے علاوہ 400 سے زائد دیگر کارکنوں کے ساتھ لبنان اسرائیلی سرحد پر مراج الظہور میں جلاوطن کردیا گیا۔ اسماعیل ہنیہ کو اپنی جلاوطنی کے دوران شہرت ملنا شروع ہوئی، انھیں اسلامی یونیورسٹی غزہ کا ڈین مقررکیا گیا۔
اسرائیل نے کئی دفعہ اسماعیل ہنیہ کی جان لینے کی کوشش کی تھی۔ 2003میں اسماعیل ہنیہ اور احمد یاسین غزہ شہر کے ایک رہائشی عمارت پر ہونے والے اسرائیلی طیارے کے حملے میں معمولی زخمی ہوئے، وہ صرف چند سیکنڈ قبل اس عمارت سے باہر نکلے تھے۔
شیخ احمد یاسین کو فجر کی نماز کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے اسرائیل کے ہیلی کاپٹر نے حملہ کر کے شہید کردیا، یوں حماس کی قیادت اسماعیل ہنیہ کو سونپ دی گئی۔ حماس نے اسماعیل ہنیہ کو وزیر اعظم کے عہدہ کے لیے نامزد کیا۔ انھوں نے 20 فروری 2006 کو وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال لیا مگر اسرائیلی طیارے مسلسل ان کا تعاقب کرتے رہے اور متعدد دفعہ ان کو براہِ راست نشانہ بنایا گیا۔ مئی 2017 میں اسماعیل کو حماس کے سیاسی ونگ کا سربراہ بنایا گیا۔
اسماعیل ہنیہ کی قیادت میں انتخابات میں حماس نے کامیابی حاصل کی۔ اسماعیل نے فلسطین کے صدر محمود عباس سے باہمی تعاون پر بات چیت کی مگر یہ بات چیت نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکی اور امریکا نے اسماعیل ہنیہ کو دہشت گرد قرار دیا۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ اسماعیل ہنیہ کے حماس کے دہشت گرد ونگ سے تعلقات ہیں مگر پھر اسماعیل ہنیہ اور حماس کی کارروائیاں خاصی حد تک زیرِ زمین چلی گئی تھیں۔
امریکی صحافیوں کا کہنا ہے کہ حماس اسرائیلی انٹیلی جنس نیٹ ورک کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوئی کہ اب حماس کے پاس کسی عسکری جنگ کی صلاحیت نہیں رہی ہے مگرگزشتہ اکتوبر میں حماس کے اسرائیل کے خلاف کامیاب آپریشن سے صورتحال تبدیل ہوگئی۔ اسرائیلی اور امریکی حکام کی توقعات کے باوجود حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل کے فوجی ٹھکانوں پرکامیاب حملے کیے اور جوابی حملوں کے خلاف مدافعتی دیوارکو اتنا مضبوط کیا کہ 9 ماہ ہوچکے ہیں اسرائیل غزہ میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکا ہے، مگر اس صورتحال کا ایک منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ جو عرب ریاستیں اسرائیل کو تسلیم کرنے جارہی تھیں اب وہ رائے عامہ کے دباؤ کی وجہ سے خاموش ہوگئیں۔
اس دفعہ اسرائیلی بربریت کے خلاف پوری دنیا کی فضاء بن گئی۔ متعدد لاطینی امریکی ممالک نے اسرائیل سے تعلقات توڑ لیے۔ جنوبی افریقہ فلسطینی کاز کا سب سے بڑا حامی بن کر ابھر آیا۔ امریکا اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں نوجوان طالب علموں نے اسرائیل کی غزہ میں جارحیت کے خلاف جدوجہد کی ایک نئی تاریخ رقم کی اور بعض مبصرین کی رائے ہے کہ امریکا میں رائے عامہ اتنی تبدیل ہوئی کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہیریسن کو غزہ کے بارے میں اپنے مؤقف میں لچک پیدا کرنی پڑی۔ اس واقعے سے ایک ہفتہ قبل ایک نئی تبدیلی رونما ہوئی۔ چین نے اسماعیل ہنیہ اور فلسطین کی ریاست کے صدر محمود عباس کو بیجنگ مدعوکیا اور دونوں رہنماؤں کے درمیان پرانے اختلافات ختم ہوئے اور مستقبل کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی کی بنیاد رکھنے پر اتفاق رائے ہوا۔
ایک اہم سوال ایران کے نظام کا بھی ہے۔ اسرائیل نے گزشتہ 5 برسوں کے دوران ایران کے شہریوں کو ان کے اپنے وطن میں نشانہ بنایا ہے۔ ان میں ایک سپہ سالار اور ایٹمی سائنس کے شعبے میں کام کرنے والے سینئر پروفیسر شامل ہیں۔ ایران کے سابق صدرکی ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ہلاکت کا معاملہ بھی ابھی حل طلب ہے۔ نیویارک ٹائمز نے تو واضح طور پر لکھ دیا ہے کہ اسماعیل جس گیسٹ ہاؤس میں قیام پذیر تھے وہ پاسدارانِ انقلاب کی زیرِ نگرانی تھا اور اس گیسٹ ہاؤس میں دو ماہ قبل ریموٹ بم رکھ کر دفن کردیا گیا تھا، اگرچہ ایرانی ذرایع اس خبرکی تردید کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کو قریب سے چلانے والے میزائل سے ہلاک کیا گیا مگر اس تردید کے باوجود اس سانحے میں ایران میں موجود اسرائیلی ایجنٹوں کا کردار تو واضح ہے۔ اگرچہ ایران نے اپنے ان شہریوں کی نشاندہی کرنے والے نیٹ ورک کی تلاش اور اس نیٹ ورک کو چلانے والوں کو سزائیں دینے کے لیے بہت کچھ کیا ہوگا مگر تہران کے انتہائی محفوظ علاقے میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران کا سیکیورٹی کا نظام کمزور ہوچکا ہے۔
یہ نظام کسی فرد کو بیرونی حملے سے محفوظ نہیں رکھ سکتا۔ ایران کے امور سے آگاہی رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ ایک سیاسی گھٹن کی جڑیں خاصی گہری ہوچکی ہیں۔ چند سال قبل ایک کرد لڑکی کو جس طرح خفیہ پولیس کے اہلکاروں نے محض مخصوص لباس نہ پہننے پر قتل کیا تھا اور پھرکئی ماہ تک مزاحمتی تحریک جاری رہی تھی، ایران کی حکومت نے اس تحریک کو بظاہر کچل دیا تھا۔ مگر حالیہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
ایران میں افغانستان کی طرح غربت نہیں ہے۔ اس تناظر میں یہ سوال اہم ہوگیا ہے کہ پھر کیوں متوسط یا نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد غیر ملکی طاقتوں کے آلہ کار بننے کو تیار ہو رہے ہیں؟حالات واقعات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ تمام نظام کمزور ہوچکا ہے۔ اس نظام کو شہریوں کو آزادی دے کر اور انھیں اس میں شریک کر کے ہی مستحکم کیا جاسکتا ہے۔ اسرائیل سے جنگ کے لیے عام آدمی کو بااختیار بنانا ضروری ہے۔