عوامی مفادات اور حکمرانی کا نظام
صرف ملک میں موجود 26 فیصد افراد نے اپنی آمدنی سے اپنے اخراجات کو پورا کیا ہے
قومی سیاست یا بالائی سطح سے لے کر نچلی سطح تک جو فکری مباحث جاری ہیں ان میں ایک بڑا اور سنگین مسئلہ ملک میں موجود معاشی مسائل پر گفتگو ہے۔ اس گفتگو میں لوگ پریشان بھی ہیں اور ایک غیر یقینی کیفیت کا شکار بھی ہیں اور سب کے سامنے ملک کے معاشی مسائل پر بڑی فکر مندی بھی ہے ۔
اس فکر مندی میں مستقبل کے بارے میں بہت سے خدشات ہیں اور خدشات میں لوگ مستقبل کے معاشی امکانات کو بنیاد بنا کر سوالات رکھتے ہیں۔ایک طرف لوگوں میں موجود معاشی فکر مندی ہے تو دوسری طرف اسلام آباد میں جاری اقتدار کی سیاسی کشمکش کا کھیل ہے۔
اس کھیل میں لوگ خود کو کہیں بھی موجود نہیں پا رہے اور ان کو لگتا ہے کہ اقتدار کے اس کھیل میں ہماری حیثیت محض ایک تماشائی کی ہے۔اسی بنیاد پر حکومت پر لوگوں کے نہ صرف سوالات ہیں بلکہ وہ اس نظام پر شدید تحفظات رکھتے ہیں اور ان کے بقول یہ جو بھی نظام ہے محض طبقاتی بنیادوں پر قائم ہے ۔ اس نظام میں طاقت ور کے مقابلے میں عام لوگوں کا سیاسی اور معاشی استحصال کیا جاتا ہے جو ان میں ایک بڑی لاتعلقی کی سوچ کو پیدا کرتا ہے ۔رائے عامہ کو معلوم کرنے یا جانچنے کے ایک ادارہ PLUSE کنسلٹنٹ نے اپنے ایک حالیہ سروے میں میں پاکستان میں موجود شہری حلقوں کی سطح پر معاشی معاملات کے تناظر میں ایک نتیجہ پیش کیا ہے ۔
ان کے بقول پاکستان کے شہری علاقوں میں دس میں سے سات افراد یعنی 74 فیصد افراد اپنی ماہانہ آمدنی سے اپنے اخراجات پورے نہیں کرپا رہے۔ مئی 2023 میں یہ شرح 60 فیصد تھی ۔ان میں 59 فیصد افراد نے اپنی گھریلو اشیا کی خریداری میں کمی کرکے اپنے ماہانہ اخراجات کو کنٹرول کیا ہے ۔جب کہ 39 فیصد افراد نے مختلف لوگوں سے ادھار لے کر اپنے معاملات کو چلانے کی کوشش کی ہے ۔ 11فیصد لوگوں نے پارٹ ٹائم کام کرکے اپنے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ صرف ملک میں موجود 26 فیصد افراد نے اپنی آمدنی سے اپنے اخراجات کو پورا کیا ہے لیکن ان میں سے بھی زیادہ تر لوگوں کی کوئی ماہانہ بچت نہیں ہوسکی۔
یہ ایک ٹیلی فونک سروے تھا جس میں پاکستان کے 11بڑے شہر شامل تھے ۔ جن سے یہ سروے کیا گیا ان کی عمریں 18تا55برس تھی ۔یہ اعداد و شمار صرف شہری علاقوں تک تھے، اگر ہم دیہی اور شہری علاقوں کا مجموعی معاشی انڈیکس دیکھیں تو اس سطح پر ہمیں اور زیادہ معاشی سنگینی اور محرومی کی سیاست کا غلبہ ہے۔ایک طرف نئے روزگار کا پیدا نہ ہونا اور دوسری طرف پہلے سے موجود روزگار کی سطح پر عدم تحفظ یا غیر یقینی صورتحال ، تنخواہوں کی کمی ، کم سے کم اجرت 37,500پر عملدرآمد کا عدم شفافیت پر مبنی نظام سمیت مہنگائی اور بجلی ، گیس، پٹرول ،ڈیزل، مٹی کا تیل، ادویات ، دودھ اور کوکنگ آئل سمیت مختلف اشیا کی قیمتوں میں اضافہ سمیت ریگولیٹری کے نظام میں شفافیت یا کنٹرول نہ ہونا نے لوگوں کی زندگیوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے ۔
سب سے زیادہ اضافہ بجلی کی قیمتوں میں آیا ہے۔ ملازم پیشہ طبقے کی تنخواہوں کا 60سے 70فیصد حصہ بجلی کے بلوں میں جارہا ہے۔ بجلی کی قیمت میں غیرمنصفانہ اضافہ اور دیگر ٹیکسز لوگ کدھرجائیں ۔ گھر گھر کی کہانی ہے۔ دوسری طرف آئی پی پیز کا مسلہ نظام کو سمجھنے کے لیے کافی ہے ۔مڈل کلاس پر سب سے زیادہ برا وقت آیا ہے کیونکہ اس نے اپنی زندگی میں پچھلی دو دہائیوں سے کچھ آسانیاں اور کچھ آسائشیں پیدا کرلی تھیں ، لیکن اب وہ ان کو پورا کرنے میں بے بسی کا شکار ہے ۔یہ جو ہمیں معاشی مسائل کے تناظر میں اپنے سماجی ڈھانچوں سمیت سیاسی ، سماجی اور معاشی رویوں یا طرز عمل میں تناؤ، ٹکراؤ ،الجھن ، غصہ اور لڑائی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
اس کی ایک بڑی وجہ معاشی معاملات پر پیدا ہونے والی آسودگی ہے۔ گھر اور خاندان یا معاشرے کی سطح پر ہمیں عملی طور پر ایک دوسرے کے بارے میں معاشی تقسیم اور ٹکراؤ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔آمدنی اور اخراجات کے عدم توازن نے اوپر سے لے کر نیچے تک کے خاندانی نظام کو متاثرکیا ہے ۔سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر جو17سے 20 ویں گریڈ تک کے افسران ہیں ان کے دکھ کو بھی سمجھا جائے کہ وہ کس حال میں جی رہے ہیں ۔جب ہماری توجہ کا مرکز نئی چھوٹی یا بڑی صنعتوں کا قیام نہیں ہوگا تو پھر ہم نئی نسل کے لوگوں کو کیسے روزگار دے سکیں گے۔
پچھلے دنوں ایک محفل جو مختلف یونیورسٹیز کے طالب علموں پر مشتمل تھی ان میں سب سے زیادہ اپنے مستقبل کے بارے میں جہاں فکرمندی تھی وہیں معاشی عدم تحفظ کا احساس بھی نمایاں تھا۔نئی نسل میں سب سے زیادہ غصہ اس بات کا تھا کہ ان اور ان کے خاندان میں تو غربت ہے مگر دوسری طرف اس ملک کا طاقت ور خوشحال طبقہ جو سیاست سمیت ہر شعبہ پر غالب ہے ، وہ ریاستی وسائل کا بے دریغ استعمال کر رہا ہے ۔اسی طرح کئی اچھے بھلے افراد یا گھرانوںکے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ اپنے خاندان کی صحت کے معاملات میں خیراتی اداروں سے مدد حاصل کرنے میں مجبور ہوچکے ہیں اور کوئی محفوظ راستہ ان کے پاس موجود نہیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ریاستی اور حکومتی نظام کے پاس پاکستانی عوام کے مسائل کا حل اور ان کے دکھوں یا تکالیف کا کوئی علاج ہے یا ان کے معاملات کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے ۔
لوگوں کو مسائل کے حل سے زیادہ فکر اس امید اور روشنی کی ہوتی ہے جو ان میں یہ سوچ پیدا کرتی ہے کہ حالات جلد بہتر ہوں گے ۔یہ سوچ اسی صورت میں پیدا ہوتی ہے جب لوگوں میں یہ احساس ہوتا ہے کہ حکومتی نظام ایک بہتر روڈ میپ کی طرف بڑھ رہا ہے یا ہماری سمت درست ہے۔ مسئلہ کسی ایک جماعت یا حکومت کا نہیں ہے بلکہ مجموعی طور پر ہمارا حکومتی نظام عوامی مفادات کے تناظر میں اپنی اہمیت کھوچکا ہے ۔
ذاتیات پر مبنی سیاست اور معیشت نے پورے ریاستی نظام میں ایک بہت بڑے مافیاز کی شکل اختیار کرلی ہے ۔ یہ مافیاز حکومت کے اندر بھی ہیں اور حکومت سے باہر بھی مگر ان کے باہمی گٹھ جوڑ نے پورے نظام کو ایک بڑے کاروبار یا منافع کی شکل میں تبدیل کردیا ہے۔اسی طرح ایک بڑا ظلم معاشی ترقی کے نام پر خیراتی ماڈل ہے جہاں لوگو ں کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کی بجائے ان کو بھکاری یا خیراتی حکمت عملی کا حصہ بنایا جارہا ہے ۔اسی بنیاد پر بار بار اس نقطہ کو دہرایا جاتا ہے کہ پاکستان کے حالات اب روائتی اورفرسودہ نظام سے جڑی پالیسیوں سے درست نہیں ہوں گے۔ ہمیں بڑے پیمانے پر انتظامی، سیاسی، قانونی ، معاشی سمیت ادارہ جاتی ڈھانچوں میںبنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانی ہوں گی ۔ حکومتی نظام کی ساکھ لوگو ں کے بنیادی حقوق کی پاسداری اور ان کی فراہمی کو یقینی بنانے سے جڑی ہوتی ہے۔لیکن ہمارا حکومتی نظام لوگوں پر ایک بڑے سیاسی اور معاشی بوجھ کی صورت اختیار کرگیا ہے۔
معاشی دہشت گردی اسی صورت جڑ پکڑتی ہے جب ہم ایک غیرمنصفانہ ، غیر شفاف اور غیر جمہوری نظام کی بنیاد پر ریاست اور شہریوں کے تعلق کو بنیاد بناکر انھیں کمزور کرتے ہیں۔کیونکہ سیاسی ، قانونی اور معاشی تفریق کا ماحول ریاست اور شہریوں کے درمیان بداعتمادی کو پیدا کرتا ہے اور لوگوں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اس نظام سے لاتعلق ہوجائیں یا نظام کے خلاف بغاوت کر دیں۔اس لیے اب بھی حکومتی نظام ہی کے پاس آپشن ہے کہ وہ حالات میں جو بگاڑ ہے اس کا گہرائی میں جائزہ لیں اور محض خوش نما نعروں کے ساتھ لوگوںکا دل بہلانے کے بجائے ان کے مسائل کے حل پر توجہ دے۔کیونکہ معاشرے میں معاشی بنیادوں پر بڑھتی ہوئی تقسیم اور تفریق کی سیاست ہم کو غیر اہم بنادے گی اور لوگ بغاوت کا راستہ اختیار کریں گے ۔
اس فکر مندی میں مستقبل کے بارے میں بہت سے خدشات ہیں اور خدشات میں لوگ مستقبل کے معاشی امکانات کو بنیاد بنا کر سوالات رکھتے ہیں۔ایک طرف لوگوں میں موجود معاشی فکر مندی ہے تو دوسری طرف اسلام آباد میں جاری اقتدار کی سیاسی کشمکش کا کھیل ہے۔
اس کھیل میں لوگ خود کو کہیں بھی موجود نہیں پا رہے اور ان کو لگتا ہے کہ اقتدار کے اس کھیل میں ہماری حیثیت محض ایک تماشائی کی ہے۔اسی بنیاد پر حکومت پر لوگوں کے نہ صرف سوالات ہیں بلکہ وہ اس نظام پر شدید تحفظات رکھتے ہیں اور ان کے بقول یہ جو بھی نظام ہے محض طبقاتی بنیادوں پر قائم ہے ۔ اس نظام میں طاقت ور کے مقابلے میں عام لوگوں کا سیاسی اور معاشی استحصال کیا جاتا ہے جو ان میں ایک بڑی لاتعلقی کی سوچ کو پیدا کرتا ہے ۔رائے عامہ کو معلوم کرنے یا جانچنے کے ایک ادارہ PLUSE کنسلٹنٹ نے اپنے ایک حالیہ سروے میں میں پاکستان میں موجود شہری حلقوں کی سطح پر معاشی معاملات کے تناظر میں ایک نتیجہ پیش کیا ہے ۔
ان کے بقول پاکستان کے شہری علاقوں میں دس میں سے سات افراد یعنی 74 فیصد افراد اپنی ماہانہ آمدنی سے اپنے اخراجات پورے نہیں کرپا رہے۔ مئی 2023 میں یہ شرح 60 فیصد تھی ۔ان میں 59 فیصد افراد نے اپنی گھریلو اشیا کی خریداری میں کمی کرکے اپنے ماہانہ اخراجات کو کنٹرول کیا ہے ۔جب کہ 39 فیصد افراد نے مختلف لوگوں سے ادھار لے کر اپنے معاملات کو چلانے کی کوشش کی ہے ۔ 11فیصد لوگوں نے پارٹ ٹائم کام کرکے اپنے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ صرف ملک میں موجود 26 فیصد افراد نے اپنی آمدنی سے اپنے اخراجات کو پورا کیا ہے لیکن ان میں سے بھی زیادہ تر لوگوں کی کوئی ماہانہ بچت نہیں ہوسکی۔
یہ ایک ٹیلی فونک سروے تھا جس میں پاکستان کے 11بڑے شہر شامل تھے ۔ جن سے یہ سروے کیا گیا ان کی عمریں 18تا55برس تھی ۔یہ اعداد و شمار صرف شہری علاقوں تک تھے، اگر ہم دیہی اور شہری علاقوں کا مجموعی معاشی انڈیکس دیکھیں تو اس سطح پر ہمیں اور زیادہ معاشی سنگینی اور محرومی کی سیاست کا غلبہ ہے۔ایک طرف نئے روزگار کا پیدا نہ ہونا اور دوسری طرف پہلے سے موجود روزگار کی سطح پر عدم تحفظ یا غیر یقینی صورتحال ، تنخواہوں کی کمی ، کم سے کم اجرت 37,500پر عملدرآمد کا عدم شفافیت پر مبنی نظام سمیت مہنگائی اور بجلی ، گیس، پٹرول ،ڈیزل، مٹی کا تیل، ادویات ، دودھ اور کوکنگ آئل سمیت مختلف اشیا کی قیمتوں میں اضافہ سمیت ریگولیٹری کے نظام میں شفافیت یا کنٹرول نہ ہونا نے لوگوں کی زندگیوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے ۔
سب سے زیادہ اضافہ بجلی کی قیمتوں میں آیا ہے۔ ملازم پیشہ طبقے کی تنخواہوں کا 60سے 70فیصد حصہ بجلی کے بلوں میں جارہا ہے۔ بجلی کی قیمت میں غیرمنصفانہ اضافہ اور دیگر ٹیکسز لوگ کدھرجائیں ۔ گھر گھر کی کہانی ہے۔ دوسری طرف آئی پی پیز کا مسلہ نظام کو سمجھنے کے لیے کافی ہے ۔مڈل کلاس پر سب سے زیادہ برا وقت آیا ہے کیونکہ اس نے اپنی زندگی میں پچھلی دو دہائیوں سے کچھ آسانیاں اور کچھ آسائشیں پیدا کرلی تھیں ، لیکن اب وہ ان کو پورا کرنے میں بے بسی کا شکار ہے ۔یہ جو ہمیں معاشی مسائل کے تناظر میں اپنے سماجی ڈھانچوں سمیت سیاسی ، سماجی اور معاشی رویوں یا طرز عمل میں تناؤ، ٹکراؤ ،الجھن ، غصہ اور لڑائی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
اس کی ایک بڑی وجہ معاشی معاملات پر پیدا ہونے والی آسودگی ہے۔ گھر اور خاندان یا معاشرے کی سطح پر ہمیں عملی طور پر ایک دوسرے کے بارے میں معاشی تقسیم اور ٹکراؤ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔آمدنی اور اخراجات کے عدم توازن نے اوپر سے لے کر نیچے تک کے خاندانی نظام کو متاثرکیا ہے ۔سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر جو17سے 20 ویں گریڈ تک کے افسران ہیں ان کے دکھ کو بھی سمجھا جائے کہ وہ کس حال میں جی رہے ہیں ۔جب ہماری توجہ کا مرکز نئی چھوٹی یا بڑی صنعتوں کا قیام نہیں ہوگا تو پھر ہم نئی نسل کے لوگوں کو کیسے روزگار دے سکیں گے۔
پچھلے دنوں ایک محفل جو مختلف یونیورسٹیز کے طالب علموں پر مشتمل تھی ان میں سب سے زیادہ اپنے مستقبل کے بارے میں جہاں فکرمندی تھی وہیں معاشی عدم تحفظ کا احساس بھی نمایاں تھا۔نئی نسل میں سب سے زیادہ غصہ اس بات کا تھا کہ ان اور ان کے خاندان میں تو غربت ہے مگر دوسری طرف اس ملک کا طاقت ور خوشحال طبقہ جو سیاست سمیت ہر شعبہ پر غالب ہے ، وہ ریاستی وسائل کا بے دریغ استعمال کر رہا ہے ۔اسی طرح کئی اچھے بھلے افراد یا گھرانوںکے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ اپنے خاندان کی صحت کے معاملات میں خیراتی اداروں سے مدد حاصل کرنے میں مجبور ہوچکے ہیں اور کوئی محفوظ راستہ ان کے پاس موجود نہیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ریاستی اور حکومتی نظام کے پاس پاکستانی عوام کے مسائل کا حل اور ان کے دکھوں یا تکالیف کا کوئی علاج ہے یا ان کے معاملات کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے ۔
لوگوں کو مسائل کے حل سے زیادہ فکر اس امید اور روشنی کی ہوتی ہے جو ان میں یہ سوچ پیدا کرتی ہے کہ حالات جلد بہتر ہوں گے ۔یہ سوچ اسی صورت میں پیدا ہوتی ہے جب لوگوں میں یہ احساس ہوتا ہے کہ حکومتی نظام ایک بہتر روڈ میپ کی طرف بڑھ رہا ہے یا ہماری سمت درست ہے۔ مسئلہ کسی ایک جماعت یا حکومت کا نہیں ہے بلکہ مجموعی طور پر ہمارا حکومتی نظام عوامی مفادات کے تناظر میں اپنی اہمیت کھوچکا ہے ۔
ذاتیات پر مبنی سیاست اور معیشت نے پورے ریاستی نظام میں ایک بہت بڑے مافیاز کی شکل اختیار کرلی ہے ۔ یہ مافیاز حکومت کے اندر بھی ہیں اور حکومت سے باہر بھی مگر ان کے باہمی گٹھ جوڑ نے پورے نظام کو ایک بڑے کاروبار یا منافع کی شکل میں تبدیل کردیا ہے۔اسی طرح ایک بڑا ظلم معاشی ترقی کے نام پر خیراتی ماڈل ہے جہاں لوگو ں کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کی بجائے ان کو بھکاری یا خیراتی حکمت عملی کا حصہ بنایا جارہا ہے ۔اسی بنیاد پر بار بار اس نقطہ کو دہرایا جاتا ہے کہ پاکستان کے حالات اب روائتی اورفرسودہ نظام سے جڑی پالیسیوں سے درست نہیں ہوں گے۔ ہمیں بڑے پیمانے پر انتظامی، سیاسی، قانونی ، معاشی سمیت ادارہ جاتی ڈھانچوں میںبنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانی ہوں گی ۔ حکومتی نظام کی ساکھ لوگو ں کے بنیادی حقوق کی پاسداری اور ان کی فراہمی کو یقینی بنانے سے جڑی ہوتی ہے۔لیکن ہمارا حکومتی نظام لوگوں پر ایک بڑے سیاسی اور معاشی بوجھ کی صورت اختیار کرگیا ہے۔
معاشی دہشت گردی اسی صورت جڑ پکڑتی ہے جب ہم ایک غیرمنصفانہ ، غیر شفاف اور غیر جمہوری نظام کی بنیاد پر ریاست اور شہریوں کے تعلق کو بنیاد بناکر انھیں کمزور کرتے ہیں۔کیونکہ سیاسی ، قانونی اور معاشی تفریق کا ماحول ریاست اور شہریوں کے درمیان بداعتمادی کو پیدا کرتا ہے اور لوگوں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اس نظام سے لاتعلق ہوجائیں یا نظام کے خلاف بغاوت کر دیں۔اس لیے اب بھی حکومتی نظام ہی کے پاس آپشن ہے کہ وہ حالات میں جو بگاڑ ہے اس کا گہرائی میں جائزہ لیں اور محض خوش نما نعروں کے ساتھ لوگوںکا دل بہلانے کے بجائے ان کے مسائل کے حل پر توجہ دے۔کیونکہ معاشرے میں معاشی بنیادوں پر بڑھتی ہوئی تقسیم اور تفریق کی سیاست ہم کو غیر اہم بنادے گی اور لوگ بغاوت کا راستہ اختیار کریں گے ۔