سفر ہے شرط

سمیرا موسیٰ وہ پہلی مسلم خاتون سائنس دان تھیں جنھیں امریکی ایٹمی تنصیبات کے دورے کا موقع ملا تھا

بنگلہ دیش ترقی کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا، اس کے ٹکے کی قیمت ہمارے روپے کے مقابلے میں خاصی مستحکم تھی۔کہا گیا تھا کہ پاکستان سے انویسٹرز نے بڑی تعداد میں بنگلہ دیش کا رخ کیا تھا کہ وہاں سیکیورٹی کی صورت حال کے علاوہ معیشت میں بھی بہتری تھی۔ لوگ مثالیں دیتے تھے کہ بنگلہ دیش آج کہاں کھڑا ہے اور پاکستان نے اپنی کیا حالت کر لی ہے لیکن پچھلے کچھ عرصے سے بنگلہ دیش میں مسائل ایک الگ گھیرے میں چل رہے تھے جنھوں نے وقت کے ساتھ ساتھ پورے ملک کو اپنے شکنجے میں لے لیا۔

بنگلہ دیش ایک اسلامی ملک ہے، ہمارا پڑوسی لیکن آخر ایسا کیا چل رہا تھا کہ جس نے پورے ملک کے استحکام کو داؤ پر لگا دیا، یہاں تک کہ حسینہ واجدکو فرار ہونا پڑا اور ملک ایک بار پھر ایک ڈولتی ناؤ پر سوار ہے۔ بھارت سوگوار ہے یا خوش لیکن حسینہ واجد کے باعث سوچ میں گرفتار ضرور ہے بہرحال بنگلہ دیش کی سالمیت خطرے میں پڑ ہی گئی، ایسے جیسے بہت عرصے سے پلان کیا جا رہا ہو۔ بالکل ایسے جیسے حیرت ہوتی تھی کہ وہ ترقی کی سیڑھیاں کس طرح اڑتے اڑتے طے کر رہا تھا۔

سمیرا موسیٰ ایک ذہین بچی تھی لیکن غریب تھی، اس کی ذہانت کا یہ حال تھا کہ اس نے سیکنڈری اسکول میں ہی اپنی ذہانت سے اپنے اساتذہ کو متاثر کر دیا تھا۔ یہ آج کے بھاگتے دوڑتے زمانے کی کہانی نہیں ہے۔ یہ 1917 کی بات ہے جب مصر کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک عام سی بچی نے جنم لیا اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ خاص ہوتی چلی گئی۔ ان کے والد ایک سیاسی کارکن تھے جبکہ والدہ بچپن میں ہی بیمار ہوکر چل بسی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ سمیرا نے اپنے اسکول میں الجبرا کی کئی غلطیاں نکال کر درست کی تھیں جو ان کے نصاب میں شامل تھیں۔ ان کے خواب بہت آگے کے تھے اور وہ اس میں کسی حد تک کامیاب بھی رہی تھیں۔

گو انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کی ان کی خواہش تھی اور وہ اس ابتدائی معرکے میں نمایاں ٹھہری تھیں لیکن تحقیق و جستجو نے سمیرا کو ریڈیالوجی کی جانب متوجہ کیا۔ یہ شعبہ اس زمانے میں تحقیقات کا متقاضی تھا یوں وہ قاہرہ یونیورسٹی سے 1939 میں بی ایس ریڈیالوجی مکمل کر کے نکلیں تو تحقیق کے دَر ابھی وا تھے۔ تابکاری کے اثرات ان کی تحقیق کا موضوع تھا۔ شاید اس میں کہیں ان کی والدہ کی بیماری کا بھی کوئی سرا تھا جو کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوئی تھیں۔ وہ قاہرہ یونیورسٹی میں پہلی پروفیسر خاتون مقرر ہوئی تھیں۔ تحقیق کا شوق بدستور قائم تھا جو انھیں برطانیہ لے گیا۔

انھوں نے پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کیا اور جوہری سائنس کے حوالے سے پہلی خاتون سائنس دان بن گئیں۔ انھوں نے جوہری سائنس کو پہلی بار طبی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔ ایک کے بعد ایک وہ انسانی خدمات میں جتی رہیں وہ دنیا کو سائنس سے حاصل ہونے والے عناصر کو بھلائی کے لیے استعمال ہوتا دیکھنا چاہتی تھیں یعنی ایک امن پسند سائنس دان جو اپنی ایجادات کو، تحقیقات کو انسانیت کے لیے بروئے کار لا کر اپنی ذہانت کا شکر ادا کرسکے۔

سمیرا موسیٰ وہ پہلی مسلم خاتون سائنس دان تھیں جنھیں امریکی ایٹمی تنصیبات کے دورے کا موقع ملا تھا۔ علاج آج بھی غریب اور متوسط طبقے کے لیے مہنگا ہے، سمیرا کی کوشش تھی کہ بڑی اور مشکل بیماری کینسر کی شفا کے لیے علاج کو اتنا ارزاں کر دیا جائے کہ مشکل پہاڑ جیسی نہ لگے لیکن طبی علاج کی سہولیات اور سمیرا موسیٰ کی کاوشوں کا سفر ادھورا ہی رہ گیا۔ کہا جاتا ہے کہ انھیں پیشکش کی گئی تھی کہ وہ امریکا میں رہ کر اپنی ذہانت سے انھیں مستفید کریں جسے انھوں نے رد کر دیا تھا۔ ان کے خیال میں ان کا ملک ان کی ذہانتوں کا منتظر ہے لیکن سمیرا کی اچانک موت واقع ہو جاتی ہے۔


پانچ اگست 1952 سمیرا کی گاڑی ایک گہری کھائی میں گر جاتی ہے اور سمیرا کی ساری خواہشات، منصوبے، ایجادات ان کے ساتھ دفن ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک پلان تھا، اتفاق یا کچھ اور بہرحال آج بھی ہم بس سوچتے رہ جاتے ہیں لیکن ایسا ہو چکا ہے۔

وقت تو گزر ہی جاتا ہے باتیں رہ جاتی ہیں۔ ذہانتیں ابھرتی ہیں اور کھو جاتی ہیں۔ ارفع کریم بھی ایک ایسا ہی نام ہے جو ابھری اور کھو گئی۔ 1995 میں فیصل آباد میں ایک پیاری سی بچی پیدا ہوتی ہے۔ جس علاقے میں وہ پیدا ہوئی اسے پہلے رام دیوالی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ آج اسے ارفع نگرکہہ کر پکارا جاتا ہے۔ یہ ذہین بچی کیا غضب کی تھی اس کی انگریزی بہت اعلیٰ درجے کی نہ تھی لیکن محض نو برس کی عمر میں وہ مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل بن چکی تھی۔

اس کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہے۔ کیونکہ یہ ایک کم عمر ترین ایم سی پی ہے، جسے دس برس کی عمر میں پائلٹ کا لائسنس ملا تھا۔ یہ ایک کمال تھا وہ آگے بڑھنا چاہتی تھی، اپنے وطن اور لوگوں کے لیے کام کرنا چاہتی تھی، ترقی کرنا چاہتی تھی۔ اس نے اپنے دادا کے نام پر فیصل آباد میں ہی کریم سافٹ لیب قائم کی تھی، جہاں بچے کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ اس کی ذہانت کمال کی تھی۔ دماغ میں پلان بنت کرتے رہتے تھے، ملک کو وہ ترقی کی بلندیوں پر دیکھنا چاہتی تھی کہ اچانک دماغ سو گیا۔ اس کی صلاحیتیں تھک گئیں اور پھر ایک خبر ارفع کریم دل کے دورے میں چل بسیں۔ پورا ملک سوگوار تھا اور وہ بل گیٹس بھی جس نے نو سال کی اس ننھی سی بچی کو دیکھ کر بھانپ لیا تھا کہ یہ ہیرا ہے۔ بہرحال ارفع کی عمر بس اتنی ہی تھی فقط سولہ سال۔

فلسطین میں یہودیوں نے اپنا کھیل گرم کر رکھا ہے کہ بنگلہ دیش کے ہنگامے پھوٹ پڑے، تین طالب علموں کا نام ابھر ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔ یہ طلبا تنظیم کیا کر رہی ہے، کوٹہ سسٹم حسینہ واجد کی انا کا مسئلہ کیوں بنا، وہ بھارت ہی کیوں فرار ہوئیں، یہ سب کیا چل رہا ہے؟ بات سمیرا موسیٰ، ارفع کریم اور ان تین طالب علموں تک چلی آئی۔

فلسطین کی صورت حال ساٹھ کی دہائی میں بھی خراب تھی اور آج بھی ابتر ہے۔ دنیا کی آنکھ پر بار بار چشمے بدلنے سے دنیا اندھی نہیں ہو جاتی۔ سفر تو جاری ہے، اچھائی اور برائی کا، حق اور ناحق کا، جیت کس کی ہوتی ہے یہ کس کو خبر؟ لیکن اپنے حصے میں برائی اور حق غصب کرنے کا عذاب نہ سمیٹیں کہ فیصلے کے دن مسائل پیدا ہوں گے۔
Load Next Story