بلوچستان میں کپاس کی پیداوار میں نمایاں کمی کاٹن سیکٹر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی

بڑے برآمد کنندگان نے بیرون ملک سے روئی کی درآمد کے ایڈوانس سودے شروع کر دیے ہیں

فوٹو- فائل

سندھ میں رواں سال کپاس کی پیداوار میں غیر معمولی کمی کے بعد بلوچستان میں کپاس کی کاشت کا صرف 15فیصد حاصل ہونے کے انکشاف کے بعد پورے کاٹن سیکٹر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

بڑے برآمد کنندگان نے بیرون ملک سے روئی کی درآمد کے ایڈوانس سودے شروع کر دیے جبکہ اندرون ملک دھاگے کی فروخت پر 18فیصد سیلز ٹیکس عائد ہوا لیکن برآمدی ٹیکسٹائل ملز کے لئے دھاگے کی درآمد سیلز ٹیکس فری ہونے کے باعث دھاگے کی درآمد میں بھی غیر معمولی اضافے کا امکان ہے۔

پہلے سے ہی شدید مالی بحران میں مبتلا ٹیکسٹائل سیکٹر کے بحران میں مزید اضافے کے خدشات کے ساتھ اندرون ملک روئی اور کپاس کی قیمتوں میں مندی کا رحجان دیکھا جارہا ہے۔

چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بتایا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے رواں سال کے لئے بلوچستان میں کپاس کی کاشت کا ہدف آٹھ لاکھ آٹھ ہزار مختص کیا گیا تھا لیکن کراپ رپورٹنگ سروسز کے مطابق پورے بلوچستان میں رواں سال کپاس کی کاشت صرف ایک لاکھ انیس ہزار ایکڑ پر ہی ہو سکی ہے جو کہ ہدف کا صرف 15فیصد ہے۔


انہوں نے مزید بتایا کہ تقریباً ایک دہائی بعد کاٹن ایئر 2022-23 کے دوران سندھ میں کپاس کی پیداوار ہدف سے زائد پیدا ہوئی تھی جو کہ ہدف چالیس لاکھ بیلز کے مقابلے میں ایک لاکھ چودہ ہزار بیلز زائد ہونے کے ساتھ ساتھ کاٹن ایئر 2021-22 کے مقابلے میں ریکارڈ 119فیصد زائد تھی ۔

رواں سال اکتیس جولائی تک سندھ میں کپاس کی پیداوار میں گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں ریکارڈ 47فیصد کمی واقع ہوئی ہے جس کی بڑی وجوہات میں کم رقبے پر کاشت کے ساتھ ساتھ سندھ کے بیشتر زمینداروں کی طرف سے نئی نئی اقسام کے گھریلو بیج کا استعمال سمجھا جا رہا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اطلاعات کے مطابق امریکا برازیل، تنزانیہ اور افغانستان سے اب روئی کی تقریباً 7 سے 8لاکھ گانٹھوں کے درآمدی معاہدے ہوچکے ہیں اور یہ روئی ایک دو ماہ کے اندر پاکستان پہنچنا شروع ہو جائے جس کے باعث اندرون ملک روئی اور کپاس کی قیمتوں میں مندی کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کو چاہیئے کہ وہ پہلے کی طرح برآمدی ٹیکسٹائل سیکٹرکے لئے اندرون ملک سے خریدی گئی روئی اور سوتی دھاگے پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ بحال کرے تاکہ شدید بحران کی شکار ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی برآمدات میں بھی بہتر آ سکے۔
Load Next Story