بنگلہ دیش جنریشن زی میں کچھ خاص ہے
سب سے بڑی سیاسی حریف خالدہ ضیا گزشتہ چھ سال سے پابند سلاسل رہیں۔
بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے اقتدار کا سانپ نکل گیا، اب ایک عالم اس کی لکیر پیٹ رہا ہے۔ اور کیوں نہ پیٹے؟ پانچ ہفتوں کی طلبا تحریک نے جس دلیری ، جرات اور باہمی ربط و نظم کے ساتھ ریاست کی اندھی قوت کا مقابلہ کیا، اس کی نظیر جنوبی ایشیا میں شاید ہی ملے۔ چار سو سے زائد ہلاکتیں ، ہزاروں زخمی اور گرفتار۔ کوٹے کے خلاف شروع ہوئی تحریک سول نافرمانی میں بدلی تو ہدف بھی تبدیل ہو گیا۔ کوٹہ سسٹم کا خاتمہ نہیں اب حسینہ واجد کی آمرانہ حکومت کا خاتمہ درکار تھا۔ فرعونیت اور مزاحمت کا خوفناک مقابلہ حسینہ واجد کے فرار پر منتج ہوا۔
نیرنگی دوراں دیکھیے کہ جس شخص یعنی ڈاکٹر یونس کو حسینہ واجد نے ذلیل اور رسوا کر کے جلاوطنی پر مجبور کیا، وہی شخص بحران کی گھڑی میں ملک کی کشتی کا متفقہ کھیون ہار بنا۔ پیرس میں جلا وطنی ختم کرکے 82 سالہ ڈاکٹر یونس بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ بن چکے ہیں۔ 16 رکنی کابینہ میں طلبا تحریک کے دو سرخیل بھی شامل ہیں۔ کابینہ میں کوئی بھی سیاست دان شامل نہیں کیا گیا۔
بنگلہ دیش اپنے قیام کے بعد پے در پے اقتدار کا تختہ پلٹے جانے کے کئی واقعات سے گزر چکا ہے۔ 2009 میں حسینہ واجد نے اقتدار سنبھالا تو تخت اور تختے کا کھیل ختم کرنے کے بجائے نفرت اور دشمن داری کا ایک نیا دور شروع کر دیا۔
سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگانے کا کام زور شور سے جاری کر دیا گیا۔ "جنگ آزادی" کی مخالفت کے نام پر جماعت اسلامی کے کئی عمر رسیدہ زعماء کو پھانسی اور جیل کی سزائیں دی گئیں۔ سب سے بڑی سیاسی حریف خالدہ ضیا گزشتہ چھ سال سے پابند سلاسل رہیں۔ سیاسی مخالفین کے علاوہ بھی ہر قسم کی مخالفت اور مختلف نقطہ ہائے نظر رکھنے والے گروپس پر بھی سختی اور جبر کا یہی عالم روا رکھا گیا۔ اس سیاسی انداز کا نتیجہ یہ نکلا کہ بنگلہ دیش میں پچھلی کئی دہائیوں سے جاری سیاسی تقسیم اور منافرت میں کمی کے بجائے مزید شدت پیدا ہوتی چلی گئی۔
2018 میں اسکول کے اسٹوڈنٹس نے ایک منی انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی ،بنیادی مقصد روڈ سیفٹی جیسے مطالبات تھے۔اسے ٹین ریولوشن (Teen Revolution) کا نام دیا گیا، انتظامی اداروں نے اسکول کے ان بچوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنا کر یہ تحریک ناکام بنائی گئی۔ حالیہ طلبہ تحریک میں 2018 میں مار کھائے ہوئے طلباء کی ایک کثیر تعداد بھی شامل تھی۔بنگلہ دیش کے سیاسی نظام میں یوتھ کی شمولیت بہت کم رہی ہے۔ مثلاً 2022 میں 30سال سے کم عمر ممبران پارلیمنٹ کی تعداد فقط 0.29فیصد تھی جب کہ 40 سال سے کم عمر ممبران کی تعداد 5.71 فیصد تھی۔
بنگلہ دیش نے 2009 کے بعد بہت معقول معاشی ترقی کی، جس کے نتیجے میں اسے علاقے میں تیز ترین معیشت کے طور پر جانا جاتا رہا۔ بیس سالوں کے دوران فی کس آمدنی میں تین گنا اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں اڑھائی کروڑ سے زیادہ آبادی غربت کی سطح سے بلند ہوئی۔ تاہم معاشی ترقی کے ثمرات انتہائی غیر مساوی طریقے سے تقسیم ہوئے۔ اقتصادی ترقی کے زیادہ تر ثمرات عوامی لیگ سے متعلق اور مراعات یافتہ دولت مند طبقے کو ملے۔ ایک اندازے کے مطابق بنگلہ دیش کے دس فیصد دولت مند افراد کے پاس قومی آمدنی کا 41 فیصد زیر تصرف تھا۔ جب کہ نچلی سطح کی دس فیصد آبادی کو بمشکل قومی آمدنی کا ایک 1.3 فیصد ملا۔اس منظم معاشی عدم مساوات نے نچلے اور درمیانے طبقے میں شدید بے چینی کو جنم دیا۔ احساس محرومی وقت کے ساتھ ساتھ غصے اور نفرت میں تبدیل ہوتی گئی۔
معاشی ترقی کے ثمرات یوتھ تک پہنچے اور نہ ان کے خوابوں کو تعبیر کی کوئی صورت ملی۔ 2023 کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 15 سے 29 سالوں کے درمیان 40 فی صد یوتھ NEET کیٹیگری میں پھنسی ہوئی تھی۔ یعنی نہ ہی وہ ملازمت پر تھے اور نہ زیر تعلیم و ٹریننگ تھے۔ یعنی
Not in education employment or training
ان اعدادوشمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یوتھ کی اس قدر بڑی تعداد مایوسی اور مجبوری کے عالم میں کسی بھی طرح اپنی کیفیت کو ظاہر کرنے کے لیے موقع کی تلاش میں تھی۔
آزادی کی جنگ میں شیخ مجیب الرحمٰن کی کامیابیوں کا سہرا سن سن کر نوجوانوں کی کثیر تعداد بیزار یا دلچسپی کھو چکی تھی۔ انھیں اپنے آج اور آنے والے کل کی فکر تھی۔ اس فکر کا جواب ملنا تو درکار ، ایک منظم انداز میں معاشی وسائل اور امکانات صرف اور صرف عوامی لیگ اور ان کے پروردہ طبقات تک مختص ہو کر رہ گئے۔ اس پر مستزاد یہ کہ احتجاج اور اختلاف کی ہر آواز کے لیے جبر کا تازیانہ۔جلد یا بدیر جبر کا یہ محل دھڑام سے گرنا ہی تھا۔ بنگلہ دیش کے اس سیاسی دھڑن تختے سے تین سبق واضح ہوئے۔
اول: معاشی ترقی اگر صرف بالائی طبقات کے لیے مخصوص ہو کر رہ جائے، اس کے ثمرات اجتماعی طور پر قوم کے دیگر طبقات تک نہ پہنچیں تو محروم طبقات کا غم و غصہ کھولتا رہتا ہے اور وقت آنے پر پوری شدت سے ظاہر ہوتا ہے۔
دوم: خوش کن بیانئے اور تاریخ کے دلنشین حوالے خلق خدا کے روزمرہ کے مسائل کا حل نہیں ہو سکتے۔ انصاف، اقتصادی مواقع، روزگار ،صحت، امن و امان اور قدرتی سیاسی عمل کے بغیر سوشل آرڈر تادیر بزور قائم نہیں رکھا جا سکتا۔
سوم: جنریشن زی یعنی وہ نوجوان جو گزشتہ پچیس تیس سالوں کے دوران پیدا ہوئے اور پروان چڑھے، وہ خالی بیانیوں سے مطمئن ہونے کے نہیں۔ وہ انفارمیشن ٹکینالوجی کے سبب دنیا سے آگاہ ہیں ، اپنی رائے کے اظہار میں بے باک اور دلیر ہیں۔ وقت پڑنے پر وہ روایتی طاقتوں سے ٹکرانے سے گریز نہیں کرتے۔
کینیا، سری لنکا، پاکستان اور اب بنگلہ دیش کے تحریکوں نے یہ ثابت کیا ہے جنریشن زی کو متحرک ہونے کے لیے روایتی سیاسی پارٹیوں اور قیادت کی ضرورت نہیں۔ وقت پڑنے پر وہ لسانی، مذہبی اور طبقاتی تفرقات سے بالا تر ہوکر سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی "لیڈرشپ" آپ پیدا کرنے کے اہل ہیں۔
پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اور رولنگ ایلیٹ کے لیے بنگلہ دیش کے واقعات میں بہت سے سبق ہیں اگر وہ سیکھنا چاہیں۔
نیرنگی دوراں دیکھیے کہ جس شخص یعنی ڈاکٹر یونس کو حسینہ واجد نے ذلیل اور رسوا کر کے جلاوطنی پر مجبور کیا، وہی شخص بحران کی گھڑی میں ملک کی کشتی کا متفقہ کھیون ہار بنا۔ پیرس میں جلا وطنی ختم کرکے 82 سالہ ڈاکٹر یونس بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ بن چکے ہیں۔ 16 رکنی کابینہ میں طلبا تحریک کے دو سرخیل بھی شامل ہیں۔ کابینہ میں کوئی بھی سیاست دان شامل نہیں کیا گیا۔
بنگلہ دیش اپنے قیام کے بعد پے در پے اقتدار کا تختہ پلٹے جانے کے کئی واقعات سے گزر چکا ہے۔ 2009 میں حسینہ واجد نے اقتدار سنبھالا تو تخت اور تختے کا کھیل ختم کرنے کے بجائے نفرت اور دشمن داری کا ایک نیا دور شروع کر دیا۔
سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگانے کا کام زور شور سے جاری کر دیا گیا۔ "جنگ آزادی" کی مخالفت کے نام پر جماعت اسلامی کے کئی عمر رسیدہ زعماء کو پھانسی اور جیل کی سزائیں دی گئیں۔ سب سے بڑی سیاسی حریف خالدہ ضیا گزشتہ چھ سال سے پابند سلاسل رہیں۔ سیاسی مخالفین کے علاوہ بھی ہر قسم کی مخالفت اور مختلف نقطہ ہائے نظر رکھنے والے گروپس پر بھی سختی اور جبر کا یہی عالم روا رکھا گیا۔ اس سیاسی انداز کا نتیجہ یہ نکلا کہ بنگلہ دیش میں پچھلی کئی دہائیوں سے جاری سیاسی تقسیم اور منافرت میں کمی کے بجائے مزید شدت پیدا ہوتی چلی گئی۔
2018 میں اسکول کے اسٹوڈنٹس نے ایک منی انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی ،بنیادی مقصد روڈ سیفٹی جیسے مطالبات تھے۔اسے ٹین ریولوشن (Teen Revolution) کا نام دیا گیا، انتظامی اداروں نے اسکول کے ان بچوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنا کر یہ تحریک ناکام بنائی گئی۔ حالیہ طلبہ تحریک میں 2018 میں مار کھائے ہوئے طلباء کی ایک کثیر تعداد بھی شامل تھی۔بنگلہ دیش کے سیاسی نظام میں یوتھ کی شمولیت بہت کم رہی ہے۔ مثلاً 2022 میں 30سال سے کم عمر ممبران پارلیمنٹ کی تعداد فقط 0.29فیصد تھی جب کہ 40 سال سے کم عمر ممبران کی تعداد 5.71 فیصد تھی۔
بنگلہ دیش نے 2009 کے بعد بہت معقول معاشی ترقی کی، جس کے نتیجے میں اسے علاقے میں تیز ترین معیشت کے طور پر جانا جاتا رہا۔ بیس سالوں کے دوران فی کس آمدنی میں تین گنا اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں اڑھائی کروڑ سے زیادہ آبادی غربت کی سطح سے بلند ہوئی۔ تاہم معاشی ترقی کے ثمرات انتہائی غیر مساوی طریقے سے تقسیم ہوئے۔ اقتصادی ترقی کے زیادہ تر ثمرات عوامی لیگ سے متعلق اور مراعات یافتہ دولت مند طبقے کو ملے۔ ایک اندازے کے مطابق بنگلہ دیش کے دس فیصد دولت مند افراد کے پاس قومی آمدنی کا 41 فیصد زیر تصرف تھا۔ جب کہ نچلی سطح کی دس فیصد آبادی کو بمشکل قومی آمدنی کا ایک 1.3 فیصد ملا۔اس منظم معاشی عدم مساوات نے نچلے اور درمیانے طبقے میں شدید بے چینی کو جنم دیا۔ احساس محرومی وقت کے ساتھ ساتھ غصے اور نفرت میں تبدیل ہوتی گئی۔
معاشی ترقی کے ثمرات یوتھ تک پہنچے اور نہ ان کے خوابوں کو تعبیر کی کوئی صورت ملی۔ 2023 کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 15 سے 29 سالوں کے درمیان 40 فی صد یوتھ NEET کیٹیگری میں پھنسی ہوئی تھی۔ یعنی نہ ہی وہ ملازمت پر تھے اور نہ زیر تعلیم و ٹریننگ تھے۔ یعنی
Not in education employment or training
ان اعدادوشمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یوتھ کی اس قدر بڑی تعداد مایوسی اور مجبوری کے عالم میں کسی بھی طرح اپنی کیفیت کو ظاہر کرنے کے لیے موقع کی تلاش میں تھی۔
آزادی کی جنگ میں شیخ مجیب الرحمٰن کی کامیابیوں کا سہرا سن سن کر نوجوانوں کی کثیر تعداد بیزار یا دلچسپی کھو چکی تھی۔ انھیں اپنے آج اور آنے والے کل کی فکر تھی۔ اس فکر کا جواب ملنا تو درکار ، ایک منظم انداز میں معاشی وسائل اور امکانات صرف اور صرف عوامی لیگ اور ان کے پروردہ طبقات تک مختص ہو کر رہ گئے۔ اس پر مستزاد یہ کہ احتجاج اور اختلاف کی ہر آواز کے لیے جبر کا تازیانہ۔جلد یا بدیر جبر کا یہ محل دھڑام سے گرنا ہی تھا۔ بنگلہ دیش کے اس سیاسی دھڑن تختے سے تین سبق واضح ہوئے۔
اول: معاشی ترقی اگر صرف بالائی طبقات کے لیے مخصوص ہو کر رہ جائے، اس کے ثمرات اجتماعی طور پر قوم کے دیگر طبقات تک نہ پہنچیں تو محروم طبقات کا غم و غصہ کھولتا رہتا ہے اور وقت آنے پر پوری شدت سے ظاہر ہوتا ہے۔
دوم: خوش کن بیانئے اور تاریخ کے دلنشین حوالے خلق خدا کے روزمرہ کے مسائل کا حل نہیں ہو سکتے۔ انصاف، اقتصادی مواقع، روزگار ،صحت، امن و امان اور قدرتی سیاسی عمل کے بغیر سوشل آرڈر تادیر بزور قائم نہیں رکھا جا سکتا۔
سوم: جنریشن زی یعنی وہ نوجوان جو گزشتہ پچیس تیس سالوں کے دوران پیدا ہوئے اور پروان چڑھے، وہ خالی بیانیوں سے مطمئن ہونے کے نہیں۔ وہ انفارمیشن ٹکینالوجی کے سبب دنیا سے آگاہ ہیں ، اپنی رائے کے اظہار میں بے باک اور دلیر ہیں۔ وقت پڑنے پر وہ روایتی طاقتوں سے ٹکرانے سے گریز نہیں کرتے۔
کینیا، سری لنکا، پاکستان اور اب بنگلہ دیش کے تحریکوں نے یہ ثابت کیا ہے جنریشن زی کو متحرک ہونے کے لیے روایتی سیاسی پارٹیوں اور قیادت کی ضرورت نہیں۔ وقت پڑنے پر وہ لسانی، مذہبی اور طبقاتی تفرقات سے بالا تر ہوکر سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی "لیڈرشپ" آپ پیدا کرنے کے اہل ہیں۔
پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اور رولنگ ایلیٹ کے لیے بنگلہ دیش کے واقعات میں بہت سے سبق ہیں اگر وہ سیکھنا چاہیں۔