انور حسین سے آرزو لکھنوی تک

آرزو لکھنوی کو جب جلال لکھنوی کی شاگردی میں دیا گیا تو اس وقت ان کی عمر تیرہ سال کے قریب تھی

hamdam.younus@gmail.com

ابتدا میں جب بولتی فلموں کا آغاز ہوا تو وہ بغیرگیتوںکے ہوتی تھیں پھر آہستہ آہستہ فلم بینوں کے ذوق کو مزید تسکین دینے کے لیے فلموں میں گیتوں کی سچویشن بھی ڈالی گئی۔ آغاز میں آرٹسٹ اپنے گانے خود ہی گاتے تھے اور اس طرح موسیقی کے ساتھ پلے بیک سنگرزکا بھی استعمال کیا گیا اور مرد و خواتین گلوکاروں نے فلمی گیتوں میں اپنی آواز کا جادو جگانا شروع کیا تھا۔ کندن لال سہگل پہلے پلے بیک سنگر تھے جنھوں نے فلم شاہجہان میں گیت گایا تھا اور جو ان ہی پر فلمایا گیا تھا۔ گیت کے بول آرزو لکھنوی نے لکھے تھے۔

جب دل ہی ٹوٹ گیا

ہم جی کے کیا کریں گے

یہ فلم اپنے دورکی ایک کامیاب فلم تھی اور فلم بینوں میں اسے بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ اس فلم کے ہدایت کار اے آر کاردار تھے اور یہ فلم 1946 میں ریلیز ہوئی تھی اور اس وقت تک ہندوستان کا بٹوارہ نہیں ہوا تھا اور پاکستان وجود میں نہیں آیا تھا۔

شاعر آرزو لکھنوی کو پہلے فلمی گیت نگارکا اعزاز بھی جاتا ہے۔ آرزو لکھنوی 1872 میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے تھے ان کا گھریلو نام سید انور حسین تھا اور ان کے والد کا نام سید ذاکر حسین تھا جو ایک ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے بڑے بھائی میر یوسف حسین بھی شاعر تھے اور ادبی حلقوں میں ان کی شاعری کو بہت پسند کیا جاتا تھا، اپنے بھائی کی شاعری سے انور حسین بھی متاثر ہوئے اور خود بھی شعرکہنے لگے پھر انھوں نے اپنے بڑے بھائی کو اپنے اشعار سنائے تو ان کے بڑے بھائی نے کہا '' بھئی! تم تو چھپے رستم نکلے بہت اچھی شاعری ہے، بس اس کو اب تم ہر حال میں جاری رکھو، دیکھنا ایک دن شاعری کی دنیا میں تمہارا نام ہوگا اور سارے ہندوستان میں تمہاری شاعری کی بڑی دھوم مچے گی۔''

1935 ہندوستان میں ایک فلم دیوداس ریلیز ہوئی تھی اس میں گلوکار کندن لال سہگل ہی کی آواز میں ایک گیت نے بڑی مقبولیت حاصل کی تھی جس کے بول تھے۔

بالم آئے بسو مورے من میں

ساون آیا تم نہ آئے


اور فلم کے موسیقار تمربرن تھے اور ہدایت کار اے آرکاردار تھے، آرزو لکھنوی کے لکھے ہوئے اس گیت کو بھی ہندوستان بھر میں بڑی شہرت ملی تھی دیوداس کے نام سے 1955 میں بھی ایک فلم بنی تھی۔ اس فلم کے مرکزی کرداروں میں دلیپ کمار اور وجنتی مالا کا نام شامل تھا۔

اب میں پھر آرزو لکھنوی کی طرف آتا ہوں، یہ 1872 میں لکھنو کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے ان کا گھریلو نام سید انور حسین تھا اور ان کے والد کا نام سید ذاکر حسین تھا جو خود بھی ایک ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ذاکر حسین کو شعر و شاعری کا شوق تھا، ادبی حلقوں میں ان کا بھی اس دور میں بڑا چرچا تھا۔ انھی کی دیکھا دیکھی انور حسین کو بھی شاعری کا شوق پیدا ہوا اور انھوں نے بارہ تیرہ سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کردیے تھے۔

ادبی ماحول ان کو اپنے گھر ہی سے ملا تھا۔ شاعری میں ان کے پہلے استاد ان کے بڑے بھائی ہی تھے۔ بڑے بھائی ادبی دنیا میں میر یوسف حسین قیاس کے نام سے مشہور تھے، انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی انور حسین کے شعری ذوق کو مزید پروان چڑھانے کے لیے اس وقت کے مشہور شاعر جلال لکھنوی کی شاگردی میں دے دیا تھا۔ اس دور میں وہ لکھنو میں استاد شاعر کے نام سے مشہور تھے اور ادبی دنیا ان کی دیوانی تھی۔ اس دور میں نوابوں اور رئیسوں کے گھروں میں ادبی محفلیں اور مشاعرے بھی بڑی دھوم دھام سے ہوتے تھے۔

لکھنو میں ان دنوں نواب منجھلے آغا کی بڑی شہرت تھی آرزو لکھنوی کو جب جلال لکھنوی کی شاگردی میں دیا گیا تو اس وقت ان کی عمر تیرہ سال کے قریب تھی۔ اس نوعمری میں شاعری سے رغبت بہت بڑی بات تھی۔ آرزو لکھنوی کی تربیت میں ان کے بڑے بھائی کو بڑا دخل تھا ان کو عربی اور فارسی کی تعلیم بھی دلوائی گئی تھی اور ان کو ہر زبان میں شعرکہنے کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ نواب منجھلے آغا کے گھر میں بڑے پیمانے پر ایک مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ لکھنو کے مشہور شاعروں اور جید ادبی شخصیات کو جمع کیا گیا تھا۔

اپنے دورکا یہ ایک یادگار مشاعرہ تھا۔ اس مشاعرے میں نوعمر آرزو لکھنوی کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ مشاعرے کا آغاز ہوا بڑے بڑے شاعروں نے اپنا کلام سنا کر خوب داد حاصل کی اور پھر جب آرزو لکھنوی کی باری آئی تو ان کے اشعار نے سارے پنڈال میں دھوم مچا دی تھی۔ ہر ایک کی زبان پر واہ واہ تھی اور سب کا یہی کہنا تھا کہ '' میاں، اس نوعمری میں ایسی جاندار شاعری سن کر مزہ آگیا،آگے جا کر یہ نوعمر لڑکا تو بڑے کمال کا شاعر ہوگا اور سارا ہندوستان اس پر ناز کرے گا'' اور پھر ایسا ہی ہوا۔

ہر مشاعرہ آرزو لکھنوی کے بغیر نامکمل سمجھا جاتا تھا۔ آرزو لکھنوی کی شاعری نے سارے ہندوستان سے اپنی حیثیت کو منوا لیا تھا اور بڑے نامور شاعر بھی آرزو لکھنوی کی شاعری پر فریفتہ ہو جاتے تھے، ہر مشاعرے میں ان کے نام کی دھوم مچتی تھی، آرزو لکھنوی کو شاعری کی ہر صنف غزل، نظم، رباعی پر پورا عبور حاصل تھا لیکن اصل میدان غزل کا میدان ہی تھا۔

اس میدان میں یہ کھل کر اور بڑے جم کر اشعار کہتے تھے۔ سریلی بانسری کے نام سے ان کا ابتدائی مجموعہ کلام منظر عام پر آیا تھا یہ ان کا اعزاز تھا کہ پہلے مجموعہ کلام کو بے حد سراہا گیا تھا پھر یکے بعد دیگرے دو اور مجموعہ کلام شایع ہوئے جن کے عنوان تھے جان آرزو اور فغان آرزو، لکھنو میں یہ کافی عرصہ بے روزگاری کا شکار رہے تو یہ کلکتہ چلے گئے تھے، یہاں آ کر ان کی قسمت نے کچھ یاوری کی اور ان کو بحیثیت شاعر نیو تھیٹر فلم کمپنی میں ملازمت مل گئی تھی اس فلم کمپنی میں یہ شروع شروع وہاں کے آرٹسٹوں کے اردو تلفظ درست کرنے پر معمور کیے گئے تھے۔

(جاری ہے)
Load Next Story