کھانا نہ کھانے کی سزا…
کھانا ناصرف انسانی ضرورت ہے بلکہ کھانا معاشرتی تقریبات کا حسن بھی ہے۔ جب بھی ہم اکٹھے ہوتے ہیں،
کھانا ناصرف انسانی ضرورت ہے بلکہ کھانا معاشرتی تقریبات کا حسن بھی ہے۔ جب بھی ہم اکٹھے ہوتے ہیں، پکنک ہو، پارٹی، شادی بیاہ، ایک دوسرے کے گھر ملنے جانا اور حتی کہ موت پر بھی... ہم سب اکٹھے کھانا کھاتے ہیں، گویا ہر تقریب کا اہم ترین جزو کھانا ہے۔ کوئی خوشی کی تقریب کا منصوبہ ہو یا غم کے موقع پر مل بیٹھنا، سب سے اہم سوال ہوتا ہے کہ کیا پکے گا، کیا کھایا جائے گا، لوگوں کو کیا کھلایا جائے گا؟ مل بیٹھنے کا حسن پھیکا ہو جو کھانے کی میزیں نہ سجیں، چمچوں اور کانٹوں کی کھنک نہ ہو...
ہمارے ہاں نہ صرف تین وقت کا معمول کا کھانا اور ناشتہ ہوتا ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی آئے گئے کے لیے خصوصی اہتمام ہوتا ہے، شام کی چائے کے ساتھ لوازمات بھی ہماری معاشرت کا حصہ ہیں، محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا اس دنیا میں آنے اور جینے کا مقصد صرف کھاناکھانا اور کھانا ہے۔ ''ہم سارے دھندے پیٹ ہی کے لیے تو کرتے ہیں!'' عام طور پر یہی کہا جاتا ہے، گھروں کی عورتیں دن بھر اسی فکر میں مبتلا رہتی ہیں۔
ایک وقت کا کھانا کھلا کر فارغ ہوتی ہیں اور برتن دھوتے ہوئے اگلے کھانے کا سوچ رہی ہوتی ہیں، ساتھ ہی اگلی ہانڈی کا لہسن پیاز کاٹنے لگتی ہیں۔ اگر سروے کیا جائے تو خواتیں خانہ کی ٹینشن کی ایک بڑی وجہ کھانے پکانے کا سوچنا ہوتا ہے۔کچھ عرصے سے رواج ہو گیا ہے کہ کھانا باہر سے کھایا جائے، پہلے پہل باہر سے کھانا مجبوری کے تحت کھایا جاتا تھا مگر اب شوق سے کھایا جاتا ہے۔ اگرچہ دنیا میں نصف سے زائد آبادی ایسی ہو گی جن کو اپنے گھر پر بھی کھانا نہیں ملتا ہو گا... باہر کھانا کھانا تو ایسے تعیشات میں آتا ہے جس کی انھیں توفیق بھی نہیں ہوتی... (بھکاری اس توفیق سے مستثنی ہیں)۔ ہوٹل، پارک، کھوکھے اور ریڑھیاں عموما وہ جگہیں ہیں جہاں سے ہمارے ہاں ''باہر'' کھانا کھایا جاتا ہے۔
اپنی جیب کے مطابق ہر کوئی باہر سے کھانا کھانے کی عیاشی کرتا ہے۔ کھانا آپ جہاں سے کھائیں تو آپ کو اسی کے مطابق بل ادا کرنا پڑتا ہے، ہماری زبان میں کئی محاورے اور ضرب المثال کھانے کے بارے میں ہیں، مثلاً اونچی دکان پھیکا پکوان ... مگر کیا کبھی ایسا ہوا کہ ایسے کھانا کھانے کا بل ادا کرنا پڑے جو کہ آپ نے نہ کھایا ہو؟ یہ ایک انتہائی دلچسپ کہانی ہے، حقیقی دنیا کی جو کہ اگلے روز کسی نے مجھے انٹرنیٹ کے ایک تصویری لنک میں بھیجی ہے جو کہ مشرق بعید کے کسی ملک سے تھی۔ ایک ہوٹل کے اندر، بوفے کی طویل میزیں لگی ہوئی تھیں، ان پر کئی اقسام کے کھانوں کی لا تعداد ڈشیں پڑی ہوئی تھیں۔
اس سے اوپر دیوار پر ایک سفید رنگ کا بورڈ لگا ہوا تھا اور اس پر یہ عبارت انگریزی میں اور ان کی اپنی زبان میں درج تھی۔ سب سے اوپر بوفے فی کس کا ریٹ ان کی اپنی کرنسی میں تین سو لکھا ہوا تھا، اس کے نیچے تحریر تھا۔''آپ سے درخواست ہے کہ جو کچھ آپ کھانا چاہتے ہیں وہ پہلے کم مقدار میں اپنی پلیٹ میں ڈال کر چکھ لیں، اگر آپ کو اچھا لگے تو مزید لے لیں اور اگر نہ اچھا لگے تو کوئی اور چیز کھا لیں۔ ہر چیز کو اپنی پلیٹ میں ڈالنے سے پہلے چکھیں ضرور تا کہ آپ اپنی پلیٹ میں کچھ ایسا نہ ڈالیں جس کا ذائقہ بعد ازاں آپ کو پسند نہ آئے۔ جتنا چاہے کھائیں مگر کھانا ضایع نہ کریں۔ دنیا میں بھوک اور غربت بے انتہا ہے، ڈشوں میں بچا ہوا کھانا اور لوگ کھا سکتے ہیںمگر پلیٹوں میں بچا ہوا نہیں... جو کھانا آپ کھائیں گے اس کا بل تین سو روپے ہے اور جو کھانا آپ پلیٹ میں ضایع کریں گے اس کا بل چھ سو روپے ہے!'' مجھے یہ پڑھ کر اتنا اچھا لگا کہ میں نے آپ کے ساتھ شیئرکرنے کا سوچا۔
آپ کسی تین، چار یا پانچ ستاروں والے ہوٹل میں چلے جائیں، بوفے کے نام پر کئی کئی گز طویل میزیں لگی ہوتی ہیں جن پر انواع واقسام کے کھانوں کی لا تعداد ڈشیں سجی ہوتی ہیں۔ ان میںکئی طرح کے سلاد، سبزیاں، دالیں، میٹھے اور گوشت کی قسم قسم کی ورائٹی ہوتی ہے۔ ہم اور آپ ... سب وہاں جاتے ہیں، اس وقت ہمیں بھوک ہوتی ہے، کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو ہماری حس شامہ کو چھوتی اور اشتہا کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔
ہم ایک طرف سے اپنی پلیٹ میں کھانا ڈالنا شروع کرتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ ہم سب کچھ کھا لیں گے، پلیٹ کو اس کی آخری انتہا تک بھر لیتے ہیں، کھانے کو بیٹھتے ہیں تو پہلا نوالہ لیتے ہی باقی بھری پلیٹ بری لگنے لگتی ہے۔ ہم اس پہاڑ نما پلیٹ میں سے آدھے سے کم کھاتے اور اس سے کہیں زیادہ ضایع کرتے ہیں۔ اس پلیٹ کو اسی طرح میز پر چھوڑتے ہیں، اٹھ کر جاتے اور ایک اور پلیٹ بھر کر لے آتے ہیں... اسی اثناء میں بیرا ہماری پہلی پلیٹ اٹھا کر لے جاتا ہے، اس میں اتنا کھانا موجود ہوتا ہے کہ جسے دو لوگ کھا سکتے ہیں۔ وہ کھانا آپ کی پلیٹ میں سے سیدھا کوڑے دان میں جاتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کے بعد اس کھانے کے ساتھ کیا ہوتا ہے... رات بھر چوہے، بلیاں اور کتے اس تلف کیے گئے کھانے میں سے اپنے اپنے حصے کا کھاتے ہیں اور اگلی صبح ... انسان ... ہاں! میرے اور آپ جیسے انسان... جنھیں ہم انسان نہیں سمجھتے، اپنی طلب، بھوک، غربت اور ذلتوں کے مارے ... کوڑے کے ڈھیروں سے یہ کھانا چن چن کر کھاتے ہیں۔
کیا آپ ایسا کھانا کھا سکتے ہیں جسے کسی نے ادھ کھایا چھوڑا ہوا ہو... اس کے بعد وہ کوڑے دان میں سے ہوتا ہوا، جانوروں کے کھانے کے بعد بچا ہوا، کوڑے کے ڈھیر سے ننھے ننھے بچوں کے ہاتھوں سے چنا گیا ہو؟ ہر گز نہیں... ہم تو وہ کھانا بھی نہیں کھاتے جو ذرا دیر کے لیے رکھا رکھا ٹھنڈا ہو گیا ہو یا جسے ڈھک کر محفوظ نہ کیا گیا ہو... یا جس میں سے کسی نے ایک نوالہ لے لیا ہو... اپنے بارے میں ہم کس قدر محتاط ہوتے ہیں مگر دوسروں کے بارے میں اسی طرح کیوں نہیں سوچتے۔حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے جو لوگ afford کر سکتے ہیں، وہ اس قدر کھاتے ہیں کہ جتنا ہمارے بدن کی ضرورت سے انتہائی زیادہ ہوتا ہے۔ دوسروں کو کمپنی دینے کے لیے، موسم سے لطف اندوز ہونے کے لیے یا صرف اس لیے کہ اگر ہم نے نہ کھایا تو ضایع جائے گا۔ کھائے ہوئے پر بھی کھا لیتے ہیں ... کئی بیماریاں خوش خوراکی کے باعث پال لیتے ہیں مگر ایسا نہیں کرتے کہ کسی مستحق کو تلاش کر کے اسے بچا ہوا کھانا دے دیں۔ کچھ تو شہری علاقوں میں طرز رہائش ایسا عجیب ہو گیا ہے کہ ہمسائے کو ہمسائے کی خبر نہیں رہی، کوئی کس حال میں ہے ہمیں معلوم نہیں ہوتا، کوئی بھوکا مر رہا ہے یا بیمار ہے ہمیں علم نہیں۔
عام طور پر لوگ کہتے ہیں اور یہی حکومت کے مشیر بھی مشورہ دیتے ہیں اور ایک حکم کے مطابق شادی بیاہ کی تقریبات پر ون ڈش کی پابندی عائد کر دی گئی ہے... (صرف صوبہ پنجاب کی حد تک) مگر میرا ذاتی خیال ہے کہ شادی بیاہ پر یہ پابندی نہیں ہونی چاہیے... شادی بیاہ کی تقریبات تو ہر انسان کی زندگی میں ایک بار منعقد ہوتی ہیں، اس میں جو شخص استطاعت رکھتا ہے وہ جیسا کھانا دینا چاہے وہ ضرور دے، مگر روزمرہ زندگی میں کھانے کا جو زیاں ہم کرتے ہیں اسے روکنا ضروری ہے۔ جتنی طلب اور ضرورت ہو، اتنا کھائیں، ضایع نہ کریں، یہ سوچیں کہ ہماری ضرورت سے زائد کھانا، کوڑے دانوں کی بجائے ہمارے جیسے انسانوں کے پیٹ میں چلا جائے تو ان کی بھوک مٹانے کا باعث بنے گا۔ کاش ہمارے ہاں بھی ہوٹلوں کے بوفے ٹیبل پر ایسی عبارات لگا دی جائیں تا کہ لوگوں کو کم از کم کھانا ضایع نہ کرنے کی تمیز آ جائے۔
بھوک حیوانی جبلتوں میں سب سے اہم ہے... یہی انسان کو چوری، ڈاکے اور قتل تک کے جرم پر مجبور کر دیتی ہے، اسے انسان سے حیوان بنا دیتی ہے، بھوک کو مٹانا اس کی ضرورت ہے اسے وہ ہر طور مٹانے کی کوشش کرتا ہے، مگر فقط اپنی اور اپنے بچوں کی بھوک، اپنی بھوک تو ہر کوئی مٹا لیتا ہے، دوسروں کی بھوک کا کبھی سوچا ہم نے؟ اپنے لیے جینا کوئی جینا نہیں، دوسروں کے لیے کچھ کر کے جینا ہماری زندگی کو با مقصد بنا دیتا ہے... کاش ہمارے ہاں روزمرہ ضایع ہونے والا رزق کسی مستحق کے پیٹ میں چلا جائے؟
ہمارے ہاں نہ صرف تین وقت کا معمول کا کھانا اور ناشتہ ہوتا ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی آئے گئے کے لیے خصوصی اہتمام ہوتا ہے، شام کی چائے کے ساتھ لوازمات بھی ہماری معاشرت کا حصہ ہیں، محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا اس دنیا میں آنے اور جینے کا مقصد صرف کھاناکھانا اور کھانا ہے۔ ''ہم سارے دھندے پیٹ ہی کے لیے تو کرتے ہیں!'' عام طور پر یہی کہا جاتا ہے، گھروں کی عورتیں دن بھر اسی فکر میں مبتلا رہتی ہیں۔
ایک وقت کا کھانا کھلا کر فارغ ہوتی ہیں اور برتن دھوتے ہوئے اگلے کھانے کا سوچ رہی ہوتی ہیں، ساتھ ہی اگلی ہانڈی کا لہسن پیاز کاٹنے لگتی ہیں۔ اگر سروے کیا جائے تو خواتیں خانہ کی ٹینشن کی ایک بڑی وجہ کھانے پکانے کا سوچنا ہوتا ہے۔کچھ عرصے سے رواج ہو گیا ہے کہ کھانا باہر سے کھایا جائے، پہلے پہل باہر سے کھانا مجبوری کے تحت کھایا جاتا تھا مگر اب شوق سے کھایا جاتا ہے۔ اگرچہ دنیا میں نصف سے زائد آبادی ایسی ہو گی جن کو اپنے گھر پر بھی کھانا نہیں ملتا ہو گا... باہر کھانا کھانا تو ایسے تعیشات میں آتا ہے جس کی انھیں توفیق بھی نہیں ہوتی... (بھکاری اس توفیق سے مستثنی ہیں)۔ ہوٹل، پارک، کھوکھے اور ریڑھیاں عموما وہ جگہیں ہیں جہاں سے ہمارے ہاں ''باہر'' کھانا کھایا جاتا ہے۔
اپنی جیب کے مطابق ہر کوئی باہر سے کھانا کھانے کی عیاشی کرتا ہے۔ کھانا آپ جہاں سے کھائیں تو آپ کو اسی کے مطابق بل ادا کرنا پڑتا ہے، ہماری زبان میں کئی محاورے اور ضرب المثال کھانے کے بارے میں ہیں، مثلاً اونچی دکان پھیکا پکوان ... مگر کیا کبھی ایسا ہوا کہ ایسے کھانا کھانے کا بل ادا کرنا پڑے جو کہ آپ نے نہ کھایا ہو؟ یہ ایک انتہائی دلچسپ کہانی ہے، حقیقی دنیا کی جو کہ اگلے روز کسی نے مجھے انٹرنیٹ کے ایک تصویری لنک میں بھیجی ہے جو کہ مشرق بعید کے کسی ملک سے تھی۔ ایک ہوٹل کے اندر، بوفے کی طویل میزیں لگی ہوئی تھیں، ان پر کئی اقسام کے کھانوں کی لا تعداد ڈشیں پڑی ہوئی تھیں۔
اس سے اوپر دیوار پر ایک سفید رنگ کا بورڈ لگا ہوا تھا اور اس پر یہ عبارت انگریزی میں اور ان کی اپنی زبان میں درج تھی۔ سب سے اوپر بوفے فی کس کا ریٹ ان کی اپنی کرنسی میں تین سو لکھا ہوا تھا، اس کے نیچے تحریر تھا۔''آپ سے درخواست ہے کہ جو کچھ آپ کھانا چاہتے ہیں وہ پہلے کم مقدار میں اپنی پلیٹ میں ڈال کر چکھ لیں، اگر آپ کو اچھا لگے تو مزید لے لیں اور اگر نہ اچھا لگے تو کوئی اور چیز کھا لیں۔ ہر چیز کو اپنی پلیٹ میں ڈالنے سے پہلے چکھیں ضرور تا کہ آپ اپنی پلیٹ میں کچھ ایسا نہ ڈالیں جس کا ذائقہ بعد ازاں آپ کو پسند نہ آئے۔ جتنا چاہے کھائیں مگر کھانا ضایع نہ کریں۔ دنیا میں بھوک اور غربت بے انتہا ہے، ڈشوں میں بچا ہوا کھانا اور لوگ کھا سکتے ہیںمگر پلیٹوں میں بچا ہوا نہیں... جو کھانا آپ کھائیں گے اس کا بل تین سو روپے ہے اور جو کھانا آپ پلیٹ میں ضایع کریں گے اس کا بل چھ سو روپے ہے!'' مجھے یہ پڑھ کر اتنا اچھا لگا کہ میں نے آپ کے ساتھ شیئرکرنے کا سوچا۔
آپ کسی تین، چار یا پانچ ستاروں والے ہوٹل میں چلے جائیں، بوفے کے نام پر کئی کئی گز طویل میزیں لگی ہوتی ہیں جن پر انواع واقسام کے کھانوں کی لا تعداد ڈشیں سجی ہوتی ہیں۔ ان میںکئی طرح کے سلاد، سبزیاں، دالیں، میٹھے اور گوشت کی قسم قسم کی ورائٹی ہوتی ہے۔ ہم اور آپ ... سب وہاں جاتے ہیں، اس وقت ہمیں بھوک ہوتی ہے، کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو ہماری حس شامہ کو چھوتی اور اشتہا کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔
ہم ایک طرف سے اپنی پلیٹ میں کھانا ڈالنا شروع کرتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ ہم سب کچھ کھا لیں گے، پلیٹ کو اس کی آخری انتہا تک بھر لیتے ہیں، کھانے کو بیٹھتے ہیں تو پہلا نوالہ لیتے ہی باقی بھری پلیٹ بری لگنے لگتی ہے۔ ہم اس پہاڑ نما پلیٹ میں سے آدھے سے کم کھاتے اور اس سے کہیں زیادہ ضایع کرتے ہیں۔ اس پلیٹ کو اسی طرح میز پر چھوڑتے ہیں، اٹھ کر جاتے اور ایک اور پلیٹ بھر کر لے آتے ہیں... اسی اثناء میں بیرا ہماری پہلی پلیٹ اٹھا کر لے جاتا ہے، اس میں اتنا کھانا موجود ہوتا ہے کہ جسے دو لوگ کھا سکتے ہیں۔ وہ کھانا آپ کی پلیٹ میں سے سیدھا کوڑے دان میں جاتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کے بعد اس کھانے کے ساتھ کیا ہوتا ہے... رات بھر چوہے، بلیاں اور کتے اس تلف کیے گئے کھانے میں سے اپنے اپنے حصے کا کھاتے ہیں اور اگلی صبح ... انسان ... ہاں! میرے اور آپ جیسے انسان... جنھیں ہم انسان نہیں سمجھتے، اپنی طلب، بھوک، غربت اور ذلتوں کے مارے ... کوڑے کے ڈھیروں سے یہ کھانا چن چن کر کھاتے ہیں۔
کیا آپ ایسا کھانا کھا سکتے ہیں جسے کسی نے ادھ کھایا چھوڑا ہوا ہو... اس کے بعد وہ کوڑے دان میں سے ہوتا ہوا، جانوروں کے کھانے کے بعد بچا ہوا، کوڑے کے ڈھیر سے ننھے ننھے بچوں کے ہاتھوں سے چنا گیا ہو؟ ہر گز نہیں... ہم تو وہ کھانا بھی نہیں کھاتے جو ذرا دیر کے لیے رکھا رکھا ٹھنڈا ہو گیا ہو یا جسے ڈھک کر محفوظ نہ کیا گیا ہو... یا جس میں سے کسی نے ایک نوالہ لے لیا ہو... اپنے بارے میں ہم کس قدر محتاط ہوتے ہیں مگر دوسروں کے بارے میں اسی طرح کیوں نہیں سوچتے۔حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے جو لوگ afford کر سکتے ہیں، وہ اس قدر کھاتے ہیں کہ جتنا ہمارے بدن کی ضرورت سے انتہائی زیادہ ہوتا ہے۔ دوسروں کو کمپنی دینے کے لیے، موسم سے لطف اندوز ہونے کے لیے یا صرف اس لیے کہ اگر ہم نے نہ کھایا تو ضایع جائے گا۔ کھائے ہوئے پر بھی کھا لیتے ہیں ... کئی بیماریاں خوش خوراکی کے باعث پال لیتے ہیں مگر ایسا نہیں کرتے کہ کسی مستحق کو تلاش کر کے اسے بچا ہوا کھانا دے دیں۔ کچھ تو شہری علاقوں میں طرز رہائش ایسا عجیب ہو گیا ہے کہ ہمسائے کو ہمسائے کی خبر نہیں رہی، کوئی کس حال میں ہے ہمیں معلوم نہیں ہوتا، کوئی بھوکا مر رہا ہے یا بیمار ہے ہمیں علم نہیں۔
عام طور پر لوگ کہتے ہیں اور یہی حکومت کے مشیر بھی مشورہ دیتے ہیں اور ایک حکم کے مطابق شادی بیاہ کی تقریبات پر ون ڈش کی پابندی عائد کر دی گئی ہے... (صرف صوبہ پنجاب کی حد تک) مگر میرا ذاتی خیال ہے کہ شادی بیاہ پر یہ پابندی نہیں ہونی چاہیے... شادی بیاہ کی تقریبات تو ہر انسان کی زندگی میں ایک بار منعقد ہوتی ہیں، اس میں جو شخص استطاعت رکھتا ہے وہ جیسا کھانا دینا چاہے وہ ضرور دے، مگر روزمرہ زندگی میں کھانے کا جو زیاں ہم کرتے ہیں اسے روکنا ضروری ہے۔ جتنی طلب اور ضرورت ہو، اتنا کھائیں، ضایع نہ کریں، یہ سوچیں کہ ہماری ضرورت سے زائد کھانا، کوڑے دانوں کی بجائے ہمارے جیسے انسانوں کے پیٹ میں چلا جائے تو ان کی بھوک مٹانے کا باعث بنے گا۔ کاش ہمارے ہاں بھی ہوٹلوں کے بوفے ٹیبل پر ایسی عبارات لگا دی جائیں تا کہ لوگوں کو کم از کم کھانا ضایع نہ کرنے کی تمیز آ جائے۔
بھوک حیوانی جبلتوں میں سب سے اہم ہے... یہی انسان کو چوری، ڈاکے اور قتل تک کے جرم پر مجبور کر دیتی ہے، اسے انسان سے حیوان بنا دیتی ہے، بھوک کو مٹانا اس کی ضرورت ہے اسے وہ ہر طور مٹانے کی کوشش کرتا ہے، مگر فقط اپنی اور اپنے بچوں کی بھوک، اپنی بھوک تو ہر کوئی مٹا لیتا ہے، دوسروں کی بھوک کا کبھی سوچا ہم نے؟ اپنے لیے جینا کوئی جینا نہیں، دوسروں کے لیے کچھ کر کے جینا ہماری زندگی کو با مقصد بنا دیتا ہے... کاش ہمارے ہاں روزمرہ ضایع ہونے والا رزق کسی مستحق کے پیٹ میں چلا جائے؟