ہینی بال دروازے پر کھڑا ہے
ماہرین جنگ ، تاریخ دان اور تبصرہ نگارکہتے ہیں کہ ہینی بال کوسکندر اعظم سے زیادہ جنگ کا فہم اور ادراک ملا تھ
ماہرین جنگ ، تاریخ دان اور تبصرہ نگارکہتے ہیں کہ ہینی بال کوسکندر اعظم سے زیادہ جنگ کا فہم اور ادراک ملا تھا۔اُس کا طریق جنگ نپولین سے کہیں موثر تھا ۔ میدان جنگ میں اُس کی قدرت ِ کاملہ اعجاز کا درجہ رکھتی تھی ۔
سمجھ سے بالاتر تھا کہ اُس کا توڑ کیسے نکالا جائے۔اُس نے اپنی فوج کو جس طرح گرفت میں رکھا تھا ۔ اُس سے پہلے سکندرِ اعظم ہی ایسا کرچکا تھا۔وہ چھتیس برس تک اہل َ رومہ کے خلاف بے مثال کامیابیوں کے ساتھ لڑتا رہا ۔ روم جس کی ساٹھ لاکھ تیس ہزار آبادی میں سے سات لاکھ تیس ہزار جنگجو تھے ۔جب کہ ہینی بال کی تعداد کبھی بھی پچاس ہزار سے زیادہ نہیں بڑھی اور تمام قرطانیہ بالبیا کی آبادی بہ مشکل سات لاکھ تھی ۔گویا روما کی فوج سے بھی کم۔
وہ متضاد اور مخلوط اقوام کو ایک مربوط ، منظم اور نہایت زبردست قوت بنانے والا پہلا کامیاب سالار تھا۔اس کی فوج مکمل تنظیم و ترتیب سے آخر تک عاری رہی جب کہ اس کے مقابل ترتیب ، تنظیم ، تجربے ، تعداد اور جنگی صلاحیتوں کے اعتبار سے دنیا کی اعلی ترین فوج تھی۔اُس کے حریف کبھی اُس کے اقدامات کا درست اندازہ لگانے میں کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ وہ عین لڑائی میں جنگ کا نقشہ اور صورتحال بدلنے میں مہارت رکھتا تھا۔جنگ کے اکثر طور طریقے جنھیں ہم جدید کہتے ہیں ، ہینی بال ہی اُن کا موجد ہے۔
ہینی بال نے سب سے پہلے آئندہ جنگجوؤں ، بلکہ جدید عہد کے لیے یہ درس بھی چھوڑا کہ فتح کے لیے صرف جدید ترین آلات جنگ ، کثرت تعداد ، خطرناک اور مہلک ہتھیاروں کی کثیر فراہمی ہی پر انحصار نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس میں انسانی صلاحیتوں ، جرات اور شجاعت کا بھی نہایت عمل دخل ہوتا ہے۔جب وہ اپنی فوج کے ساتھ چلتا ، اُسے سادگی کے باعث کوئی پہچان نہ سکتا، وہ مختلف بولیاں بولتا ، اصل روپ چھپانے کی خاطر مختلف قسم کے لباس اور اُسی رنگ کی ٹوپیاں پاس رکھتا۔سخت آزمائش کے دوران مذاق کرتا اور قہقہے لگاتا رہتا ۔فتح وکامرانی کے بعد جشن منانے یا نمود ونمائش کے بجائے آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے منہمک رہتا۔وہ فطرتاً نہایت رحم دل تھا ،لیکن مجبوراً اُسے آخر تک سیزر اور ہٹلر کی طرح اپنی رحم دلی کے برعکس سخت گیری سے کام لینا پڑا۔
لوٹ مار تو کجا ، نہایت دولت مند مفتوحہ علاقوںسے تاوان ، خراج یا امدادی رقم تک نہیں لی ، حالانکہ اُسے اُس کی سخت ضرورت بھی تھی ، بعد میں یہی وطیرہ نپولین بونا پارٹ کا رہا۔اسیرانِ جنگ یا کسی مفتوحہ علاقوں کی عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کا خون بہانا ، اذیتیں دینا ، اُن سے ذلت آمیز رویہ اختیار کرنا ، غلام بنانا ، بیچنا یہاں تک کہ عورتوں کو قبحہ خانوں میں بٹھانا رومن کا رویہ تھا ، جب کہ ہینی بال کا رویہ اس کے بالکل برعکس تھا اس کی گردن پر کسی اسیرانِ جنگ یا کسی مفتوحہ علاقوں کے لوگوں کا خون نہیں تھا۔
بائیس سو برس گذر جانے ، اور سو سے زائد تحقیقی کتابیں لکھنے کے باوجود جغرافیہ دان آج تک یہ گھتی سلجھانے میں سرگرداں ہیں کہ ہینی بال نے تیس ہزار پیادہ ، آٹھ ہزار سواروں سیکڑوں بار بردار گاڑیوں ، لاتعداد جانوروں اور سینتیس ہاتھیوں کے ساتھ ایلس پہاڑ کو عبور کیسے کیا ؟جس کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ بلانک تک پندرہ ہزار سات سو اکیاسی فٹ تک ہے ۔ برف باری کی انتہا اور سردی کی نہایت شدت الگ۔ہینی بال سے پہلے یا اُس کے بعد کوئی ایسا نہ کرسکا ۔ ہینی بال نہایت گرم صحرائی علاقے کا باشندہ تھا۔
دنیا کے بڑے بڑے مورخین اُسے دنیا کے چند عظیم سالاروں اور قائدین میں شمار کرتے ہیں ۔ ہینی بال جیسے نابغہ کو اہل رومہ پاگل قرطاجنی کہتے تھے ۔رومنوں کے دلوں پر اُس کی ہیبت ایسی چھائی ہوئی تھی کہ جب اُن کے بچے روتے تو اُن کے مائیں انھیں چپ کرنے کے خاطر یہ کہہ کر ڈراتی تھیں کہ'' ہینی بال دروازے پر کھڑا ہے۔''
وہ تنہا کام کرنے کا اور اپنی دھن میں مگن رہنے کا عادی تھا ، وہ مطالعے کے بغیر رہ نہیں سکتا تھا ، میدان جنگ میں بھی کتابیں اُس کے پاس رہا کرتی تھیں ، یہاں تک کہ عمر کے آخری حصے میں بطانیہ کے گاؤں لبی سا میں بھی کسی طرح کتابیں لے جانے میں کامیاب ہوگیا تھا ، جہاں اُس نے پناہ لی تھی۔ہینی بال ایک ہوا بن گیا تھا ۔
تمام رومن اس کے خوف میں مبتلا رہتے تھے کہ ہینی بال کب اور کدھر کا رخ کرکے تباہی مچاتا ہے۔ہینی بال کی فتوحات اور جنگوں کا حال کافی طویل ہے لیکن تاریخ میں ہینی بال جیسے سپہ سالاروں کی بہادری کا ذکر بہت کم ملتا ہے۔تربیہ کی جنگ میں رومیوں کو شکست دی۔ تراسی منو کی جنگ میں ہینی بال کو فتح میں شہرت ِ عام و دوام حاصل ہوئی۔کنائی کی جنگ میں تربیت یافتہ و منظم اور مضبوط رومی فوج کو شکست دی۔کوکری ، تارقتم نیز دواور کی بندرگاہیں ہینی بال نے فتح کیں۔ہینی بال کے خلاف مسلسل نو سال کے اقدامات میں رومنوں کو لگاتار شکستیں ہوتیں رہیں۔قرطاجنہ میں اپنے بھائی ہسد روپال کی ریمنی کے مقام میں شکست کی وجہ سے ، سپیو نے اسپین میں ہینی بال کے خاندان برقہ کی تیس سالہ حکومت ختم کردی۔
ستم ظریفی یہ کہ اپنے عہد کا عظیم ترین برّی سپاہی آخری معرکہ لڑنے کے لیے سمندر کو نکلا تھا ، اُسے کئی کامیابیاں حاصل ہوئیں لیکن یہاں ناکام ہوا۔ آخرکار کمک کم اور فوج نہ ہونے کے باعث ترکی ایشیائی شہر ننبھانیہ اطولیا کے گاؤں لبی سا میں سکونت اختیار کرلی، بتھانیہ کے حکمرانوں کا ہینی بال کی موجودگی کا پتہ چھپانے کے باوجود رومیوں کو چل گیا۔رومیوں نے پروسیاس سے ہینی بال کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔پروسیاس نے ہینی بال کو حوالے کرنے کی کوئی دلیل نہیں مانی اور آخر تک حوالے کرنے سے انکار کرتا رہا۔
وہ نا شائستہ،ان پڑھ ، گنوار وحشی اور ایک چھوٹا حکمران تھا لیکن بڑا آدمی ، روایات و اقدار کا پاسدار تھا ، اس نے ہینی بال کی رہائش گاہ کے باہر محافظ دستہ بھی لگایا۔ہینی بال کو جب اُس صورت حال کا پتہ چلا ، تھوڑی دیر کے لیے پائیں باغ گیا ۔ پھر کھانے کے کمرے میں جاکر اپنے ملازمین سے زراب کا پیالہ منگوایا ، زہر جو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا تھا ۔ شراب میں ڈالتے ہوئے کہا ''اہل رومہ اس بوڑھے کی موت کا انتظار کرتے کرتے تھک چکے ہیں، وقت آن پہنچا ہے کہ اُن کی مدتوں کی پریشانی کو ختم کردیا جائے ۔'' پھر اس نے زہر پی لیا۔
سمجھ سے بالاتر تھا کہ اُس کا توڑ کیسے نکالا جائے۔اُس نے اپنی فوج کو جس طرح گرفت میں رکھا تھا ۔ اُس سے پہلے سکندرِ اعظم ہی ایسا کرچکا تھا۔وہ چھتیس برس تک اہل َ رومہ کے خلاف بے مثال کامیابیوں کے ساتھ لڑتا رہا ۔ روم جس کی ساٹھ لاکھ تیس ہزار آبادی میں سے سات لاکھ تیس ہزار جنگجو تھے ۔جب کہ ہینی بال کی تعداد کبھی بھی پچاس ہزار سے زیادہ نہیں بڑھی اور تمام قرطانیہ بالبیا کی آبادی بہ مشکل سات لاکھ تھی ۔گویا روما کی فوج سے بھی کم۔
وہ متضاد اور مخلوط اقوام کو ایک مربوط ، منظم اور نہایت زبردست قوت بنانے والا پہلا کامیاب سالار تھا۔اس کی فوج مکمل تنظیم و ترتیب سے آخر تک عاری رہی جب کہ اس کے مقابل ترتیب ، تنظیم ، تجربے ، تعداد اور جنگی صلاحیتوں کے اعتبار سے دنیا کی اعلی ترین فوج تھی۔اُس کے حریف کبھی اُس کے اقدامات کا درست اندازہ لگانے میں کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ وہ عین لڑائی میں جنگ کا نقشہ اور صورتحال بدلنے میں مہارت رکھتا تھا۔جنگ کے اکثر طور طریقے جنھیں ہم جدید کہتے ہیں ، ہینی بال ہی اُن کا موجد ہے۔
ہینی بال نے سب سے پہلے آئندہ جنگجوؤں ، بلکہ جدید عہد کے لیے یہ درس بھی چھوڑا کہ فتح کے لیے صرف جدید ترین آلات جنگ ، کثرت تعداد ، خطرناک اور مہلک ہتھیاروں کی کثیر فراہمی ہی پر انحصار نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس میں انسانی صلاحیتوں ، جرات اور شجاعت کا بھی نہایت عمل دخل ہوتا ہے۔جب وہ اپنی فوج کے ساتھ چلتا ، اُسے سادگی کے باعث کوئی پہچان نہ سکتا، وہ مختلف بولیاں بولتا ، اصل روپ چھپانے کی خاطر مختلف قسم کے لباس اور اُسی رنگ کی ٹوپیاں پاس رکھتا۔سخت آزمائش کے دوران مذاق کرتا اور قہقہے لگاتا رہتا ۔فتح وکامرانی کے بعد جشن منانے یا نمود ونمائش کے بجائے آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے منہمک رہتا۔وہ فطرتاً نہایت رحم دل تھا ،لیکن مجبوراً اُسے آخر تک سیزر اور ہٹلر کی طرح اپنی رحم دلی کے برعکس سخت گیری سے کام لینا پڑا۔
لوٹ مار تو کجا ، نہایت دولت مند مفتوحہ علاقوںسے تاوان ، خراج یا امدادی رقم تک نہیں لی ، حالانکہ اُسے اُس کی سخت ضرورت بھی تھی ، بعد میں یہی وطیرہ نپولین بونا پارٹ کا رہا۔اسیرانِ جنگ یا کسی مفتوحہ علاقوں کی عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کا خون بہانا ، اذیتیں دینا ، اُن سے ذلت آمیز رویہ اختیار کرنا ، غلام بنانا ، بیچنا یہاں تک کہ عورتوں کو قبحہ خانوں میں بٹھانا رومن کا رویہ تھا ، جب کہ ہینی بال کا رویہ اس کے بالکل برعکس تھا اس کی گردن پر کسی اسیرانِ جنگ یا کسی مفتوحہ علاقوں کے لوگوں کا خون نہیں تھا۔
بائیس سو برس گذر جانے ، اور سو سے زائد تحقیقی کتابیں لکھنے کے باوجود جغرافیہ دان آج تک یہ گھتی سلجھانے میں سرگرداں ہیں کہ ہینی بال نے تیس ہزار پیادہ ، آٹھ ہزار سواروں سیکڑوں بار بردار گاڑیوں ، لاتعداد جانوروں اور سینتیس ہاتھیوں کے ساتھ ایلس پہاڑ کو عبور کیسے کیا ؟جس کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ بلانک تک پندرہ ہزار سات سو اکیاسی فٹ تک ہے ۔ برف باری کی انتہا اور سردی کی نہایت شدت الگ۔ہینی بال سے پہلے یا اُس کے بعد کوئی ایسا نہ کرسکا ۔ ہینی بال نہایت گرم صحرائی علاقے کا باشندہ تھا۔
دنیا کے بڑے بڑے مورخین اُسے دنیا کے چند عظیم سالاروں اور قائدین میں شمار کرتے ہیں ۔ ہینی بال جیسے نابغہ کو اہل رومہ پاگل قرطاجنی کہتے تھے ۔رومنوں کے دلوں پر اُس کی ہیبت ایسی چھائی ہوئی تھی کہ جب اُن کے بچے روتے تو اُن کے مائیں انھیں چپ کرنے کے خاطر یہ کہہ کر ڈراتی تھیں کہ'' ہینی بال دروازے پر کھڑا ہے۔''
وہ تنہا کام کرنے کا اور اپنی دھن میں مگن رہنے کا عادی تھا ، وہ مطالعے کے بغیر رہ نہیں سکتا تھا ، میدان جنگ میں بھی کتابیں اُس کے پاس رہا کرتی تھیں ، یہاں تک کہ عمر کے آخری حصے میں بطانیہ کے گاؤں لبی سا میں بھی کسی طرح کتابیں لے جانے میں کامیاب ہوگیا تھا ، جہاں اُس نے پناہ لی تھی۔ہینی بال ایک ہوا بن گیا تھا ۔
تمام رومن اس کے خوف میں مبتلا رہتے تھے کہ ہینی بال کب اور کدھر کا رخ کرکے تباہی مچاتا ہے۔ہینی بال کی فتوحات اور جنگوں کا حال کافی طویل ہے لیکن تاریخ میں ہینی بال جیسے سپہ سالاروں کی بہادری کا ذکر بہت کم ملتا ہے۔تربیہ کی جنگ میں رومیوں کو شکست دی۔ تراسی منو کی جنگ میں ہینی بال کو فتح میں شہرت ِ عام و دوام حاصل ہوئی۔کنائی کی جنگ میں تربیت یافتہ و منظم اور مضبوط رومی فوج کو شکست دی۔کوکری ، تارقتم نیز دواور کی بندرگاہیں ہینی بال نے فتح کیں۔ہینی بال کے خلاف مسلسل نو سال کے اقدامات میں رومنوں کو لگاتار شکستیں ہوتیں رہیں۔قرطاجنہ میں اپنے بھائی ہسد روپال کی ریمنی کے مقام میں شکست کی وجہ سے ، سپیو نے اسپین میں ہینی بال کے خاندان برقہ کی تیس سالہ حکومت ختم کردی۔
ستم ظریفی یہ کہ اپنے عہد کا عظیم ترین برّی سپاہی آخری معرکہ لڑنے کے لیے سمندر کو نکلا تھا ، اُسے کئی کامیابیاں حاصل ہوئیں لیکن یہاں ناکام ہوا۔ آخرکار کمک کم اور فوج نہ ہونے کے باعث ترکی ایشیائی شہر ننبھانیہ اطولیا کے گاؤں لبی سا میں سکونت اختیار کرلی، بتھانیہ کے حکمرانوں کا ہینی بال کی موجودگی کا پتہ چھپانے کے باوجود رومیوں کو چل گیا۔رومیوں نے پروسیاس سے ہینی بال کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔پروسیاس نے ہینی بال کو حوالے کرنے کی کوئی دلیل نہیں مانی اور آخر تک حوالے کرنے سے انکار کرتا رہا۔
وہ نا شائستہ،ان پڑھ ، گنوار وحشی اور ایک چھوٹا حکمران تھا لیکن بڑا آدمی ، روایات و اقدار کا پاسدار تھا ، اس نے ہینی بال کی رہائش گاہ کے باہر محافظ دستہ بھی لگایا۔ہینی بال کو جب اُس صورت حال کا پتہ چلا ، تھوڑی دیر کے لیے پائیں باغ گیا ۔ پھر کھانے کے کمرے میں جاکر اپنے ملازمین سے زراب کا پیالہ منگوایا ، زہر جو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا تھا ۔ شراب میں ڈالتے ہوئے کہا ''اہل رومہ اس بوڑھے کی موت کا انتظار کرتے کرتے تھک چکے ہیں، وقت آن پہنچا ہے کہ اُن کی مدتوں کی پریشانی کو ختم کردیا جائے ۔'' پھر اس نے زہر پی لیا۔