پاکستان ایک نظر میں تحفظ پاکستان بل سیکورٹی اداروں کا ایک امتحان

پاکستان تحفظ بل کے منظور ہونے کے بعد اب سے پاکستان میں اپنی بے گناہی ثابت کرنا پکڑے جانے والے کا کام ہوگا

پاکستان تحفظ بل کے منظور ہونے کے بعد ہمارے مسلح اداروں کے جوان اپنی ذات میں ایک انجمن ہوں گے جو بہ یک وقت مدعی ، گواہ، منصف اور جلاد کی صلاحیتوں کے حامل ہوں گے۔ فوٹو: فائل

تحفظ پاکستان بل کی قومی اسمبلی سے منظوری پاکستان کے پہلے سے بے حال ،سسکتے بلکتے بنیادی انسانی حقوق پر بجلی بن کر گری ہے ۔اس بل کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں میں کچھ ایسی جادو کی چھڑیاں دے دی گئی ہیں جن کے ذریعے ان کے لیے اب کوئی بے نوا پاکستانی عارضی یا دائمی طور پر روئے ارضی سے غائب کرنا مسئلہ نہیں رہے گا۔ پاکستانی آئین کی دسویں شق سے براہِ راست متصادم یہ بل عرش کے جس کونے سے بھی نازل ہوا ہو لیکن منظور اس اسمبلی سے کروایا گیا ہے جس کا گلا آئین کی حکمرانی کے راگ گاتے گاتے رندھ چکا ہے۔ ہنگامی حالات یقیناً ہنگامی قوانین کے متقاضی ہوتے ہیں لیکن ان قوانین کو بنانے کے لیے جس ہنگامی شعور کی ضرورت ہوتی ہے بدقسمتی سے وہ موجودہ اسمبلی کے قانون سازوں میں مفقود نظر آرہا ہے۔ یہ قانون اسمبلی کی اجتماعی سوچ سے زیادہ فرشتوں کی فکراور ضروریات کاترجمان لگتا ہے ۔ اس بل کے شانِ نزول کو سمجھنے کے لیے پاکستان کے دفاعی اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں پچھلی ایک دہائی میں ہونے والے ماورائے عدالت قتل اور اغوا کے اس طویل سلسلے پر نظر ڈالنی ضروری ہے جسے عدالتِ عالیہ کے پے در پے سو موٹو بھی ختم نہ کر سکے۔


نائین الیون کے بعدجب دہشت زدہ پاکستان نے امریکہ کی سجائی گئی جنگِ دہشت گردی کی بساط پر ایک بے وقعت مہرے کی طرح سر پٹ دوڑنا شروع کیا تو پاکستان کو اپنے ہی تخلیق کردہ ان انتہا پسندوں کی مخالفت کاسامنا کرنا پڑا جنہیں پاکستان ایک طویل مدت سے بھارت اور افغانستان میں اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہا تھا جس کے بعد ایک خون ریز جنگ کا آغاز ہو ا جو آج تک جاری ہے اورنہ جانے اندھی جنگ کی یہ بھٹی کب تک دہکتی رہے۔


اس بے سروپا جنگ کے ساتھ ہی پاکستانیوں کی جبری گمشدگیوں کے ایک پر اسرار سلسلے کا آغاز ہوا ۔ غائب ہو جانے والوں کے لواحقین اپنے پیاروں کی سلامتی کے ڈر سے آواز اٹھانے سے ڈرتے تھے چناچہ اس سلسلے میں شدت آتی گئی ۔ عدلیہ بحالی تحریک کی کامیابی کے بعد ریاست کی اندھی طاقت کے ڈسے ہوئے لوگوں کے اند ر انصاف کی آس پیدا ہوئی ۔ چناچہ سپریم کورٹ کے دروازے پر کھوئے ہوئے لوگوں کو ڈھونڈنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ کچھ دنوں تک عدالت کا خوب ڈنکا بجا ۔ سینکڑوں سماعتیں ہو ئیں جج گرجتے برستے رہے قانون کی بے بسی پر نوحے پڑھتے رہے لیکن نتیجہ صفر! حکومت نے تنگ آ کر کمیشن قائم کیا لیکن یہ بھی وقت گزاری کا ایک بے کار تماشا ثابت ہوا۔



موجودہ حکومت جس کے وزیر اعظم زمام کار سنبھالنے سے پہلے بذات خود اجتجاجی لواحقین کو سیاسی تسلیاں دینے جا یا کرتے تھے اقتدار میں آتے ہی اس مسئلے کے 'باعزت ' حل کے لیے تگ ودو میں مصروف ہو گئی۔ جب نیت صاف ہو تو آسمانوں سے مدد اترتی ہے چناچہ موجودہ حکومت کیلئے بھی آسمانوں سے تحفظِ پاکستان آرڈیننس اتا را گیا جسے اس نے سینے سے لگا کر فرشتوں کا شکریہ ادا کیا۔ یہ بل یقیناًحکومت اور مسلح اداروں کو سپریم کورٹ کی راہداریوں میں خوار ہونے سے بچائے گا ۔


ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس بل کے بعد اب غیر معمولی صلاحیتوں اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ کسی بھی مشکوک شخص کودیکھتے ہی ہمارے انسپکٹر یا صوبیدار صاحب کو پلک جھپکنے میں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ یہ مجرم ہے یا نہیں ۔ اگر ان کی رائے میں مشکوک شخص کی شکل پر کسی دفعہ کے آثار نظر آئیں تو اسے بلا توقف گولی ماری جاسکے گی ۔ اس بل کی رو سے اب ہمارے مسلح اداروں کے جوان اپنی ذات میں ایک انجمن ہوں گے جو بہ یک وقت مدعی ، گواہ، منصف اور جلاد کی صلاحیتوں کے حامل ہوں گے۔ پلک جھپکتے میں یہ شکلیں پڑھ کر لوگوں کے گناہ گار یا بے گناہ ہونے کا فیصلہ کریں گے اور انکے فیصلے کو دنیا کی کسی عداالت میں چیلینج نہیں کیا جاسکے گا ۔ انصاف اتنا سستا اور اتنا برق رو دنیا کے کسی ملک نے یقیناًنہ دیکھا نہ سنا ہو گا۔


یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا بہت سا قیمتی وقت ملزموں کو مجرم ثابت کرنے میں لگ جاتا ہے لیکن اس نئے بل کی صورت میں ان کی یہ مشکل حل کر دی گئی ہے اب ان اداروں کا کام صرف گرفتار کرنا ہو گا انہیں ان جھمیلوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ جسے پکڑا گیا اس کے خلاف گواہ اور ثبوت موجود ہیں یا نہیں۔ اب اپنی بے گناہی ثابت کرنا پکڑے جانے والے کا کام ہوگا۔ اگرچہ یہ شق دنیا بھر میں مروج قوانین کی بنیادی روح سے متصادم ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ ہماری دیکھا دیکھی یہ باقی دنیا میں بھی رواج پا جائے ۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد اب خروٹ آباد یا کراچی کے سرفراز شاہ جیسے کیس قانون نافذ کرنے والے اداروں کی راہ میں روڑے نہیں اٹکا سکیں گے۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story