بنگلہ دیش کا بحران اور نئے امکانات

یہ تحریک پھر کوٹہ سسٹم تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی فسطایت کو بھی چیلنج کیا

salmanabidpk@gmail.com

بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ غیر متوقع نہیں تھا ۔ کیونکہ حسینہ واجد کی حکمرانی نے جو حالات کئی برسوں سے پیدا کیے وہ ہی ان کی رخصتی کا سبب بنے ۔بظاہر یہ معاملہ کوٹہ سسٹم سے شروع ہوا اور نوجوانوں کی طرف سے سول نافرمانی کی یہ تحریک حسینہ واجد کے اقتدار کی رخصتی کے ساتھ سامنے آئی ۔حسینہ واجد کا یہ پانچواں دور حکومت تھا جہاں ان کی حکمرانی میں سیاسی مخالفین کے سوائے فسطایت پر مبنی حالات ، سیاسی دشمنی ، انتقام ، گرفتاریاں ، پھانسیاں ، سیاسی جماعتوں پر پابندی ،سیاسی گھٹن، معاشی بدحالی ،اظہار رائے پر پابندی ،بھارت نوازی کے سوا کچھ نہیں تھا ۔

اگرچہ بنگلہ دیش میں معاشی ترقی کے اعدادو شمار کو بنیاد بنا کر ان کی معاشی ترقی کی مثالیں دی جاتی تھیں مگر وہاں جو سیاسی حالات اور شہریوں کے بنیادی حقوق کا پامالی میں کھیلے جانے والے کھیل میں معاشی ترقی کا عمل بھی بہت پیچھے رہ گیا ۔حسینہ واجد کی اصل طاقت بھارت تھا مگر ان کے اس مشکل حالات میں بھارت یا مودی حکومت ان کے اقتدار کو نہ بچاسکی۔

بنگلہ دیش میں اٹھنے والی یہ طلبہ تحریک بنیادی طور پر 1971 کی آزادی کی جنگ میں لڑنے والے خاندانوں کا سرکاری نوکر ی کے کوٹہ خاتمہ کے مطالبہ سے شروع ہوئی ۔لیکن یہ تحریک پھر کوٹہ سسٹم تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی فسطایت کو بھی چیلنج کیا اور ان کواپنی مزاحمت سے سیاسی پسپائی پر مجبوربھی کیا۔عوام میں حسینہ واجد کی حکمرانی کے بارے میں جو غصہ تھا وہ ہم نے اس حالیہ مزاحمتی تحریک میں دیکھا جہاں لاکھوں نوجوان طالب علم جن میں لڑکے اور لڑکیاں شامل تھے پسپائی اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں تھے ۔حسینہ واجد حکومت پر الزام تھا کہ وہ کرپشن ، بدعنوانی ،ماروائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں میں ملوث ہے اور سیاسی مخالفین کوسیاسی راستہ دینے سے انکاری ہیں ۔

پچھلے انتخاب میں ان کا مینڈیٹ بھی جعلی تھا اور حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے مشترکہ بائیکاٹ کیا اور یکطرفہ انتخابی نظام کی بنیاد پر حسینہ واجد کی جیت کا اعلان کیا گیا جو عوامی مینڈیٹ اور شفافیت سے محروم حکومت تھی ۔حسینہ واجد کی بدترین آمرانہ سوچ میں ستر اور اسی سالہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے افراد کو سزائے موت بھی دینا تھی ۔ان میں جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمن نظامی ، اظہر اسلام،ابو صالح محمدعبدالعزیز، عبدالقادر ملا، علی احسان محمد مجاہد شامل تھے ۔اسی طرح 2014میں وفات پانے والے جماعت اسلامی کے سابق امیر جو برس کے تھے ان کو بھی 90برس قید سنائی گئی تھی ۔

حسینہ واجد اقتدار چھوڑ کر ملک سے فرار ہوئیں او ران کو بنگلہ دیش کی فوج نے باہر نکلنے کا ایک محفوظ راستہ دیا او ریقینی طور پر اس فرار میں بھارتی حکومت کی سہولت کاری بھی شامل ہوگی ۔بنگلہ دیش میں جو کچھ حسینہ واجد کے ساتھ ہوا وہ کوئی انقلاب نہیں بلکہ ایک غیر یقینی صورتحال کو پیش کرتی ہے ۔فوج کا فوری طورپر کنٹرول سنبھالنا اور باہمی مشاورت سے عبوری حکومت کے قیام کا اعلان سے یہ کہنا کہ فوری طورپر بنگلہ دیش جمہوریت کی طرف پیش رفت کرے گا ، قبل ازوقت ہوگا۔لیکن یہ فوجی مداخلت کی وجہ خود حسینہ واجد بھی ہیں۔

جنہوں نے تمام سیاسی امکانات اور سیاسی راستوں کو ختم کردیا تھا ۔و ہ سیاسی مخالفین کو کسی بھی صورت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں اور سب سے بڑی سیاسی مخالف خالدہ ضیا کو مسلسل قید ہی میں رکھا او رجماعت اسلامی سمیت ان کے لوگوں کے ساتھ وہی کچھ کیا جو انھیں نہیں کرنا چاہیے تھا۔اب سوال یہ ہے کہ کیا بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی رخصتی کے بعد فوج اپنے دائرہ کار کو محدود رکھے گی یا اس نافرمانی کی تحریک کو بنیاد بنا کر خود اپنے لیے طاقت کو پیدا کرے گی۔


اصولی طور پر تو فوج کو فوری طور سیاسی پابندیوں کا خاتمہ، گرفتارافراد کی رہائی اور تمام فریقین کی مرضی اور منشا کے مطابق منصفانہ اور شفاف عبوری حکومت کا قیام اور اس عبوری حکومت کی بنیاد پر منصفانہ اور شفاف انتخاب کی بنیاد پر انتقال اقتدار کی منتقلی اور ملک کو دوبارہ جمہوری اور سیاسی عمل کی طرف لے کر جانا ہونا چاہیے۔کیونکہ اگر بنگلہ دیش کی فوج حسینہ واجد کے اقتدار کے خاتمہ کو اپنے سیاسی مفادات کو بنیاد بنا کر استعمال کرے گی یا اقتدار کو طول دینے کی کوشش کرے گی تو بنگلہ دیش میں ہونے والی حالیہ تبدیلی کو بھی فوج کی ایک بڑی ساز باز کی بنیاد پر دیکھا جائے گا ۔

اس لیے بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے خلاف مزاحمت کرنے والے نوجوان طالب علم ، سیاسی جماعتوں سمیت سب کی مشترکہ ذمے داری ہے کہ وہ اپنی اس کامیابی کو آخری کامیابی نہ سمجھیں۔ حسینہ واجد رخصت ہوئی ہیں مگر ابھی بنگلہ دیش کا امتحان باقی ہے ۔

فوج کو بیرکوں تک محدود رکھنا اور غیر جانبدار منصفانہ عبوری حکومت اور منصفانہ شفاف فوری انتخاب اور پرامن انتقال اقتدار پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے او ران سب کو ہر اس عمل پر مزاحمت کرنی ہوگی جو راستہ بنگلہ دیش میںآمریت کومضبوط کرنے اور جمہوریت کو کمزور کرنے کا سبب بنے ۔اس لیے آج جو افراد یا جماعتیں بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی رخصتی پر سیاسی جشن منارہی ہیں ان کو محض گھروں میں نہیں بیٹھنا بلکہ اپنے سیاسی اور جمہوری نظام کو یقینی بنانے کے لیے ایک بڑا پہرا دینا ہوگا۔کیونکہ اگر بنگلہ دیش کے لوگوں اور سیاسی جماعتوں نے کمزوری کے پہلو دکھائے تو اس کا مجموعی فائدہ بنگلہ دیش میں غیر سیاسی قوتوں کو ہوگااوربنگلہ دیش کو جمہوریت کے لیے طویل انتظار کرنا ہوگا۔

جو کچھ بنگلہ دیش میں ہوا وہ پاکستان سمیت بہت سے ممالک کے لیے سیکھنے کا ایک سبق بھی ہے ۔ حزب اختلاف کی آوازوں کو دبا کر رکھنا اور سیاسی گھٹن پر مبنی ماحول یا غیر سیاسی سازگار حالات یا مخالفین کو دیوار سے لگانے کی پالیسی کا نتیجہ ہر ملک میں ایک بڑے سیاسی انتشار کے طور پر سامنے آتا ہے ۔جو لوگ پاکستان میں بیٹھ کر یہ منطق دیتے ہیں کہ سیاسی استحکام کو پیچھے چھوڑا جائے اور ایک غیر سیاسی یا نیم سیاسی نظام میں جسے بعض لوگ بنگلہ دیش ماڈل کا نام بھی دیتے تھے اسے بنیاد بنا کر محض معیشت پر توجہ دی جائے۔بنگلہ دیش میں جو کچھ ہوا وہ ان تمام لوگوں کے لیے سبق ہے جو یہاں بیٹھ کر سیاسی مہم جوئی پر فیصلہ کرنے والوں کو مجبور کرتے ہیں کہ سیاست نہیں معیشت ان کی ترجیح ہونی چاہیے۔

اسی طرح یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ ہم جمہوریت کے نام پر جو آمرانہ نظام یا قبائلی نظام کی بنیاد پر اور جعلی مینڈیٹ کو بنیاد بنا کر انتخابی و سیاسی نظام کو خراب کرتے ہیں وہ ہمارے پہلے سے موجود مسائل کو اور زیادہ گہرا کرتے ہیں ۔کیونکہ جب بھی کسی ریاستی نظام میں سیاسی حکمت عملیوں یا ایک دوسرے کو سیاسی طور پر برداشت نہ کرنے کی سوچ غالب آجائے تو وہاں یکطرفہ سیاسی اور نیم جمہوری نظام لوگوں میں یا معاشرے میں ایک بڑی سیاسی تقسیم اور انتشار کی سیاست کو پیدا کرتا ہے۔ آمریت کو روکنے کے لیے بھی ہمیں اپنے سیاسی نظام وگورننس سمیت دیگر مسائل کی بنیاد پر اصلاح یا اصلاحات کا عمل شروع کرنا ہوگا۔جب بھی نظام کی بنیاد جعلی اقدمات پر مبنی ہوگی اور جمہوریت یا سیاست کو محض ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا وہاں سیاسی اور جمہوری فکر کا مضبوط ہونا مشکل ہوتا ہے ۔

بنگلہ دیش کے بحران سے ہمیں بھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے ۔نئی نسل سوالات اٹھارہی ہے۔ روائتی اورفرسودہ نظام نئی نسل میں اپنی اہمیت کھورہا ہے۔لوگ اپنے سیاسی اور جمہوری سمیت معاشی حقوق کے لیے کوشاں ہیں اورموجودہ نظام کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوںگے ، کاش ہم بھی اپنی ماضی کی غلطیوں سے کچھ سیکھ سکیں ۔
Load Next Story