تاریخ بدل رہی تھی تیسرا اورآخری حصہ

بیگم شائستہ نے پارلیمنٹ میں تقریب حلف برداری کا نقشہ بہت سادہ الفاظ میں کھینچا ہے

zahedahina@gmail.com

انھوں نے اسمبلی میں 14 نومبر 1953 کو پارلیمنٹ میں جو تاریخی تقریر کی وہ پاکستانی تاریخ کا حصہ ہے۔ انھوں نے جو اختلافی تقریر کی وہ 1971 میں حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔ آج ہمارے یہاں اس نوعیت کے اختلافات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ وہ مراعات اور شان و شوکت جو قومی اسمبلی کی کسی رکن خاتون کے حصے میں آتی ہیں اور جو عموماً سفارش یا منتوں کے بعد ہاتھ آتی ہیں، وہ سچ بول کر اور ضمیر کے راستے پر چل کر تو نہیں گنوائی جا سکتیں۔

یہ سطریں جب لکھی جا رہی ہیں تو اقلیتوں کے حقوق کا دن منایا جا رہا ہے، انھوں نے اقلیتوں کے حقوق کے لیے بار بار آواز اٹھائی ہے۔ اسمبلی کی رکنیت اور وہاں تیکھے بحث مباحثے کے دوران ہی بیگم شائستہ سہروردی کے حصے میں یہ اعزاز آیا کہ وہ اقوام متحدہ کی اس کمیٹی کی رکن ہوئیں جو اس سابق صدرامریکا کی بیگم ایلیز روز ویلٹ کی سربراہی میں حقوق انسانی کا عالمی منشور مرتب کر رہی تھیں۔ یہ تاریخی منشور 10 دسمبر 1948 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظورکیا۔

شائستہ سہروردی اکرام اللہ سمندرکے راستے کراچی پہنچیں۔ اس سفر کا نقشہ انھوں نے بہت دلکش انداز میں کھینچا ہے۔ سیکڑوں مسافر جو عرشے پر بیٹھے تھے، زمین اور آسمان کے درمیان سمندروں کی لہروں پر ہچکولے کھاتے ہوئے اور جب پاکستانی سرزمین قریب آئی تو '' پاکستان زندہ باد'' کے نعروں سے فضا گونج اٹھی۔ان نعروں میں شائستہ صاحبہ اور ان کے بھائیوں کے نعرے بھی شامل تھے۔

وہ لکھتی ہیں کہ انھوں نے کراچی اترنے میں کراچی سے باہر الاٹ ہونے والے ایک فلیٹ میں اپنا سامان رکھوایا اور فوراً ہی ٹیلی فون سے جو سرکاری طور پر ملنے والے ٹیلی فون سے مس فاطمہ جناح کو اپنے کراچی پہنچنے کی اطلاع دی جس پر انھوں نے کئی کام ان کے سپرد کر دیے۔ وہ ابھی اپنا بستر بند بھی نہیں کھول پائی تھیں کہ بیگم رعنا لیاقت علی خان آن پہنچیں، وہ ان کے گھر آنے والی پہلی مہمان تھیں۔ شائستہ ان کی کرم گستری سے بہت خوش ہوئیں اور دونوں سر جوڑ کر آنے والے دنوں میں مہاجروں کی آبادکاری، ان کے خورونوش، ان کی بیماری کے علاج معالجے کے معاملات پر گفتگوکرنے لگیں۔ دلی، لکھنو یا علی گڑھ کے علاوہ دوسرے شہروں سے آنے والی مسلم لیگ کی رضاکار لڑکیوں کے نام لکھنے لگیں جو آ کر پریڈ میں حصہ لے سکتی تھیں اور دوسرے کاموں میں ہاتھ بٹا سکتی تھیں۔

سیماب قزلباش کی طرح شائستہ ان خوش فہموں میں تھیں، جن کا خیال تھا کہ دلی جس میں ہماری سیکڑوں برس پرانی تاریخی یادگاریں ہیں، وہ پاکستان کے حصے میں آئیں گی، لیکن حقائق تو آخرکار حقیقت ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ بھی دلی اورکلکتے کو چھوڑکر بہ صد خوشی کراچی آ بسیں اور ان کا سانس کا ٹانکا یہیں ٹوٹا۔

بیگم شائستہ نے پارلیمنٹ میں تقریب حلف برداری کا نقشہ بہت سادہ الفاظ میں کھینچا ہے اور یہ لکھا ہے کہ میری پارلیمانی زندگی کی ابتدا اختلاف سے ہوئی اور جب تک میں اسمبلی میں رہی میرا یہ ہی طریقہ رہا۔

یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ وہ اپنے مزاج میں کٹر جمہوریت پسند تھیں اور اس کے ساتھ ہی انھیں بادشاہت بہت عزیز تھی۔ شاید اس کا سبب مغل تہذیب کا جاہ و جلال اور کروفر رہا ہو لیکن انھیں کلام عوام سے تھا۔ انھوں نے پارلیمانی سیاست کے دن غریبوں اور بدحالوں کے لیے کام کرتے گزارے۔ پارلیمان کی رکنیت کتنی منافع بخش ہوگئی ہے۔ اس کا احوال آپ ان لوگوں سے پوچھیں جو ہر قیمت پر اس سے جڑے رہنا چاہتے ہیں۔

انھوں نے 14 نومبر1953 کو اسمبلی میں ایک تقریرکی جو اراکین اسمبلی پر ایک بم کی طرح گری۔ انھوں نے کہا کہ مسلم لیگ کے قیام سے آج تک میں مسلم لیگی رہی ہوں۔ میری تمنا تھی کہ پاکستان کے آئین پر بہ طور ایک مسلم لیگی میرے دستخط ثبت ہوں لیکن افسوس کہ یہ اعزاز میرے حصے میں نہ آیا۔


جناب! میں بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی تجاویز پر غورکے مزید التوا کے خلاف ہوں۔ اس بار ہم نے عہد کیا تھا کہ ہم بنیادی اصولوں کی کمیٹی کا کام ختم کرکے رہیں گے لیکن ہم پھر وہی کر رہے ہیں۔

میری رائے میں پاکستان کی آئین سازی کا کام الیکشن سے زیادہ اہم ہے اور اس سے زیادہ اہم یہ بات ہے کہ کون سی پارٹی کتنی نشستیں حاصل کرتی ہیں۔ اس لیے میں اس بار بار کے التوا کی مخالف ہوں اور میں اپنی رائے کو صاف اور واضح طور پر ظاہر کرنا چاہتی ہوں اور میں بے حد غم اور افسوس کے ساتھ ایسا کر رہی ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ میرے ایسا کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مجھے لیگ سے استعفا دینا پڑے گا، کیونکہ میں پارٹی کے فیصلے کے خلاف کام کر رہی ہوں چونکہ مسلم لیگ سے میرا زبردست لگاؤ رہا ہے مجھے اس کا بہت رنج ہے۔

مجھے امید تھی اور میں یہ امید کرتی ہوں کہ ایک دن میں مسلم لیگ کی رکن کی حیثیت سے آئین پاکستان پر دستخط کروں گی۔ میں مدت سے پارٹی میٹنگوں میں پارٹی کے فیصلوں کے خلاف ووٹ دیتی آئی ہوں لیکن ایوان میں یا تو خاموش رہی یا پارٹی کے ساتھ ووٹ دیا کیونکہ میں مسلم لیگ کی رکن رہنا چاہتی تھی لیکن اب حالات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ میں انتہائی غم و افسوس کے باعث استعفا دیتی ہوں کیونکہ میں لوگوں کو بار بار دھوکا دینے میں شریک نہیں ہو سکتی۔ہر دفعہ ہم لوگ آئین سازی سے متعلق ایک دو چیزیں پاس کرتے ہیں۔ اس پر بہت فخرکرتے ہیں کہ ہم اسلامی قانون نافذ کررہے ہیں اور پھر سارے کام کو التوا میں ڈال دیتے ہیں۔ میں اس رویے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مسلم لیگ سے استعفیٰ دیتی ہوں۔

شائستہ صاحبہ نے 14 نومبر 1953 کو ایک تقریر کی جو ان کی خود نوشت ''پردے سے پارلیمنٹ تک'' میں موجود ہے۔

بیگم شائستہ اکرام اللہ کی یہ تقریر اراکین اسمبلی پر بم کی طرح گری۔ انھیں اپنا فیصلہ واپس لینے کے لیے کہا گیا لیکن انھوں نے انکارکردیا۔ ان کا خاندان پرانا مسلم لیگی تھا۔ اسمبلی کے ایوان میں اختلاف رائے کے حق اور جمہوری اصولوں کے خلاف منظور کیے جانے والے ریزولوشن پر انھوں نے سخت اعتراض کیا تھا۔ آئین کی تشکیل کے بارے میں ہونے والی رائے شماری میں ان کی واحد ذات تھی جو '' نہیں، نہیں،نہیں'' کا آوازہ بلند کر رہی تھی۔ وہ جانتی تھیں کہ آئین کے بغیر پاکستان ایک ایسے جہاز کی طرح ہے جس کی کوئی سمت نہیں۔

بیگم شائستہ سہروردی اکرام اللہ کی زندگی کے بارے میں صفحے کے صفحے سیاہ کیے جا سکتے ہیں، وہ اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتی تھیں اور ایسی باتیں اٹھاتی تھیں جو پاکستان میں جمہوریت کو مستحکم کر سکتی تھیں لیکن ان کی باتیں حکمران جماعت کی طبع نازک پرگراں گزرتی تھیں۔ مراکش میں ان کی سفارت کاری، اقوام متحدہ میں کشمیرکے مسئلے پر پاکستان کی وکالت اور متعدد دوسرے معاملات ہیں جو دلچسپ بھی ہیں اور چشم کشا بھی لیکن آج میں انھیں ایک باضمیر جرأت مند پارلیمنٹیرین کے طور پر یاد کرنا چاہتی ہوں۔

ان کی زندگی تضادات کا ایک مجموعہ رہی۔ ایک طرف وہ ناداروں اور نوالے کو ترستے ہوئے لوگوں کے حق کے لیے لڑتی رہیں۔ دوسری طرف جب وہ پاکستانی سفیر کے طور پر مراکش کے بادشاہ کو اپنی سفارتی اسناد پیش کرنے گئیں تو الٹے قدموں واپس جانے میں تمام مشکلوں کے باوجود برا نہ لگا کیونکہ یہ ہمارے شاہی درباروں کی رسم تھی۔

انھوں نے ایک بھری پری زندگی گزاری۔ چاہنے والے باپ، جان نثار کرنے والے بھائی، بنگال کا ایک جما جمایا خاندان جس کی ساکھ پورے برصغیر میں تھی۔ میاں ملا تو چاہنے والا اور ایک بیٹا بنا آئی سی ایس افسر، خود انگلستان سے پی ایچ ڈی، بیٹی ثروت جسے وہ بٹلم کہتی تھیں جو اپنے ملک اردن میں شہزادی ہے۔ پریوں کی ایک کہانی جس میں کہیں کہیں بھوت پریت بھی آتے ہیں لیکن سب ہی آخر میں شکست پاتے ہیں۔ تو یہ ہے ہماری شائستہ کی کہانی۔
Load Next Story