معاشی استحکام کی منزل
آئی ایم ایف کی شرائط پر نئی ٹیکس ترامیم قوتِ خرید کو مزید محدود کرنے کا سبب بنیں گی
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ اگلے چند دنوں میں بجلی کی قیمتوں میں کمی کی خوشخبری ملے گی، آج فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہمیں زندگی مانگ کر اور کشکول کے سہارے گزارنی ہوگی، جلد قوم سے خطاب کر کے پانچ سالہ معاشی پلان بھی پیش کروں گا۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے جشن آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
یوم آزادی کے موقع پر قوم سے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے وطن عزیز کی خود مختاری کو معاشی استحکام سے مشروط قرار دیتے ہوئے ملکی ترقی اور معاشی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے حکومتی ترجیحات کے تعین کا ذکر کیا ہے۔ موجودہ حکومت اگر خود انحصاری کو اپنی منزل قرار دے رہی ہے تو اسے ان تمام عوامل کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہوگا جن کے سبب ماضی کے ادوار میں ہم اس منزل تک نہیں پہنچ پائے۔
خود انحصاری کا لازمہ معاشی استحکام ہے اور معاشی استحکام معاشی پالیسیوں کے تسلسل کا مرہونِ منت ہے۔ سیاسی مخالفت اور ذاتی مفادات کی جنگ میں ہم آج تک کوئی ایسا لائحہ عمل طے نہیں کر پائے جس کے ذریعے قرضوں پر انحصار کم کر کے خود انحصاری کی ڈگر پر چلا جا سکے۔ خود انحصاری کا دوسرا بنیادی جز عوام کو خط غربت سے نکال کر ان کے قدموں پرکھڑا کرنا ہے مگر یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ نئے مالی سال کا بجٹ سپر ٹیکس، ٹیکس کی نئی ترامیم اور پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کی ادائیگی سمیت کئی ایسی ترامیم کے ساتھ منظوری سے عوام پر معاشی بوجھ بڑھے گا۔ حکومت کی طرف سے اب تک کیے گئے تمام مشکل فیصلوں کا بوجھ عوام ہی پر پڑا ہے یہی وجہ ہے کہ خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں اور بیروزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط پر نئی ٹیکس ترامیم قوتِ خرید کو مزید محدود کرنے کا سبب بنیں گی۔ ایسے میں ملکی معیشت کو استحکام کی جانب گامزن کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کی مشکلات کو بھی مدِنظر رکھنا چاہیے۔ بجلی کی قیمتوں میں کمی کی نوید بلاشبہ خوش آیند ہے لیکن دوسری جانب صنعتی ترقی کے لیے بھی حکومت کو فوری طور پر مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے چونکہ تقریباً گیس کی قیمت میں 4 گنا اور پھر بجلی کی قیمت میں تقریباً 3 گنا اضافے سے یقیناً صنعتی ترقی متاثر ہوگی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت، سری لنکا اور خطے کے دوسرے ممالک کی نسبت پاکستان میں پیداواری لاگت کہیں زیادہ ہے۔ آئی پی پیز کے معاملے میں کیا کچھ نہیں کہا گیا، کیا کچھ اخباروں میں نہیں چھپا، لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ اس قسم کی بدعنوانیوں کے خلاف بھاری جرمانے کے ساتھ سخت سزائیں دینی چاہئیں اور قانون کا سختی سے نفاذ ہونا چاہیے۔صنعتی ترقی کی رفتار گزشتہ سال 1.2 فیصد رہی جب کہ موجودہ بجٹ میں اس کا ہدف 3.4 رکھا گیا ہے جو شاید ناممکن تو نہیں، لیکن مشکل ضرور ہو گا۔ تمام بیرونی قرضوں کا مقصد غیر ترقیاتی اخراجات میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان قرضوں سے نئی صنعتوں کے قیام کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے تا کہ اندرون ملک پیداوار کو بڑھایا جا سکے اور برآمدات میں اضافہ کیا جا سکے تاکہ قیمتی زرمبادلہ کمایا جا سکے۔
دنیا کے جن بھی ترقی پذیر ممالک نے قرضے حاصل کیے ہیں تو ان سے نئی صنعتوں کا قیام اور پھر پیداوار میں اضافے کے ذریعے خام قومی پیداوار میں اضافہ کیا ہے۔ صنعتی ترقی کی بڑی مثالیں بنگلہ دیش، ویت نام اور جنوب مشرقی ایشیا کے بڑے ممالک ہیں۔ حکومت ایک دفعہ پھر ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں ناکام رہی ہے اور صنعتی شعبے اور زراعت کے شعبے کے ٹیکس نیٹ کو بھی بڑھانا ہو گا۔ مجموعی طور پر اگر بجٹ 25-2024 کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ متوسط طبقہ ہی سب سے زیادہ ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ماہرین معاشیات کے مطابق آئی ٹی سیکٹر میں سرمایہ کاری کی بہت گنجائش ہے لیکن اس سلسلے میں آئی ٹی یونیورسٹیوں اور آئی ٹی انڈسٹری کے درمیان اشتراک و تعاون لازم و ملزم ہے تا کہ طلبہ کو جدید دور کے مطابق آئی ٹی کی تعلیم دی جائے۔
آئی ٹی انڈسٹری کی ضروریات کو بھی پورا کیا جا سکے اور آئی ٹی انڈسٹری ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرسکے۔ مستقبل قریب میں بھارت کی طرح ہم بھی آئی ٹی سے متعلقہ مصنوعات کو برآمد کر سکیں۔ دوسری جانب حکومت کو اپنے ٹیکس نیٹ کو بھی بڑھانا ہو گا۔ آخر ہم کیوں اپنی اہم قومی ذمے داریوں سے پیچھے ہٹتے دکھائی دیتے ہیں؟ معاشی مشکلات پر قابو پانے کے لیے حکومت نے ملک کے تمام بڑے ہوائی اڈوں کی آؤٹ سورسنگ کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے اسلام آباد ایئرپورٹ کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ متعدد حکومتی ادارے بشمول پی آئی اے کی نجکاری کی بازگشت بھی سنی جا رہی ہے۔
پی آئی اے، ریلوے اور اسٹیل مل میں بڑھتے ہوئے خسارے نے ملکی معیشت کو مزید تباہی و بربادی کی جانب دھکیل دیا ہے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق حکومت کو فوری طور پر بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے اہم اور مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے تا کہ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ حاصل ہو سکے۔ اس سلسلے میں اندرون ملک سرمایہ کار دوست پالیسیوں کو بھی اپنانا ہو گا۔ رئیل اسٹیٹ کے شعبے کو بھی فوری طور پر ٹیکس نیٹ میں لانا ہو گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ رئیل اسٹیٹ کے شعبے کے مسائل کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا، چونکہ رئیل اسٹیٹ کے ساتھ دیگر اہم شعبوں کے ساتھ ساتھ تعمیراتی صنعت بھی وابستہ ہے جس سے روزگار کے مواقع بڑھتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق آبادی کے بڑھنے کی شرح 2.5 فیصد ہے جب کہ صنعتی ترقی کی رفتار 1.2 فیصد ہے۔ گزشتہ سال زرعی شعبے کی بہتر کارکردگی کے باوجود شاید اس کے ثمرات عام عوام تک نہیں پہنچے اور سبزی، پھلوں اور گوشت کی بڑھتی قیمتوں سے عوام الناس شدید پریشان رہے۔ کسان کو بھی تحفظ دینے کی ضرورت ہے تا کہ زرعی شعبے کے مسائل کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جا سکے۔
اس سلسلے میں سستے قرضے، ٹریکٹر، کھاد اور فرٹیلائزرز کی مناسب قیمت پر دستیابی بھی ضروری ہے۔ اس بات کے لاتعداد شواہد موجود ہیں کہ وہ ممالک جنھوں نے سائنس و ٹیکنالوجی پر وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے وہ ہی بڑی تیزی سے پائیدار اقتصادی ترقی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ اہمیت اعلیٰ تکنیکی شعبوں میں بین الاقوامی سطح کی مصنوعات کی صنعتیں قائم کرنے اور ان کو بڑے پیمانے پر برآمد کرنا چاہیے۔ اس طرح بڑھتی ہوئی افرادی قوت کے لیے مناسب روزگار کے مواقعے میسر آسکیں گے اور غربت کے خاتمے میں مدد ملے گی۔
اس علمی معیشتوں کے دور میں ہمیں موجودہ تعلیمی اداروں کی مضبوطی، ابھرتی ہوئی نئی ٹیکنالوجیوں میں نئے اداروں کے قیام، منڈی کی ضروریات کے مطابق پیشہ ور افراد اور کارندوں کی تربیت، تعلیمی اداروں، تحقیقی مراکز اور صنعتوں کے مابین موثر تعاون، نجی شعبوں کو اعلیٰ تکنیکی صنعت پر سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی اور مخصوص ٹیکنالوجی پارکوں کے قیام کے لیے مراعات فراہم کرنے پر بھر پور توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ پاکستان میں سافٹ ویئر کی صنعت کی موجودہ صورتحال میں ترقی کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ سافٹ ویئر کی ترقی بنیادی طور پر انسانی وسائل پر منحصر ہے، لہٰذا اس صنعت کے فروغ کے لیے پیشہ ور افراد کی تعداد اور معیار کو بڑھانے کے لیے موزوں اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات کو بروئے کار لانے کے لیے کئی اقدامات اٹھانا ہونگے جن میں آئی ٹی کی تعلیم، برقی نظام حکومت، آئی ٹی میں افرادی قوت کی ترقی سے متعلق شعبے شامل ہیں جن پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔کیمیائی صنعت بھی صنعتی ترقی کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔
پاکستان میں اب تک بہت سی کیمیائی صنعتیں ابتدائی مراحل طے کررہی ہیں۔ دوا ساز صنعتیں اس وقت 90% فعال اجزا درآمد کر رہی ہیں۔ پاکستان کو ضروری اجزا خود تیار کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے بالخصوص ان اجزا سے جن کا خام مال ہمارے ملک میں موجود ہیں۔ توانائی تمام شعبوں کی ترقی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو پاکستان اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود تنزلی کا شکار رہے گا۔ضروری ہے کہ ملک میں روز افزوں مہنگائی کے پیش نظر لوگوں کی قوتِ خرید کو بڑھانے کا اہتمام کیا جائے، روزگار کے نئے مواقعے پیدا کیے جائیں۔ مستحکم معیشت کی جانب سفر اور عوام کو درپیش مسائل کے حل پر بیک وقت غور کیا جانا وقت کی ناگزیر ضرورت ہے۔ نئے منصوبے کے ساتھ جاری منصوبوں کو آگے بڑھانا چاہیے۔ زراعت اور اس شعبے سے متعلقہ انڈسٹری کو فروغ دیا جانا چاہیے۔
دنیا کو درپیش فوڈ سیکیورٹی کے پیش نظر اگر پاکستان کو فوڈ باسکٹ بنانے کا ہدف ہی طے کر لیا جائے تو ہماری برآمدات کا حجم کئی گنا تک بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی دنیا معترف ہے لیکن ہم اس شعبے میں بھی کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں لاسکے۔ پالیسیوں میں موجود عدم استحکام کو دور کرنے اور اُن پر عملدر آمد کے لیے ایک مستقل تھنک ٹینک کی ضرورت ہے جو سیاسی حالات سے ماورا ہو کر خالص انتظامی بنیادوں پر فیصلہ سازی کرے۔
پالیسیوں میں یہ تسلسل دنوں میں نہیں آ سکتا' اس لیے اس ضمن میں فوری حل طلب مسائل سے چشم پوشی نہیں کی جانی چاہیے۔ مہنگائی کے عفریت کو قابو کرنے کے لیے حکومت کو سخت اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ عوام کی زندگی سہل بنائی جا سکے۔ معاشی خود انحصاری کی بات ہر حکومت کرتی آئی ہے، اب وقت آ چکا ہے کہ واضح معاشی سمت کا تعین کرتے ہوئے عملاً اس جانب سفر کا آغاز کیا جائے۔
یوم آزادی کے موقع پر قوم سے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے وطن عزیز کی خود مختاری کو معاشی استحکام سے مشروط قرار دیتے ہوئے ملکی ترقی اور معاشی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے حکومتی ترجیحات کے تعین کا ذکر کیا ہے۔ موجودہ حکومت اگر خود انحصاری کو اپنی منزل قرار دے رہی ہے تو اسے ان تمام عوامل کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہوگا جن کے سبب ماضی کے ادوار میں ہم اس منزل تک نہیں پہنچ پائے۔
خود انحصاری کا لازمہ معاشی استحکام ہے اور معاشی استحکام معاشی پالیسیوں کے تسلسل کا مرہونِ منت ہے۔ سیاسی مخالفت اور ذاتی مفادات کی جنگ میں ہم آج تک کوئی ایسا لائحہ عمل طے نہیں کر پائے جس کے ذریعے قرضوں پر انحصار کم کر کے خود انحصاری کی ڈگر پر چلا جا سکے۔ خود انحصاری کا دوسرا بنیادی جز عوام کو خط غربت سے نکال کر ان کے قدموں پرکھڑا کرنا ہے مگر یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ نئے مالی سال کا بجٹ سپر ٹیکس، ٹیکس کی نئی ترامیم اور پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کی ادائیگی سمیت کئی ایسی ترامیم کے ساتھ منظوری سے عوام پر معاشی بوجھ بڑھے گا۔ حکومت کی طرف سے اب تک کیے گئے تمام مشکل فیصلوں کا بوجھ عوام ہی پر پڑا ہے یہی وجہ ہے کہ خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں اور بیروزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط پر نئی ٹیکس ترامیم قوتِ خرید کو مزید محدود کرنے کا سبب بنیں گی۔ ایسے میں ملکی معیشت کو استحکام کی جانب گامزن کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کی مشکلات کو بھی مدِنظر رکھنا چاہیے۔ بجلی کی قیمتوں میں کمی کی نوید بلاشبہ خوش آیند ہے لیکن دوسری جانب صنعتی ترقی کے لیے بھی حکومت کو فوری طور پر مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے چونکہ تقریباً گیس کی قیمت میں 4 گنا اور پھر بجلی کی قیمت میں تقریباً 3 گنا اضافے سے یقیناً صنعتی ترقی متاثر ہوگی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت، سری لنکا اور خطے کے دوسرے ممالک کی نسبت پاکستان میں پیداواری لاگت کہیں زیادہ ہے۔ آئی پی پیز کے معاملے میں کیا کچھ نہیں کہا گیا، کیا کچھ اخباروں میں نہیں چھپا، لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ اس قسم کی بدعنوانیوں کے خلاف بھاری جرمانے کے ساتھ سخت سزائیں دینی چاہئیں اور قانون کا سختی سے نفاذ ہونا چاہیے۔صنعتی ترقی کی رفتار گزشتہ سال 1.2 فیصد رہی جب کہ موجودہ بجٹ میں اس کا ہدف 3.4 رکھا گیا ہے جو شاید ناممکن تو نہیں، لیکن مشکل ضرور ہو گا۔ تمام بیرونی قرضوں کا مقصد غیر ترقیاتی اخراجات میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان قرضوں سے نئی صنعتوں کے قیام کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے تا کہ اندرون ملک پیداوار کو بڑھایا جا سکے اور برآمدات میں اضافہ کیا جا سکے تاکہ قیمتی زرمبادلہ کمایا جا سکے۔
دنیا کے جن بھی ترقی پذیر ممالک نے قرضے حاصل کیے ہیں تو ان سے نئی صنعتوں کا قیام اور پھر پیداوار میں اضافے کے ذریعے خام قومی پیداوار میں اضافہ کیا ہے۔ صنعتی ترقی کی بڑی مثالیں بنگلہ دیش، ویت نام اور جنوب مشرقی ایشیا کے بڑے ممالک ہیں۔ حکومت ایک دفعہ پھر ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں ناکام رہی ہے اور صنعتی شعبے اور زراعت کے شعبے کے ٹیکس نیٹ کو بھی بڑھانا ہو گا۔ مجموعی طور پر اگر بجٹ 25-2024 کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ متوسط طبقہ ہی سب سے زیادہ ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ماہرین معاشیات کے مطابق آئی ٹی سیکٹر میں سرمایہ کاری کی بہت گنجائش ہے لیکن اس سلسلے میں آئی ٹی یونیورسٹیوں اور آئی ٹی انڈسٹری کے درمیان اشتراک و تعاون لازم و ملزم ہے تا کہ طلبہ کو جدید دور کے مطابق آئی ٹی کی تعلیم دی جائے۔
آئی ٹی انڈسٹری کی ضروریات کو بھی پورا کیا جا سکے اور آئی ٹی انڈسٹری ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرسکے۔ مستقبل قریب میں بھارت کی طرح ہم بھی آئی ٹی سے متعلقہ مصنوعات کو برآمد کر سکیں۔ دوسری جانب حکومت کو اپنے ٹیکس نیٹ کو بھی بڑھانا ہو گا۔ آخر ہم کیوں اپنی اہم قومی ذمے داریوں سے پیچھے ہٹتے دکھائی دیتے ہیں؟ معاشی مشکلات پر قابو پانے کے لیے حکومت نے ملک کے تمام بڑے ہوائی اڈوں کی آؤٹ سورسنگ کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے اسلام آباد ایئرپورٹ کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ متعدد حکومتی ادارے بشمول پی آئی اے کی نجکاری کی بازگشت بھی سنی جا رہی ہے۔
پی آئی اے، ریلوے اور اسٹیل مل میں بڑھتے ہوئے خسارے نے ملکی معیشت کو مزید تباہی و بربادی کی جانب دھکیل دیا ہے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق حکومت کو فوری طور پر بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے اہم اور مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے تا کہ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ حاصل ہو سکے۔ اس سلسلے میں اندرون ملک سرمایہ کار دوست پالیسیوں کو بھی اپنانا ہو گا۔ رئیل اسٹیٹ کے شعبے کو بھی فوری طور پر ٹیکس نیٹ میں لانا ہو گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ رئیل اسٹیٹ کے شعبے کے مسائل کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا، چونکہ رئیل اسٹیٹ کے ساتھ دیگر اہم شعبوں کے ساتھ ساتھ تعمیراتی صنعت بھی وابستہ ہے جس سے روزگار کے مواقع بڑھتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق آبادی کے بڑھنے کی شرح 2.5 فیصد ہے جب کہ صنعتی ترقی کی رفتار 1.2 فیصد ہے۔ گزشتہ سال زرعی شعبے کی بہتر کارکردگی کے باوجود شاید اس کے ثمرات عام عوام تک نہیں پہنچے اور سبزی، پھلوں اور گوشت کی بڑھتی قیمتوں سے عوام الناس شدید پریشان رہے۔ کسان کو بھی تحفظ دینے کی ضرورت ہے تا کہ زرعی شعبے کے مسائل کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جا سکے۔
اس سلسلے میں سستے قرضے، ٹریکٹر، کھاد اور فرٹیلائزرز کی مناسب قیمت پر دستیابی بھی ضروری ہے۔ اس بات کے لاتعداد شواہد موجود ہیں کہ وہ ممالک جنھوں نے سائنس و ٹیکنالوجی پر وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے وہ ہی بڑی تیزی سے پائیدار اقتصادی ترقی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ اہمیت اعلیٰ تکنیکی شعبوں میں بین الاقوامی سطح کی مصنوعات کی صنعتیں قائم کرنے اور ان کو بڑے پیمانے پر برآمد کرنا چاہیے۔ اس طرح بڑھتی ہوئی افرادی قوت کے لیے مناسب روزگار کے مواقعے میسر آسکیں گے اور غربت کے خاتمے میں مدد ملے گی۔
اس علمی معیشتوں کے دور میں ہمیں موجودہ تعلیمی اداروں کی مضبوطی، ابھرتی ہوئی نئی ٹیکنالوجیوں میں نئے اداروں کے قیام، منڈی کی ضروریات کے مطابق پیشہ ور افراد اور کارندوں کی تربیت، تعلیمی اداروں، تحقیقی مراکز اور صنعتوں کے مابین موثر تعاون، نجی شعبوں کو اعلیٰ تکنیکی صنعت پر سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی اور مخصوص ٹیکنالوجی پارکوں کے قیام کے لیے مراعات فراہم کرنے پر بھر پور توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ پاکستان میں سافٹ ویئر کی صنعت کی موجودہ صورتحال میں ترقی کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ سافٹ ویئر کی ترقی بنیادی طور پر انسانی وسائل پر منحصر ہے، لہٰذا اس صنعت کے فروغ کے لیے پیشہ ور افراد کی تعداد اور معیار کو بڑھانے کے لیے موزوں اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات کو بروئے کار لانے کے لیے کئی اقدامات اٹھانا ہونگے جن میں آئی ٹی کی تعلیم، برقی نظام حکومت، آئی ٹی میں افرادی قوت کی ترقی سے متعلق شعبے شامل ہیں جن پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔کیمیائی صنعت بھی صنعتی ترقی کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔
پاکستان میں اب تک بہت سی کیمیائی صنعتیں ابتدائی مراحل طے کررہی ہیں۔ دوا ساز صنعتیں اس وقت 90% فعال اجزا درآمد کر رہی ہیں۔ پاکستان کو ضروری اجزا خود تیار کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے بالخصوص ان اجزا سے جن کا خام مال ہمارے ملک میں موجود ہیں۔ توانائی تمام شعبوں کی ترقی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو پاکستان اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود تنزلی کا شکار رہے گا۔ضروری ہے کہ ملک میں روز افزوں مہنگائی کے پیش نظر لوگوں کی قوتِ خرید کو بڑھانے کا اہتمام کیا جائے، روزگار کے نئے مواقعے پیدا کیے جائیں۔ مستحکم معیشت کی جانب سفر اور عوام کو درپیش مسائل کے حل پر بیک وقت غور کیا جانا وقت کی ناگزیر ضرورت ہے۔ نئے منصوبے کے ساتھ جاری منصوبوں کو آگے بڑھانا چاہیے۔ زراعت اور اس شعبے سے متعلقہ انڈسٹری کو فروغ دیا جانا چاہیے۔
دنیا کو درپیش فوڈ سیکیورٹی کے پیش نظر اگر پاکستان کو فوڈ باسکٹ بنانے کا ہدف ہی طے کر لیا جائے تو ہماری برآمدات کا حجم کئی گنا تک بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی دنیا معترف ہے لیکن ہم اس شعبے میں بھی کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں لاسکے۔ پالیسیوں میں موجود عدم استحکام کو دور کرنے اور اُن پر عملدر آمد کے لیے ایک مستقل تھنک ٹینک کی ضرورت ہے جو سیاسی حالات سے ماورا ہو کر خالص انتظامی بنیادوں پر فیصلہ سازی کرے۔
پالیسیوں میں یہ تسلسل دنوں میں نہیں آ سکتا' اس لیے اس ضمن میں فوری حل طلب مسائل سے چشم پوشی نہیں کی جانی چاہیے۔ مہنگائی کے عفریت کو قابو کرنے کے لیے حکومت کو سخت اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ عوام کی زندگی سہل بنائی جا سکے۔ معاشی خود انحصاری کی بات ہر حکومت کرتی آئی ہے، اب وقت آ چکا ہے کہ واضح معاشی سمت کا تعین کرتے ہوئے عملاً اس جانب سفر کا آغاز کیا جائے۔