شجر کاری کی شرعی حیثیت

درخت حیاتیاتی تنوع کو فروغ دیتے ہیں اور زندگی کے نازک توازن کو محفوظ رکھتے ہیں

ashfaqkhan@express.com.pk

ماہرین ماحولیات و ارضیات اس کرّہ اَرض کو درپیش سنگین خطرات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اور گاہے بگاہے ہمیں بتاتے ہیں کہ فی زمانہ ہماری زمین، بنی نوع انسان سمیت اس پرآباد تمام جانداروں اور قدرتی ماحول کو کن سنگین مسائل اور خطرات کا سامنا ہے۔

یقینی طور پر کلائیمیٹ چینج، زمینی، فضائی اور آبی آلودگی، شہروں میں آبادی کا بڑھتا ہوا دباؤ اوزون کی پرت میں ہونے والے شگاف، کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کا مسئلہ، جنگلات کی کٹائی کے منفی اَثرات، جنگلی اور سمندری حیاتیات کی بتدریج تباہی، سمندروں کی سطح کا بلند ہونا، برفانی طوفان، موسلادھار بارشیں، خشک سالی، غذائی قلّت، بھوک، قحط سمیت دیگر مسائل ان میں شامل ہیں اور اس بات میں بھی قطعی طور پر کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ یہ تمام تر خطرات اور مسائل ہم انسانوں نے خود پیدا کیے ہیںاور ان مسائل کوخود انسان ہی کو حل کرنا ہوگا۔ اور ان میں بنیادی کردار وسیع پیمانے پر شجرکاری کا ہوگا۔ سائنس سے ہٹ کر بحیثیت مسلمان شجر کاری کی شرعی حیثیت اور اہمیت کو سمجھنے کے لیے قران و حدیث کی روشنی میں بھی اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

جدید سائنس آج ہمیں ماحول اور زمین کو لاحق خطرات سے آگاہ کررہی ہے لیکن اسلام نے 1450 سال پہلے ہمیں ناصرف ان خطرات سے آگاہ کیا بلکہ ان سے نمٹنے کا حل بھی پیش کردیا تھا۔ ان تمام مسائل کا حل اللہ رب العزت کے قرآن اور پیغمبر اسلام حضور نبی اکرمﷺ کی تعلیمات میں پوشیدہ ہے۔ سورۃ القمر میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے ''ہم نے ہر چیز ایک تقدیر کے ساتھ پیدا کی'' پھر سورۃالحجرات میں ارشاد فرمایا کہ ''اس نے ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار کے ساتھ اُگائی''۔ ہمارے ماحول اور زمین کو جتنے بھی خطرات لاحق ہیں وہ شجر کاری کے ساتھ جڑے دکھائی دیتے ہیں۔ درخت لگانا ماحولیاتی پائیداری میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔

درخت قدرتی ہوا صاف کرنے کے طور پر کام کرتے ہیں، نقصان دہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں اور زندگی کو برقرار رکھنے والی آکسیجن جاری کرتے ہیں۔ درخت گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرکے موسمیاتی تبدیلیوں کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرتے ہیں، اس طرح کرہ ارض کے مجموعی کاربن فوٹ پرنٹ کو کم کرتے ہیں۔ درخت پانی کے تحفظ کی حکمت عملیوں کے اہم اجزاء کے طور پر کام کرتے ہیں، جڑ کے نظام مٹی کے کٹاؤکو روکتے ہیں اور پانی کو برقرار رکھنے کی صلاحیت کو بڑھاتے ہیں، جس سے آبادیوں اور ماحولیاتی نظام کے لیے صاف پانی کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ یہ تباہ کن سیلاب کی روک تھام اور خطرات کو کم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، کیونکہ ان کی موجودگی پانی کے بہاؤ کو کم کرتی ہے۔

درخت حیاتیاتی تنوع کو فروغ دیتے ہیں اور زندگی کے نازک توازن کو محفوظ رکھتے ہیں۔ زمین کے ماحولیاتی نظام کی لچک کو یقینی بناتے ہیں۔ درخت کٹاؤکو روکنے، غذائی اجزاء کو بڑھانے، اور مٹی کی ساخت کو بہتر بنا کر مٹی کی صحت میں حصہ ڈالتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ جہاں فضائی آلودگی اپنے پَر پھیلاتی جارہی ہے وہیں اس کے علاج کی دوا، یعنی جنگلات کی کٹائی انسان کی خود غرضی و مفاد پرستی کی تلوار سے بڑی بے دردی سے جاری ہے اور صورتِ حال بھی یہی بتاتی ہے کہ جنگلات کی بے رحمی سے کٹائی ہمیں 2085 تک سدا بہار درختوں سے محروم کردے گی۔ ہمارے ملک میں جنگلوں کاتناسب عالمی معیار سے بہت کم ہے۔ جنگل کاٹ کاٹ کر قومی خزانے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس مافیا پر ہاتھ ڈالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔


اس بات میں کوئی شک نہیں کہ درخت اللہ تعالیٰ کی نعمت عظمیٰ ہے، جس کے ساتھ دنیا میں بھی رفاقت ہے اور جنت کی تو پہچان ہی باغات اور درختوں کے ساتھ ہے۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ درخت جنت کا بھی ساتھی ہے، درخت انسان، جانور چرند وپرند بلکہ درندوں اور ہر ذی روح کی زندگی کے لیے بنیادی اور لازمی ضرورت ہیں۔ درندوں کی تو زندگی ہی جنگلات اور درختوں کی مرہون منت ہے۔ جب سے جنگلات کا خاتمہ شروع ہوا، یہ درندے معدوم النسل ہوتے جا رہے ہیں، جب کہ درخت انسانی آکسیجن، سایہ، پھل اور ٹھنڈک کابھی ذریعہ ہیں۔ محققین کے مطابق درختوں کی بدولت انسان سانس لیتے ہیں یہ درخت بہترین قدرتی آکسیجن فراہم کرتا ہے۔

محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی ﷺ نے شجر کاری کو فروغ دینے کے لیے ایمان والوں پر شجر کاری کو صدقہ قرار دیا ہے۔ آپﷺنے فرمایا ''جو مسلمان دَرخت لگائے یا فَصل بوئے، پھر اس میں سے جو پرندہ یا اِنسان یا چوپایا کھائے تو وہ اس کی طرف سے صَدقہ شُمار ہو گا۔ (صحیح بخاری )۔ آپﷺ نے شجر کاری کو اتنی اہمیت دی کہ اس عمل کو قیامت تک جاری رکھنے کا حکم فرمایا۔ ارشادِ نبویﷺ ہے، ''اگر قیامت کی گھڑی آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہے اور وہ اسے لگا سکتاہے تو لگائے بغیر کھڑا نہ ہو۔ (مسند احمد) آپﷺ کی تعلیمات میں نہ صرف درخت لگانے کے متعلق احکام ملتے ہیں، بلکہ درخت، پودے لگا کر اس کی حفاظت کے بھی واضح احکام ملتے ہیں۔ مسند احمد میں ارشاد نبویﷺ ہے، "جو کوئی درخت لگائے، پھر اس کی حفاظت اور نگرانی کرتا رہے یہاں تک کہ وہ درخت پھل دینے لگے، وہ اس کے لیے اللہ کے یہاں صدقہ کا سبب ہوگا"۔ عرب میں بالعموم ببول یا بیری کے درخت ہوا کرتے تھے، نبی کریمﷺ نے بیری کے درخت کے بارے میں فرمایا: جو بیری کا درخت کاٹے گا، اسے اللہ تعالیٰ اوندھے منہ جہنم میں ڈالے گا۔ (سنن ابو داؤد)۔

آپﷺ نے جہاں عام دنوں میں درخت کاٹنے کی ممانعت فرمائی، وہاں دورانِ جنگ بھی، نہروں کو آلودہ کرنے اور درختوں کو کاٹنے کی ممانعت فرما کر نہ صرف آبی ذخائر کی حفاظت کی تعلیم دی، بلکہ ماحول کو آلودہ ہونے سے بھی بچایا۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں حضور نبی اکرمﷺ جب اسلامی لشکر کو مشرکین کی طرف روانہ فرماتے تو یوں ہدایات دیتے، "کسی بچے کو قتل نہ کرنا، کسی عورت کو قتل نہ کرنا، کسی بوڑھے کو قتل نہ کرنا، چشموں کو خشک و ویران نہ کرنا، درختوں کو نہ کاٹنا"۔ درخت لگانا کار ثواب اور ضروری ہے مگر درختوں کو بچانا اس سے بہت زیادہ ضروری ہے کیونکہ آج کا لگایا ہوا درخت کئی سال بعد فائدہ دے گا اور درخت کاٹنے کی صورت میں بہت بڑا نقصان فوراً ہوگا۔

ہمیں اپنے ماحول اور زمین کو لاحق خطرات سے بچانا ہے تو پھر اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا، درختوں کو کاٹنے کے بجائے وسیع پیمانے پر شجرکاری کو فروغ دینا ہوگا۔ موسم برسات اپنے عروج پر ہے اور یہ شجر کاری کے لیے بہترین موسم ہے اوپر سے ماہ اگست ہے ہماری آزادی کا مہینہ، اس مہینے کی مناسبت سے خرافات میں پیسہ اڑانے کے بجائے اگر ہر شہری اپنے حصے کا کم از کم ایک پودا لگا دے تو اگلے سال تک پورے ملک میں لگائے گئے یہ کروڑوں نئے درخت پروان چڑھ کر ہمارے ماحول اور زمین کو لاحق خطرات کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن سکتے ہیں۔ اہلِ شام ایک دوسرے کے گھر جاتے ہیں تو تحفے کے طور پر پودے لے جاتے ہیں، اہلِ دمشق گھروں کی چھتوںپر بھی پودے لگاتے ہیں۔

لندن میں ایک عمارت Sky Garden کے نام سے مشہور ہے جس کی آخری چھت پرپودوں کے دل کش مناظر کو دیکھنے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ ماسکو یا سینٹ پیڑز برگ شہر کے ہر باشندے کا خواب ہے کہ اُس کے پاس اپنا ایک ''ڈاچا'' یعنی مضافات میں گھر ہو جہاں سر سبز درخت لگے ہوں۔ دریائے ماسکو کے قریب کئی ''ڈاچے'' موجود ہیں۔ لندن ہی کے قریب ''کیوگارڈن'' میں انواع و اقسام کے درخت محفوظ کیے گئے ہیں۔ یونیسکو نے اسے عالمی ورثہ قرار دیا ہے۔ انڈونیشیا کے دو بوڑھے میاں بیوی باوجود بڑھاپے کے دس لاکھ درخت لگا کر اپنی عاقبت سنوار چکے ہیں، اقوام متحدہ نے ان دونوں کو امریکا بلوا کر اُن کی خدمات کا اعتراف کیا۔

بھارت کے ایک غریب سائیکل والے بوڑھے نے اپنے علاقے کے 1000 کنال کے وسیع رقبے کو گھنے جنگل میں تبدیل کردیا اور گینیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام درج کرایا۔ جنوبی افریقہ کے دو دوست پہلے سے موجود زوما کے جنگل جیسا ایک اور جنگل اُگانے میں کامیاب ہوئے جو ہمارے چھانگا مانگا سے دوگنا بڑا ہے، تو پھر ہم پاکستانی ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔ جن کا دین بھی ایسی مثبت سرگرمیوں کی تلقین کرتاہے اورہماری تو مٹی بھی زرخیز ہے، اس لیے میری ہر پاکستانی سے التجا ہے کہ آئیں اس فریضہ کو عبادت سمجھ کر اپنے حصے کا درخت ضرور لگائیں اور جنت کمائیں۔
Load Next Story