اداسی کے موسم میں خوشی کے لمحات
جن حالات میں ارشد ندیم نے کامیابی حاصل کی اس پر عالمی دنیا اور اس سے جڑی ٹیمیں اور ماہرین بھی حیران ہیں
یہ واقعی ایک نوجوان میں موجود یقین کی فتح تھی ۔ ارشد ندیم نے واقعی کمال کردیا ہے او رایک ایسی قوم کو جو کافی عرصے سے کسی بڑی خوشی اور کامیابی کی تلاش میں تھی، ارشد ندیم نے بجھے اور اداس چہروں کو نئی امید، خوشی اور روشنی دی ہے ۔
ارشد ندیم کی 92.97کی گولڈن تھرو نے نہ صرف اسے بلکہ اس کھیل میں پاکستان کو ایک ایسے مقام پر کھڑ ا کیا جہاں ہم فخر سے او رسینہ تان کر کھڑے ہوسکتے ہیں بلکہ اس نوجوان نے اس کھیل میں118بر س ریکارڈ کو توڑ ا بلکہ 40برس بعد ہم اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتے۔ اسی طرح انفرادی سطح پر وہ پہلے پاکستانی ہیں جنھوں نے یہ اعزاز اپنے نام کیا ہے۔
یہ ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو پنجاب کے ایک علاقے میاں چنوں سے تعلق رکھتا ہے ۔ کم اور محدود وسائل سمیت غربت میں اس نوجوان نے آنکھ کھولی اور جوانی میں ایک ایسے کھیل سے آغاز کیا جسے نہ تو کوئی جانتا تھا اور نہ ہی کوئی اس کھیل کا شوق رکھتا اور نہ ہی ریاستی و حکومتی سطح پر اس کھیل اور اس سے وابستہ نوجوانوں کی کوئی سرپرستی یا قدر کرنے کے تیار تھا ۔اس کھیل کی میڈیا کی سطح پر بھی کوئی جھلک یا پزیرائی دیکھنے کو نہیں ملتی تھی۔
اس کھیل سے وابستہ نوجوانوں کے جو مسائل کھیل میں ملنے والی سہولتوں سے تعلق رکھتے ہیں وہیں ان غریب اور پسماندہ علاقو ں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے مالی مسائل سمیت روزگار اور صحت کی سہولتیں نہ ملنا بھی ان کے دکھوں میں شامل ہے ۔یہ کامیابی محض ارشد ندیم تک محدود نہیں بلکہ اس کے فولادی ارادے ، خود اعتمادی اور انتھک محنت ، ہمت نہ ہارنے والے حوصلہ کی بھی ہے ۔ ہماری نئی نسل اور خاص طور پر محدود وسائل میں رہ کر مختلف کھیل کھیلنے والوں کو ارشد ندیم سے یہ سیکھنا چاہیے کہ خوابوں کو کیسے پورا کیا جاتا ہے۔
اس کھیل کی نہ تو کوئی سرکاری یا ریاستی سرپرستی ہے او رنہ ہی اس کھیل یعنی جیولین تھرو کو حکومت نے کوئی کھیل سمجھا ۔ ہم نے اگر کسی کھیل میں کوئی بڑی سرمایہ کاری یا کسی کھیل کو اپنی ترجیحا ت کا حصہ بنایا ہے تو وہ صرف کرکٹ ہے ۔ کرکٹ سے وابستہ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی ، بڑی بڑی مالی مراعات و تنخواہیں ،کھیلوں کے میدان حاصل ہیں ۔لیکن پہلے ہم نے سیاسی مداخلتو ں ، عدم ترجیحات، اقرباپروری ، میرٹ کا قتل اور کھیلوں کے ساتھ ناانصافی پر مبنی سلوک کرکے ہاکی کے کھیل کو برباد کیا اور پھر دیگر کھیلوں کے ساتھ سیاسی یتیمی اور بدسلوکی کا مظاہر ہ کیا جو عملی طور پر ظاہر کرتا ہے کہ ہم اپنے عمل ،پالیسیوں اور حکمت عملی کی بنیاد پر کرکٹ کے علاوہ باقی کھیلوں کے ساتھ مجرمانہ غفلت کا شکار ہوکر قومی سطح پر مجرم کی حیثیت سے کھڑے ہیں۔
جن حالات میں ارشد ندیم نے کامیابی حاصل کی اس پر عالمی دنیا اور اس سے جڑی ٹیمیں اور ماہرین بھی حیران ہیں ۔ بھارت کے بڑے کھلاڑی نیرج چوپڑہ کو جو بھارت میں سہولتیں سمیت عالمی کوچز دستیاب تھے مگر ہم ان سب سے محروم رہے ہیں۔ لیکن اس نوجوان ارشد ندیم نے اپنی مدد آپ کے تحت او راپنے بلند حوصلوں کو بنیاد بنا کر خود محنت کی او رجہاں سے بھی اسے راہنمائی مل سکتی تھی اسے یقینی بنایا۔
میں خودبھی ایک اسپورٹس مین رہا ہوں ۔ بخوبی جانتا ہوں اتھلیٹ سمیت باکسنگ، ریسلنگ کبڈی ، والی بال، بیڈمنٹن اور ٹیبل ٹینس ، ہاکی اور فٹ بال کے کھلاڑی کن حالات میں کھیل رہے ہیں ۔ ایسے کئی نوجوانوں کو جانتا ہوں جو اتھیلٹ ہیں اور قومی یا صوبائی سطح پر ملک و صوبہ کی نمایندگی کرتے ہیں مگر آپ ان کے حالات کو سنیں تو واقعی دکھ ہوتا ہے کہ ہم ان نوجوانوں پر کیا سرمایہ کاری کررہے ہیں اور کیا ہم ان سے بڑے نتائج کی توقع رکھتے ہیں ۔ان نوجوانوں کے مالی مسائل اس قدر سنگین ہیں کہ بس مت پوچھیں کہ وہ کیسے اور کن حالات میں بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ان کو اپنے کھیل میں جو بنیادی نوعیت کی خوراک درکار ہے جو جسمانی طور پر ان کو مضبوط بناسکے اس سے بھی یہ لوگ محرومی کا شکار ہیں ۔
ارشد ندیم نے پاکستان اور اس کے سبز ہلالی پرچم کو جو عزت دی ہے، اس نے تمام پاکستانیوں کو خوش کردیا ہے ۔ ارشد ندیم کی جس جس نے بھی سرپرستی کی ،ہمت بڑھائی ، حوصلہ دیا ،وسائل دیے ، پزیرائی دی وہ سب ہماری مبارکباد کے مستحق ہیں بالخصوص اس کی پیاری ماں کی باتیں سنی تو آنکھیں بھیگ گئی اور سب سے ہم بات بھارت کے نمبر وہ نیرج چوپڑہ کی ماں نے ارشد ندیم کو مبارکباد دی او راسے بھی اپنا ہی بیٹا کہا تو دل اور باغ باغ ہو گیا۔ ارشد ندیم نے اس کامیابی کے ساتھ ملک میںموجود بجھے ہوئے چہروں پر نئی امید کے دیے سجائے ہیںجو ظاہر کرتا ہے کہ کامیابی میں وسائل کی اہمیت اپنی جگہ مگر خدا کی ذات پر یقین ، لگن، شوق، جستجو ، امنگ، محنت ، مقابلہ او ربلند ارادو ں سمیت بڑے خوابوں کا بھی عمل دخل ہے۔
محض حالات کی بنیاد پر ماتم کرنا مسئلہ کا حل نہیں بلکہ مشکل حالات میں اپنے لیے راستہ بنانا اور کامیابی حاصل کرنا ہی بہترین حکمت عملی ہے ۔ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ہرمحاذ پر اور ہرمیدان یا ہر شعبہ میں وہی لوگ اپنا نام بناتے ہیں جو بڑے خوابوں کو بھی دیکھتے ہیں مگر محض خواب ہی نہیں بلکہ ان کی تکمیل میں اپنے عمل کو بھی ترتیب دے کر ان میں رنگ بھرتے ہیں ۔ارشد ندیم ہمار ا قومی ہیرو ہے اور اس ہیروکو جب موقع ملا اس نے ثابت کیا وہ واقعی ہیرو کا درجہ رکھتا ہے ۔لیکن ارشد ندیم جیسے کئی ہیروز اس وقت بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔کاش ہم جولین تھرو سمیت دیگر کھیلوں کے ساتھ رکھے جانے والے سوتیلے سلوک سے باہر نکلیں اور جو دستک کھیلوں کے اس نظام پر ارشد ندیم نے دی ہے اسے سننے کی کوشش کریں ۔ویل ڈن ارشد ندیم ۔
ارشد ندیم کی 92.97کی گولڈن تھرو نے نہ صرف اسے بلکہ اس کھیل میں پاکستان کو ایک ایسے مقام پر کھڑ ا کیا جہاں ہم فخر سے او رسینہ تان کر کھڑے ہوسکتے ہیں بلکہ اس نوجوان نے اس کھیل میں118بر س ریکارڈ کو توڑ ا بلکہ 40برس بعد ہم اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتے۔ اسی طرح انفرادی سطح پر وہ پہلے پاکستانی ہیں جنھوں نے یہ اعزاز اپنے نام کیا ہے۔
یہ ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو پنجاب کے ایک علاقے میاں چنوں سے تعلق رکھتا ہے ۔ کم اور محدود وسائل سمیت غربت میں اس نوجوان نے آنکھ کھولی اور جوانی میں ایک ایسے کھیل سے آغاز کیا جسے نہ تو کوئی جانتا تھا اور نہ ہی کوئی اس کھیل کا شوق رکھتا اور نہ ہی ریاستی و حکومتی سطح پر اس کھیل اور اس سے وابستہ نوجوانوں کی کوئی سرپرستی یا قدر کرنے کے تیار تھا ۔اس کھیل کی میڈیا کی سطح پر بھی کوئی جھلک یا پزیرائی دیکھنے کو نہیں ملتی تھی۔
اس کھیل سے وابستہ نوجوانوں کے جو مسائل کھیل میں ملنے والی سہولتوں سے تعلق رکھتے ہیں وہیں ان غریب اور پسماندہ علاقو ں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے مالی مسائل سمیت روزگار اور صحت کی سہولتیں نہ ملنا بھی ان کے دکھوں میں شامل ہے ۔یہ کامیابی محض ارشد ندیم تک محدود نہیں بلکہ اس کے فولادی ارادے ، خود اعتمادی اور انتھک محنت ، ہمت نہ ہارنے والے حوصلہ کی بھی ہے ۔ ہماری نئی نسل اور خاص طور پر محدود وسائل میں رہ کر مختلف کھیل کھیلنے والوں کو ارشد ندیم سے یہ سیکھنا چاہیے کہ خوابوں کو کیسے پورا کیا جاتا ہے۔
اس کھیل کی نہ تو کوئی سرکاری یا ریاستی سرپرستی ہے او رنہ ہی اس کھیل یعنی جیولین تھرو کو حکومت نے کوئی کھیل سمجھا ۔ ہم نے اگر کسی کھیل میں کوئی بڑی سرمایہ کاری یا کسی کھیل کو اپنی ترجیحا ت کا حصہ بنایا ہے تو وہ صرف کرکٹ ہے ۔ کرکٹ سے وابستہ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی ، بڑی بڑی مالی مراعات و تنخواہیں ،کھیلوں کے میدان حاصل ہیں ۔لیکن پہلے ہم نے سیاسی مداخلتو ں ، عدم ترجیحات، اقرباپروری ، میرٹ کا قتل اور کھیلوں کے ساتھ ناانصافی پر مبنی سلوک کرکے ہاکی کے کھیل کو برباد کیا اور پھر دیگر کھیلوں کے ساتھ سیاسی یتیمی اور بدسلوکی کا مظاہر ہ کیا جو عملی طور پر ظاہر کرتا ہے کہ ہم اپنے عمل ،پالیسیوں اور حکمت عملی کی بنیاد پر کرکٹ کے علاوہ باقی کھیلوں کے ساتھ مجرمانہ غفلت کا شکار ہوکر قومی سطح پر مجرم کی حیثیت سے کھڑے ہیں۔
جن حالات میں ارشد ندیم نے کامیابی حاصل کی اس پر عالمی دنیا اور اس سے جڑی ٹیمیں اور ماہرین بھی حیران ہیں ۔ بھارت کے بڑے کھلاڑی نیرج چوپڑہ کو جو بھارت میں سہولتیں سمیت عالمی کوچز دستیاب تھے مگر ہم ان سب سے محروم رہے ہیں۔ لیکن اس نوجوان ارشد ندیم نے اپنی مدد آپ کے تحت او راپنے بلند حوصلوں کو بنیاد بنا کر خود محنت کی او رجہاں سے بھی اسے راہنمائی مل سکتی تھی اسے یقینی بنایا۔
میں خودبھی ایک اسپورٹس مین رہا ہوں ۔ بخوبی جانتا ہوں اتھلیٹ سمیت باکسنگ، ریسلنگ کبڈی ، والی بال، بیڈمنٹن اور ٹیبل ٹینس ، ہاکی اور فٹ بال کے کھلاڑی کن حالات میں کھیل رہے ہیں ۔ ایسے کئی نوجوانوں کو جانتا ہوں جو اتھیلٹ ہیں اور قومی یا صوبائی سطح پر ملک و صوبہ کی نمایندگی کرتے ہیں مگر آپ ان کے حالات کو سنیں تو واقعی دکھ ہوتا ہے کہ ہم ان نوجوانوں پر کیا سرمایہ کاری کررہے ہیں اور کیا ہم ان سے بڑے نتائج کی توقع رکھتے ہیں ۔ان نوجوانوں کے مالی مسائل اس قدر سنگین ہیں کہ بس مت پوچھیں کہ وہ کیسے اور کن حالات میں بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ان کو اپنے کھیل میں جو بنیادی نوعیت کی خوراک درکار ہے جو جسمانی طور پر ان کو مضبوط بناسکے اس سے بھی یہ لوگ محرومی کا شکار ہیں ۔
ارشد ندیم نے پاکستان اور اس کے سبز ہلالی پرچم کو جو عزت دی ہے، اس نے تمام پاکستانیوں کو خوش کردیا ہے ۔ ارشد ندیم کی جس جس نے بھی سرپرستی کی ،ہمت بڑھائی ، حوصلہ دیا ،وسائل دیے ، پزیرائی دی وہ سب ہماری مبارکباد کے مستحق ہیں بالخصوص اس کی پیاری ماں کی باتیں سنی تو آنکھیں بھیگ گئی اور سب سے ہم بات بھارت کے نمبر وہ نیرج چوپڑہ کی ماں نے ارشد ندیم کو مبارکباد دی او راسے بھی اپنا ہی بیٹا کہا تو دل اور باغ باغ ہو گیا۔ ارشد ندیم نے اس کامیابی کے ساتھ ملک میںموجود بجھے ہوئے چہروں پر نئی امید کے دیے سجائے ہیںجو ظاہر کرتا ہے کہ کامیابی میں وسائل کی اہمیت اپنی جگہ مگر خدا کی ذات پر یقین ، لگن، شوق، جستجو ، امنگ، محنت ، مقابلہ او ربلند ارادو ں سمیت بڑے خوابوں کا بھی عمل دخل ہے۔
محض حالات کی بنیاد پر ماتم کرنا مسئلہ کا حل نہیں بلکہ مشکل حالات میں اپنے لیے راستہ بنانا اور کامیابی حاصل کرنا ہی بہترین حکمت عملی ہے ۔ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ہرمحاذ پر اور ہرمیدان یا ہر شعبہ میں وہی لوگ اپنا نام بناتے ہیں جو بڑے خوابوں کو بھی دیکھتے ہیں مگر محض خواب ہی نہیں بلکہ ان کی تکمیل میں اپنے عمل کو بھی ترتیب دے کر ان میں رنگ بھرتے ہیں ۔ارشد ندیم ہمار ا قومی ہیرو ہے اور اس ہیروکو جب موقع ملا اس نے ثابت کیا وہ واقعی ہیرو کا درجہ رکھتا ہے ۔لیکن ارشد ندیم جیسے کئی ہیروز اس وقت بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔کاش ہم جولین تھرو سمیت دیگر کھیلوں کے ساتھ رکھے جانے والے سوتیلے سلوک سے باہر نکلیں اور جو دستک کھیلوں کے اس نظام پر ارشد ندیم نے دی ہے اسے سننے کی کوشش کریں ۔ویل ڈن ارشد ندیم ۔