ثالثی مذاکراتامن کی امید
میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ سٹی اور خان یونس میں بمباری سے 40 فلسطینی شہید اور107افراد زخمی ہوگئے جب کہ اسرائیلی حملوں میں شہید فلسطینیوں کی تعداد چالیس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ دوسری جانب غزہ میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات کا نیا دور قطر میں شروع ہوگیا ہے۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے فریقین کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔ غزہ میں جنگ بندی کے لیے ان مذاکرات کو انتہائی اہم تصور کیا جا رہا ہے جہاں امریکا، مصر اور قطر کی ثالثی میں ہونے والے ان مذاکرات میں امریکا اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان بھی شریک ہیں۔
بین الاقوامی ثالثوں نے مذاکرات کے ایک نئے دور کا انعقاد کیا ہے، جس کا مقصد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کو روکنا اور متعدد یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانا ہے۔ غزہ میں جنگ بندی ممکنہ طور پر پورے خطے میں کشیدگی کو کم کردے گی۔ سفارت کاروں کو امید ہے کہ یہ ایران اور حزب اللہ کو اس بات پر آمادہ کرے گی کہ وہ جوابی کارروائی نہ کریں۔
فلسطین کا موقف اس سلسلے میں بڑا واضح ہے، اسے اسرائیلی تسلط سے آزادی چاہیے۔ امریکا کی اگر خواہش یہ ہے کہ مذاکرات نتیجہ خیز ہوں اور مسئلہ فلسطین کا منطقی حل نکلے تو مذاکرات میں فلسطین کی رضامندی اور شمولیت ناگزیر ہے۔ اسرائیل پہلے حماس کے نمایندوں سے مذاکرات نہ کرنے کا عندیہ دے چکا ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ بڑی سے بڑی جنگ اور بڑے سے بڑے تنازعے کا حل بات چیت کے ذریعے ہی نکالا جا سکتا ہے، اس لیے تمام فریقین کو ایک میز پر بیٹھنا چاہیے، جتنی تباہی ہو چکی ہے وہ تو واپس نہیں ہو سکتی لیکن مزید تباہی روکنا تو بس میں ہے، اس کے لیے دیرپا، قابل عمل فوری حل نکالنے کی ضرورت ہے۔
امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ بائیڈن کو مسلمان اور عرب امریکیوں کے دباؤ کا سامنا ہے جو چاہتے ہیں کہ انتظامیہ غزہ میں اسرائیل کی فوجی مہم کو لگام دینے کے لیے اقدامات کرے۔ رپورٹس کے مطابق بائیڈن کو ترقی پسندوں، مسلمان اور عرب امریکیوں کے دباؤ کا سامنا ہے جو چاہتے ہیں کہ انتظامیہ غزہ میں اسرائیل کی فوجی مہم کو لگام دینے کے لیے مزید اقدامات کرے۔ بائیڈن نے اسرائیل اور حماس کے درمیان عارضی جنگ بندی کی کوشش کرنے اور ثالثی کے لیے مذاکرات پر زور دیا ہے۔
اس سے امید ہے کہ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں مزید انسانی امداد پہنچ سکتی ہے۔ دوسری جانب اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں سے لڑنے کے لیے امریکا نے اپنے فوجی بیڑے بھیج دیے ہیں جو ظاہر ہے کہ خطے میں مزید خونریزی کا باعث ہوگا، لیکن ایسا کر کے امریکا نے اپنی ان تمام کوششوں پر بھی پانی پھیر دیا ہے جس کے نتیجے میں عرب اسرائیل سے دوستی پر آمادہ ہو رہے تھے، کیونکہ کوئی بھی ملک ہو اپنے عوام کی مرضی کے خلاف نہیں جائے گا۔ ایسی صورت میں جب نہتے فلسطینیوں نے اسرائیل کے چھکے چھڑا دیے ہیں، اسرائیل کی طاقت اور گھمنڈ پوری دنیا کے سامنے اجاگر ہو گئی ہے۔
اب اسلاموفوبیا کا شکار ہو کر بھلے ہی کوئی اسرائیل کی حمایت کرے، اس کی طاقت سے کوئی مرعوب نہیں ہوگا۔ اس جنگ نے یہ بتا دیا ہے کہ اسرائیل صرف اسی وقت شیر بنتا ہے جب اس کے سامنے کوئی کمزور ہو، لیکن جیسے ہی اسے اندازہ ہوتا ہے کہ سامنے والا موت سے نہیں ڈرتا ہے تو پھر وہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ جنگ فلسطینی اپنے حوصلے اور جنون سے لڑ رہے ہیں جو یہ ثابت کر رہا ہے کہ فلسطینی غلیل اسرائیلی ٹینک اور آئرن ڈوم پر بھاری پڑ رہی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا مستقل حل نکالا جائے کیونکہ اسرائیل نے نسل کشی کے گھناؤنے اقدامات کے بعد فلسطینیوں کے لیے کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔اسرائیل کے آپریشن کا نام ''آہنی تلوار'' ہے اور وہ جنگ کے تمام بین الاقوامی قوانین کو روندتے ہوئے شہری آبادیوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق اب تک جتنے ٹن بارود غزہ پر گرایا گیا ہے، اتنا جنگ عظیم کے دوران بھی نہیں گرایا گیا تھا۔ اسرائیل نے جس طرح غزہ میں اندھا دھند بمباری کرکے شہری آبادی، اسپتالوں، شفاخانوں حتیٰ کہ اقوامِ متحدہ کے تحت کام کرنے والے رضاکاروں اور صحافیوں کو بھی بمباری کا نشانہ بنایا ہے وہ بلاشبہ ہولو کاسٹ سے کم نہیں ہے۔ فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ اسرائیل نہ صرف امنِ عالم کے لیے خطرہ ہے بلکہ یہ حالات کچھ عملی اقدامات کے متقاضی ہیں۔ ہر انسان کا دل چھوٹے چھوٹے بچوں کی شہادتوں پر اشک بار ہے۔ رفح میں سپریم ایمرجنسی کمیٹی کے سربراہ احمد الصوفی نے کہا ہے۔ ''ایجنسی کی پناہ گاہوں میں بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 7 لاکھ 13ہزار ہے جن میں بیرونِ شہرنقل مکانی سے آنے والے بھی شامل ہیں۔'' ایک جنگ وہ بھی ہے جو سوشل میڈیا پر لڑی جارہی ہے۔
آپ اسے '' نظریات کی جنگ'' بھی کہہ سکتے ہیں۔ فلسطینی مسلمان کئی برس سے اسرائیلی ظلم و بربریت کا نشانہ ہیں لیکن ''قبلہ اول بیت المقدس'' کی خاطر سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ گزرے برس 7 اکتوبر سے '' طوفان الاقصی'' کی نئی لہر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، اس وقت اسرائیل نہتے شہریوں، آبادیوں یہاں تک کہ اسپتالوں پر بھی وحشیانہ بمباری کررہا ہے، ہزاروں معصوم شہری بشمول خواتین اور بچے شہید کیے جاچکے ہیں، زخمیوں کے علاج معالجے کی خاطر خواہ ضروریات کو پورا کرنے کا انتظام ناکافی پڑگیا ہے۔ اسپتالوں میں اب ڈاکٹر بغیر بے ہوش کیے مریضوں کے آپریشن کرنے پر مجبور ہیں۔ اسرائیلی حکومت نے پانی اور بجلی کی سپلائی منقطع کردی ہے۔ مہلک کیمیائی ہتھیار، مسلسل بموں کے دھماکے، اپنے پیاروں کی اموات کے مناظر نے ننھے منے بچوں کی نفسیات پر بہت برے اثرات ڈالے ہیں۔
اسرائیلی قید خانوں میں ہزاروں مسلمان پابند سلاسل ہیں۔ غزہ میں بجلی کی سپلائی معطل ہے، پینے کا پانی میسر نہیں۔ غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی اوپن ایئر جیل کہا جاتا ہے۔ غزہ میں خوراک کا بحران بھی ہنگامی صورت اختیار کر گیا ہے۔ یونیسیف کے مطابق غزہ میں بچوں کو فوری طور پر انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی ضرورت ہے۔ یہ آزادی کی تحریک ہے۔ فلسطینی مسلمانوں نے در بدر بھٹکتے جن یہودیوں کو ترس کھا کے پناہ دی تھی، آج وہ ہی محسن کشی پر اتر آئے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت صرف غزہ تک محدود نہیں رہے گی، گریٹر اسرائیل کا جو نقشہ اسرائیلی پارلیمنٹ میں موجود ہے، اس کے مطابق فلسطین، شام، لبنان، اردن، عراق، ترکی کا اسکندریہ، مصر سے سینا، ڈیلٹا کا علاقہ، سعودی عرب سے بالائی نجد و حجاز، جس میں مدینہ منورہ کو بھی شامل کیا گیا ہے، یہ سب شامل ہیں۔ فلسطینیوں کو اگر دنیا کی سب سے بدنصیب قوم کہا جائے تو گویا یہ مبالغہ آرائی نہ ہوگی۔
پچھلی یعنی بیسویں صدی دنیا بھر میں آزادی کی صدی تھی۔ تقریباً تمام ایشیائی اور افریقی ممالک یورپ کی غلامی کی زنجیریں توڑ کر آزادی کا جام پی رہے تھے۔ اس کے برخلاف 1949 میں آزاد فلسطین غلام بنایا جا رہا تھا۔ اقوام متحدہ کے سائے تلے دنیا بھر کے یہودی اکٹھا ہو کر فلسطینیوں کو ان کے وطن سے بے دخل کر کے وہاں صیہونی ریاست قائم کر رہے تھے۔ بے چارے فلسطینی اپنا گھر بار چھوڑ کر اردن، مصر، شام اور لبنان جیسے پڑوسی عرب ممالک میں پناہ گزیں خیموں میں پناہ لے رہے تھے۔
تب سے اب تک پون صدی گزر گئی لیکن فلسطینیوں کی جنگ آزادی جاری ہے۔ افسوس یہ کہ وہ جب جب آزادی کی جنگ لڑتے ہیں، اسرائیل تب تب ان کی بچی کھچی زمین پر قبضہ کر لیتا ہے، جب کہ فلسطینیوں کو موت کا جام پی کر آزادی تو درکنار غلامی کے اندھیروں میں پھر زندگی بسر کرنی پڑتی ہے، لیکن آزادی کے متوالے فلسطینی پھر بھی ہر قسم کی قربانی دے کر ایک بار پھر اپنی آزادی کی جنگ چھیڑ دیتے ہیں اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
ایک بار پھر فلسطین جنگ آزادی میں مصروف ہے۔ یہ جنگ اسرائیل کی سرحد غزہ میں ہو رہی ہے۔ فلسطینی تنظیم حماس کی قیادت میں لڑی جانے والی اس جنگ آزادی نے اسرائیل کو بھی حیرت زدہ کر دیا۔ اکیلی حماس، اسرائیلی فوج کا کب تک مقابلہ کرتی۔ ایک طرف اسرائیلی فوج جس کو امریکا سے لے کر پوری مغربی دنیا کی تمام پشت پناہی ہے، دوسری طرف حماس کے جیالے معمولی ہتھیاروں سے کب تک مقابلہ کرتے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ حماس کے قبضے والی غزہ پٹی چاروں طرف سے اسرائیلی نرغے میں ہے۔ اسرائیل نے غزہ کی ایسی ناکہ بندی کی ہے کہ ہتھیار تو درکنار وہاں اب آب و دانہ بھی نہیں پہنچ سکتا ہے۔
اس علاقے میں باقی رہ جانے والے بیچارے فلسطینیوں کا مقدر ہی ناکہ بندی ہو گئی ہے۔ موجودہ صورتحال میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو روکنا ساری دنیا کی مشترکہ ذمے داری ہے کیونکہ اسرائیل سنگین جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔
عام شہریوں، آبادیوں، اسپتالوں، صحافیوں کو نشانہ بنانا کھلم کھلا اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن کے ضابطوں کی خلاف ورزی ہے، اگر اسرائیل کی دہشت گردی کو نہ روکا گیا تو فلسطین کے بعد اردگرد کے دوسرے ممالک بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ دنیا کی بڑی اور اثرو رسوخ رکھنے والی حکومتوں کا اس وقت اسرائیل پر دباؤ ڈالنا انتہائی ضروری ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کرے اور وہاں موجود شہریوں کے لیے آنے والی بیرونی امداد کا راستہ نہ روکے، اگر فلسطینیوں کی جاری نسل کشی نہ روکی جا سکی تو یہ انسانیت کی ناکامی ہوگی۔