ّپاکستان ایک نظر میں 5جولائی جمہوری حکومت پر شب خون
5جولائی کا دن پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گاکیونکہ یہ دن پاکستان میں طویل مارشل لا کے آغاز کا دن تھا جو آیا تو نوے دنوں کے لیے تھا مگر اقتدار کے نشے نے نوے دنوں کو 11 سال پر پھیلا دیا۔ پیپلز پارٹی اس دن کو گزشتہ 36سالوں سے یوم سیاہ کے طور پر مناتی چلی آرہی ہے اور اِس دن ضیاالحق کے خلاف سیمنار اور احتجاجی مظاہرے منعقد کیے جاتے ہیں جو آ ج بھی کیے جارہے ہونگے ۔
بھٹو خاندان اور پی پی کے جیالوں کے لیے آج بھی سب سے بڑا دشمن ضیاالحق ہی ہے جس نے ایک اہم سیاسی لیڈذ والفقار علی بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر ٹکایا تھا جس کی پھانسی کے بارے میں آج بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ایک سیاسی فیصلہ تھا۔یہ حقیقت بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ جون 1977کے آخر میں پی پی اور جمہوری اتحاد کی میٹنگز ہوتی رہی اور اس بات پر اتفاق بھی طے پا چکا تھا کہ سسٹم کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ حکومتی سطح اور حزب اختلاف کی جانب سے بھی ایسے بیانات آرہے تھے کہ جمہوری سسٹم کو برقرار رہنا چاہیے لیکن اس کے باوجو دضیاالحق نے ملک کے طویل ترین مارشل لا کا اعلان کردیا اور ملک کی تمام قیادت کو حفاظتی تحویل میں لے لیا۔مزدور یونینز اور طلبہ یونینز پر پابندیاں عائد کر دی گئی صحافیوں کو بھی اپنے فرائض سرانجام دینے میں مشکلات کا سامنا رہا ۔ایک طرف شاعر جیلیں بھگتے رہیے تو دوسری طرف صحافی ،مزدور بھی پٹتے رہے اور کوڑے کھانے والوںمیں صحافی،سیاستدان ،اور طلبہ بھی شامل تھے ۔
آج کے دن اگر ضیاالحق نے پی پی کی جمہوری حکومت کا خاتمہ کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ صرف پی پی کے کارکن ہی یوم احتجاج اور یوم سیاہ مناتے رہیں۔ بلکہ پاکستان کی تمام جمہوریت پسند جماعتوں کو جمہوری حکومت کے خاتمے پر احتجاج کرنا چاہیے ۔ کیونکہ یہ کسی ایک پارٹی کے لیے تکلیف دہ نہیں ہوتا جب ملک سے سیاسی نظام کاخاتمہ کرکے جبر کی حکومت قائم کرلی جائے۔ کیونکہ یہ معاملہ صرف پیپلز پارٹی کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ ن لیگ بھی اِس کیفیت اور تکلیف سے گزرچکی ہے ۔
جب صورتحال ایسی ہی ہے تو پھر کیونکر یہ احتجاج محدود رہنا چاہیے۔ میری تو ذاتی رائے یہی ہے کہ چاہے 5 جولائی 1977 ہو یا پھر 12 اکیوبر 1999۔ اِس احتجاج کو ، اِس یوم سیاہ کو بحثیت مجوعی منانا چاہیے تاکہ پھر کبھی ہم پاکستانیوں کو ایسا دن دیکھنا نصیب نہ ہو۔ کیونکہ میرا ذاتی طور پر ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف سے اختلافات ہوسکتے ہیں، ہوسکتا ہے میں اِس دونوں کو بحثیت حکمراں دیکھنا پسند نہیں کرتا ہوں۔ لیکن معاملہ یہاں میری پسند اور نا پسند کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ تو پاکستان کا ہے۔ اگر ایک جمہوری حکومت 5 سال اچھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہتی ہے تو عوام کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اُن کا محاسبہ کرسکتے ہیں جس طرح موجودہ انتخابات میں عوام نے اقتدار کو ایک جماعت کے ہاتھ سے لیکر دوسری جماعت کے ہاتھ میں دے دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر انتخابات کی طرح اِس انتخاب میں بھی دھاندلی کی بو آرہی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں اصل مسئلہ نظام کی خرابی کا ہے۔ جس دن یہاں نظام ٹھیک ہوگا اُس دن یقینی طور پر عوام کو اُن کی مطلوبہ سہولیات میسر آجائینگی۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔